مطالبہ میراث کے سلسلے میں حضرت علیؓ کا کردار
مولانا اللہ یار خان رحمۃ اللہمطالبہ میراث کے سلسلے میں حضرت علیؓ کا کردار
اس واقعہ کا خلاصہ ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب "بحار الانوار" صفحہ101 کتاب الفتن میں الاختصاص سے نقل کیا ہے:
عن عبد الله بن سنان، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وجلس أبو بكر مجلس، بعث إلى وكيل فاطمة صلوات الله عليها فأخرجه من فداك.
فأتته فاطمة عليها السلام ۔۔۔۔ فقال: إن النبي (س) لا يورث.
فرجعت إلى علي عليه السلام فأخبرته، فقال: ارجعي إليه وقولي له:
زعمت أن النبي صلى الله عليه وآله لا يورث [وورث سليمان داود] (7)، وورث يحيى زكريا، وكيف لا أرث أنا أبي؟! فقال عمر: أنت معلمة، قالت: وإن كنت معلمة فإنما علمني ابن عمي ۔۔۔۔ قالت: فان فدك إنما هي صدق بها علي رسول الله صلى الله عليه وآله، ولي بذلك بينة.
فقال لها: هلمي ببينتك. قال: فجاءت بأم أيمن وعلي عليه السلام، ۔۔۔۔ثم خرجت وحملها علي على أتان عليه كساء له خمل، فدار بها أربعين صباحا في بيوت المهاجرين والأنصار والحسن والحسين عليهما السلام معها، ۔۔۔ فانتهت إلى معاذ بن جبل فقالت: يا معاذ بن جبل! إني قد جئتك مستنصرة، ۔۔۔۔ قال: قلت: وما يبلغ من نصرتي أنا وحدي، ۔۔۔ ثم انصرفت.
فقال علي عليه السلام لها: ائتي أبا بكر وحده فإنه أرق من الآخر، ۔۔۔۔۔۔، قال: صدقت، قال:
فدعا بكتاب فكتبه لها برد فدك (4).
فخرجت والكتاب معها، فلقيها عمر فقال: يا بنت محمد! ما هذا الكتاب الذي معك؟ فقالت: كتاب كتب لي أبو بكر برد فدك، فقال: هلميه إلي، فأبت أن تدفعه إليه، فرفسها برجله - وكانت عليها السلام حاملة بابن اسمه: المحسن - فأسقطت المحسن من بطنها، ثم لطمها، فكأني أنظر إلى قرط في أذنها حين نقف، ثم أخذ الكتاب فخرقه.
فمضت ومكثت خمسة وسبعين يوما مريضة مما ضربها عمر، ثم قبضت.
(بحار الانوار: صفحہ 189-192)
ترجمہ: عبد اللہ بن سنان حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ سے بیان کرتا ہے کہ جب رسولِ کریمﷺ دنیا سے رخصت ہوۓ اور حضرت ابوبکرؓ ان کے جانشین ہوۓ تو انہوں نے حضرت فاطمہؓ کے وکیل کو فدک سے نکال دیا تو وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس فدک کے مطالبہ کے لیے آئیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حدیثِ رسولﷺ سنائی کہ انبیاءؑ کسی کو وارث نہیں بناتے۔ وہ حضرت علیؓ کے پاس لوٹ گئیں انہیں بتایا۔
حضرت علیؓ نے کہا پھر جاؤ اور کہو کہ آپ کا خیال ہے کہ نبی میراث نہیں چھوڑتے، حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے والد داؤد کے وارث ہوۓ، حضرت یحییٰ علیہ السلام اپنے والد حضرت زکریا علیہ السلام کے وارث ہوۓ، میں اپنے باپ کی وارث کیوں نہیں ہو سکتی۔۔؟ حضرت عمرؓ نے کہا تمہیں پڑھایا گیا ہے۔ حضرت فاطمہؓ نے کہا اگر ایسی بات ہے تو مجھے میرے ابنِ عم علیؓ نے پڑھایا ہے۔ فدک تو رسولِ کریم ﷺنے مجھے دے دیا تھا میرے پاس اس کا ثبوت ہے پھر ام ایمن اور سیدنا علیؓ آۓ۔۔۔۔ پھر آپؓ چلی گئیں، پھر حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کو گدھے پر سوار کیا جس پر ذرا سا کپڑا تھا اور چالیس روز تک مہاجرین و انصار کے دروازوں پر پھرایا اور حسنینؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ آپؓ معاذ بن جبلؓ کے ہاں پہنچیں اور امداد طلب کی، انہوں نے کہا میں اکیلا مدد نہیں کرسکتا۔ آپؓ لوٹیں تو حضرت علیؓ نے کہا کہ ابوبکرؓ کے پاس تنہائی میں جاؤ، وہ دوسرے (عمرؓ) کی نسبت زیادہ رقیق القلب ہے۔ وہ گئیں، بات کی تو ابوبکرؓ نے ان کے حق میں وثیقہ لکھ دیا۔ جب وہ تحریر لے کر واپس آئیں تو راستے میں حضرت عمرؓ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا: اے دخترِ رسولﷺ!! آپؓ کے پاس یہ کیا تحریر ہے؟ کہا: ابوبکر صدیقؓ نے مجھے فدک کی جاگیر لوٹا دی ہے، کہا: ادھر لاؤ مجھے دو. حضرت فاطمہؓ نے دینے سے انکار کر دیا تو عمرؓ نے انہیں ٹھوکر ماری۔ وہ حاملہ تھیں، ان کا اسقاطِ حمل ہو گیا۔ پھر انہیں تھپڑ مارے، پھر وہ وثیقہ لے لیا، پھاڑ ڈالا اور چل دیئے۔ اس واقعہ کے بعد 75 روز تک حضرت فاطمہؓ زندہ رہیں اور اسی مرض میں وفات پا گئیں۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔
واقعہ کی اس تفصیل سے چند اُمور کی وضاحت ہوتی ہے:-
(1) جب حضرت فاطمہؓ کو معلوم ہوا کہ ان کے وکیل کو فدک سے نکال دیا گیا ہے تو وہ مطالبہ لے کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس اکیلی گئیں۔
(2) جب وہاں سے ناکام واپس آئیں تو حضرت علیؓ نے ان کو دلائل بتاکر دوبارہ اکیلے بھیجا اور خود ساتھ نہیں گئے۔
(3) پھر حضرت علیؓ گواہ کی حیثیت سے گئے مگر یہ ظاہر نہیں کہ انہوں نے شہادت کیا دی۔
(4) حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کو گدھے پر سوار کر کے نہایت ذلت آمیز صورت میں 40 دن تک مہاجرین اور انصار کے دروازوں پر پھرایا جب کہ حضرات حسنینؓ بھی ساتھ تھے۔
(5) اس ذلت و رسوائی سے پھرانے کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ مہاجرین و انصار کے سامنے اپنی مظلومیت کا اظہار کر کے ان سے امداد طلب کی جاۓ۔
(6) اس دوران انہوں نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے امداد طلب کی کہ فدک لے دیں۔
(7) واپسی پر پھر حضرت علیؓ نے مشورہ دیا کہ صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس جاؤ۔ اس مرتبہ بھی خود ساتھ نہیں گئے۔
(8) حضرت فاطمہؓ اس مرتبہ گئیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے وثیقہ لکھ دیا۔
(9) حضرت عمرؓ سے سرِ راہ ملاقات ہوئی توانہوں نے وثیقہ چھین کر پھاڑ دیا۔
(10) اسی پر بس نہیں بلکہ حضرت عمرؓ نے حضرت فاطمہؓ کا گریبان پکڑ کر کھینچا، تھپڑ مارا پھر لات ماری جس سے اسقاط حمل ہوگیا۔
(11) واپسی پر حضرت علیؓ کو سب ماجرا سنایا مگر ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔
ان اُمور سے یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں
(1) حضرت علیؓ کو حضرت فاطمہؓ کی عزت کا ذرا بھر خیال نہیں تھا۔
(2) ان کی ذلت سے حضرت علیؓ کا دل پسیجنے کا کوئی نشان نہیں ملتا جس سے ظاہر ہے کہ وہ خوش ہوتے تھے۔
(3) حضرت علیؓ کو حضرت فاطمہؓ کا اتنا بھی خیال نہیں تھا جتنا ایک عام شوہر کو ہوتا ہے اس لیے بار بار انہیں اکیلے ہی بھیجا، خود ساتھ نہ گئے۔
(4) چونکہ شیعہ عقیدے کے مطابق انہیں ماکان وما یکون کا علم تھا اس لیے وہ جانتے تھے کہ اب کی بار حضرت عمرؓ کے ہاتھوں انہیں یہ ذلت اُٹھانا پڑے گی پھر بھی انہیں اکیلے ہی بھیجا، صاف ظاہر ہے کہ انہیں اپنی بیوی کی ذلت و رسوائی سے خوشی ہوتی تھی۔ اگر ایسانہیں تو ماکان ومایکون والی بات بناوٹی ہے۔ ان میں سے ایک صورت لازماً تسلیم کرنی پڑے گی۔
(5) مہاجرین و انصار کی امداد کی کیفیت تو ایک دو دن میں بھی معلوم ہو سکتی تھی اس لیے یہ چلہ پورا کرنے میں انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے علاوہ کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔
(6) شیرِ خدا ہونے کے باوجود اپنی بیوی سے ایک غیر آدمی کا یہ سلوک دیکھ کر ٹس سے مس نہ ہونا عجیب سی بات ہے کہ ایک عام آدمی کی بیوی سے بھی اگر یہ سلوک کیا جائے تو اس کی غیرت و حمیت جوش میں آجاتی ہے، کیا شیعہ روایات کے مطابق شیر خدا میں اتنی غیرت اور حمیت بھی نہ تھی؟
(7) حضرت علیؓ کی حضرت فاطمہؓ سے اتنی بیزاری، ایسی بے رُخی اور اس قدر بیگانگی ان کے باہمی تعلق پر بھی روشنی ڈالتی ہے اور حضرت علیؓ کی شجاعت، مردانگی اور غیرت و حمیت کا بھی ایک بھیانک نقشہ سامنے آتا ہے۔ اہلِ بیت کی محبت کا دم بھرنے والوں نے اہلِ بیت پر کیا ستم ڈھایا ہے!
حضرت علیؓ کے اس کردار کے علاوہ یہاں ایک ضمنی بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تکرار کے بعد سہی لیکن فدک دے تو دیا پھر شیعہ حضرات انہیں اب تک معاف کیوں نہیں کرتے۔ ان کے پے در پے حملے حضرت ابوبکر صدیقؓ پر کیوں ہوتے ہیں؟
اس روایت سے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے قلبی تعلق اور دِلی محبت کا نقشہ تو سامنے آگیا مگر اس خاکے میں جو مزید رنگ بھرا گیا وہ بھی ملاحظہ ہو۔
حضرت فاطمہؓ نے جب حضرت عمرؓ کے ہاتھوں اتنی ذلت اُٹھائی (بقول شیعہ) تو گھر آ کر اپنے محبوب شوہر، شیرِ خدا اور امام برحق، مفترض الطاعة سے خطاب فرمایا:
يا بن أبي طالب، اشتملت شملة الجنين، وقعدت حجرة الظنين
ای پسر طالب خویشیتن را بشملہ در پیچیدی مانند جنین در رحم وروی از خلق نہفتی چوں مردم متہم ۔
(احتجاج طبرسی اور ناسخ التواریخ صفحہ 131۔ 132 جلد 4 از کتاب دوم)
حق الیقین کی عبارت یہ ہے:
مانند جنین در رحم پردہ نشین شدہ و مثل خائباں یا حائضاں در خانہ گریختہ۔
خیال رہے کہ یہ خطاب دین سے نا آشنا بیوی کا اپنے شوہر سے نہیں بلکہ خاتونِ جنت نے شیرِ خدا اور امام مفترض الطاعۃ سے کیا ہے. ان الفاظ میں تلاش کیجیۓ کہ حضرت فاطمہؓ کے دل میں حضرت علیؓ کی شجاعت اور بہادری کا نقشہ کیا تھا، آپؓ کے زہد و تقویٰ کا تصور کیا تھا اور اپنے خاوند سے محبت کتنی تھی۔
جانبین کی سیرت و کردار اور ان کے باہمی تعلقات کا جو نقشہ شیعہ روایات میں کھینچا گیا ہے اس کے متعلق انسان سوچ میں پڑجاتا ہے کہ ایک طرف یہ عقیدہ کہ شیرِ خدا سات زمینوں کو اُٹھانے والا، قلعہ خیبر فتح کرنے والا، باب قلعہ کو اُکھاڑ پھینکنے والاحتیٰ کہ لا فتی الا علیؓ لا سیف الا ذوالفقار
دوسری طرف یہ نقشہ کہ بیوی (جو خاتم الانبیاءﷺ کی لختِ جگر ہے) کی توہین و تذلیل ہوتی ہے بلکہ خود کی جاتی ہے اسے مارا پیٹا جاتا ہے حتیٰ کہ اسقاطِ حمل ہو جاتا ہے مگر نہ خونِ حیدری جوش میں آتا ہے نہ ذوالفقارِ حیدری نیام سے باہر آتی غیرت و حمیت کی ایسی مثال دنیا میں شاید ہی کہیں ملے۔
پھر خاتونِ جنت سے وہ الفاظ منسوب کیے جاتے ہیں کہ اپنے خاوند کو ان الفاظ سے مخاطب کرنا ایک جاہل گنوار اور پھوہڑ بیوی کے متعلق بھی تصور میں نہیں آسکتے۔
ان قابلِ احترام ہستیوں کی سیرت و کردار کا وہ بیان جو حقائق پر مبنی ہے اگر سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روایات میں بیان کردہ تصویر کے دونوں رُخ شیعہ وگوں نے محض زیب داستاں کے لیے وضع کیے ہیں۔ محبت اہلِ بیت کے دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ بیت سے دشمنی کا حق ادا کر دیا۔
یہاں ایک اور عقدہ بھی کھل رہا ہے شیعہ حضرات نے یہ اتہام باندھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ناراض ہو گئیں اور راوی کے اس قول "غضبت فاطمةؓ " کو اس اتہام کی بنیاد بنایا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت ہے کہ حضرت فاطمہؓ کا اپنا قول کہ میں ابوبکر صدیقؓ سے ناراض ہوں آج تک کوئی شیعہ پیش نہیں کرسکا۔ صرف ایک راوی کے اپنے قول اور اپنی راۓ پر لوگوں نے یہ طوفان اُٹھایا ہے۔ اب ذرا ان الفاظ پر غور کیجیے جو حضرت فاطمہؓ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرتے ہوۓ فرمایا۔ ان الفاظ سے پیار جھلک رہا ہے یا غصہ اور ناراضگی۔ پھر یہ الفاظ کسی راوی کے نہیں بلکہ حضرت فاطمہؓ کے اپنے الفاظ ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ تو حضرت فاطمہؓ کی فرضی ناراضگی کی وجہ سے ملزم ٹھہرے تو حضرت فاطمہؓ کی حقیقی ناراضگی کے اظہار سے حضرت علیؓ کی سیرت کو کیسے بچاؤ گے؟
اس اندازِ گفتگو کو حضرت فاطمہؓ کی طرف منسوب کرنا انؓ کی سیرت پر بہت بڑا حملہ ہے اس لیے اس داغ کو دھونے کی خاطر ایک تاویل کی گئی ہے:
بحار الانوار: جلد 29، صفحہ 224 کتاب الفتن اور حق الیقین
فأقول: يمكن أن يجاب عنه: بأن هذه الكلمات صدرت منها عليها السلام لبعض المصالح، ولم تكن واقعا منكرة لما فعله، بل كانت راضية، وإنما كان غرضها أن يتبين للناس قبح أعمالهم وشناعة أفعالهم، وأن سكوته عليه السلام ليس لرضاه بما أتوا به.
ترجمہ: میں کہتا ہوں ممکن ہے ان کی طرف سے یہ جواب دیا جاۓ کہ یہ کلمات کسی مصلحت کے تحت ان کی زبان سے نکلے، حقیقت میں حضرت فاطمہؓ کو حضرت علیؓ کا رویہ نا پسند نہیں تھا بلکہ خوش تھیں ان کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے افعالِ قبیح کا اظہار کریں۔ اور حضرت علیؓ کا خاموش رہنا در حقیقت حضرت فاطمہؓ کے رویہ پر رضامندی کے طور پر تھا۔
حق الیقین کی عبارت یہ ہے:
مٶلف گوید کہ دریں مقام تحقیق بعض از امور ضرور است مادر جواب گوئیم کہ ایں معاوضہ محمول بر مصلحت است از براۓ آنکہ مردم بدانند کہ حضرت امیر ترک خلافت برضاۓ خود نکروہ و بغصب فدک راضی نبودہ
اس سے اونچی بات صاحب ناسخ التواریخ نے بتا دی کہ:
مکشوف باد کہ اسرار اہلِ بیت مستور است از مدرکات امثال ما مردم
خوب سمجھ لیجیۓ کہ اہلِ بیت کے اسرار ہم جیسے لوگوں کی سمجھ سے باہر ہیں۔
پہلی تاویل ایک ایسا معمہ ہے کہ اسے کھولنے بیٹھو تو اور پیچ پڑتے چلے جائیں گے، مثلاً:
(١) حضرت علیؓ ما کان و ما یکون تھے، دوسری مرتبہ حضرت فاطمہؓ کو بھیجتے ہوۓ علم تھا کہ ان کی توہین و تذلیل ہوگی لہٰذا مصلحت یہی ہے کہ خود نہ جاؤ اپنی عزت بچاؤ، دخترِ رسول ﷺ کی بے عزتی ہوتی ہے تو ہونے دو۔
(2) اسی طرح ان کو علم تھا کہ مہاجرین و انصار کوئی مدد نہیں کریں گے پھر بیوی کو مسلسل 40 روز تک دربدر پھراتے رہنے میں کیا مصلحت تھی؟
(3) مہاجرین و انصار کے اعمال قبیحہ کا اظہار مقصود تھا تو گھر کی چار دیواری میں یہ الفاظ کہنے سے اظہار کیسے ہوا کس کے سامنے ہوا۔ اگر صرف حضرت علیؓ کے سامنے اظہار مقصود تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ خود حضرت علیؓ درست اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے یہ کمی پوری کی۔ اور اگر اظہار ہی مقصود تھا تو وہ غرض بھی پوری نہ ہوئی کیونکہ یہ بات توگھر میں کی گئی تھی حضرت فاطمہؓ نے سرِبازار تھوڑا ہی کہا تھا۔
(4) یہ کیسے معلوم ہوا کہ حضرت فاطمہؓ اس معاملے میں حضرت علیؓ کے رویہ سے راضی تھیں ؟ کس کو بتایا ؟ کب بتایا؟ یہ راز کی بات اگر کسی کو بتائی نہیں تو صاحب ناسخ التواریخ نے یہ اجتہاد کس بنا پر کر لیا کہ دراصل وہ راضی تھیں یہ طعنے اور گالیاں محض بناوٹ تھی۔ بہرحال بڑی تلاش کے باوجود حضرت فاطمہؓ کے اس اندازِ گفتگو میں کوئی مصلحت نظر نہیں آتی۔ البتہ ایک پہلو قابلِ غور ہے، اگر اس اندازِ گفتگو سے یہ نہ سمجھا جاۓ کہ حضرت فاطمہؓ حضرت علیؓ سے ناراض تھیں بلکہ یہ تاویل کی جاۓ کہ یہ محض دکھاوا تھا اصل میں دل سے راضی تھیں تو”غضبت فاطمةؓ “ کی یہ تاویل کیوں نہیں کی گئی کہ حضرت فاطمہؓ کا حضرت ابو بکر صدیق سے یہ رویہ محض ظاہری بات تھی اصل میں وہ دل سے راضی تھیں پھر ان دونوں حالتوں میں بہت بڑا فرق ہے ۔”غضبت فاطمہؓ“ راوی کا قیاس ہے اور حضرت علیؓ کے حق میں ناموزوں الفاظ اور ناراضگی کا اظہار خود حضرت فاطمہؓ کی زبانی ہو رہا ہے۔ راوی نے اپنی راۓ کا اظہار کیا تو آپ نے فوراً مان لیا اور حضرت فاطمہؓ خود اپنی زبان سے پکار پکار کر کہہ رہی ہیں تو آپ مانتے نہیں یہ رویہ نظر ثانی کا محتاج ہے۔
میراث کے معاملہ کو طویل اور پہلو دار بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس میں ایک عجیب الجھن نظر آتی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شیعہ مذہب میں ایک اصول بیان ہوا ہے جس سے کسی کے کامل الایمان یا ناقص الایمان ہونے کی شناخت ہو سکتی ہے ۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ علامت مٶمن اور فاسق میں فرق کرتی ہے۔ (اصول کافی:جلد 1، صفحہ 67/ احتجاج طبرسی صفحہ 186/ انوار النعمانیہ صفحہ 270 جلد1)
عن عمر بن حنظلة قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن رجلين من أصحابنا بينهما منازعة في دين أو ميراث فتحاكما إلى السلطان وإلى القضاة أيحل ذلك؟ قال: من تحاكم إليهم في حق أو باطل فإنما تحاكم إلى الطاغوت، وما يحكم له فإنما يأخذ سحتا، وإن كان حقا ثابتا له، لأنه أخذه بحكم الطاغوت، وقد أمر الله أن يكفر به قال الله تعالى: " يريدون أن يتحاكموا إلى الطاغوت وقد أمروا أن يكفروا به "
عمر بن حنظلہ کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے پوچھا کہ دو شیعہ مردوں میں قرض یا میراث کے معاملہ میں جھگڑا ہوجاۓ وہ اپنا دعویٰ بادشاہ یا قاضی کے پاس لے جائیں، کیا یہ جائز ہے؟ امام نے کہا جو شخص حاکم یا قاضی (غیر شیعہ) کے پاس فیصلہ کی غرض سے جاۓ خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر اس کا جانا ایسا ہے جیسے بت یا شیطان کے پاس جانا اس کی ممانعت ہے۔ اور اگر اس فیصلہ کے مطابق وہ شیعہ کوٸی چیز لے گا تو وہ حرام لے گا خواہ وہ اس کا حق ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس نے شیطان کے حکم سے لیا۔ اور خدا کا حکم ہے کہ ان کی نافرمانی کرو۔
یعنی قانون یہ ہے کہ غیر شیعہ حاکم کے پاس اپنا مقدمہ لے جانا ایسا ہے جیسا شیطان کے پاس لے جانا۔ ایسا حاکم اگر اس کے حق میں فیصلہ کر دے تو اس مال سے نفع اٹھانا حرام ہے اور ظاہر ہے کہ جب ایسے حاکم کے پاس مقدمہ لے جانا حرام ہے تو ایسے مال سے نفع اُٹھانا لازماً حرام ہوا اور حرام کا مرتکب فاسق ہے۔
اس اصول کے ماتحت دیکھنا یہ ہے کہ اگر حضرت ابوبکرؓ حاکم برحق نہیں (بقول شیعہ) تو حضرت فاطمہؓ کا ان کے سامنے اپنا مقدمہ لے جانا اور حضرت علیؓ کے مشورہ سے لے جانا ان دونوں کو کس مقام پر لا کھڑا کرتا ہے؟ اس قانون کے تحت ایک نے فعلِ حرام کا ارتکاب کیا اور دوسرے نے ایسے کرنے کا مشورہ دیا اور فعلِ حرام کا مرتکب فاسق ہوتا ہے (نعوذ باللہ من ذلک). اب شیعہ اصول کے تحت ان دونوں حضرات کی حیثیت متعین کیجئے۔
اس اُلجھن سے نکلنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔
1) اگر حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفۂ برحق تسلیم کرو تو حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کامل الایمان قرار پاتے ہیں۔
2) اور حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ برحق تسلیم نہیں کرتے تو ان دونوں حضراتؓ کو فسق کا نشانہ بننے سے بچا نہیں سکتے کیونکہ اصول خود شیعہ ہی نے مقرر کیا ہے۔ عجیب معاملہ ہے کہ ائمہ کی عصمت کے دعویٰ سے سفر کا آغاز کیا اور چند قدم ہی چلے تھے کہ ائمہ کو فسق و فجور کا مرتکب قرار دے دیا۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو کج بینی اور کج رائی سے محفوظ رکھے، آمین!