فدک کے بارے میں شیعہ علماء کا تیسرا مؤقف
مولانا اقبال رنگونی صاحبفدک کے بارے میں شیعہ علماء کا تیسرا مؤقف
شیعہ کا کہنا ہے کہ آیت وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ نازل ہوئی تو حضور اکرمﷺ نے فدک کی زمین حضرت فاطمہؓ کو ہبہ کر دی۔
شیعہ مقبول احمد لکھتا ہے۔
(شیعہ) تفسیر قمی میں ہے کہ یہ آیت حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کی شان میں ہے پس جناب رسول خداﷺ نے فدک ان کے لیے مخصوص فرما دیا تھا۔
(ترجمہ مقبول صفحہ 527)
شیعہ علماء کا یہ کہنا درست نہیں کہ حضورﷺ نے اس آیت کی روشنی میں حضرت فاطمہؓ کو فدک ہبہ کر دیا تھا اس لیے کہ یہ آیت مکی ہے اور فدک کا معاملہ مدینہ منورہ میں پیش آیا تھا جب ایک واقعہ وجود میں ہی نہیں آیا تو قبل از وقت اس کو ہبہ کر دینا کس طرح درست مانا جا سکتا ہے۔؟
پھر بھی تاریخ کے اوراق سے اس دعویٰ کی حقیقت کا سراغ لگانا چاہیے۔ چنانچہ کتب شیعہ میں ہے
إن الله عز وجل أنزل في سورة بني إسرائيل بمكة
(اصول کافی صفحہ 120)
اصول کافی کی فارسی شرح صافی میں ہے۔
چون آیت و آت ذی القربی حقہ در مکۃ نازل شده
(الصافی جلد 1 صفحہ 359)
صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی۔ اور ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مکہ سے ہجرت کر جانے کے سات سال بعد 7 ہجری میں فدک کی زمین حضورﷺ کے قبضہ میں آئی۔
اب اس دعویٰ کے دونوں حصوں پر غور کیجئے۔
(1)جب آیت وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ نازل ہوئی۔
(2) تو حضورﷺ نے فدک کی زمین حضرت فاطمہؓ کو ہبہ کردی۔ دعویٰ میں جب کے بعد تو آتا ہے اور تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس گتھی کو سلجھانا مشکل نظر آتا ہے کہ جو زمین ابھی قبضہ میں آئی نہیں وہ برسوں پہلے ہبہ کر دی گئی۔
شیعہ علماء اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے کہ اس آیت سے معاملہ فدک کا کوئی تعلق نہیں ہے الٹا یہ کہہ دیتے ہیں کہ موجودہ قرآن ناقص اور نا مکمل ہے ان (شیعہ) کا عقیدہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کے دور میں جب قرآن جمع کیا جا رہا تھا تو کچھ لوگوں نے قرآن میں تبدیلی کر دی تا کہ اہل بیت کو ان کا حق نہ مل سکے۔
قرآن میں تحریف کا شیعہ دعویٰ
مشہور تبرائی شیعہ عالم غلام حسین نجفی لکھتا ہے:
"موجودہ قرآن کی ترتیب حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں دی گئی اور جس ترتیب سے آیات نازل ہوئی ہیں مصحف عثمانؓ کی وہ ترتیب نہیں ہے یہ آیت مدنی ہے اس کے مکی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں شک کی صورت میں اصل قدم بقدم جاری ہوگی"
(جاگیر فدک صفحہ 24)
یعنی اصل بات یہ ہے کہ یہ آیت مدنی تھی مکی نہیں صحابہؓ نے اسے مکی بنا دیا اور اس طرح انہوں نے قرآن اپنی مرضی سے تیار کر کے اہل بیت کا حق مار دیا اور ان کی زمینیں ہتھیالیں۔ (استغفر الله العظیم)
شیعہ علماء جب میراث اور ہبہ کے دعویٰ کو دلائل سے ثابت نہیں کر سکتے تو پھر وہ ایک اور نیا مؤقف اپنا لیتے ہیں
ان کا وہ تیسرا مؤقف کیا ہے؟ اسے دیکھیے۔
شیعہ ملا باقر مجلسی لکھتا ہے کہ جب اللہ تعالی نے آیت ﴿وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ﴾ نازل فرمائی تو حضورﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا
"حضرت پر سید جبرائیل کہ ذا القری کیست و حق او چیست گفت ایں را بفاطمهؓ بده که میراث اوست از مادرش خدیجہ و خواهرش ہندہ دختر ابی ہالہ
(حیات القلوب جلد 2 صفحہ 503)
ترجمہ: ذی القربی کون ہیں؟ ( جس کو حق دینے کا حکم ہے ) اور ان کا حق کیا ہے ؟ کہا کہ یہ فاطمہؓ کا حق ہے ان کو دے دیجیے کہ یہ ان کی ماں خدیجہؓ اور ان کی خالہ ہندہ کی جانب سے میراث ہے۔
تبصرہ:
مشہور محقق مناظر حضرت العلام مولانا اللہ یار خاں رحمہ اللّٰہ اس روایت پر تبصرہ فرماتے ہوتے لکھتے ہیں کہ "اس روایت سے ظاہر ہے کہ
1) فدک کی جاگیر حضورﷺ کی ملکیت نہیں تھی بلکہ حضرت خدیجہؓ اور حضرت ہندہ کی ملکیت تھی کیونکہ جبرائیل علیہ السلام نے ان کی میراث حضرت فاطمہؓ کو دینے کا حکم پہنچایا۔
2) اس سے ہبہ کے دعویٰ کی نفی ہوگئی کیونکہ اس چیز کے حضورﷺ مالک نہیں تھے۔ اسے ہبہ کرنے کا مطلب کیا ہوا۔
3) فدک کا یہود کی بستی ہونا بھی غلط ٹھہرا۔ جب حضرت خدیجہؓ اور ہندہ اس زمین کی مالک تھیں تو کیا یہود اس جاگیر میں بطورِ مزارع کام کرتے تھے۔
4) جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضورﷺ کو جبرائیل علیہ السلام سے پوچھنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ذا القربیٰ کون ہیں ان کا حق کیا ہے۔ اس سے پہلے آپﷺ یہ دونوں باتیں نہیں جانتے تھے (معاذاللہ)
5) تقسیم میراث کا معاملہ اتنے طویل عرصے تک تاخیر کی نذر کیوں ہوگیا حضرت خدیجہؓ تو مکہ میں انتقال فرما گئیں اور حضورﷺ مکہ سے ہجرت بھی کر گئے سات برس گزر گئے تو اتنی دیر سے میراث کی تقسیم کا حکم ملا۔ حضرت فاطمہؓ کو تو ماں کے انتقال کے فوراً بعد جائیداد ملنی چاہیے تھی۔
لیجئے اب یہ واقعات نیا رخ اختیار کرتے ہیں۔
شیعہ حیاۃ القلوب جلد 2 صفحہ 218 پر ہے کہ حضورﷺ فرماتے ہیں:
"ومادر تو خدیجہؓ مہرے بر من داشت ومن فدک را بعوض آں بتوبخشیدم کہ از تو باشد وبعد از تو بفرزنداں تو باشد"
ترجمہ: (اے فاطمہ) تیری والدہ خدیجہؓ کا مہر میرے ذمّہ تھا اس کے عوض میں نے فدک تجھے دے دیا۔ اب یہ تیرا مال ہے اور تیرے بعد تیرے بیٹوں کا مال ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ
(1) حضورﷺ نے حضرت خدیجہؓ کے انتقال تک مہر ادا نہ کیا۔
(2) فدک کی زمین حضورﷺ کی ملکیت تھی۔ مال فئی نہیں تھا
یہ حقیقت نہیں کھلی کہ اگر یہ مال فئی نہیں تھا تو حضور اکرمﷺ کے ہاتھ کیسے آیا۔
مگر اسی شیعہ کتاب حیاۃ القلوب جلد 2 صفحہ 92 پر مہر کی بروقت ادائیگی کا ذکر موجود ہے۔
"ترویج کردم بتو ای محمد نفس خود را مہر من در مال من است"
ترجمہ: یعنی مہر تو حضرت خدیجہؓ نے اپنے ذمہ لے لیا اس کی ادائیگی حضور اکرمﷺ کے ذمہ نہ رہی۔
پھر مہر کی مقدار کے متعلق دو مختلف روایتیں ملتی ہیں۔
(1) حیاۃ القلوب جلد 2 صفحہ 91 بعد ازوی (ای ہند) رسول خدا ورا بحبالۂ خود آور دو دو از دہ اوقیہ طلا مہر گردایند۔
(2) حیاۃ القلوب جلد 2 صفحہ 92 پر ہے۔
پس گواہ باشید اے گروہ قریش کہ من تزویج کردم خدیجہؓ دختر را بمحمد بن عبداللہﷺ بچہار صد اشرفی مہر۔
ان تمام روایات اور اس تاریخی تفصیل کا خلاصہ یہ ہوا کہ
(1) آیت وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ کے نزول کے وقت حضورﷺ نے فدک کی زمین حضرت فاطمہؓ کو ہبہ کردی (جو آیت کے نزول کے کم از کم سات برس بعد حضورﷺ کے قبضہ میں آئی)
(2) اللّٰہ تعالٰی نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے حکم بھیجا کہ فدک کی زمین حضرت خدیجہؓ اور ہندہ کی ہے اس کی وارث حضرت فاطمہؓ ہیں لہٰذا انہیں یہ میراث دے دی جائے۔
(3) حضورﷺ نے حضرت خدیجہؓ کے مہر کے بدلے فدک کی زمین حضرت فاطمہؓ کو دی۔
(4) حضرت خدیجہؓ نے اپنا مہر خود اپنے ذمے لیا جس کا اعلان نکاح کے وقت کیا۔
(5) مہر کی مقدار 12 اوقیہ سونا مقرر ہوئی۔
(6) مہر 400 اشرفی مقرر ہوا۔
اس قدر تضاد بیانات کااااااش کوئی دانشور اس معمہ کو حل کر دے
شیعہ علماء کی ایک اور من گھڑت کہانی
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا تمہاری قرابت دار فاطمہؓ ہیں اور تمام فدک ان کا حق ہے یہ سن کر جناب رسول خدا ﷺ نے جناب فاطمہؓ کو بلایا اور ہبہ نامہ (کاغذ پر) لکھ کر فدک جناب فاطمہؓ کی ملکیت میں دے دیا۔
(حیات القلوب جلد 2 صفحہ 666 مترجم)
ہم علمائے و ذاکرین شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ جب حضرت فاطمہؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے فدک کے معاملہ پر پیغام بھیج کر بات کی تو کیا انہوں نے حضورﷺ کے ہاتھ کی لکھی وہ تحریر دکھائی تھی جس کا اس روایت میں دعویٰ کیا گیا ہے اگر حضرت فاطمہؓ کے پاس وہ نبوی تحریر موجود تھی جس میں حضورﷺ کی جانب سے ان کو ہبہ کرنے کی تصدیق تھی تو حضرت فاطمہؓ نے آپؓ کو وہ کیوں نہیں دکھائی؟ اور نہ حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نے پوری زندگی اس تحریر کا کہیں ذکر کیا تھا۔
ہمارے پاس ان بعض شیعہ جاہلوں کے اس جھوٹ کا بھی کوئی علاج نہیں کہ حضورﷺ کی یہ تحریر حضرت فاطمہؓ کے گھر کے دروازے پر لٹکی ہوئی موجود تھی جب عمرؓ نے ان کے دروازے کو آگ لگا دی تو وہ تحریر جل کر راکھ ہوگئی تھی اس لیے آپؓ اسے نہ دکھا سکیں اور سارا ثبوت جل گیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
غلام نجفی ہماری نہیں مانتا کم از کم وہ اپنے گھر کی شہادت تو تسلیم کر لے اور حضرت باقر رحمہ اللّٰہ سے فیصلہ کروالے کہ یہ آیت مکی ہے یا مدنی؟
اوپر شروع میں حضرت محمد باقر رحمہ اللّٰہ کی روایت نقل کی ہے إن الله عز وجل أنزل في سورة بني إسرائيل بمكة
اس سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ قرآن کی اس آیت کا فدک سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس جھوٹ کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں کہ حضورﷺ نے قرآنی ہدایت کی رو سے فدک حضرت فاطمہؓ کو دے دیا تھا۔
شیعہ علماء اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قرابت داروں کو ان کا حق دینے کا حکم فرمایا ہے تو سوال یہ ہے کہ فدک صرف حضرت فاطمہؓ کا حق تھا جسے اللہ تعالی نے دینے کا حکم دیا؟ اگر واقعی فدک سیدہ فاطمہؓ ہی کا حق تھا تو پھر میراث اور ہبہ کی تمام روایتیں باطل ٹھہرتی ہیں اور اگر ہبہ اور میراث کی روایتیں درست مانی جائیں تو شیعہ علماء کا اس آیت سے استدلال غلط ہوتا ہے۔