کیا رسولﷺ نے یا سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فدک کے لیے کچھ تحریر فرما کر سیدہ فاطمہؓ کو دیا تھا؟؟
مولانا اقبال رنگونی صاحبکیا رسولﷺ نے یا سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فدک کے لیے کچھ تحریر فرما کر سیدہ فاطمہؓ کو دیا تھا؟؟
شیعہ علماء کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کا مطالبہ تسلیم کر لیا تھا اور اس پر ایک تحریر بھی لکھ دی تھی اور وہ حضرت فاطمہؓ کو دینے ہی لگے تھے کہ حضرت عمرؓ وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے وہ تحریر ان سے لے کر پھاڑ دی اگر حضرت عمرؓ اسے نہ پھاڑتے تو یہ جائیداد حضرت فاطمہؓ کو مل جاتی۔ شیعہ کا مرکزی محدث ملا محمد بن یعقوب کلینی 329ھ) نے یہ ڈرامہ حضرت موسیٰ کاظم رحمہ اللہ کے نام سے ترتیب دیا۔
( دیکھئے الشافی ترجمہ اصول کافی جلد 3 صفحہ 192) اور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی نے اسے حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ کے نام لگا دیا ہے
ما هذا الكتاب الذي معك قالت كتاب كتب أبوبكر يرد فدك فقال هلميه إلى فابت ان قد دفعه إليه فضربها برجله وكانت حامله باين اسمه المحسن فاسقطت المحسن من بطنها ثم لطمها ثم أخذ الكتاب فخرقه فمضت ومكثت خمسة وسبعين يوما مريضة مما ضربها عمر ثم قبضت
(بحار الانوار صفحہ 101)
(حضرت) عمر (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ آپؓ کے ہاتھ میں کیا ہے حضرت فاطمہؓ نے کہا یہ ایک دستاویز ہے جس میں ابوبکرؓ نے مجھے فدک واپس کرنے کی تحریر لکھ کر دے دی ہے عمرؓ نے کہا لاؤ اسے مجھے دے دو حضرت فاطمہؓ نے دینے سے انکار کیا تو عمرؓ نے انہیں زور سے لات ماری حضرت فاطمہؓ اس وقت حمل سے تھیں اس مار سے ان کا حمل ساقط ہو گیا پھر عمرؓ نے ان کو طمانچے مارے پھر انؓ کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے کر پھاڑ دیا اور چلے گئے آپؓ اس واقعہ کے بعد 75 روز حیات رہیں اور اسی مرض میں پھر انؓ کا وصال ہوگیا۔
الجواب
شیعہ علماء ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پار ہے کہ فدک کے نام پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو کس طرح بدنام کریں کبھی وہ میراث کے نام پر کبھی ہبہ کے عنوان پر اور کبھی وثیقہ کے گمان پر حضرات شیخین کریمینؓ پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ ہم یہ بات اوپر بتا آئے ہیں کہ حضورﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو فدک ہبہ نہ کیا تھا اور نہ یہ میراث میں آنا تھا اس لیے یہ بات کس طرح درست ہوسکتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے طریقے کو چھوڑ کر نیا طریقہ اپنائیں گے اور دوسروں کو ان کے حق سے محروم کر کے صرف حضرت سیدہ فاطمہؓ کو اس کا مالک بنا دیں گے اور اس پر کوئی تحریر بھی دے دیں گے۔
جہاں تک کسی تحریر کا تعلق ہے تو یہ بات سبط ابن جوزی کی کتاب مراۃ الزمان کے حوالہ سے پیش کی جاتی ہے اور اسے ہل سنت کے سر تھوپ دیا جاتا ہے حالانکہ علماء اہل سنت بہت پہلے سبط ابن جوزی (یوسف بن قزغلی) کی حقیقت سے پردہ اٹھا چکے ہیں۔ اہل سنت کے معروف ماہر فن رجال امام شمس الدین ذہبی (748ھ) اور معروف محدث علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی سبط ابن جوزی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
وألف كتابا مرأة الزمان فنراه ياتي فيه بمناكير الحكايات وما أظنه ثقة فيما ينقله بل يجنف ويجازف ثم انه يترفض وله مؤلف في ذلك نسال الله العافية قال الشيخ محى الدين السوسی لما بلغ جدى موت سبط ابن الجوزى قال لا رحمه الله كان رافضيا
( ميزان الاعتدال جلد 7 صفحہ 304 لسان الميزان جلد 6 صفحہ 328)
اس نے ایک کتاب مراة الزمان لکھی ہے ہم نے اس کتاب میں ایسے قصے دیکھے جو لائق رد ہیں جو کچھ یہ نقل کرتا ہے میں اس کو قابلِ اعتبار نہیں جانتا ہے بلکہ یہ حق سے ہٹی ہوئی باتیں کرتا ہے پھر وہ رافضیوں کی باتیں لکھتا ہے اس نے رافضیت کے حق میں ایک کتاب بھی لکھی ہے ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سے عافیت میں رکھے شیخ محی الدین سوسی کہتے ہیں کہ جب میرے جد امجد کو اس کی موت کی خبر ملی تو وہ کہنے لگے خدا اس پر رحمت نہ کرے وہ تو رافضی تھا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے بارے میں یہ واقعہ محض ایک من گھڑت قصے سے زیادہ کچھ نہیں جسے رافضیوں نے حضرت عمر فاروقؓ کی عداوت میں پھیلا رکھا ہے۔ پھر شیعہ علماء یہ بھی نہیں بتاتے کہ جب حضرت عمرؓ نے یہ وثیقہ پھاڑا تھا تو اس وقت حضرت علی المرتضیٰؓ کہاں تھے ؟ اگر وہ اس وقت حضرت فاطمہؓ کے پاس نہ تھے تو کیا بعد میں انہیں اس واقعہ کا پتہ بھی نہ چلا؟ شیعہ علماء یہ بھی نہیں بتاتے کہ حضرت فاطمہؓ نے بعد میں جب انہیں بتایا تو انہوں نے اس پر کس رد عمل کا اظہار کیا تھا؟ اپنی اہلیہ مکرمہ خاتون جنت حضرت فاطمہؓ جیسی عظیم المرتبت خاتون کو لات ماری جائے ان کا حمل گرایا جائے ان کے منہ پر طمانچے لگیں ان کے ہاتھ سے دستاویز لے کر پھاڑ دی جائے اس کے باوجود حضرت علی المرتضیٰؓ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے نہ انہیں اپنی اہلیہ مکرمہ کی عزت کا کوئی خیال آئے نہ انہیں آقائے دو جہاںﷺ اور آپﷺ کی صاحبزادیؓ کی حرمت کی کوئی فکر ہو اس کے لئے نہ آپؓ کے ہاتھ اٹھیں نہ آپؓ کے پاؤں چلیں اور نہ آپؓ کی زبان کھلے اور نہ وہؓ اپنی مافوق الفطرت طاقت کے ساتھ حضرت عمرؓ کا مقابلہ کر پائے ۔ اسے ہم دیوانے کی بڑ نہ کہیں اور کیا کہیں ؟
شیعہ عوام اس قسم کی کہانی سن کر رونے اور کپڑے پھاڑنے لگ جاتے ہیں مگر انہیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ سوچیں کہ ان سب معاملات میں حضرت علی المرتضیٰؓ کا کردار کیا رہا ہے ؟ جب ایک عام آدمی بھی اپنی اہلیہ کی بے عزتی برداشت نہیں کرتا اور کبھی کبھی اس پر جان تک سے گزر جاتا ہے تو شیر خدا حضرت علی المرتضیٰؓ ان تمام بے عزتیوں پر کیوں خاموش رہا کرتے تھے ؟ ایمانداری سے بتائیے کیا اس قسم کے مکروہ ترین واقعات سے یہ لوگ حضرت علی المرتضیٰؓ کی عزت بڑھا رہے ہیں یا آپؓ کی عزت بیچ چوراہے پر نیلام کر رہے ہیں؟ اور آپؓ کو ایک گئے گزرے شخص سے بھی زیادہ گیا گزرا بتاتے ہیں؟
استغفر اللہ العظیم
سچی بات یہ ہے کہ اس قسم کے تمام واقعات من گھڑت ہیں اور جب فدک کے ہبہ کی روایت من گھڑت نکلتی ہے تو آپ ہی بتائیں نوشتۂ فدک کہاں اور کس طرح لکھا گیا ہو گا؟