Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فدک کے متعلق شیعہ علماء کا دوسرا مؤقف

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

فدک کے متعلق شیعہ علماء کا دوسرا مؤقف

شیعہ علماء جب فدک کو میراث بتانے میں کسی پہلو سے کامیاب نہیں ہوتے تو وہ پھر اس دعویٰ پر آ جاتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں ہی فدک اپنی صاحبزادیؓ کو ہبہ (گفٹ) دے دیا تھا اب یہ میراث نہیں یہ تو سیدہ فاطمہؓ کا اپنا مال تھا جو آپﷺ نے انہیں ہبہ کر دیا تھا آئیے ہم شیعہ علماء کے اس دعویٰ پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔

کیا حضورﷺ نے فدک ہبہ کر دیا تھا؟

شیعہ علماء کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں فدک سیدہ فاطمہؓ کو ہبہ کر دیا تھا شیعہ عالم حسن بن یوسف بن مطہر حلی(726ھ) لکھتا ہے کہ خود سیدہ فاطمہؓ نے یہ بات کہی تھی۔

ولما ذكرت فاطمةؓ أن أباها رسول اللهﷺ وهبها فدك

(منهاج الكرامة )

اسی دور کے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ

"یہ بات سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں ہے آپ شیعہ علماء سے سوال کرتے ہیں کہ بتائیے سیدہ فاطمہؓ کا دعویٰ کیا تھا؟ میراث کا تھا یا ہبہ کا تھا ؟ اگر آپؓ کا دعویٰ میراث کا تھا تو ہبہ کا دعویٰ غلط ٹھہرا اور اگر ہبہ کا دعویٰ درست ہو تو پھر فدک کو میراث میں لانا کس طرح درست مانا جا سکتا ہے؟ آنحضرتﷺ نے اپنی زندگی میں کسی کو بھی فدک بطور ہبہ نہ دیا تھا اور نہ مرض الموت میں آپﷺ سے یہ بات ثابت ہے آپ لکھتے ہیں:

إن هذا الكلام من الكذب والبهتان والكلام الفاسد ما لا يكاد يحصى إلا بكلفة .... ان ماذكر من إدعاء فاطمةؓ فدك فإن هذا يناقض كونها ميراثا لها فان كان طلبها بطريق الإرث امتنع أن يكون بطريق الهبة وإن كان بطريق الهبة إمتنع أن يكون بطريق الإرث ثم إن كانت هذه هبة فی مرض الموت فرسول الله ﷺ منزه إن كان يورث كما يورث غيره أن يوصى لوارث أو يخصه في مرض موته بأكثر من هقه وإن كان في صحته فلا بد أن تكون هذه هبة مقبوضة وإلا إذا وهب الواهب بكلامه ولم يقبض الموهوب شيئا حتى مات الواهب كان ذلك باطلا عند جماهير العلماء فكيف یھب النبی فدك لفاطمة ولا يكون هذا أمر معروفا عند أهل بيته والمسلمين حتى تختص بمعرفته أم أيمنؓ أو علیؓ ؟

(منهاج السنۃ جلد 4 صفحہ 229)

شیعہ کا بیان کردہ واقعہ جھوٹ بہتان اور گھٹیا باتوں کے سوا کچھ نہیں اسی طرح ان کے اور بھی بے شمار جھوٹ ہیں غور کریں رافضی نے حضرت فاطمہؓ کے بارے میں فدک دینے کا جو دعویٰ کیا ہے یہ ان کے دعویٰ میراث کے متناقص ہے یعنی اگر آپؓ فدک کو وراثت میں مانگ رہی تھیں تو آپؓ کا ہبہ کا دعویٰ درست نہیں اور اگر یہ جاگیر آپؓ کو ہبہ میں دی گئی تھی تو پھر وراثت کا دعویٰ باطل ہے اگر یہ مانا جائے کہ حضورﷺ نے مرض الموت میں اسے ہبہ کر دیا تھا حالانکہ آپﷺ اس سے منزہ ہیں۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ دوسروں کی طرح آپﷺ کا ترکہ ورثاء کے مابین تقسیم کیا گیا تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ آپﷺ نے اپنی بیماری کی حالت میں حضرت فاطمہؓ کے لئے ان کے حق سے زیادہ مال کی وصیت کی حالانکہ آپؓ وارث تھیں جس طرح دوسرے وارث تھے اور اگر آپﷺ نے حالت صحت میں فدک حضرت فاطمہؓ کو دے دیا تھا تو وہ ہبہ قبضہ ہونا چاہیے تھا اس لئے کہ ہبہ کرنے والا اگر کوئی چیز ہبہ کرے اور جس کو وہ ہبہ کرے وہ اس پر قابض نہ ہو یہاں تک کہ ہبہ کرنے والا فوت ہو جائے تو ایسا ہبہ جمہور علماء کے نزدیک باطل ہے عجیب بات ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو فدک ہبہ کردیا تھا اور سوائے حضرت علیؓ اور حضرت ام ایمنؓ کے آپﷺ کے کسی دوسرے اہل بیت اور مسلمانوں کو اس کا علم تک نہ ہوا۔

?غور طلب بات یہ ہے کہ اگر فدک حضرت فاطمہؓ کے نام ہبہ ہوچکا تھا اور آپؓ اسے اپنے قبضہ میں لے چکی تھیں تو پھر آپؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس اپنا قاصد کس لیے بھیجا؟ یا بقول شیعہ آپؓ خود وہاں کیوں گئی تھیں اور حضرت علیؓ کو کیا ضرورت پڑ گئی تھی کہ وہ حضرت فاطمہؓ کو چالیس دن بچوں سمیت ایک گدھے پر سوار کرا کر مدینہ کی گلی گلی پھراتے رہے؟ اگر یہ بات سب کو معلوم تھی فدک حضرت فاطمہؓ کا ہے اور وہ پہلے ہی آپؓ کے نام ہو چکا ہے تو آپ ہی بتائیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حضورﷺ کی حدیث سنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟

شیعہ علماء کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے تو فدک حضرت فاطمہؓ کو دے دیا تھا مگر آپؓ چونکہ اب ہبہ کے نام پر فدک نہیں لے سکتی تھیں اس لئے آپؓ نے اپنا مؤقف بدل لیا اور ایک نئے عنوان سے مطالبہ کر دیا اور اب وہ نیا مؤقف میراث کا تھا فقیر سید محمد حسن قزوینی شیعی نے حضرت سیدہ فاطمہ زہراءؓ کا جو تصور پیش کیا ہے اسے دیکھئے حضرت زہراءؓ اپنے والد کی ملک سے ہبہ اور عطا کے عنوان سے فدک نہیں مانگ سکتی تھیں اس لئے انہوں نے میراث کا مطالبہ کر دیا اور صاحب حق کو جائز ہے کہ وہ اپنے حق کو ہر جائز طریقہ سے لینے کی جد و جہد کرے۔

(فدک صفحہ 32)

یعنی یہ بات حضرت فاطمہؓ کو معلوم تھی کہ انبیاء علیہم السلام کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی تاہم انہوں نے محض اس زمین کے حصول کے لئے میراث کا دعویٰ کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

ہمیں کسی بھی صحیح روایت میں یہ بات نہیں ملتی کہ حضرت علیؓ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی یہ بات اٹھائی ہو کہ حضورﷺ نے فدک کی زمین اپنی صاحبزادیؓ کو ہبہ کر دی تھی اگر واقعی ایسا ہوتا تو آپ ہی بتائیں حضرت علیؓ کیا اس پر چپ رہتے؟ سوال یہ ہے کہ کیا وہ بھی حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مل گئے تھے؟ اور کیا وہ بھی نہ چاہتے تھے کہ حضرت فاطمہؓ کو ان کا حق ملے ہمیں یہ کہنے میں کوئی تعمل نہیں کہ سیدنا علی المرتضیؓ کا دامن اس قسم کی آلودگیوں سے پاک تھا معلوم نہیں یہ شیعہ علماء کیوں نہیں سوچتے اور آپؓ پر اس قسم کا الزام لگاتے کیوں نہیں شرماتے۔

شیعہ علماء کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ کو فدک ہبہ کرنے والی روایت کے راوی حضرت ابو سعید خدریؓ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت صحابی رسولﷺ حضرت ابو سعید خدریؓ کی نہیں ہے ابو سعید کلبی کی ہے ابو سعید کے ساتھ کلبی کے بجائے خدری کا لفظ صرف فریب دینے کے لئے لگا دیا گیا ہے۔ اور یہ حرکت ابو سعید کے شاگرد کوفہ کے عطیہ عوفی کی ہے اس کا شیخ محمد بن سائب کلبی ہے جو کبھی ابو سعید کے نام سے سامنے آتا ہے اور کبھی ابو ہشام اور کبھی ابو نصر کے نام سے اپنا تعارف کراتا ہے۔ اور عطیہ عوفی ابو سعید کہہ کر یہ تاثر دیتا ہے کہ روایت حضورﷺ کے صحابی ابو سعید خدریؓ کی ہے مگر حقیقت میں وہ ابو سعید کلبی کی ہوتی ہے۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟ صرف دھوکہ دینے کے لئے۔

امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) حضرت امام احمد رحمہ اللہ (241ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ

قال أحمد بلغنى أن عطية كان ياتى الكلبی فياخذ عنه التفسير كان يكنيه بأبی سعيد فيقول قال أبو سعيد قلت يوهم أنه الخدری

(ميزان الاعتدال جلد 5 صفحہ 101)

مجھے خبر ملی ہے کہ عطیہ ابو سعید کلبی کے پاس آتا اور اس سے تفسیر پڑھتا تھا اور اس کی کنیت ابو سعید بیان کرتا وہ کہتا کہ ابو سعید نے کہا میں کہتا ہوں کہ وہ اس لیے ایسا کرتا ہے کہ لوگوں کو وہم میں ڈال دے کہ یہ بات ابو سعید خدریؓ نے بتائی ہے۔ (حالانکہ یہ بات ابو سعید کلبی کی ہوتی ہے)

عطیہ کوفی کا شیعی ہونا بہت واضح ہے اور وہ شیعی نہیں بلکہ مدلس بھی ہے۔۔۔۔۔۔ يخطئى كثيرا وکان شيعيا مدلسا قال أبوبكر البزاز كان يعده في التشيع ... وقال الساجی ليس بحجة

(تهذيب 226 تقریب جلد 2 صفحہ 24)

شیعہ علماء نے فدک کے ہبہ کرنے پر جن روایات سے استدلال کیا ہے آپ کو ان سب میں یہ عطیہ عوفی نظر آئے گا سو فدک کے ہبہ کرنے کی بات اس عطیہ عوفی اور اس کے شیخ ابو سعید کلبی نے کہی ہے حضرت ابو سعید خدریؓ نے نہیں۔

امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) اس روایت ہبہ پر لکھتے ہیں

قلت هذا باطل ولو كان وقع ذلك لما جائت فاطمة تطلب شيئا هو في حرزها وملكها ومنه غير على من الضعفاء

( ميزان الاعتدال جلد 5 صفحہ 165)

میں کہتا ہوں کہ یہ روایت باطل ہے اگر حضور ﷺ نے واقعی فدک دے دیا ہوتا تو حضرت فاطمہؓ اس چیز کو مانگنے کیسے آتیں جو ان کے قبضہ اور ملکیت میں پہلے سے ہی موجود تھی اس روایت میں علی بن عباس کے سوا اور بھی کئی راوی ضعیف ہیں۔

مسند الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ (1239ھ) شیعہ علماء کے فریب کے ضمن میں لکھتے ہیں:

شیعہ علماء کی ایک جماعت بڑی چالاکی سے اہل سنت کی تفاسیر اور سیرت کی ان کتابوں میں جو علماء اور طلباء میں زیادہ معروف نہ ہوں یا نادر الوجود ہوں ایسی جھوٹی باتیں ملا دیتے ہیں جو شیعہ مذہب کی تائید اور اہل سنت کے مذہب کی تردید کرتی ہوں چنانچہ فدک کے ہبہ کا قصہ باز تفسیروں میں شامل کر دیا اور اس طرح بیان کیا کہ جب آیت ﴿ وات ذی القربیٰ حقه﴾ نازل ہوئی تو حضورﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو بلایا اور فدک ان کو دے دیا مگر اس کا کیا کریں کہ ان کو جھوٹ بولنا بھی نہ آیا اور انہیں یہ تک یاد نہ رہا کہ یہ آیت تو مکی ہے اس وقت فدک ملا ہی کہاں تھا پھر اس آیت میں مساکین اور مسافروں کو بھی دینے کا حکم دیا گیا تھا اس کو اس عطا سے کیوں محروم رکھا آیت کے حکم کے مطابق تو ان کو بھی حصہ ملنا چاہیے تھا تاکہ پوری آیت پر عمل ہو اس کے علاوہ ﴿اعطاھا فدک﴾ سے ہبہ و تملیک ثابت نہیں ہوتی اس لیے ان کو وھبھا کا لفظ گھڑنا چاہیے تھا۔

(تحفہ اثناء عشریہ صفحہ 102 مترجم)

حضرت علامہ خالد محمود رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:

یہ امر صحیح نہیں کہ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں باغ فدک حضرت سیدہؓ کو ہبہ کر دیا تھا ہبہ کی تمام روایات اسنادا صحیح نہیں اور بیشتر وضاع و کذاب قسم کے راویوں پر مشتمل ہیں

(عبقات من باب الاستفسارات جلد 1صفحہ 189)

ملحوظ رہے کہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے هدية الشیعہ میں، مشہور محقق مناظر حضرت العلام مولانا اللہ یار خان رحمتہ اللہ نے تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین میں، سابق شیعہ عالم محسن الملک مہدی رحمتہ اللہ نے آیاتِ بینات میں، امام پاکستان مولانا سید احمد شاہ بخاری رحمۃ اللہ تحقیق فدک کتب میں فدک پر تفصیلی بحث موجود ہے اور شیعہ علماء کی ہر دلیل کا بڑا مدلل اور مسکت جواب دیا ہے۔