عاشورۂ محرم کے دن کی بدعات کے بارے میں ابن تیمیہ اور ابن کثیر رحمہما اللہ کی رائے
ابو شاہینالف: ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شیطان نے قتلِ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے دو بدعتیں جاری کرا دیں، ایک عاشورۂ محرم کے دن غم و حزن اور آہ و بکا کی بدعت، مثلاً طمانچے مارنا، رونا دھونا، چیخنا چلانا، مرثیے پڑھنا اور پھر سلف صالحین کو سب و شتم کرنا، انہیں لعن طعن کرنا اور بے گناہوں کو گناہ گاروں میں شامل کرنا، یہاں تک کہ السابقون الاوّلون کو گالی گلوچ کرنا۔ اس دن ان کی شہادت کے حوالے سے ایسے واقعات پڑھے اور سنائے جاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر جھوٹے اور خود وضع کردہ ہوتے ہیں۔ ان باتوں کو جس نے بھی رواج دیا، اس کے پیش نظر امت محمدیہ میں فتنہ کھڑا کرنا اور تفرقہ بازی کا دروازہ کھولنا تھا۔ اس لیے کہ اس قسم کے امور نہ تو فرض ہیں اور نہ واجب اور اس پر اہل اسلام کا اتفاق ہے۔ بلکہ گزشتہ مصائب پر نوحہ کرنا ایسا عمل ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ (منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ 554)
اگر مصیبت تازہ ہو تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر صبر کرنے، صبر پر ثواب حاصل کرنے اور ’’انا للّٰہ‘‘ پڑھنے کا حکم دیا ہے، اگر تازہ مصیبت کے بارے میں شریعت کا حکم ہے تو پھر عرصہ دراز پہلے آنے والی مصیبت کے بارے اس کا کیا حکم ہو گا؟
یوم عاشورہ کو ماتم ، آہ و بکا اور نوحہ جیسے کاموں سے مزین کیا جاتا ہے اور جس میں ایسی روایات اور واقعات بیان کیے جاتے ہیں، جن میں جھوٹ زیادہ اور سچ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، تو کیا یہ سب کچھ غم کو تازہ کرنے کے مقصد سے ہے؟ تاکہ مسلمانوں میں فتنے کھڑے کیے جائیں ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے بارے میں نفرت و عداوت کے جذبات پیدا کیے جائیں اور انہیں ایک دوسرے سے ٹکرا دیا جائے اور اس سے سلف صالحین کو گالی گلوچ کرنے اور دنیا میں کذب بیانی اور فتنہ سازی کو فروغ دیا جائے۔ (الفتاوی: جلد، 25 صفحہ 165-166)
ب: ابن کثیر فرماتے ہیں: شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے ہر مسلمان غم ناک ہے، اس لیے کہ ان کا شمار مسلمانوں کے سادات اور علماء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے اور آپ نواسہ رسول ہیں۔ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما بڑے عبادت گزار، بڑے دلیر اور سخی تھے، مگر ان کی شہادت کے موقعہ پر جو کچھ اہل تشیع کرتے ہیں، وہ ہرگز مستحسن نہیں ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ تصنع اور ریاکاری پر مبنی ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے افضل تھے، مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان کی طرح ان کا ماتم نہیں کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ 18 رمضان المبارک 40 ہجری کو اس وقت شہادت سے مشرف ہوئے، جب آپ جمعہ کے دن صبح کی نماز کے لیے گھر سے نکل کر نماز فجر کی ادائیگی کے لیے آ رہے تھے۔ اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جو اہل سنت کے نزدیک سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں، 35 ہجری، ماہ ذوالحجہ اور ایام تشریق میں ان کے گھر کا محاصرہ کر کے انہیں قتل کر دیا گیا، مگر لوگوں نے ان کی شہادت کے دن کو ماتم کا دن نہیں بنایا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو عثمان و علی رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں، انہیں اس وقت موت کی نیند سلا دیا گیا، جب وہ مسجد نبوی کی محراب میں صبح کی نماز پڑھا رہے اور تلاوت قرآن کر رہے تھے، مگر کسی نے بھی اس دن کو ان کے ماتم کے لیے مخصوص نہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان سے بھی افضل تھے مگر لوگوں نے ان کے یوم وفات کو بھی یوم ماتم نہیں بنایا۔ پھر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دنیا و آخرت میں اولاد آدم کے سردار ہیں، وہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئے، جس طرح کہ دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام آپ سے پہلے وفات پا گئے تھے مگر کسی ایک نے بھی آپ کے یوم وفات کو یوم ماتم بنا کر اس میں وہ کچھ نہ کیا، جو کچھ شہادت حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے دن لوگ کیا کرتے ہیں اور نہ کسی نے ان کی وفات کے دن کے بارے میں اس قسم کی چیزیں بیان کیں، جن کا یہ لوگ شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے دن کے بارے میں دعوے کیا کرتے ہیں۔ مثلاً سورج کو گرہن لگنا اور آسمان میں ہر طرف سرخی کا پھیل جانا وغیرہ۔ ان اور ان جیسے دیگر مصائب کے ذکر کے موقعہ پر کی جانے والی باتوں میں سے سب سے خوبصورت وہ بات ہے جسے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
’’جس مسلمان کو کوئی بھی مصیبت آئے، پھر وہ اسے یاد کرے اگرچہ وہ بڑی قدیم ہو اور وہ اس پر انا للہ پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اسے اتنا ہی اجر دیتا ہے جتنا اسے اس مصیبت کے آنے کے دن دیا گیا تھا۔‘‘
(سنن ابن ماجہ، رقم: 1400 اس کی سند میں ضعف ہے۔ ضعیف ابن ماجہ: رقم 349)
اس حدیث کی تعلیق میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بیٹی فاطمہ رحمہا اللہ نے روایت کیا ہے جو ان کی شہادت کے موقعہ پر موجود تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر ٹوٹنے والی مصیبت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ اسلام کی خوبی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کی آگے تبلیغ کر دی اور وہ یہ کہ شہادت کا یہ واقعہ جب بھی یاد آئے انا للہ پڑھ لیا جائے۔ اس طرح انسان کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا اس دن ملا تھا، جب مسلمانوں کو اس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر جو شخص اتنا عرصہ بیت جانے کے بعد وہ کام کرے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، جیسا کہ رخسار پیٹنا، گریبان چاک کرنا اور جاہلانہ انداز میں واویلا کرنا وغیرہ تو اس کی سزا بھی بڑی سنگین ہو گی۔ (الفتاوی: جلد، 4 صفحہ 312)