غیر مسلم جج تفریق کرے تو کیا شرعاً اس کا فیصلہ معتبر ہے
غیر مسلم جج تفریق کرے تو کیا شرعاً اس کا فیصلہ معتبر ہے
سوال: بمبئی میں ایک لڑکی کی شادی ہوئی، 5 برس ہوئے لڑکا افریقہ میں ہے۔ فی الحال لڑکی کی عمر 20 سال ہے۔ شادی کے بعد لڑکے نے اس کو نہیں بلایا، نہ نفقہ وغیرہ بھیجتا ہے، خطوط لکھے مگر جواب ندارد، طلاق کا مطالبہ کیا تب بھی جواب نہیں دیا۔ بالآخر بمبئی کورٹ میں مقدمہ دائر کرکے طلاق حاصل کی۔ کیا یہ طلاق واقع ہوئی؟ ورنہ حصولِ طلاق کی کیا صورت ہے؟ اب تک کے نفقہ و مہر کی حقدار ہے؟ اگر ہے تو بذریعہ دیوانی اس کی وصول یابی درست ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں غیر مسلم مجسٹریٹ (جج) کا فیصلہ شرعاً معتبر نہیں ہے۔ لہٰذا لڑکی نکاح نہیں کر سکتی اور اگر کرے تو وہ غیر معتبر ہے۔ لہٰذا اس مقدمہ کو مسلم جماعت یعنی دیندار مسلم پنجابیت کے سامنے پیش کیا جائے جس میں ماہر عالم بھی ہو۔ یہ پنجایت شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ معاملہ کی تحقیق کر کے فسخِ نکاح کا فیصلہ کرے۔ اب عورت شرعی نقطہ نظر کے بموجبِ آزاد ہو گی۔ عورت مہر کی حقدار ہے، لیکن ایام گذشتہ کے نفقہ کی حقدار نہیں۔
(فتاویٰ رحیمیه جلد 8، صفحہ 377)