دلیل القرآن: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے کامیابی المفلحون(کامیاب)
نقیہ کاظمیدلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے کامیابی الْمُفْلِحُونَ (کامیاب)
لٰـكِنِ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ جَاهَدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡؕ وَاُولٰۤئِكَ لَهُمُ الۡخَيۡـرٰتُ وَاُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞
(سورة التوبة: آیت، 88)
ترجمہ: لیکن رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں، اور یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
اَلَّذِيۡنَ يَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِىَّ الۡاُمِّىَّ الَّذِىۡ يَجِدُوۡنَهٗ مَكۡتُوۡبًا عِنۡدَهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ يَاۡمُرُهُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهٰٮهُمۡ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيۡهِمُ الۡخَبٰۤئِثَ وَيَضَعُ عَنۡهُمۡ اِصۡرَهُمۡ وَالۡاَغۡلٰلَ الَّتِىۡ كَانَتۡ عَلَيۡهِمۡ فَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِهٖ وَعَزَّرُوۡهُ وَنَصَرُوۡهُ وَ اتَّبَـعُوا النُّوۡرَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ مَعَهٗ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞
(سورۃ الاعراف: آیت، 157)
ترجمہ: جو اس رسول یعنی نبی امی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دے گا، برائیوں سے روکے گا، اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے گا، اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے۔ چنانچہ جو لوگ اس نبی پر ایمان لائیں گے اس کی تعظیم کریں گے اس کی مدد کریں گے، اور اس کے ساتھ جو نور اتارا گیا ہے اس کے پیچھے چلیں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔
اِنَّمَا كَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَيَخۡشَ اللّٰهَ وَيَتَّقۡهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ۞
(سورۃ النور: آیت، 51، 52)
ترجمہ: مومنوں کی بات تو یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے حکم سن لیا، اور مان لیا اور ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، اللہ سے ڈریں، اور اس کی نافرمانی سے بچیں تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔
وَالَّذِيۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالۡاِيۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ يُحِبُّوۡنَ مَنۡ هَاجَرَ اِلَيۡهِمۡ وَلَا يَجِدُوۡنَ فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَيُـؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٌ وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞
(سورۃ الحشر: آیت، 9)
ترجمہ: اور یہ مال فیئ ان لوگوں کا حق ہے جو پہلے ہی سے اس جگہ یعنی مدینہ می) ایمان کے ساتھ مقیم ہیں جو کوئی ان کے پاس ہجرت کے آتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ ان مہاجرین کو دیا جاتا ہے، یہ اپنے سینوں میں اس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے، اور ان کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو۔ اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں، وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
تشریح: اس سے مراد وہ انصاری صحابہ ہیں جو مدینہ منورہ کے اصل باشندے تھے، اور انہوں نے مہاجرین کی مدد کی اگرچہ سارے ہی انصار کی یہی کیفیت تھی کہ وہ ایثار سے کام لیتے تھے، لیکن روایات میں ایک صحابی سیث ابو طلحہؓ کا خاص طور پر ذکر آیا ہے جن کے گھر میں کھانا بہت تھوڑا سا تھا، پھر بھی جب آنحضرتﷺ نے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ کچھ مہمانوں کو اپنے گھر لے جائیں، اور انہیں کھانا کھلائیں تو یہ کچھ مہمان اپنے ساتھ لے گئے، اور ان کی تواضع اس طرح کی کہ خود کچھ نہیں کھایا، اور چراغ بجھا کر مہمانوں کو بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ کچھ نہیں کھا رہے۔ اس آیت میں ان کے ایثار کی بھی تعریف فرمائی گئی ہے۔
فَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَ الۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ ذٰلِكَ خَيۡرٌ لِّلَّذِيۡنَ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞
(سورۃ الروم: آیت، 38)
ترجمہ: لہٰذا تم رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی جو لوگ اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ بہتر ہے، اور وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
تشریح: پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ رزق تمام تر اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اس لیے جو کچھ اس نے عطا فرمایا ہے وہ اسی کے حکم اور ہدایت کے مطابق خرچ ہونا چاہیے، لہٰذا اس میں غریبوں مسکینوں اور رشتہ داروں کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ ان کو دینا ضروری ہے، اور دیتے وقت یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے مال میں کمی آجائے گی، کیونکہ جیسا کہ پچھلی آیت میں فرمایا گیا رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے وہ تمہیں حقوق کی ادائیگی کے بعد محروم نہیں فرمائے گا، چنانچہ آج تک نہیں دیکھا گیا کہ حقوق ادا کرنے کے نتیجے میں کوئی مفلس ہوگیا ہو۔
لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞
(سورۃ المجادلۃ: آیت، 22)
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، ان کو تم ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ان سے دوستی رکھتے ہوں، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے یہ وہ لوگ ہیں جن کے د لوں میں اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے، اور اپنی روح سے ان کی مدد کی ہے، اور انہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں۔ یہ اللہ کا گروہ ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے۔
تشریح: سورة آل عمران کے حاشیہ میں تفصیل سے بتائی جا چکی ہے کہ غیر مسلموں سے کس قسم کی دوستی جائز اور کس قسم کی ناجائز ہے۔
اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞
(سورۃ البقرۃ: آیت، 5، سورۃ لقمان:آیت، 5)
ترجمہ: یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔