یوم عاشوراء کو عید کے طور پر منانے والے
ابو شاہینیوم عاشوراء کو عید کے طور پر منانے والے ناصی لوگ ہیں، یہ ایک بدعتی گروہ ہے، جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں صحیح اعتقاد رکھنے کی توفیق میسر نہ آئی، یہ لوگ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنے کے بجائے ان سے بغض و عداوت رکھتے اور ان کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے وہ بری ہیں ان میں سے بعض ان کے بیٹے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی بغض رکھتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والوں، ان کی گستاخی کرنے والوں اور ان سے انحراف کرنے والوں کو ناصبی کہا جاتا ہے۔ نصب رفض جیسا ہی ہے، اس لیے کہ رفض اصحاب رسولﷺ سے بغض و عداوت، ان کی گستاخی اور انہیں سب و شتم کرنے سے عبارت ہے۔ یہ دونوں گروہ ہی گمراہ اور اللہ تعالیٰ کے منہج سے دُور ہیں ، جو اصحاب رسول کے ساتھ محبت کو واجب قرار دیتا اور امت کو اس امر سے آگاہ کرتا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر اسلام کو گلے لگایا اور رسول اللہﷺ کے ساتھ مل کر اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ سرانجام دیا۔ (عقیدۃ اہل السنۃ و الجماعۃ فی الصحابۃ الکرام: جلد، 3 صفحہ 1193-1194)
اگر اہل تشیع نے یوم عاشوراء کو ماتم اور غم کا دن قرار دیا تو ایک دوسرے گروہ نے اسے عید اور خوشی و مسرت کا دن قرار دے دیا، وہ یا تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہلِ بیت کے خلاف تعصب رکھنے والے ناصبی ہیں یا وہ جاہل ہیں، جو فاسد کا فاسد سے، جھوٹ کا جھوٹ سے، شر کا شر سے اور بدعت کا بدعت سے مقابلہ کرتے ہیں۔
چنانچہ وہ عاشوراء کے دن غسل کرتے، سرمہ لگاتے، خوبصورت کپڑے پہنتے، معمول سے ہٹ کر کھانے تیار کرتے اور اہل و عیال پر کھلے دل سے خرچ کرتے اور اس دن کو عید بنا دیتے ہیں، جس سے ان کا مقصود روافض کی مخالفت کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسری بدعت ہے۔ اس بارے میں مندرجہ ذیل موضوع اور جھوٹی روایات پیش کی جاتی ہیں:
الف: حدیث: ’’جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر وسعت کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر سال بھر وسعت فرمائے گا۔‘‘ (الموضوعات لابن جوزی: جلد، 2 صفحہ 203)
ب: شب عاشوراء اور یوم عاشوراء کے دن مخصوص نماز کی بدعت: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص عاشوراء کے دن ظہر اور عصر کے درمیان چالیس رکعت نماز ادا کرے، ہر رکعت میں ایک بار سورۂ فاتحہ، دس بار آیۃ الکرسی، گیارہ بار قل ہو اللہ احد، پانچ بار معوذتین پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد ستر بار استغفار کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس میں سفید قبہ عطا فرمائے گا۔‘‘
(الموضوعات: جلد، 2 صفحہ 122-123)
علاوہ ازیں اس دن کے لیے اور بھی کئی بدعات ایجاد کر لی گئی ہیں جن کی اللہ کے دین میں کوئی اصلیت نہیں ہے۔ (المدخل لابن الحاج: جلد، 1 صفحہ 290-291 الاعیاد: صفحہ 276) امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ بعض لوگ عاشورۂ محرم کے دن سرمہ لگاتے، غسل کرتے، مہندی لگاتے، ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے، کھانے پکاتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور ان سب چیزوں کو حضرت شارع علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں، تو کیا اس بارے میں آنحضرتﷺ سے کوئی صحیح حدیث وارد ہے یا نہیں؟ اور اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے تو کیا یہ سب کچھ بدعت کے زمرے میں آئے گا یا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا: اس بارے میں کوئی صحیح حدیث نہ تو نبی کریمﷺ سے وارد ہے اور نہ آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سے۔ نہ تو مسلمانوں کے ائمہ میں اور ائمہ اربعہ میں سے کسی نے اسے مستحق سمجھا ہے اور نہ کسی اور نے۔ معتمد کتابوں کے مؤلفین نے بھی اس بارے میں کوئی چیز روایت نہیں کی، نہ نبی کریمﷺ سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نہ تابعین رحمتہ اللہ سے، نہ کوئی صحیح چیز اور نہ ضعیف، نہ کتب صحیحہ میں، نہ سنن میں اور نہ مسانید میں، اس قسم کی کوئی حدیث بھی قرون فاضلہ میں معروف نہیں تھی۔ یہ بدعات یوم عاشوراء کے حوالے سے معرض وجود میں آئیں اور یہ اس لیے کہ کوفہ میں دو قسم کی جماعتیں موجود تھیں۔ ان میں سے ایک جماعت رافضیوں کی تھی اور یہ لوگ اہل بیت کے ساتھ جھوٹ موٹ کی دوستی کو ظاہر کرتے جبکہ درحقیقت یہ لوگ بے دین قسم کے ملحد تھے یا پھر جاہل اور نفسانی خواہشات کے پجاری تھے۔ دوسری جماعت ناصبیوں کی تھی اور یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اصحاب علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے تھے۔ (الفتاوی: جلد، 25 صفحہ 161) جب ان دونوں گروہوں میں عصبیت کا ظہور ہوا، تو انہوں نے عاشوراء محرم کے بارے میں کئی آثار وضع کر لیے۔ رافضیوں نے عاشورۂ محرم کو ماتم کے لیے مخصوص کر لیا جبکہ ناصبیوں نے اسے یوم عید قرار دے ڈالا، جبکہ یہ دونوں گروہ ہی غلطی پر ہیں۔ ان میں بھی بدعات اور گمراہی ہے (اقتضاء الصراط المستقیم: جلد،2 صفحہ 622-623) اور پھر دونوں نے ہی دین اسلام میں بدعات جاری کیں اور سیّد المرسلینﷺ کی سنت کی مخالفت کی۔ (الاعیاد و اثرہا علی المسلمین: صفحہ 276)
یوم عاشوراء کے بارے میں آنحضرتﷺ کی تعلیمات
یوم عاشوراء کا شمار ایامِ فاضلہ میں ہوتا ہے اور جن کے روزوں کی آنحضرتﷺ نے ترغیب دلائی ہے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
’’ہر مہینہ کے تین روزے اور ماہِ رمضان آئندہ ماہ رمضان تک زمانے بھر کے روزے ہیں اور یوم عرفہ کا روزہ رکھنا۔ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اس کی وجہ سے وہ اس سے ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے گا اور یوم عاشوراء کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ اس سے گزشتہ سال کے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘ (مسلم: رقم الحدیث 1162)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے نہیں دیکھا کہ آنحضرتﷺ کسی ایسے دن کے روزے کی جستجو کرتے ہوں، جسے آپ نے دوسرے دنوں پر ترجیح دی ہو بجز یوم عاشوراء کے اور اس ماہ یعنی ماہ رمضان کے۔ (صحیح بخاری: رقم الحدیث 2006) اس بنا پر اس دن کا مسنون عمل صرف روزہ ہے آپﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا بھی اور اس دن کے روزے کی فضیلت کے بارے میں مطلع بھی فرمایا، جیسا کہ گزشتہ حدیث میں مذکور ہے۔ اس بارے میں مزید صحیح احادیث بھی وارد ہیں۔
الف: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ ماہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے اس دن کا روزہ رسول اللہﷺ نے بھی رکھا اور مسلمانوں نے بھی، پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دے دئیے گئے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’عاشوراء اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے، جو کوئی چاہے اس کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے ترک کر دے۔‘‘ (مسلم: رقم الحدیث 1124)
ب: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: یہ نیک دن ہے اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی، تو موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’ہم موسیٰ علیہ السلام کے تم سے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ چنانچہ آپﷺ نے اس دن کا خود بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا۔ انہی سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یوم عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔ ( مسلم: رقم الحدیث 1134)
ج: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ جب حضرت محمدﷺ نے یوم عاشوراء کا حکم دیا اور اس کے روزے کا حکم دیا تو لوگوں نے کہا: یا رسول اللہﷺ! یہ وہ دن ہے جس کی یہود و نصاریٰ تعظیم کیا کرتے ہیں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ہم ان شاء اللہ آئندہ سال نو تاریخ کا روزہ بھی رکھیں گے۔‘‘ مگر رسول اللہﷺ آئندہ سال سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ دوسری روایت میں ہے: ’’اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نو تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔‘‘ (ایضاً)
انہی سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یوم عاشوراء کا روزہ رکھا کرو اور اس بارے میں یہود کی مخالفت کرو، ایک دن اس سے پہلے اور ایک دن اس کے بعد روزہ رکھا کرو۔‘‘ (السنن الکبری للبیہقی، کتاب الصیام: جلد، 4 صفحہ 287)
علماء بتاتے ہیں کہ یوم عاشوراء کے روزے کے تین مراتب ہیں:
(1) نو، دس اور گیارہ کا روزہ۔ اس لیے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’ایک دن اس سے قبل اور ایک دن اس کے بعد روزہ رکھا کرو۔‘‘
(2) نو اور دس کا روزہ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم ان شاء اللہ آئندہ سال نو تاریخ کا روزہ بھی رکھیں گے۔‘‘
(3) صرف یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا۔ یہ ان احادیث کی بنا پر ہے جن میں اس دن کے روزے کی تاکید کی گئی ہے۔ (زاد المعاد: جلد، 2 صفحہ 76 فتح الباری: جلد، 4 صفحہ 246)
یہ ہیں یوم عاشوراء کے بارے میں حضرت محمدﷺ کی تعلیمات اور اسی سے اہلِ السنۃ و الجماعۃ کی میانہ روی عیاں ہوتی ہے، ان کے مذہب میں نہ افراط ہے اور نہ تفریط، اہل سنت کا مذہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات سے وابستگی اور آپ کے احکامات کی تعمیل سے عبارت ہے جس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔