Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مسئلہ امامت کے متعلق شیعی عقائد

  علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَكَفَى وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى أَمَّا بَعْدُ

شیعہ سنی اختلاف کی سب سے بڑی بنیاد مسئلہ امامت پر ہے۔ اہلسنت کے نزدیک ہر وہ شخص جو خدا اور رسول اللّٰہﷺ کے فرمودات کے مطابق زندگی گزارتا ہوا، دین حقہ کی خدمت میں ہر وقت کوشاں رہے اسے امام کہا جا سکتا ہے۔ بلکہ جو شخص کسی بھی قوم و ملت کا رہبر اور راہنما ہو وہ اس قوم و ملت کا امام ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں عبادالرحمٰن کے اوصاف میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ نیکوکار اور صالحین ہر وقت دعا مانگتے ہیں وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (اے اللّٰہ ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا) اہل سنت کے نزدیک امامت نہ چار میں بند ہے، نہ بارہ میں اور نہ بارہ سو میں۔ اس کے بر خلاف شیعوں کے عقائد و نظریات جو امامت کے متعلق ہیں ان سے چند ایک پیش کیے جاتے ہیں۔ جنہیں پڑھ کر ایک عقلمند آدمی خود اندازہ کرے گا۔ کہ شیعہ سنی نظریات میں کتنا بُعد ہے، اور ان روایات میں حقیقت اور سچائی کس حد تک ہے اور مفروضہ چیزوں کو کتنا داخل کیا گیا ہے۔

مسئلہ امامت کے متعلق شیعی عقائد

پہلا عقیدہ

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت اصول دین میں سے ہے، جس طرح توحید و رسالت اور قیامت پر ایمان لانا فرض ہے۔ اسی طرح امام کی امامت کو ماننا بھی فرض ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اصول دین تین ہیں۔ توحید، رسالت، قیامت اور شیعوں کے نزدیک اصول دین پانچ ہیں، توحید، رسالت، امامت، قیامت اور عدل۔ جب شیعوں سے سوال کیا جائے کہ اگر امامت بھی اصول دین سے ہوتی تو توحید و رسالت اور قیامت کی طرح اس کا ذکر بھی صاف صاف لفظوں میں قرآن پاک میں ہونا چاہئے تھا۔ آج کل کے شیعہ تو اس کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکتے۔ البتہ متقدمین شیعہ مصنفین نے دو جواب دیے ہیں:

جواب اول

شیعہ کی معتبر کتاب فصل الخطاب صفحہ 216 طبع ایران میں ہے؛

لو ترك القرآن كما انزل لالفيتنا فيه مسميين

(امام جعفر صادق کا فرمان ہے) اگر قرآن اسی طرح چھوڑا جاتا جیسے نازل کیا گیا تھا۔ تو اے مخاطب تو ہمیں اس میں نام بنام پاتا۔

نیز تفسیر صافی صفحہ 25 تحت مقدمہ سادسہ میں ہے؛

لولا زيد في القرآن ونقص ما خفي حقنا على ذی حجیٰ

(امام باقر کا فرمان ہے) اگر قرآن میں بڑھایا اور گھٹایا نہ گیا ہوتا تو ہم (ائمہ) لوگوں کا حق کسی ذی عقل پر پوشیدہ نہ ہوتا۔

متقدمین شیعوں نے تو یہ جواب دے دیا کہ قرآن پاک سے صحابہ کرامؓ نے خصوصاً خلفاء ثلٰثہؓ نے ائمہ اثناءعشریہ کے نام نکال دیئے۔ حالانکہ ائمہ کے نام اصل قرآن میں موجود تھے۔ فلہذا امامت پر عقیدہ رکھنا فرض ہے۔ گویا یہ قرآن پُورا نہیں ہے بلکہ اس میں کمی زیادتی کی گئی ہے۔

دُوسرا جواب

دوسرا جواب متقدمین شیعہ نے یہ دیا کہ امامت ایک خفیہ راز ہے، بھلا قرآن پاک میں صاف لفظوں میں کیسے آسکتا تھا، اتنا خفیہ کہ خدا تعالیٰ نے تمام ملائکہ میں سے صرف حضرت جبریل علیہ السلام کو بتایا اور جبریل علیہ السلام نے نبیﷺ کو بتایا نبیﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت علیؓ نے صرف امام حسینؓ کو اطلاع دی۔

چنانچہ اصول کافی طبع نولکشور صفحہ487 پر ہے:

باب الکتمان

قال ابوجعفر عليه السلام ولايةاللّٰه اسرها إلى جبرئيل عليه السلام واسرها جبرئيل إلى محمدﷺ واسرها محمد رسول اللّٰہﷺ إلى علیؓ واسرها علی علیہ السلام الى من شاء ثم انتم تذيعون ذالک

امام باقر نے فرمایا امامت بطور راز کے اللّٰہ تعالیٰ نے جبرئیل کو بتائی، جبرئیل نے رسول خداﷺ کو رسول خداﷺ نے حضرت علیؓ کو حضرت علیؓ نے جس کو چاہا۔ اور اب تم لوگ اس کو مشہور کیے دیتے ہو۔

اسی اصول کافی کے صفحہ 184 پر ہے کہ حضرت علیؓ نے یہ راز حضرت امام حسنؓ کو بتا دیا۔ ملاحظہ ہو۔

عن ابى جعفر قال ان امير المومنينؓ لما حضرة الذي ما حضرة قال لابنه الحسنؓ ادن الى حتى اسر اليك ماأسر إلى رسول اللّٰہﷺ

امام جعفر رحمہ اللّٰہ نے فرمایا کہ حضرت علیؓ کی جب موت کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹے حسنؓ کو فرمایا قریب ہو جا تاکہ میں تجھے وہ راز بتا دوں جو رسول خداﷺ نے مجھے بتایا تھا۔

اس قسم کی روایات شیعی کتب سے بکثرت ملتی ہیں۔ کیا امامت کوئی ایسی راز کی بات تھی جس کو چھپایا گیا۔ اب ہم سوال کرتے ہیں کہ جب یہ امامت اتنی راز کی بات تھی جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے ملائکہ سے بھی پوشیدہ رکھا تو بقول آپ کے غدیر خم پر رسول خداﷺ نے کس چیز کا اعلان فرمایا تھا۔ متقدمین شیعوں نے تو قرآن پاک کو محرف مان کر اس اعتراض سے جان چھڑالی مگر متاخرین شیعہ اگر قرآن پاک کے غیر محفوظ ہونے کا اعلان کریں تو ان کے مذہب کی قلعی کھل جاتی ہے اور حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے۔ اس لیے آیات کو توڑ موڑ کر روایات ضعیفہ کے پیوند لگا کر اپنے اس زعم باطل کو پختہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اصول دین صریح اور قطعی آیات سے ثابت ہونے چاہئیں۔ جیسے دوسرے پارے کے رکوع پانچ میں ہے۔

وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ

لیکن بھلائی اس کو ہے جو ایمان لایا اللّٰہ پر، اور آخرت کے دن پر، اور ملائکہ پر اور اللّٰہ کی کتاب پر اور نبیوں پر ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

من كفر باللّٰه وملائكته وكتبه ورسلم واليوم الآخر

جس شخص نے کفر کیا ساتھ اللّٰہ کے اور ملائکہ کے اور کتابوں کے اور رسولوں کے اور آخرت کے دن کے۔

اگر امامت بھی اصول دین سے ہوتی تو ضرور بر ضرور جہاں ایمان باللّٰہ اور ایمان بالرسول کا ذکر تھا وہاں ایمان بالامامت کا بھی ذکر ہوتا۔ اور جہاں کفر کا ذکر تھا وہاں کفر بالامامت کا بھی ذکر ہوتا۔

نیز قرآن پاک میں اکثر مقامات پر اطیعوا اللّٰه وَالرَّسُولَ ہی آیا ہے۔ سارے قرآن میں اطیعوا الامام کہیں نہیں آیا۔ نیز ایک مقام پر قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے:

مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ

جس شخص نے اطلاعت کی اللّٰہ کی اور اُس کے رسول ﷺ کی تو اُسے اللّٰہ تعالیٰ جنت میں داخل کریں گے۔ جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔

دخولِ جنت کا مدار اللّٰہ اور رسولﷺ کی اطاعت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اطاعت امام کو دخولِ جنت کا مدار نہیں بنایا گیا۔ نیز میدان محشر میں الم يَاتِكُمُ رُسُلٌ مِنْكُمْ کے فقرے سے سوال کیا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس رسول تم میں سے آئے تھے یا نہیں۔؟ امامت کے متعلق سوال نہیں ہو گا۔

مذکورہ بالا قرآنی آیات سے ثابت ہوا کہ مؤمن بننے کے لیے ایمان باللّٰہ و ایمان بالرسول ہی کافی ہے۔ امامت کے ساتھ ایمان ضروری نہیں۔

دوسرا یہ ثابت ہوا کہ جس اطاعت کو دخول جنت کا سبب بنایا گیا ہے وہ اطاعت صرف اللّٰہ اور رسولﷺ کی ہی ہے۔ امام کی اطاعت کا وہاں ذکر نہیں۔

تیسرا یہ ثابت ہوا کہ قیامت کے دن سوال ایمان باللّٰہ و بالرسول سے ہی ہو گا۔ امام کی امامت کے متعلق سوال نہیں ہو گا۔ البتہ ملکی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے اُولی الامر (یعنی مسلمانوں کے حاکم) کی اطاعت اور ملکی قانون کا احترام بھی ضروری ہے، بشرطیکہ خلافِ شرع نہ ہو.

دوسر ا عقیده

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ کسی وقت بھی دنیا امام کے وجود سے خالی نہیں ہو سکتی رسول خدا ﷺ کے بعد قیامت تک ہر ہر زمانے کے لیے ایک ایک امام کا تقرر ہو چکا ہے۔ جن کی تعداد کُل بارہ ہے۔ بارہویں امام کے خاتمے پر دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ان بارہ اماموں کے نام یہ ہیں :

(1) حضرت علیؓ

(2) حضرت حسنؓ

(3) حضرت حسینؓ

(4) حضرت زین العابدین رحمہ اللّٰہ

(5) حضرت محمد باقر رحم اللّٰہ

(6) حضرت محمد جعفر رحمہ اللّٰہ

(7) حضرت موسیٰ کاظم رحمہ اللّٰہ

(8) حضرت موسیٰ رضا رحمہ اللّٰہ

(9) حضرت محمد تقی رحمہ اللّٰہ

(10) حضرت علی نقی رحمہ اللّٰہ

(11) حضرت حسن عسکری رحمہ اللّٰہ

(12) حضرت مہدی

اہل سنت کہتے ہیں کہ ہر زمانے کے لیے امام اور امیر کی ضرورت ہے لیکن محض اس لیے کہ انتظامی اور سیاسی امور اور ملکی نظام برقرار رہے مگر ان کی تعدا کسی خاص عدد میں بند نہیں ہے۔

تیسرا عقیده

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ اماموں کے پاس قرآن وحدیث کے علاوہ اور بھی بہت سے علوم کے وسائل ہوتے ہیں۔ ازاں جملہ یہ کہ اماموں کے پاس مصحف فاطمہؓ، کتاب علیؓ اور چمڑے کا ایک بہت بڑا تھیلا ہوتا ہے جس میں تمام اولین و آخرین کے علوم بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور فرشتے بھی ان کے پاس آتے ہیں اور ہر جمعرات انہیں معراج ہوتی ہے۔ اور ہر شب قدر میں انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کتاب ملتی ہے۔ جس میں سال بھر کے احکام لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔

چنانچہ اصول کافی طبع نولکشور صفحہ146 پر ایک مستقل باب ہے، جس کا عنوان یہ ہے۔ باب فيه ذكر الصحيفة والجفر والجامعہ ومصحف فاطمہؓ اس باب میں سب سے پہلی روایت ابو بصیر صاحب کی ہے کہ میں ایک دن امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس گیا اور کہا کہ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ یہاں کوئی غیر آدمی بھی نہیں ہے تو بطور راز امام صاحب نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ چنانچہ اس طویل روایت کے چند فقرے یہ ہیں:

ثم قال ابومحمد وان عندناالجامعة وما يدريهم ماالجامعه قال قلت جعلت فداك وماالجامعة قال صحيفة طولها سبعون ذراعا بذراع رسول اللّٰہﷺ واملا به من فلق فيه خط علیؓ بيمينه فيها كل حرام و حلال وكل شيئ يحتاج اليه الناس حتى الارش في الخدش وضرب به فقال لى تاذن یا ابامحمد قال قلت شئت قال تغمزنی بیدہ وقال حتى ارش هذا كانة مغضب قال وان عندنا جفر وما يدريهم ماالجفر قال قلت ماالجفر قال وعاء من ادم فيه علم النبيين والوصيين وعلم العلماء الذين مضوا من بني اسرائیل ثم قال وعندناالمصحف فاطمہؓ وما يدريهم ماالمصحف فاطمہؓ قال مصحف فيه مثل قرآنكم هذا ثلث مرات واللّٰہ ما فيه من قراٰنکم حرف واحد

پھر امام نے فرمایا اے ابو محمد ہمارے پاس ایک جامعہ ہے اور لوگوں کو کیا معلوم جامعہ کیا چیز ہے۔ ابو محمد کہتے ہیں کہ میں آپ پر فدا ہوں، جامعہ کیا چیز ہے۔؟ آپ نے فرمایا جامعہ ایک کتاب ہے جس کا طول ستر ہاتھ ہے۔ رسول خداﷺ کے ہاتھ سے، رسول ﷺ کے اپنے منہ بولی ہوئی اور علیؓ کے داہنے ہاتھ کی لکھی ہوئی باتیں اس میں ہیں۔ یہاں تک کہ زخم سے چھل جانے کی دیت بھی اس میں ہے۔ پھر امام نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے مجھے فرمایا اے ابو محمد کیا تم اجازت دیتے ہو میں نے کہا میں آپ پر فدا ہو جاؤں میں تو آپ ہی کا ہوں، آپ جو چاہیں کریں پھر آپ نے گویا کہ غصہ کی حالت میں اپنے ہاتھ سے مجھے دبایا اور فرمایا ہاں اس کی دیت بھی۔ پھر امام نے فرمایا ہمارے پاس جفر بھی ہے اور لوگوں کو کیا معلوم جفر کیا ہے ۔ میں نے کہا جفر کیا چیز ہے؟ امام نے فرمایا وہ چمڑے کا تھیلا ہے جس میں نبیوں اور وصیوں کا علم ہے اور جو علماء بنی اسرائیل میں گزرے ہیں ان سب کا علم اس میں ہے۔ پھر امام نے فرمایا ہمارے پاس مصحف فاطمہؓ ہے اور لوگوں کو کیا معلوم کہ مصحف فاطمہؓ کیا چیز ہے فرمایا وہ مصحف ہے تو تمہارے اس قرآن سے تین گنا زیادہ اور اللّٰہ کی قسم تمہارے اس قرآن کا ایک حرف بھی اس میں نہیں ہے۔

اس روایت میں کتاب علیؓ، چمڑے کا تھیلا اور مصحف فاطمہؓ کا ذکر آپ نے پڑھ لیا اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ستر گز لمبا قرآن حضرت علیؓ کا اب امام مہدی کے پاس موجود ہے تو اس کے رکھنے کے لیے رحل بھی اتنی بڑی ہی بنوائی ہوئی ہوگی اور پھر رحل اور قرآن رکھنے کے لیے جگہ بھی اتنی ہی ہوگی واللّٰہ اعلم. سرمن رائی والی مختصر ہی غار ہر چیز کو کیسے برداشت کرتی ہوگی۔

باقی رہا فرشتوں کی آمد و رفت ائمہ کی طرف ہوتی ہے۔ تو اس کے لیے اصول کافی135 ملاحظہ فرما ہے :

يا حيثمة نحن شجرة النبوت و بيت الرحمة ومفاتيح الحكمة و معدن العلم و موضع الرسالۃ و مختلف الملائکۃ

امام جعفر نے فرمایا اے حیثمہ ہم لوگ نبوت کے درخت، رحمت کے گھر، حکمت کی کنجیاں اور علم کے معدن ہیں۔ اور فرشتوں کی آمد ورفت ہمارے یہاں ہے۔

چوتھا عقیدہ

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ نبوت کی طرح امام کا تقرر بھی من جانب اللّٰه ہوتا ہے۔ پہلا امام حضرت علیؓ ہے، اور آخری بارہواں امام مہدی ہے۔ امام مہدی کے خاتمہ پر دنیا کا خاتمہ ہے۔ جب امام مہدی صاحب غار سے برآمد ہوں گے تو پہلے پہل رسول خداﷺ کو زندہ کریں گے۔ اور رسول پاکﷺ امام مہدی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے۔ نعوذ باللّٰہ۔ اور ظہور مہدی کے وقت ان کی حالت یہ ہوگی۔

ملاحظہ ہو کتاب بصائر الدرجات صفحہ 213

ويكون جبريل امامہ وميكائيل عن يمينه و اسرافيل عن يساره والملائكة المقربون حذاءہ و اول من بايعه محمد رسول اللّٰہﷺ

ظہور مہدی کے وقت جبریل علیہ السلام ان کے آگے ہوں گے میکائیل دائیں جانب اسرافیل بائیں جانب مقرب فرشتے ساتھ ہوں گے۔ سب سے پہلے رسول اللّٰہﷺ مہدی کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔

نیز ملاحظہ ہو حق الیقین۔

اول کے کہ با او بیعت اوکند محمد مصطفیٰﷺ باشند

یعنی پہلا شخص مہدی کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا محمد مصطفیٰﷺ ہوں گے۔

ظاہر ہے جس فرقے کا عقیدہ سید الانبیاء، رحمةللعالمين، محبوب رب العالمين، رسول مقبولﷺ کے بارے میں یہ ہو، اس کے مسلمان ہونے کے دعویٰ کی حقیقت کیا ہو سکتی ہے۔

پانچواں عقیده

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ائمہ کے پاس تمام آسمانی کتابیں غیر محرف اپنی اصل حالت میں موجود ہوتی ہیں۔ ائمہ ان تمام کتب سماوی کے عالم ہوتے ہیں۔ اور نازل شدہ کتب کو امام اسی زبان میں پڑھتے ہیں جس زبان میں وہ نازل ہوئی تھیں مثلاً سریانی اور عبرانی زبان میں۔

ملاحظہ ہو اصول کافی صفحہ 137 پر طویل روایت ہے جس کا کچھ حصہ مندرجہ ذیل ہے :

وان عندنا علم التوراة والانجيل والزبور وتبيان ما في الالواح

امام جعفر صادق رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ ہمارے ائمہ کے نزدیک تورات، انجیل اور زبور کا علم موجود ہے اور جو کچھ تختیوں میں ہے وہ بھی ہمارے پاس موجود ہے۔

نوٹ

کبھی شیعہ حضرات حضرت فاروق اعظمؓ نے پر اعتراض کرتے ہیں۔ کہ اسے تورات کے ساتھ بڑا شغف تھا جب کہ رسول خداﷺ نے حضرت عمرؓ کو روک دیا تھا، اب فرمائیں کہ فاروق اعظمؓ تو ایک دفعہ تورات کو صرف دیکھ لیں اور رسول پاکﷺ کے منع کرنے پر اس کے اوراق کو ہی پھاڑ ڈالیں تب بھی آپ کے اعتراض کے مورد بن جائیں۔ اب فرمائیں بقول آپ کے آپ کے ائمہ کا کیا حال ہو گا۔ جن کو تورات، زبور، انجیل صحف ابراہیم اور باقی صحف کا علم بھی ازبر تھا۔

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

چھٹا عقیدہ

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ائمہ کو اسم اعظم یاد ہوتا ہے اور اس کے بہتر خروف ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیر آصف کو صرف ایک حرف یاد تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دو حرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چار اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آٹھ، حضرت نوح علیہ السلام کو پندرہ اور حضرت آدم علیہ السلام کو پچیس حروف یاد تھے۔ (جن کو بوقت ضرورت وہ استعمال کرتے تھے) مگر ائمہ اثناءعشریہ کو وہ بہتر کے بہتر حروف یاد ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عصائے موسیٰ، انگشتری سلیمان علیہ السلام بھی ائمہ کے پاس ہوتی ہے۔

ملاحظہ ہو اصول کافی صفحہ 140

سمعت ابا عبد اللّٰہ علیه السلام ان عيسى بن مريم اعطی حرفين كان يعمل بهما و اعطى موسى أربعة احرف واعطى ابراهيم ثمانية احرف وا على نوح خمسةعشر حرفا و اعطی آدم خمسةوعشرين حرفا -

راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر سے سنا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو (اسم اعظم) دو حرف دیے گئے جن کے ذریعے وہ عمل کرتے تھے۔ اور موسیٰ علیہ السلام کو چار، ابراہیم علیہ السلام کو آٹھ نوح علیہ السلام کر پندرہ اور آدم علیہ السلام کو پچیس حروف عطا کیے گئے تھے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انبیاء نے اپنے اپنے وقت میں ایک ایک، دو دو اور چار چار حرفوں کو پڑھ کر ساری زندگی باطل کا مقابلہ کیا اور کامیابی وکامرانی انہیں حاصل ہوتی رہی۔ واللہ اعلم۔ بارہ اماموں نے ان بہتر حرفوں کو کیوں نہ پڑھا۔ جبکہ ان سے خلافت چھینی گئی، مصلے، محراب وغیرہ پر غیروں نے قبضہ کرلیا، فدک کی جاگیر ہاتھ سے جاتی رہی ساری زندگی تقیہ کی آڑ میں چھپ چھپا کر زندگی گزاری۔ آخر اسم اعظم کے بہتر حروف کس لیے یاد کیے تھے؟

ساتواں عقیدہ

شیعوں کے نزدیک ائمہ "عالم ماکان و ما یکون" ہوتے ہیں۔ یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو قیامت تک اور قیامت کے بعد بھی ہوگا سب چیزوں کا علم اماموں کو ہوتا ہے ۔

جیسے اصول کافی صفحہ 159 پر مستقل باب باندھا گیا ہے :

باب ان الائمة يعلمون ما كان وعلم ما يكون

اس باب کے تحت روایات کثیرہ ہیں، بطور نمونہ ایک روایت پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

ملاحظہ ہو اصول کافی صفحہ 160

سمعوا ابا عبد اللّٰہ علیه السلام يقول اني لا علم مافي السموت ومافي الأرض واعلم ما في الجنة واعلم مافي النار واعلم ما كان وما یکون

راوی کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر علیہ السلام سے سنا ہے کہ فرمایا امام نے جو کچھ بھی آسمانوں اور زمینوں میں ہوتا ہے میں سب جانتا ہوں اور جو کچھ جنت یا جہنم میں ہے جانتا ہوں، اور جو کچھ ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے، سب جانتا ہوں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر امام تمام علوم جانتے ہیں اور جو کچھ ہو چکا ہے، یا ہونے والا ہے سب جانتے ہیں تو یقیناً امام حسینؓ کو کربلا میں ہونے والے واقعات کا علم بھی پہلے سے ہو گا۔ تو انہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے کربلا کا سفر کیا اور مصائب و آلام کو عمداً اختیار کیا تو اس سلسلے میں رونے رولانے کی ضرورت نہیں ہے۔

آٹھواں عقیده

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام ہر شخص کو دیکھ کر پہچان لیتا ہے کہ یہ جنتی ہے یا دوزخی، منافق ہے یا مسلمان، شیعہ ہے یا سنی۔ اگر ان سے کوئی مسئلہ پوچھے تو دوزخیوں کو وہ مسئلہ بتاتے ہیں جس پر عمل کر کے وہ دوزخ میں جاتا ہے۔ اور بہشتیوں کو وہ مسئلہ بتاتے ہیں جس پر عمل کرنے سے وہ بہشت میں جاتا ہے۔

ملاحظہ ہو اصول کافی صفحہ 277:

ليس يسمع شيئا من الأمر ينطق به الاعرفة ناج او هالك فذالك يجيبهم بالذي يجيبهم

امام جب کسی چیز کو کہ جب بولی جاوے سنتا ہے تو پہچان لیتا ہے کہ وہ بولنے والا جنتی ہے یا دوزخی اس لیے ان کو جواب بھی ایسا ہی دیتا ہے۔

نوٹ:

یہ عجب معمہ ہے، حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ روذخی شخص کو امام ایسے کلمات کی تلقین کرتے جن پر عمل پیرا ہو کر وہ گناہوں سے تائب ہو جاتا۔ اور نیک اعمال کر کے جنت کا مستحق بھی جاتا۔ اگر امام نے دوزخی شخص کو دوزخ میں لے جانے والے مسائل ہی بیان کرنے ہیں اور امام مفترض الطاعۃ ہوتا ہے تو بھلا اس سے بیچارے اس شخص کا کیا قصور ہو گا۔؟

نواں عقیدہ

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ہر امام کو اپنی موت کا علم ہوتا ہے۔ اور اپنے اختیار سے مرتا ہے۔ اگر خود نہ مرنا چاہے تو خدا نہیں مار سکتا۔ اور نا ہی کوئی امام کی مرضی کے بغیر کی اُسے قتل کر سکتا ہے۔ چنانچہ اصول کافی صفحہ 158 پر ایک مستقل باب باندھا گیا ہے۔

باب انهم يعلمون متى يموتون وانهم لا يوتون الا باختیار هم

یعنی امام جانتے ہیں کہ کب مریں گے اور وہ اپنے اختیار سے مرتے ہیں۔

مگر اہل سنت ان تمام مزعومات کی تکذیب کرتے ہیں۔ کیونکہ واقعات اس قسم کے عقائد کو جھٹلاتے ہیں۔

الف)_ اگر ائمہ کو اپنی موت وحیات کا علم ہوتا ہے تو ساری زندگی ائمہ نے تقیہ کے لباس میں کیوں گزار دی۔؟

ب)_ اگر یہ عقیدہ ٹھیک ہے تو امام حسینؓ کو رونے پیٹنے کا کا مطلب ؟ جب موت امام کے اختیار میں تھی اور جب انہیں علم تھا کہ میدان کربلا میں عبید اللّٰہ بن زیاد کی فوج نے ہمیں شہید کر دینا ہے تو عورتوں اور بچوں کو مدینۃالرسول سے ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی ؟

ج)_ جب حضرت علیؓ کو ان واقعات کا علم تھا کہ میں خلافت حضرت حسنؓ کو دے رہا ہوں، حضرت حسنؓ حضرت امیر معاویہؓ کو دیں گے، امیر معاویہؓ یزید کو دے دیں گے، اور یزید میرے بیٹے حضرت حسینؓ کو شہید کروادے گا تو ابتداء ہی میں یہ کام نہ کرتے۔ اس قسم کے عقائد رکھنے سے یہ اشکالات سامنے آتے ہیں۔

دسواں عقیده

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام منصوص من اللّٰه ہوتا ہے اور ہر ایک امام پر ایک لفافہ سر بمہر خدا تعالیٰ کی طرف سے اترتا ہے اور ہر امام اس لفافے کو کھولتا ہے، اور جو اس میں لکھا ہوا ہوتا ہے اس پر عمل کرتا ہے۔

ان الوصية تنزلت من السمآء كتابا لم ينزل على محمدﷺ كتاب مختوم الا الوصية۔

تحقیق وصیت آسمان سے لکھی ہوئی رسول اکرمﷺ پر کوئی تحریر سر بمہر سوائے وصیت ائمہ نازل نہیں ہوئی تھی۔

گیارھواں عقیدہ

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ہر امام کے پاس ایک رجسٹر ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے انہیں ملتا ہے۔ جس میں ان کے شیعوں کے نام بمعہ ولدیت لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ شیعہ جس جگہ کا بھی ہو۔ امام کو ان کا علم ہوتا ہے۔ چنانچہ اصول کافی صفحہ 136 پر امام رضا سے منقول ہے:

وان شيعتنا لمكتوبون باسمائهم واسماء آباء هم

تحقیق ہمارے شیعہ لکھے ہوتے ہیں اپنے ناموں کے ساتھ اور اپنے باپوں کے ناموں کے ساتھ۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت حسینؓ نے شیعانِ کوفہ کے نام رجسٹر سے دیکھ کر کوفہ کا سفر اختیار کیا تھا۔ ورنہ غیر شیعہ کے خطوط پر امام کب اعتبار کر سکتے ہیں۔ لہذا کوفہ سے خطوط لکھ کر حضرت حسینؓ کو بلانے والے وہی لوگ تھے جنہیں حضرت حسینؓ پہلے سے جانتے تھے پھر انہوں نے ہی دھوکہ کیا۔

بارھواں عقیدہ

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ہر امام پر اللّٰه تعالیٰ نے ظالم بادشاہ کی بیعت کرنی لازم کردی ہے سوائے امام مہدی صاحب کے۔

چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب احتجاج طبرسی طبع ایران صفحہ 150 پر ملاحظہ ہو:

اما علمتہ مامنا أحد الا ويقع في عنقه بيعة لطاغية زمانه الا القائم يصلى وخلفه روح اللّٰه

کیا تجھ کو علم نہیں کہ ہم (ائمہ) میں سے کوئی نہیں مگر اس کی گردن میں امام زمانہ کے ظالم بادشاہ کی بیعت ہوتی ہے. مگر امام مہدی صاحب جس کے پیچھے حضرت عیسیٰ روح اللّٰہ نماز پڑھیں گے۔

بعینہ اسی روایت عربی کا ترجمہ فارسی زبان میں منتہی الآمال جلد 1 صفحہ 278 پر موجود ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ جب ہر امام بادشاہ ظالم کی اطاعت میں رہا تو پھر امام کیسا؟ وہ چمڑے کا تھیلا، اسم اعظم، عصائے موسیٰ اور انگشتری سلیمانی کس کام آئیں گے؟۔

تیرہواں عقیدہ

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی عمر ایک لاکھ سال ہے۔ جنات سے لے کر تمام دنیا نے بیس ہزار سال حکومت کرنی ہے اور اَسّی ہزار سال امام مہدی صاحب نے حکومت کرنی ہے اس وقت ان اسی ہزار سالوں میں ساری دنیا پر شیعہ ہی شیعہ ہوں گے۔ امام مہدی نے تمام مردہ لوگوں کو زندہ کرنا ہے۔ سنیوں سے اور خلفائے ثلاثہ سے خوب انتقام لینا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ملاحظہ ہو حق الیقین علامہ مجلسی مقصد آٹھواں۔

میرے سنی اور شیعہ بھائیو ! حق بات یہ ہے کہ نہ امام مہدی ابھی پیدا ہوا ہے نہ ہی سر من رائی میں کوئی غار ہے۔ نہ ہی چمڑے کا تھیلا ہے اور نہ ہی ان فرضی کہانیوں کا کوئی وجود ہے۔ یہ عقل و نقل کے خلاف ہیں۔ یہ سب سبائی کمیٹی کے ممبروں کی بنائی ہوئی کہانیاں ہیں جن کا ثبوت نہ قرآن سے ملتا ہے نہ حدیث سے۔ خدا تعالیٰ ان فرضی قصوں سے بچائے۔آمین۔

چودھواں عقیدہ

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی اس وقت دنیا میں ظاہر ہوں گے جب ساری دنیا میں تین سو تیرہ پکے سچے شیعہ موجود ہوئے اور ایسے شیعہ جو کامل مومن، مخلص، مشرق سے مغرب تک، جنوب سے شمال تک، جب بیک وقت ان کی تعداد تین سو تیرہ ہو جائے گی اسی وقت امام مہدی صاحب غار سے باہر آجائیں گے۔

ملاحظہ کو شیعہ کی معتبر کتاب احتجاج طبرسی صفحہ 123 طبع ایران

يجتمع اليه من اصحابه عدة اهل بدر ثالث مائة وثلث عشرۃ رجلا من اقاصی الأرض ان قال فاذا اجتمعت له هذه العدة من اھل الاخلاص اظھر اللّٰہ امرہ۔

ان کے پاس ان کے اصحاب میں بقدر شمار اہل بدر تین سو تیرہ مرد اطراف عالم سے جمع ہو جائیں گے۔ جس وقت تعداد مخلصین کی ان کے پاس جمع ہو جاوے گی اس وقت اللّٰه ان کے کام کو ظاہر کر دے گا۔

اب شیعہ حضرات کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ اب تک ساری دنیا میں شیعوں سے تین سو تیرہ مخلص پیدا نہیں ہو سکے۔ یہ ایران و عراق، یہ لکھنو و پاکستان جہاں جہاں شیعہ بستے ہیں، بھلا اپنے گریبان میں نظر کریں۔ پوری دنیا میں لاکھوں ایمان کا دعویٰ کرنے والو، سوچو ! آپ کی کتابیں تو تین سو تیرہ سچے اور مخلص شیعہ ہونے کا بھی انکار کر رہی ہیں۔

مسئلہ امامت سے متعلق کتب شیعہ سے چند ایک ان کے عقائد پیش کیے گئے ہیں تا کہ شیعہ عوام کو پتہ چل جائے کہ ہمیں کس دلدل میں ڈالا جا رہا ہے ۔ آج کل تو شیعیت کا تصور یہی سمجھا جاتا ہے کہ صحابہ کرامؓ پر تبرا بھیج دو اور محرم کے دس دن ماتم کر لو، پکے شیعہ بن جاؤ گے۔ اور بس۔