فاسق و فاجر اور بدعتی کی امامت کا حکم
سوال: ہمارے یہاں کے امام صاحب فاسق و فاجر ہیں، ان میں دینداری نہیں ہے، خلافِ شریعت اعمال کے مرتکب ہیں۔ تو ان کے پیچھے ہماری نماز صحیح ہے یا نہیں؟ ان کے پیچھے ہم نماز پڑھیں یا نہیں؟ بعض نمازی اسی وجہ سے ان کے پیچھے پڑھنے کیلئے راضی نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے نفرت ہے، پھر بھی متولی اسے معزول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ جو شخص بدعتی ہو اور مشرکانہ عقائد رکھتا ہو، اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟ ایسے شخص کو امام بنا سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: امام کا صحیح العقیدہ اور نماز سے متعلق مسائل سے واقف ہونا صحیح قراءت پڑھنے والا دیندار اور ظاہری گناہوں اور برائیوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔
فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ فاسق وہ ہے جو کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو یا صغیرہ گناہوں کا عادی ہو۔ لہٰذا فاسق فاجر کو امام بنانا گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ہیں لا يؤم فاجر مؤمنا فاجر شخص کسی مؤمن کی امامت نہ کرے۔ اور کبیری میں ہیں لو قد موا فاسقاً یأثمون اگر فاسق کو امام بنائیں گے تو گنہگار ہوں گے۔ اس لئے کہ فاسق اپنے دین کا ہی اہتمام نہیں کرتا (تو نماز جیسی عظیم الشان عبادت کے متعلق اس کا اعتبار کیونکر ہو) نیز اسے امامت کا منصب دینے میں اس کی تعظیم لازم آتی ہے، حالانکہ شریعت میں اس کی اہانت (تذلیل) واجب ہے۔ لہٰذا مخالفِ شریعت، واجب الاهانت امام کو معزول کر دینا ضروری ہے۔
ابو داؤد شریف میں ہے کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کی امامت کی، اسے تھوک آیا تو قبلہ کی جانب تھوک دیا، آنحضرتﷺ یہ دیکھ رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہو گیا تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں سے حضور اقدسﷺ نے فرما دیا کہ یہ شخص آئندہ تمہاری امامت نہ کرے۔ اس کے بعد اس شخص نے نماز پڑھانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اسے روک دیا اور بتا دیا کہ حضور اقدسﷺ نے اس کے متعلق یہ ارشاد فرمایا ہے۔ یہ شخص حضور اقدسﷺ کی خدمت میں آیا اور اس واقعہ کا تذکرہ کیا حضور اقدسﷺ نے فرمایا کہ ہاں میں نے کہا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ حضور اقدسﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ کو اذیت پہنچائی تھی۔
احادیث مذکورہ سے ثابت ہوتا ہے کہ فاسق شخص امامت کے لائق نہیں، اس کی اقتداء میں نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسے امام کو بغیر تاخیر کے معزول کر دینا لازم ہے۔ اگر معزول نہ کیا جائے تو آپ دوسری مسجد میں چلے جائیں، اگر دوسری مسجد نہ ہو تو مجبوراً اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں، کہ تنہا نماز پڑھنے سے ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا اولیٰ ہے۔ اور مجبوری کی حالت میں کراہت لازم نہیں آئے گی۔ ساری ذمہ داری امام اور اس کے متعین کرنے والے اور اسے برداشت کرنے والوں پر ہو گی۔ بدعتی امام کا بھی یہی حکم ہے۔
حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ میں اور سیدنا ابنِ عمرؓ ایک مسجد میں گئے، وہاں ظہر کی اذان ہو چکی تھی، نمازیوں کا انتظار تھا کہ مؤذن نے تثویب کہی۔ یعنی الصلاة الصلوة: پکارا، تا کہ نمازی آجائیں۔ سیدنا ابنِ عمرؓ نے فوراً فرمایا کہ ہمیں اس بدعتی کے پاس سے نکالو۔ چنانچہ سیدنا ابنِ عمرؓ اس مسجد سے چلے گئے، وہاں نماز نہیں پڑھی۔
نوٹ: اگر بدعتی کی بدعت اور بد اعتقادی مفضی الی الکفر ہو تو پھر اس کی امامت کسی حالت میں بھی جائز نہیں۔
(فتاویٰ رحیمیہ: جلد، 4 صفحہ، 170)