سیدہ فاطمہؓ نے حضرت عباسؓ کو حضورﷺ کی وراثت نہ دی
مولانا اقبال رنگونی صاحبسیدہ فاطمہؓ نے حضرت عباسؓ کو حضورﷺ کی وراثت نہ دی
شیعہ علماء حضورﷺ کی مالی وراثت کے متعلق فدک کی بحث کرتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ پر نہایت ہی گھٹیا قسم کے الزام لگاتے ہوئے نہیں شرماتے مگر وہ اپنی عوام کو یہ بات کبھی نہیں بتاتے کہ جب حضورﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے حضرت سیدہ فاطمہؓ سے حضور ﷺ کی وراثت مانگی تو حضرت سیدہؓ نے ان سے کیا کہا تھا ؟
شیعہ علماء تسلیم کرتے ہیں کہ حضورﷺ کے پاس جو سات باغات تھے وہ حضرت فاطمہؓ کی نگرانی میں تھے اور ان کے معاملات آپؓ دیکھتی تھیں جبکہ حضرت علیؓ کی املاک اور ان کے باغات اور دیگر زمینیں اس کے علاوہ تھیں حضورﷺ کے انتقال کے بعد آپ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ میں حضور ﷺ کے ان باغات پر وراثت کا حق رکھتا ہوں حضرت علیؓ اور حضرت سیدہ فاطمہؓ نے انؓ سے کہا کہ نہیں یہ مجھے دے دیا گیا ہے اس لئے ان میں وراثت جاری نہیں ہو سکتی چنانچہ ان میں سے حضرت عباسؓ کو کچھ نہ ملا شیعہ کا مرکزی محدث ملا محمد بن یعقوب کلینی (329ھ) لکھتا ہے:
عن احمد بن محمد عن ابي الحسن الثاني عليه السلام قال سألته عن الحطان السبعة التي كانت ميراث رسول الله الفاطمة عليها السلام فقال لا إنما كانت وقفا كان رسول الله يأخذ إليه منها ما ينفق على أضيافه فلما قبض جاء العباس يخاصم فاطمة فيها فشهد على عليه السلام وغيره إنما وقف على فاطمة عليها السلام وهى الدلال والعفاف والحسنى والصافية ومالام إبراهيم والمبيت والبرقة
( فروع کافی جلد 3 صفحہ 27)
احمد بن محمد نے امام موسیٰ کاظم سے ان سات باغات کے بارے میں سوال کیا کہ جو حضرت فاطمہؓ کے پاس حضورﷺ کی میراث تھی تو امام موسی کاظم رحمہ اللّٰہ نے کہا کہ وہ میراث نہ تھے وہ تو وقف تھے حضورﷺ ان میں سے اتنا لیتے تھے جتنا مہمانوں کی ضرورت ہوتی تھی جب حضورﷺ وصال فرما گئے تو حضرت عباسؓ ان باغات کے متعلق حضرت فاطمہؓ سے جھگڑنے لگے (ان پر ان کا بھی حق ہے) پھر حضرت علیؓ وغیرہ نے اس پر گواہی دی کہ وہ وقف ہیں حضرت فاطمہؓ پر اور وہ سات باغات یہ تھے دلال عفاف۔۔۔۔۔الخ
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ حضورﷺ نے یہ تمام باغات اور اس کی آمدنیاں کس طرح صاحبزادیؓ کو دے دی جن کو خود حضورﷺ نے انتہائی ضرورت کے موقع پر بھی غلام یا لونڈی نہ دی تھی بلکہ اس کے بر عکس آپ ﷺ نے انہیں وظائف و تسبیحات ارشاد فرمائے تھے کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ حضور ﷺ کو اپنی صاحبزادیؓ کو مال دینے کی اتنی فکر؟ اور آپﷺ انہیں امیر دیکھنا چاہتے تھے نیز حضرت علی المرتضیٰؓ کی اپنی زمینیں اور باغات اس کے علاوہ تھے۔
مناظر اسلام حضرت مولانا احتشام الدین مراد آبادی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں۔
اصول کافی میں ہے کہ رسول اللہﷺ کے سات گاؤں بلا شرکت غیرے جناب سیدہ کے قبضے میں تھے۔ ان سات گاؤں میں ( حضورﷺ کے چچا) حضرت عباسؓ نے میراث کا دعوی کیا تھا مگر حضرت سیدہؓ نے ایک حبہ بھی ان کو نہ دیا اور وہی جواب دیا جو خلیفہ اولؓ نے فدک کے معاملہ میں کیا تھا یعنی یہ کہہ دیا کہ یہ وقف ہیں ان میں میراث جاری نہ ہو گی اور پھر حضرت علیؓ نے گواہی دی کے یہ گاؤں فاطمہؓ پر وقف ہیں اور ان سات گاؤں کی بنسبت جناب سیدہؓ ایک وصیت نامہ لکھ کر گئی تھیں کہ میرے بعد علیؓ قابض رہیں ان کے بعد حسنؓ پھر حسینؓ پھر جو حسینؓ کی اولاد میں بڑا ہو مقدادؓ اور زبیرؓ کی اس پر گواہی ہے حضرت علیؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا وصیت نامہ ہے جس کی نقل کافی میں موجود ہے اولاد حسنؓ کو جناب سیدہؓ اس جائیداد سے محروم کر گئیں۔
( نصيحة الشيعه جلد 1 صفحہ 102)
حضورﷺ کی ازواج مطہراتؓ نے آپﷺ سے کچھ خرچ اخراجات زیادہ مانگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہیں دنیا کا مال عزیز ہے تو وہ لے کر جاسکتی ہیں اور اگر انہیں خدا اور اس کا رسول عزیز ہے تو اللہ نے ان کے لئے بڑا اجر رکھا ہوا ہے چنانچہ ازواج مطہراتؓ نے دنیاوی مال کو ٹھکرا دیا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضورﷺ کو اپنی صاحبزادیؓ کے متعلق کبھی یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ آپﷺ انہیں اس قدر مال ( سات باغات اور اور بقول شیعہ علماء آدھی دنیا کی زمینیں یا ایک بہت بڑی جائیداد اور پھر ان سب کی آمدنیاں ) دے کر جارہے ہیں ؟ حیرت کی بات ہے کہ حضورﷺ اپنی ازواجؓ کے لئے تو ان چیزوں کو ناپسند فرمائیں اور اپنی صاحبزادیؓ کے لئے نہ صرف یہ کہ بصد شوق سب کچھ پسند کریں بلکہ اسے خدا کا حکم بھی بتائیں۔ فیاللعجب
شیعہ علماء کا حضور اکرم ﷺ کہ یہ تصویر پیش کرنا آپ ﷺ کی نبوت کا مقصد معاذ اللہ اپنی اولاد کو مالدار ہی نہیں آدھی دنیا کا مالک بنانا تھا سوائے اسلام دشمنوں کے اور کسی کا کام نہیں ہوسکتا؟
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728) لکھتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالٰی نے انبیاء کرام علیہم السلام کو اس بات سے بچائے رکھا کہ وہ اپنے پیچھے کسی کو دنیاوی چیزوں کا وارث بنائیں تاکہ کسی کے دل میں یہ خیال ہی نہ آئے کہ نبوت کا مقصد دنیاوی چیزوں کا حصول ہے کہ وہ اسے اپنی اولاد کے لیے چھوڑ جائیں۔
والفرق بين الانبياء وغيرهم أن الله تعالى صان الانبياء عن أن يورثوا دنيا لئلا يكون ذلك شبهة لمن يقدح في نبوتهم بانهم طلبواالدنيا وخلفوها لورثتهم
(منهاج السنة جلد 4 صفحہ 195)
انبیاء کرام علیہم السلام اور دوسروں کے درمیان فرق یہ بھی ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا کے وارث بننے سے پاک رکھا ہے تاکہ ان لوگوں کے لئے شبہ کی گنجائش نہ رہے جو کہتے ہیں کہ انبیاء نے دنیا اس لئے مانگی کہ اسے اپنے بعد اپنے وارثوں کے لئے چھوڑ جائیں۔
شیعہ علماء آخر اس سوال کا جواب دینے سے کیوں کتراتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی میراث پر صرف اور صرف حضرت فاطمہ کا حق کس طرح تھا ؟ قرآن کریم اور حضور ﷺ کی احادیث کی روشنی میں حضور ﷺ کی ازواج اور آپ ﷺ کے دوسرے عزیز اس سے کیوں کر محروم تھے ؟ افسوس کہ ابن سبا کی روحانی اولاد نے حضرت باقر کے نام سے ایک روایت وضع کرلی اور کہا کہ حضور ﷺ کے مال کی وارث صرف اکیلی حضرت فاطمہؓ ہی ہیں اور کوئی نہیں۔
سمعت أبا جعفر عليه السلام يقول لا والله ما ورث رسول اللهﷺ العباسؓ ولا علىؓ ولا ورثته إلا فاطمة عليها السلام
( من لا یحضرہ الفقیه جلد 2 صفحہ 217)
اللہ کی قسم حضور ﷺ کہ چچا حضرت عباسؓ اور چچا زاد بھائی حضرت علیؓ اور دوسرے تمام رشتہ دار آپ کے وارث نہ ہوئے آپ کے مال کے وارث صرف اور صرف حضرت فاطمہ علیہا السلام ہی ہوئی تھیں۔
قرآنی آیت يوصيكم الله في أولادکم ۔۔۔۔۔الایۃ یہ پڑھ پڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کے خلاف بولنے والے شیعہ علماء کی زبانیں اس باب میں کیوں خاموش ہو جاتی ہیں؟کیا اسلام اور شریعت نے ازواج اور اولاد نرینہ نہ ہونے کی صورت میں دوسرے اعزہ واقارب کا حق نہیں بتایا تھا؟
حضور اکرم ﷺ کی میراث کا معاملہ عام امت کی میراث کی طرح ہوتا تو حضرت سیدہ فاطمہؓ کی طرح حضور اکرم ﷺ کی تمام ازواج مطہراتؓ اور آپ کے دیگر رشتہ دار بھی اس میراث میں برابر کے شریک ہوتے اور ہر ایک کو شریعت کی رو سے ان کا حق ضرور ملنا چاہیے تھا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے جس طرح حضرت سیدہ فاطمہؓ کو حضور ﷺ کی حدیث سنا کر مسئلہ واضح کیا اسی طرح آپؓ نے حضور ﷺ کی ازواجؓ کو ( جن میں آپؓ کی اپنی پیاری صاحبزادی حضرت عائشہؓ بھی ہیں ) بھی یہی بات بتادی تھی کہ انبیاء علیہم السلام کے چھوڑے ہوئے مال صدقہ ہوتے ہیں ان میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔
حضرت عمرہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے انتقال کے بعد بعض ازواجؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ حضور ﷺ کی میراث کا معاملہ کیا ہے ؟ کیا ہمیں حصہ ملے گا ؟ حضرت ابوبکر نے حضرت عائشہؓ کو بلایا اور کہا کہ ان سے جا کر کہو کہ اللہ سے ڈرو۔ کیا حضورﷺ نے نہیں فرمایا کہ ہم انبیاء علیہم السلام جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب کا سب صدقہ ہوا کرتا ہے حضرت عائشہؓ کی زبانی یہ پیغام سن کر ازواج مطہراتؓ نے سر تسلیم خم کردیا اور پھر کوئی چیز طلب نہیں کی
عبد الرزاق عن معمر عن الزهري عن عروة وعمرة قالا: إن أزواج النبي صلى الله عليه وسلم أرسلن إلى أبي بكر يسألن ميراثهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأرسلت إليهن عائشة: ألا تتقين الله؟ ألم يقل رسول الله لانورث ما تركنا صدقة قال فرضين بقولها وتركن ذلك
( المصنف عبد الرزاق جلد 5 صفحہ 471)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے فدک نامی علاقہ یا جاگیر حضورﷺ کی اپنی جاگیر نہ تھی اور اگر آپﷺ کی ہوتی بھی تو آپ ہی کے ارشاد کے مطابق وہ میراث میں تقسیم نہیں ہو سکتی تھی اور اگر واقعی انبیاء علیہم السلام کی میراث تقسیم ہوتی تو اس پر صرف اکیلی حضرت فاطمہؓ نہیں بلکہ آپ ﷺ کی تمام ازواجؓ اور آپ ﷺ کے دیگر
قریبی عزیز بھی اس وراثت کے مستحق قرار پاتے تھے۔