Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مسلہ فدک میں سیدنا علیؓ اور سیدنا جعفر صادق رحمہ اللہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی حمایت میں

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

مسلہ فدک میں سیدنا علیؓ اور سیدنا جعفر صادق رحمہ اللہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی حمایت میں

شیعہ علماء کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ نے حضورﷺ کے نام سے جو روایت پیش کی ہے اگر وہ درست ہوتی تو ائمۂ کرام کے ہاں تو معروف ہوتی ؟ جواباً عرض ہے کہ حضورﷺ کی یہ حدیث (جو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیان کی کہ پیغمبر کی میراث جاری نہیں ہوتی ان کاسب متروکہ صدقہ ہوتا ہے) کی تائید خود شیعہ کتابوں میں موجود ہے حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ کو سے روایت ہے:

قال رسول الله إن العلماء ورثة الأنبياء إن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن أورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر )

(اصول کافی صفحہ 18)

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انبیاء کے وارث علماء ہیں انبیاء کرام درہم و دینار کا کس کو وارث نہیں کرتے البتہ علم وراثت میں دے جاتے ہیں پس جس نے ان کے علم سے حصہ لیا اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔

امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللّٰہ (1323ھ) اس پر لکھتے ہیں:

سبحان الله حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ اول انکار کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام درہم و دینار کا وارث ہی نہیں کرتے جب درہم و دینار کا وارث نہیں کرتے تو زمین کا وارث کیونکر کرسکیں گے اور پھر حصر کردیا کہ ان کی توریث فقط علم کی ہے پھر جب توریث انبیاء علم میں حصر ہو گئی تو زمین و جائیداد کیوں کر میراث میں آگئی ؟

(ہدايۃ الشيعۃ صفحہ 29)

حضرت علی المرتضیٰؓ نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ سے فرمایا:

تفقهه في الدين فان الفقهاء ورثة الانبياء ان الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكنهم أورثوا العلم

( من لا یحضرہ الفقيه جلد 2 صفحہ 346)

حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ کا بیان دیکھئے۔

ان الانبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا وانما ورثوا احاديث من احادیثهم

(الشافی ترجمہ اصول کافی جلد 1 صفحہ 70)

✿⁠ملا باقر مجلس حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ سے نقل کرتا ہے:

قال ان العلماء ورثة الأنبياء وذلك لان الانبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا وانما اورثوا أحاديث من أحاديثهم فمن أخذ بشیئ منها فقد أخذ حظا وافرا فانظروا علمكم عمن تاخذونه

(بحار الانوار جلد 2 صفحہ 151)

"حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللّٰہ ( 1297ھ) نے اس بحث میں ایک نہایت نفیس نکتہ اٹھایا ہے آپ ایک شیعہ عالم کی تحریر کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں حضرت (جعفر صادق رحمہ اللہ) کی بات کی تکذیب نہ کیجئے ہاں اپنی سمجھ اور عقل کی تغلیط کیجئے لیکن اطمینان قلب مؤمنین کے لئے یہ اشارہ مرقوم ہے کہ لم یورثوا کے یہ معنی نہیں کہ آپ دنیا میں کچھ چھوڑ کر ہی نہیں گئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ میراث میں نہیں چھوڑ گئے سو اس صورت میں بجز اس کے نہیں بن پڑتی کہ یہ روایت جس کے راوی حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں یعنی حدیث "لانورث ما تركناه صدقة" صحیح ہو اور حضرت صادق نے بوجہ واقفیت اس وصیت کو حصر کرکے یہ فرمادیا ہو کہ انبیاء نے بجز احادیث کے میراث میں کچھ نہیں چھوڑا بہرحال روایت حضرت جعفر صادق روایت حضرت ابوبکر صدیقؓ سے اس بات میں کہ انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا کچھ کم نہیں بلکہ بہر نہج زیادہ ہے اول تو آپ نے بطور حصر یوں فرمادیا کہ انبیاء نے بجز احادیث میراث کے لئے کچھ چھوڑا ہی نہیں ۔ حدیث ابوبکر صدیقؓ میں یہ بات نہیں۔

کیونکہ ظاہر ہے کہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے حصر سے دو باتیں معلوم ہوئیں اول تو یہ کہ یا تو انبیاء علیہم السلام نے کچھ چھوڑا ہی نہیں یا چھوڑا ہے تو وہ میراث کے قابل نہیں۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے میراث میں احادیث کو چھوڑا ہے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی روایت سے فقط اتنا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اموال متروکہ انبیاء قابلِ میراث نہیں۔ مع ہذا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی حدیث میں اس دعویٰ کے ساتھ کہ ترکہ انبیاء قابل میراث نہیں کوئی دلیل نہیں تھی اور حضرت امام جعفر صادق نے اس کی دلیل بھی فرمادی ہے اور اپنے دعویٰ کو موجہ کردیا۔ سو سنیوں کی طرف سے تو آپ کو اطمینان ہی تھا ( حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ نے ) اس وجہ کا طرہ جو ساتھ لگایا تو اسی وجہ سے لگایا ہوگا کہ حضرات شیعہ کی طرف سے آپ کی خاطر جمع نہ تھی ان کے نفاق سے عیاں تھا کہ میری بات سیدھی انگلیوں سے شیعہ ماننے والے معلوم نہیں ہوتے اس لئے اپنے دعویٰ کو اور موجہ کر کے بیان فرمادیا تھا. خیر خداوند کریم ان کو سمجھے کہ نہ یہ پیر کے نہ فقیر کے نہ اصحابؓ کے نہ اماموں کے بالجملہ جائے شرم ہے کہ جن کی آڑ میں یہ اصحاب کرامؓ پر طعن کرتے تھے وہ خود ہمصفیر اصحابؓ ہیں۔۔

( هديۃ الشيعۃ صفحہ 427)

✿⁠۔۔۔۔شیعہ عالم علامہ علی بن عیسی اردبیلی (687ھ) کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے حضورﷺ سے پوچھا کہ مجھے آپﷺ سے وراثت میں کیا ملے گا آپﷺ نے فرمایا:

ما ورثت الانبياء من قبلى قال وما ورثت الانبياء من قبلك فقال النبیﷺ من كتاب ربهم وسنة نبيهم

( كشف الغمۃ جلد 1 صفحہ 447 تفسیر فرات از فرات بن ابراہیم شیعی صفحہ 82 مطبوعہ نجف)

ترجمہ) جو مجھ سے قبل پیغمبروں کی میراث تھی میں نے پوچھا کہ آپﷺ سے قبل پیغمبروں نے کیا میراث دی تھی آپﷺ نے فرمایا اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت انہوں نے بطور میراث دی تھی ۔

✿⁠۔۔۔۔حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں:

ان داؤد ورث علم الانبياء وان سليمان ورث داؤد وان محمد ورث سليمان وإنا ورثنا محمدﷺ

(اصول کافی جلد 2 صفحہ 103 مع الشافی)

حضرت داؤد علیہ السلام انبیاء علیہم السلام کے علوم کے وارث ہوئے اور سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث تھے اور محمدﷺ سلیمان کے وارث تھے اور ہم محمدﷺ کے وارث ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر کی اصل میراث ان کا دینی اور علمی ورثہ ہوتا ہے مال ودولت نہیں۔ کوئی بتاسکتا ہے کہ حضورﷺ کو اللہ کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کے مال میں سے کتنا ملا تھا ؟ اور آپﷺ کس طرح ان کے مال کے وارث بن گئے تھے؟ معلوم نہیں شیعہ ملا کیوں اہل بیت نبوت کو دنیادار سمجھتے ہیں اور ان کو مال و دولت کا حریص بتانے پر تلے ہوئے ہیں اور اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ لوگ اپنے اس مؤقف اور اس قسم کے مباحث سے حضرت سیدہ فاطمہؓ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ العیاذ باللہ تعالٰی۔

عرب کے معروف فاضل الاستاذ محمود عباس عقاد نے بڑے پتہ کی بات لکھی ہے۔

یہ کوئی سمجھ کی بات نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی جو وفاداری رسولﷺ سے تھی اس میں اس لئے شک کیا جائے کہ انہوں نے حضورﷺ کی صاحبزادی فاطمہؓ کو میراث سے محروم رکھا اگر انہوں نے ان کو محروم رکھا تو خود اپنی لڑکی عائشہؓ کو بھی اسی طرح محروم رکھا کیونکہ شریعت کی رو سے انبیاء کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ نہیں چاہا تھا کہ میراث محمدﷺ سے حضورﷺ کے ورثہ کو محروم کردیں جن میں خود ان کی محبوب ترین اور سرمایہ فخر بیٹی عائشہؓ بھی تھیں لیکن انہوں نے چاہا تھا کہ رسول اللہﷺ کے دین اور آپﷺ کی وصیتوں کے معاملہ میں توسع سے کام نہ لیں اور دین کو بچانا خاندان اور مال کے بچانے سے زیادہ ضروری تھا.

( العبقريات الاسلامیہ صفحہ 446)

✿⁠۔۔۔۔۔آپ آگے چل کر لکھتے ہیں:

میراث کے معاملے میں جو ابوبکرؓ نے طے کر دیا اس کے سوا کوئی فیصلہ کرنے کا ان کو حق بھی نہ تھا ان کو یہی معلوم تھا کہ انبیاء کرام کسی کو وارث نہیں بناتے جب ان کی وفات کا وقت آیا تو حضرت عائشہؓ کو وصیت کی کہ جو کچھ ان کو دیا ہے اس سے مسلمانوں کے حق میں دستبردار ہوجائیں جبکہ وہ مال ان کے لئے عطیہ اور میراث کی شکل میں حلال تھا

(ایضاً صفحہ 448 المرتضٰیؓ صفحہ 144)

یہاں اس بات پر بھی غور کیجئے کہ اگر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دل میں حضرت فاطمہؓ اور آل نبیﷺ سے کسی قسم کا کوئی بوجھ ہوتا تو کیا آپؓ حضرت علیؓ کو حق خمس کی تولیت دیتے؟

حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنی زندگی میں جس طرح خمس کی تقسیم کا والی بنایا تھا کہ وہ اسے بنی ہاشم پر تقسیم کریں حضورﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ بھی اسی روش پر رہے اور حضرت عمرؓ نے بھی اپنے دور خلافت میں حضرت علیؓ کو اسی پر مامور رکھا تھا.

حضرت علی المرتضیٰؓ کہتے ہیں:

ولاتی رسول الله خمس الخمس فوضعته مواضعه حياة رسول الله وحياة أبي بكرؓ و عمرؓ فاتی بمال فدعاني فقال خذه فقلت لا أريده فقال خذه فانتم أحق به قلت قد استغنينا عنه فجعله فى بيت المال

(سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 61)

حضورﷺ نے خمس کے خمس کو میری ولایت میں دیا تو میں اس کے مصارف پر خرچ کرتا رہا اور اور یہ سلسلہ حضورﷺ کی حیات تک اسی طرح رہا اور آپﷺ کے بعد ابوبکرؓ اور عمرؓ کی زندگی تک ایسا ہی ہوتا رہا حضرت عمرؓ کی زندگی کے آخری دنوں میں جب مال آیا تو آپ نے مجھے بلایا اور کہا اس کو لے لو میں نے کہا میں نہیں چاہتا آپؓ نے کہا اسے لو تم اس کے زیادہ حقدار ہو میں نے کہا اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں چنانچہ حضرت عمرؓ نے اسے بیت المال میں جمع کرادیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کبھی حضورﷺ کے طریقہ سے نہیں ہٹے تھے اور نہ ان کے دلوں میں حضرت علیؓ اور حضرت سیدہ فاطمہؓ کے خلاف کوئی بوجھ تھا گر ایسا ہوتا تو آپ ہی سوچیں حضرت علیؓ کبھی یہ بات کہتے ؟