بدعتی کی امامت
بدعتی کی امامت
سوال: ہمارے محلّہ کی مسجد کے امام بدعتی ہے اور دوسری مسجد جہاں صحیح العقیدہ امام ہے وہ بہت دُور ہے، وہاں جانا مشکل ہے۔ تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ جماعت چھوڑنے پر دل مائل نہیں ہوتا۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر تنہا نماز کا اعادہ کر لیا کرو۔ شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: اگر یقین کے ساتھ اس بات کا علم ہو کہ امام کے عقائد کافرانہ اور مشرکانہ ہیں، وہ بدعقیدہ ہے، تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اور اگر یقین کے ساتھ اس بات کا علم نہ ہو تو پھر اگر دوسری مسجد دُور ہو، اور وہاں پنج وقتہ حاضری دینا مشکل ہو تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لے، تنہا پڑھنے سے ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا بہتر ہے کہ جماعت کی بہت اہمیت ہے۔ ایسے بدعتی شخص کو امام بنانے کی جو خرابی اور کراہت ہے اس کی ذمہ داری، امام اور اس کو مقرر کرنے والوں اور جماعت کرنے والوں پر ہو گی، اور جماعت سے نماز پڑھنے کے بعد اعادہ کی ضرورت نہیں۔
نوٹ: اگر بدعتی کی بدعت اور بد اعتقادی :مفضی الی الکفر: ہو تو پھر اس کی امامت کسی حالت میں بھی جائز نہیں۔
(فتاویٰ رحیمیه جلد 4، صفحہ 190)
فاسق و بدعتی کو امام بنانا ناجائز ہے۔ ایسے امام کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔ بلکہ فاسق کے مقابل بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے میں اعلیٰ درجہ کی کراہت ہے۔
(فتاویٰ رحیمیه جلد 4، صفحہ 197)