Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ اور زکوٰۃ کی چوری

  مولانا مہر محمد

شیعہ اور زکوٰۃ کی چوری

زکوٰۃ ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر فرض ہے۔ فرضیت کا منکر کافر ہے۔تارک فاسق ہے، اس کا مال ایک طرح سے حرام ہو جاتا ہے۔

مذہب اہلِ سنت ہی نے اس فریضے کا تحفظ کیا ہے اور وہ ہر قسم کے مال سے زکوٰۃ نکالنے کے قائل ہیں۔ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے مانعین زکوٰۃ سے جہاد لڑ کر اسلام کی اس بنیاد کو بچایا اور فرمایا اللہ کی قسم جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اس سے لڑوں گا ،اگر اونٹ کی رسی بھی نہ دیں گے جو رسولﷺ کو زکوٰۃ میں دیتے تھے خدا کی قسم اس پر بھی ان سے جہاد کروں گا۔

(صحیح بخاری و مسلم)

چنانچہ سب کو راہِ راست پر لا کھڑا کیا۔ اہلِ سنت اس آیتِ کریمہ کے تحت ہر قسم کے مال کی زکوٰۃ نکالتے ہیں۔

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ وَمِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الۡخَبِيۡثَ مِنۡهُ تُنۡفِقُوۡنَ وَلَسۡتُمۡ بِاٰخِذِيۡهِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِيۡهِ‌ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيۡدٌ 

(سورۃ البقرة:آیت267)

ترجمہ: اے ایمان والوں! جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اللہ کے راستے میں) خرچ کیا کرو، اور یہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (اللہ کے نام پر) دیا کرو گے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔ اور یاد رکھو کہ اللہ ایسا بے نیاز ہے کہ ہر قسم کی تعریف اسی کی طرف لوٹتی ہے۔

کمائی میں ملازمت کی تنخواہ، مزدوری مال وراثت و ہبہ، تجارتی کاروبار (نوٹ، سونے، چاندی کے زیورات اور زائد از ضروریات) سبھی شامل ہیں۔ جب نصاب کے برابر ایسے مال کی بچت پر سال گذر جائے ، چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا فرض ہے۔

اسی طرح اونٹ ، گائے، گھوڑے ، بکریاں وغیرہ بھی قابلِ زکوٰۃ ہیں۔

شیعہ اور زکوٰۃ کی چوری:

اجتماعی نظام زکوٰۃ دورِ نبویﷺ کا ہے، نبی کریمﷺ کے کارندوں کے ذریعے زکوٰۃ جمع کی جاتی تھی پھر معینہ مصارف پر اسے صرف کردیا جاتا تھا۔  اس اجتماعی نظام زکوٰۃ کا انکار سب سے پہلے شیعہ نے کیا۔ جن مانعین زکوٰۃ سے سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے جہاد کیا تھا، سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی دشمنی میں شیعہ خلیفہ اوّل سے ناراض اور مرتدوں اور زکوٰۃ کے منکروں کی طرف داری کرتے ہیں۔ معاذاللہ

پاکستان میں صدر ضیاء الحق نے جب اجتماعی آرڈیننس جاری کیا تو شیعوں نے زبردست مخالفت کرکے اپنے آپ کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ کرا لیا اور ویسے بھی شیعہ برائے نام  زکوٰۃ کے قائل ہیں۔

اہلِ تشیع(شیعہ)درج ذیل وجوہ سے فرضیتِ زکوٰۃ میں تقصیر کرتے ہیں۔

1) سونے چاندی کے زیورات پر زکوٰۃ نہیں مانتے۔ حالانکہ دولت کا سب سے بڑا سرمایہ یہی چیزیں ہیں۔

2) کرنسی نوٹوں پر زکوٰۃ کے قائل نہیں ہیں حالانکہ یہی سونے چاندی کا بدل ہے اور دنیا کے تمام ممالک کے تمام بینک بشمول بینک دولت پاکستان اس کی ادائیگی کی ضمانت دیتا ہے۔ جب سونے چاندی کے دینار و درہم رائج تھے تو شیعہ زکوٰۃ نکالتے تھے، لیکن جب سے اس کی جگہ کاغذی کرنسی نے لے لی ہے اور دنیا کے 99 فیصد کاروبار زر ضمانت اور نوٹوں پر چل رہے ہیں تو شیعہ کے نزدیک اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

دس بیس روپے کے تنازعے پر آدمی قتل ہوجاتا ہے پر شیعہ زکوٰۃ نہیں مانتے تھے ۔ سوچیں کس قدر سرمایہ داری کی پرستش اور خدا کو فریب دینے کی بات ہے!

3)مالِ تجارت و مال وراثت و ہبہ میں شیعہ زکوٰۃ کے قائل نہیں۔ البتہ عمر میں ایک مرتبہ بطور استحباب وغیرہ خمس نکالنے کے قائل ہیں یعنی اگر کوئی دیندار شیعہ خمس بھی نکالے تو یہ آٹھ سال کی زکوٰۃ بنی باقی سب عمر اسے چھٹی مل گئی۔

4) زمینی پیداوار اجناس میں صرف گندم (22 من مقدار) جو، کھجور، کشمش پر تین سو صاع وزن ہونے پر عشر یا بیسویں حصہ کے قائل ہیں، باقی کثیر اجناس جیسے چنا، مکئی، چاول، گنا، جوار، باجرہ وغیرہ یعنی بڑی آمدن والی فصلوں پر عشر کے قائل نہیں ہیں۔

5) جانوروں میں صرف اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری پر زکوٰۃ مانتے ہیں۔ لیکن گھوڑے، خچر وغیرہ پر زکوٰۃ کے قائل نہیں ہیں خواہ کتنی بڑی تعداد اور مقدار میں ہوں۔

حاصل یہ نکلا کہ اہلِ تشیع کے ہاں زکوٰۃ صرف چار فصلوں اور تین قسم کے پالتو جانوروں پر ہے باقی نقدی، زیورات، کرنسی نوٹ، سامانِ تجارت میں کسی بھی چیز پر زکوٰۃ نہیں۔

الحمدللہ مکمل اسلام اور محافظِ زکوٰۃ صرف اہلِ سنت ہی ہیں۔ بسم اللہ خفیہ پڑھنے پر ہمیں نماز کا چور کہنے والے خود شیعہ ہی زکوٰۃ چور ثابت ہوتے ہیں۔ نام نہاد فقہ جعفریہ کا فارم پُر کر کے زکوٰۃ سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ معاذاللہ