شیعہ کے نزدیک قبر حسین اور دیگر ائمہ کی قبور کی تقدیس و تعظیم
ابو شاہیناہل تشیع نے اپنے ائمہ کی قبور کی تقدیس و تعظیم میں مبالغہ کرتے ہوئے انہیں اس قدر عز و شرف عطا کیا جو کعبہ مشرفہ اور مدینہ منورہ کو بھی حاصل نہ ہو سکا، انہوں نے علی(زین العابدین) بن حسین رضی اللہ عنہما کی طرف یہ روایت منسوب کر دی کہ انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کعبہ مشرفہ کی زمین کو پیدا کرنے سے چوبیس ہزار سال پہلے کربلا کی زمین کو پرامن حرم قرار دیا تھا اور اسے تقدیس و برکت عطا فرمائی تھی۔ یہ زمین تخلیق کائنات سے قبل سے لے کر آج تک مقدس و بابرکت ہے اور اس کی یہ حیثیت قیامت تک برقرار رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت کی افضل ترین جگہ اور رہائش گاہ قرار دے گا، جس میں اس کے اولیاء سکونت پذیر ہوں گے۔ (بحار الانوار: 101-107 اصول مذہب الشیعۃ)
اسی طرح انہوں نے جعفر الصادق کی طرف بھی یہ قول غلط طور پر منسوب کر دیا کہ کعبہ مشرفہ کی زمین فخریہ انداز میں کہنے لگی: میرے جیسا کون ہو سکتا ہے؟ میری پیٹھ پر بیت اللہ تعمیر کیا گیا، دُور دُور سے لوگ میری زیارت کے لیے آتے ہیں اور مجھے اللہ کا حرم اور امن قرار دیا گیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی کی کہ زیادہ باتیں نہ کر، ارض کربلا کے مقابلے میں تیری وہی حیثیت ہے جو سمندر میں ایک سوئی کی ہوتی ہے، جسے اس میں ڈبو دیا جائے اور وہ اس کا پانی اپنے ساتھ اٹھا کر لائے، یاد رکھ! کہ اگر خاک کربلا نہ ہوتی، تو میں تجھے یہ فضیلت بھی نہ دیتا اور اگر وہ فیوض و برکات نہ ہوتے، جن پر ارض کربلا مشتمل ہے، تو نہ میں تجھے پیدا کرتا اور نہ اس گھر کو جس پر تو فخر کر رہی ہے، لہٰذا آرام سے ٹکی رہ، متواضع اور ذلیل بن جا اور ارض کربلا کے مقابلہ میں فخر اور غرور نہ کر اور اگر تو اس سے باز نہ آئی، تو میں تجھ سے ناراض ہو کر تجھے جہنم میں پھینک دوں گا۔ (کامل الزیارات: صفحہ 270 بحار الانوار: 101-109 اصول مذہب الشیعۃ: جلد، 2 صفحہ 464)
ظاہر ہے ارض کربلا کو یہ مقام و مرتبہ اسی لیے حاصل ہوا کہ وہ ان کے اعتقاد کی رُو سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن ہے، واقعہ کربلا سے لے کر آج تک شعراء کی زبانوں اور لکھنے والوں کی قلموں سے کعبہ مشرفہ اور کربلا کے درمیان اس مقارنہ کا اظہار ہوتا چلا آیا ہے اور وہ نظم و نثر کے مختلف اسالیب سے اس کی تقدیس و فضیلت اور عز و شرف کا اثبات کرتے رہے اور ہر خطہ ارضی کے مقابلے میں اس کی فضیلت و شرافت کے بیان کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے ہیں اور اس سرزمین کو یہ عظیم شرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے حاصل ہوا، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے کہ اللہ نے اسے یہ عز و شرف حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے دیا۔ (اصول مذہب الشیعۃ: جلد، 2 صفحہ 464)
ائمہ کرام کے بارے میں ان کے اعتقاد اور اس میں غلو کی وجہ سے اور لوگوں کو ان کی قبروں اور زیارت گاہوں کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے انہوں نے ان کی زیارت کرنے والوں کے لیے بڑی بڑی فضیلتوں اور بہت زیادہ اجر و ثواب کی داستانیں بنا رکھی ہیں۔ مثلاً انہوں نے ابو عبداللہ جعفر الصادق کی طرف ان کا یہ قول منسوب کر دیا کہ اگر لوگوں کو علم ہو جائے کہ زیارت حضرت حسینؓ کس قدر فضیلت کی حامل ہے، تو وہ اس کے شوق میں جانیں کھپا دیں، میں نے کہا: اس کی کیا فضیلت ہے؟ انہوں نے فرمایا: شوق کے ساتھ زیارت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرۂ مبرور لکھ دیتا ہے، شہدائے بدر کے ثواب کے برابر ایک ہزار شہید، ایک ہزار روزے دار، ایک ہزار صدقہ مقبولہ اور ایک ہزار نسخہ کا اجر و ثواب لکھ دیتا ہے، وہ اس سال ہر آفت سے محفوظ رہتا ہے جن سے سب سے ہلکی آفت شیطان ہے، اللہ تعالیٰ اس پر ایک باعزت فرشتے کو مقرر کر دیتا ہے جو اس کی اس کے آگے پیچھے، دائیں بائیں اور اوپر نیچے سے حفاظت کرتا ہے اور اگر وہ اسی سال مر جائے تو رب رحمن کے فرشتے اس کے غسل اور کفن دفن میں شریک ہوتے، اس کے لیے استغفار کرتے اور اسے قبر تک پہنچاتے ہیں ، حد نگاہ تک اس کی قبر کھلی کر دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر اور منکر و نکیر سے پرامن رکھتا ہے۔ اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جاتا ہے، اسے روزِقیامت ایسا نور عطا کیا جائے گا جس کی وجہ سے مشرق اور مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ منور ہو جائے گا اور پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ یہ ازراہِ شوق زائرین حسین رضی اللہ عنہ میں سے ہے، اس روز ہر شخص یہ تمنا کرے گا کہ کاش وہ بھی زائرین حسینؓ میں شامل ہوتا۔ (تاریخ کربلا،: صفحہ 102 القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 155 وسائل الشیعۃ: جلد، 1 صفحہ 353 بواسطہ اصول مذہب الشیعۃ: جلد، 2 صفحہ 456)
ائمہ شیعہ کے فضائل و مناقب اور مافوق البشر انہیں جو صفات عطا کی گئی ہیں، ان کا مبالغہ آمیزی کی حد تک ذکر کرتے ہوئے ان کا ایک عالم رقم طراز ہے: ’’یہ ان لوگوں کے لیے کچھ زیادہ نہیں جنہیں اللہ تعالیٰ مومنین کا امام مقرر کر دے اور جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے زمینوں اور آسمانوں کو پیدا فرمایا اور انہیں اپنا راستہ، صراط، عین، دلیل اور ایسا باب بنایا، جس کے ذریعہ سے ان تک رسائی حاصل کی جاتی ہے اور ائمہ کرام کی قبروں کے لیے مال خرچ کیا جاتا، ان سے امیدیں وابستہ کی جاتیں، ان کے لیے گھر بار چھوڑا جاتا، تکالیف برداشت کی جاتیں، تجدید میثاق ہوتا، شعائر پر حاضری ہوتی اور مشاعر کو حضور حاصل ہوتا ہے۔‘‘ (القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 157)
ان قبروں کی تقدیس میں اس حد تک مبالغہ کیا گیا ہے کہ شیعہ نے ان کے لیے مخصوص مناسک وضع کر رکھے ہیں اور یہ مناسک صرف قبر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ان کے ائمہ کی تمام قبروں کے لیے عام ہیں۔
(الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ نقلا عن اصول الشیعۃ: جلد، 2 صفحہ 467)
شیخ آغا بزرگ طہرانی لکھتے ہیں: ’’ان کے شیوخ نے مزار اور مناسک مزار کے بارے میں ستر کتابیں لکھی ہیں، ان مناسک کی تفصیل بقول جعفر صادق اس طرح سے ہے: جب تو قبر سیدنا حسینؓ کی زیارت کے لیے روانگی کا ارادہ کرے تو بدھ، جمعرات اور جمعہ کا روزہ رکھ اور جب گھر سے نکلے، تو اپنے اہل و عیال اور اولاد کو جمع کر کے دعا سفر پڑھ، گھر سے نکلنے سے پہلے غسل کر اور غسل کرتے وقت فلاں فلاں دعا پڑھ اور دریائے فرات پر پہنچنے سے پہلے نہ تو آنکھوں میں سرمہ لگا اور نہ تیل استعمال کر، بات چیت اور مزاح کم از کم کر اور اللہ کا ذکر زیادہ سے زیادہ کر، مزاح اور لڑائی جھگڑے سے اجتناب کر، اگر تو پیدل یا سوار ہو تو یہ دُعا پڑھ، کسی چیز سے خوف آئے تو یہ دُعا پڑھ، جب دریائے فرات پر پہنچے تو اسے عبور کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھ اور اسے عبور کرنے کے بعد یہ۔ یہ تمام مناسک ادا کر، پھر اپنا رخسار حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی قبر پر رکھ کر یہ دعا پڑھ، پھر ان کے پیچھے سے گھوم کر ان کے سر کے قریب آ، اور وہاں کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھ، پھر قبر سے ہٹ کر یہ دعا پڑھ، پھر سقیفہ سے نکل کر شہداء کی قبروں کے سامنے کھڑا ہو کر ان تمام کی طرف اشارہ کر۔‘‘( تاریخ کربلا: صفحہ 129 القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 158)
علاوہ ازیں ان تمام امور کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جو شیعہ وہاں ادا کرتے ہیں۔ مثلاً قبروں کا طواف کرنا، دوران نماز میں ان کی طرف منہ کرنا وغیرہ وغیرہ، جنہیں میں اختصار کے پیش نظر ترک کر رہا ہوں۔(القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 158) جس کا کچھ حصہ کتاب ’’اصول مذہب شیعہ‘‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ (اصول مذہب الشیعۃ: جلد، 2 صفحہ 467-477) ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام ، ائمہ اور اسلامی شخصیات کے مزارات تعمیر کرنا اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ان معتقدات کی تردید اس طرح سے ہے:
کربلا کا تقدس
کتاب اللہ، صحیح و ثابت سنت رسول اللہﷺ خلفائے راشدین اور خیر القرون کے علمائے امت سے ایسی کوئی نص نہیں ملتی، جو کربلا کی قدسیت اور اس کے اور نجف وغیرہ دیگر مقامات کے فضائل پر دلالت کرتی ہو، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ میں جن مقامات اور اشیاء کے تقدس اور فضائل کا ذکر ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں: مسجد حرام، اس کے اندر اور باہر مشاعر مقدسہ، مثلاً کعبہ مشرفہ، مقام ابراہیم، بیر زمزم، صفا و مروہ، منیٰ، عرفات، مزدلفہ، مسجد نبوی، اس میں نماز پڑھنے کی فضیلت، بیت رسول اور منبر رسول کی درمیانی جگہ کی فضیلت، مسجد نبویﷺ، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی طرف سواریاں دوڑا کر جانے کا جواز، فضائل مدینہ، فضائل مسجد قبا، مدینہ منورہ کی برکت کے لیے آنحضرت صلی اللہﷺ کا دعا فرمانا، اہل مدینہ کے صاع کے لیے برکت کی دعا اور اس کا وجود، رسول اللہﷺ کا مدینہ منورہ کو حرم قرار دینا، وہاں شکار کرنے اور اس کے درختوں کو کاٹنے کو حرام قرار دینا، وادی عقیق کی فضیلت اور اس کی برکت، مسجد اقصیٰ کے فضائل و برکات، اس میں نماز پڑھنے کی فضیلت، اس کے اردگرد برکت کا وجود، مسجد حرام کے بعد زمین پر بنائی گئی اس کا دوسری مسجد ہونا اور وہاں سے رسول اللہﷺ کو معراج کروانا، اسی طرح قرآنی آیات اور احادیث نبویہ میں تمام مساجد اور اللہ کے گھروں کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ نبی کریمﷺ نے اس بات کی وضاحت فرما دی ہے کہ مسجدیں زمین پر اللہ کے گھر ہیں ، اسی طرح آپﷺ نے مسجدوں کی طرف لپک کر جانے، ان میں جی لگانے اور انہیں تعمیر کرنے کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے۔
(من قتل الحسین: صفحہ 113)
مگر کربلا کی قدسیت اور اس کے فضائل کے بارے میں نبی کریمﷺ کی طرف منسوب باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی صحیح نہیں ہے۔ اس حکم کا اطلاق ان تمام شہروں، علاقوں، قبرستانوں اور قبروں پر ہوتا ہے جن کے تقدس کا دعویٰ شیعہ یا جاہل سنی کرتے ہیں۔
زیارت قبور کے لیے اسلام کی رہنمائی
جس طرح جملہ تعلیماتِ اسلام اعتدال و سماحت پر مبنی ہیں اور ان پر عمل کرنے والا فوز و فلاح اور دنیوی و اخری سعادت سے ہم کنار ہوتا اور ان کی وجہ سے دنیا و آخرت میں ہر طرح کی گمراہی اور بدنصیبی سے محفوظ رہتا ہے، اسی طرح اسلام میں زیارت قبور کی مشروعیت بھی مذکورہ بالا اوصاف کی حامل ہے۔ جب لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے اور انہیں ترک شرک و کفر اور غیر اللہ کی عبادت پر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا تو نبی کریمﷺ نے انہیں قبروں زیارت سے منع فرما دیا تاکہ شرک و توحید اور جاہلیت و اسلام کے ادوار میں حد فاصل قائم کی جا سکے، پھر جب ان کے قلوب و اذہان میں اسلامی عقائد و تعلیمات مستحکم ہو گئے اور زمین اور زمین والوں کے تقدس کی طرف ان کا التفات نہ رہا (القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 73) تو نبی کریمﷺ نے لوگوں سے فرمایا:
’’میں قبل ازیں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا مگر اب تم ان کی زیارت کر سکتے ہو، اس لیے کہ قبریں آخرت کو یاد دلاتی ہیں۔‘‘ (مسلم مع شرح نووی: جلد، 7 صفحہ 46)
دوسری روایت میں ہے:
’’اس لیے کہ قبروں کی زیارت کرنے سے یاددہانی ہوتی ہے۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے:
’’قبروں کی زیارت آخرت یاد دلاتی ہے۔‘‘ (ایضاً)
تیسری روایت میں ہے:
’’ان کی زیارت کیا کرو اور چاہیے کہ ان کی زیارت تمہاری خیر میں اضافہ کرے۔‘‘ (سنن الترمذی: جلد، 3 صفحہ 361 البانی نے اپنی صحیح میں اسے صحیح کہا)
چوتھی روایت اس طرح سے ہے:
’’اس میں عبرت ہے۔‘‘ (مسند احمد: جلد، 17 صفحہ 249 صحیح حدیث)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’پھر مجھے یہ بات آئی کہ زیارت قبور دل نرم کرتی، آنکھوں سے آنسو بہاتی، موت اور آخرت یاد کرواتی اور دنیا میں زاہد بناتی ہے۔‘‘
زائر قبور کو اس امر کے لیے حریص ہونا چاہیے کہ اس کا یہ فعل اس کی خیر اور بھلائی میں اضافہ کرے۔ یہ سب چیزیں تو زائر کے اپنے حوالے سے تھیں۔ (القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 74)
رہے شہر خموشاں کے باسی، تو اس سے انہیں بھی حصہ میسر آتا ہے۔ نبی کریمﷺ جب بھی ان کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے، تو ان کے لیے رحمت کی دعا فرماتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہﷺ جب بھی میرے پاس رات گزارتے تو رات کے آخری حصے میں بقیع تشریف لے جاتے اور یہ دعا پڑھتے:
السلام علیکم دار قوم مومنین، اتاکم توعدون، غدا موجلون و اناان شاء اللّٰہ بکم لاحقون۔ اللہم اغفر لاہل بقیع الغرقد
’’سلام ہو تم پر اس گھر میں رہنے والی قوم، تمہارے پاس وہ چیز آ گئی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، تم کل (قیامت کے دن) تک مہلت دئیے گئے ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ بقیع غرقد کے رہنے والوں کی مغفرت فرما دے۔‘‘ (مسلم مع شرح النووی، کتاب الجنائز: جلد، 7 صفحہ 40-41)
ان احادیث میں اس امر کا بیان ہے کہ زیارت قبور کا ایک مقصد اہل قبور کو سلام کہنا، ان کے لیے سلامتی کی دعا کرنا اور ان کے لیے استغفار کرنا ہے، امام صنعانی ’’سبل السلام‘‘ میں زیارت قبور پر مشتمل احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: یہ تمام احادیث زیارت قبور کی مشروعیت اور اس میں پنہاں حکمت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ کہ زیارت قبور کا ایک مقصد عبرت کا حصول ہے۔ اگر زیارت قبور ان چیزوں سے عاری ہو تو پھر اس کا شرعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ (سبل السلام شرح بلوغ المرام: جلد، 2 صفحہ 230-231)
یہ ہیں زیارت قبور کے بارے میں آنحضرتﷺ کی تعلیم کردہ اسلامی تعلیمات۔ لہٰذا جو شخص ان مقاصد سے ہٹ کر کسی اور مقصد کے لیے ان کی زیارت کرے گا، تو اسے اس پر ردّ کر دیا جائے گا۔ پھر ایسی زیارت یا تو بدعت پرستانہ ہو گی یا مشرکانہ، اور یہ فیصلہ اس کے اعتقاد اور اعمال کے حساب سے ہو گا۔ زیارت قبور کے یہ اہداف و مقاصد بالکل ٹھوس اور واضح ہیں اور یہ شرک اور غلو تک پہنچانے والے ہر ذریعہ سے دُور اور بہت دُور ہیں، اس حوالے سے بعض ایسی قیود بھی وارد ہیں، جو شرک اور غلو کا سدباب کرتی ہیں۔ (القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 75)
پہلی قید
قبروں کو عیدیں نہ بنایا جائے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
’’اپنے گھروں کو قبریں نہ بنانا اور میری قبر کو عید نہ بنانا، اور مجھ پر درود بھیجنا، اس لیے کہ تم جہاں بھی ہو گے تمہارا درود مجھ تک پہنچ جائے گا۔‘‘ (مسند ابو یعلی جلد، 1 صفحہ 361 رقم الحدیث: 469 اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے، اس کے تمام طرق حسن ہیں)
زیارت قبور کے لیے کوئی دن، کوئی ہفتہ، کوئی مہینہ اور کوئی سال مخصوص نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا وتیرہ ہے۔ (القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 75)
دوسری قید
ان کی طرف سواریاں نہ دوڑائی جائیں۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
’’سواریاں نہ دوڑائی جائیں مگر صرف تین مسجدوں کی طرف: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد۔‘‘ (مسلم مع شرح النووی: جلد، 9 صفحہ 104-109)
اس سے مقصود ان تین مساجد کے علاوہ کسی مخصوص جگہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے سواریاں دوڑانا ہے۔ (القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 76) یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں ہے کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی شخص نے کسی قبر یا زیارت گاہ کی صرف زیارت کے لیے ادھر کا سفر کیا ہو، اور نہ کسی نے اس عمل کے استحباب کی صراحت ہی کی ہے۔ (ایضاً) علامہ صدیق حسن خان اپنی کتاب ’’السراج الوہاج من کشف مطالب صحیح مسلم ابن الحجاج‘‘ میں مختلف اقوال کو ذکر کرنے اور ان کے مناقشہ کے بعد فرماتے ہیں: زیارت قبور کے علاوہ کسی اور مقصد سے سفر کرنا صحیح دلائل سے ثابت ہے۔ ایسا آپ کے زمانہ مبارک میں ہوتا تھا اور آپ نے اسے برقرار بھی رکھا، لہٰذا اس سے روکنے کا تو کوئی جواز نہیں ہے۔ رہا قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنا، تو ایسا نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں نہیں ہوتا تھا۔ کسی ایک بھی حدیث میں اس کے جواز کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا اور نہ آپ نے اپنی امت کے کسی فرد کے لیے اسے مشروع ہی فرمایا، نہ قولاً نہ فعلاً۔ (السراج الوہاج: جلد، 5 صفحہ 116 القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 77)
قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنا اور انہیں مسجدیں بنا لینا
رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنے اور ان کی کسی بھی طرح سے تعظیم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپﷺ نے اس بات سے آگاہ فرمایا کہ ایسا صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی مخلوق کے بدترین لوگ ہوتے ہیں، حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی وفات سے پانچ روز قبل آپ سے سنا:
’’خبردار تم سے پہلے کے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا کرتے تھے۔ خبردار، تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں ۔‘‘ ( مسلم مع شرح النووی: جلد، 5 صفحہ 13)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے قبر کو پختہ کرنے، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت کھڑی کرنے سے منع فرمایا۔ (مسلم مع شرح النووی : جلد،7 صفحہ 37) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے:
’’لوگوں میں سے بدترین لوگ وہ ہوں گے جنہیں ان کی زندگی میں قیامت پا لے گی اور جو قبروں کو مسجدیں بنا لیں گے۔‘‘ (ایضاً)
مذکورہ بالا احادیث میں قبروں کی ہر قسم کی تعظیم کی صراحتاً ممانعت وارد ہوئی ہے، انہیں مسجدیں بنانے سے منع کیا گیا ہے اور ان پر عمارتیں کھڑی کرنے، انہیں پختہ کرنے اور ان پر لکھنے سے منع کیا گیا ہے، اور یہ نہی سب سے پہلے انبیاء اور صالحین کی قبروں سے متعلق ہے اور یہ اس لیے کہ دیگر لوگوں کے مقابلہ میں ان کے بارے میں غلو کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے اور ان کا فتنہ زیادہ سنگین ہوتا ہے اور امر واقع بھی یہی ہے، اس لیے کہ ہر زیارت گاہ کے بارے میں یہی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے کسی ایسے نیک ولی اللہ کی قبرپر تعمیر کیا گیا ہے جو بڑے فضائل و مناقب کا حامل ہے اور اس سے بڑی بڑی کرامات کا صدور ہوتا ہے اور یہ کہ اس سے نفع کی امید کی جاتی ہے اور اس کے انتقام سے ڈرا جاتا ہے یا پھر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس جگہ کوئی نبی ہے جیسا کہ بہت سارے مقامات کے بارے میں ایسا کہا جاتا ہے۔ حالانکہ علماء نے اس امر کی تصریح کی ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ کی قبر شریف کے علاوہ کسی بھی نبی کے بارے میں یقین کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فلاں نبی کی قبر ہے۔ جیسا کہ فلسطین میں ابراہیم علیہ السلام کی قبر قبرِ خلیل کے نام سے معروف ہے۔ (الفتاوی: جلد، 27 صفحہ 140)
امام نووی گزشتہ حدیث نبوی کی تعلیق میں رقم طراز ہیں: ’’ نبی کریمﷺ نے اپنی قبر مبارک کو مسجد بنانے سے منع فرمایا اس لیے کہ آپ کو اس کی تعلیم میں مبالغہ آمیزی اور اس کی وجہ سے لوگوں کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خوف تھا، جس کا نتیجہ کفر کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا تھا، جیسا کہ اکثر گزشتہ امتوں کے ساتھ ہوا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کو مسجد نبوی میں اضافہ کرنے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے آپﷺ کی قبر شریف کے اردگرد گول دیوار کھڑی کر دی تاکہ وہ مسجد میں ظاہر نہ ہو سکے اور عوام الناس اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے امر محذور کے مرتکب نہ ہوں۔ پھر انہوں نے قبر کے شمال کی طرف دو ٹیڑھی دیواریں تعمیر کر دیں تاکہ کوئی شخص قبر شریف کی طرف منہ نہ کر سکے۔ اس لیے کہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ کی قبر شریف کو ظاہر کر دیا جاتا۔ مگر آپ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اسے مسجد نہ بنا لیا جائے۔ وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔‘‘ (شرح نووی: جلد، 5 صفحہ 12-13)
رسول اللہﷺ نے بلند قبروں کو برابر کرنے کا حکم جاری فرمایا تھا۔ ابو الہیاج اسدی سے مروی ہے کہ مجھ سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تجھے اس کام کے لیے نہ بھیجوں، جس کے لیے مجھے رسول اللہﷺ نے بھیجا تھا؟ اور وہ یہ کہ تجھے جو بھی مورتی نظر آئے اسے مٹا دے اور جو قبر اونچی نظر آئے اسے برابر کر دے۔ (شرح النووی: جلد، 7 صفحہ 34)
یہ ہیں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ جنہوں نے پولیس کے سربراہ ابو الہیاج اسدی کو قبریں برابر کرنے کے لیے بھیجا، جیسا کہ اس مقصد کے لیے انہیں رسول اللہﷺ نے بھیجا تھا۔ یعنی انہوں نے اس بارے میں آپﷺ کے حکم سے جو کچھ سمجھا اس کی تطبیق کا اپنے رئیس شرطہ کو حکم جاری فرمایا۔ (القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 54)
علماء نے اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ امت اسلامیہ کی ابتدائی بہترین صدیاں زیارت گاہوں کے وجود سے خالی تھیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر کی زیارت گاہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خلافت عباسیہ کے آغاز اور اس کی استقامت کے دَور میں اس قسم کی چیزوں کا کہیں کوئی وجود نہیں تھا، قبل ازیں عہد صحابہ و تابعین اور تبع تابعین میں بھی بلاد اسلامی مثلاً حجاز، یمن، شام، عراق، مصر، خراسان اور مغرب میں بھی ان مشاہد کا کہیں نام و نشان تک نہیں تھا، نہ تو کسی نبی کی قبر پر نہ اہلِ بیت میں سے کسی ایک کی قبر پر اور نہ کسی صالح انسان کی قبر پر، زیادہ تر زیارت گاہیں اس کے بعد کی پیداوار ہیں۔ ان کا ظہور اور انتشار اس وقت ہوا جب بنو عباس کی خلافت کمزور پڑ گئی، امت کی وحدت تقسیم ہو گئی، زنادقہ کی کثرت ہو گئی اور بدعت پرستوں کا پروپیگنڈا عام ہو گیا اور یہ تین ہجری کے اواخر میں مقتدر باللہ کی حکومت کے ایام میں ہوا۔ ان دنوں ارضِ مغرب میں قرامطہ عبیدیہ کا ظہور ہوا، بعد ازاں وہ مصر تک جا پہنچے۔ اس کے قریب ہی بنو بویہ کا ظہور ہوا جن کے زیادہ تر لوگ زندیق اور پرلے درجے کے بدعتی تھے، ان کی دولت میں سرزمین مصر میں بنو قداح نے زور پکڑا اور پھر انہی کی ریاست میں ہی نجف کے نواح میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب زیارت گاہ کا ظہور ہوا۔ قبل ازیں کوئی شخص بھی اس جگہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قبر کا قائل نہیں تھا، انہیں تو کوفہ میں قصر امارت میں دفن کیا گیا تھا۔ ہارون الرشید سے مروی ہے کہ وہ وہاں ایک قطعہ ارضی پر آیا اور وہاں مدفون شخص سے معذرت کرنے لگا، لوگ کہنے لگے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر ہے اور یہ ان سے اس زیادتی پر معذرت کر رہا ہے، جو ان کی اولاد کے ساتھ روا رکھی گئی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قبر تھی، جبکہ بعض کے نزدیک وہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی قبر تھی۔ (سیر اعلام النبلاء: جلد، 16 صفحہ 250-251)
امام ذہبی رحمہ اللہ عضد الدولہ ’’بویہی‘‘ کے حالات زندگی کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’یہ غالی رافضی تھا جس نے نجف میں ایک قبر تیار کر کے مشہور کر دیا کہ یہ حضرت علیؓ کی قبر ہے پھر اس نے اس پر زیارت گاہ تعمیر کر دی، اور اس پر رافضیوں کی علامات کھڑی کر کے عاشورۂ محرم کا ماتم شروع کروا دیا، میں کہتا ہوں: 400 ہجری میں اسلام پر مغرب میں دولت عبیدیہ کی وجہ سے، مشرق میں دولت بویہیہ اور قرامطہ اعرابیوں کی وجہ سے شدید آفت ٹوٹی، مگر اختیارات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘ (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 11 صفحہ 223)
347 ہجری کے حوادث کے ضمن میں ابن کثیر فرماتے ہیں : ’’بنو بویہہ، بنو حمدان اور فاطمی حکمرانوں کی وجہ سے ان کے زیر نگیں علاقے رفض اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے سب و شتم سے بھر گئے تھے۔ مصر، شام، عراق اور خراسان وغیرہا، نیز حجاز اور غالب بلاد مغرب کے لوگ رافضی تھے، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بکثرت سب و شتم کرتے اور ان پر کفر کے فتوے لگاتے۔‘‘ (وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی: جلد، 3 صفحہ 906)
سمہودی اپنی کتاب ’’وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی‘‘ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قبر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر اسلاف کی قبریں لوگوں کے علم میں نہیں تھیں۔ وہ لوگ قبروں پر عمارتیں نہیں کھڑی کرتے تھے اور نہ انہیں پختہ ہی بناتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم مع شرح النووی: جلد، 12 صفحہ 241)
امام شافعی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’میں نے انصار و مہاجرین کی قبریں پکی نہیں دیکھیں۔‘‘ حضرت طاؤ س سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنے اور انہیں پختہ بنانے سے منع فرمایا۔ امام شافعی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:’’میں نے ایک ایسا والی دیکھا جو مکہ مکرمہ میں ایسی قبریں گرا رہا تھا، جن پر عمارتیں بنائی گئی تھیں مگر میں نے فقہاء کرام کو اس پر اعتراض کرتے نہیں دیکھا۔‘‘ (الام للشافعی، نقلا عن القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 119)
تاریخی حقیقت یہی بتاتی ہے کہ بڑی فضیلت کی حامل پہلی تین صدیوں میں نہ تو قبروں کی تعظیم کی جاتی تھی، نہ کہیں زیارت گاہیں تھیں، نہ قبے اور نہ قبر پرستی کے دیگر مظاہر، اس بارے میں شیعہ نے جو کچھ کرنے کی کوشش کی اس کی ابوجعفر منصور عباسی اور ہارون الرشید جیسے امراء و خلفاء کی طرف سے شدید مزاحمت کی گئی۔ (القبوریۃ فی الیمن: صفحہ 132-133)