شہادتِ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ قسط سوم
مولانا اقبال رنگونی صاحبشہادتِ سیدنا عثمان غنیؓ
قسط سوم:
چنانچہ یہ لوگ(سبائی) واپس چلے گئے اور بظاہر مسئلہ ختم ہوگیا، لیکن جن کے دلوں میں بغض اور دشمنی تھی اور وہ مسلمانوں کو ہنستا بستا نہیں دیکھنا چاہتے تھے انہوں نے ایک اور چال چلی اور پھر سے مدینہ میں داخل ہو گئے۔
دراصل سیدنا عثمان غنیؓ کو شہید کرنے کا منصوبہ اس باغی گروہ ( عبداللہ ابن سباء اور اس کے پیروکاروں) نے ایک جعلی خط کی روشنی میں تیار کیا گیا اور اسے سیدنا عثمانؓ کے نام پر ڈال دیا گیا جب یہ لوگ واپس مدینہ آئے اور انہوں نے سیدنا عثمانؓ کے مکان کا محاصرہ(گھیراؤ) کیا تو محمد بن مسلمہؓ ان مصریوں کے پاس آئے اور ان سے مدینہ واپس آنے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے راستہ میں سیدنا عثمانؓ کا ایک خط پکڑا ہے جو انہوں نے مصر کے گورنر(حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ) کے نام لکھا ہے اور اس میں ہمیں قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔
محمد بن مسلمہؓ نے اہل بصرہ سے واپسی کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مصری بھائیوں کی مدد میں آئے ہیں یہی جواب اہل کوفہ کے گروہ نے دیا محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ تم سب کو ایک ہی وقت میں یہ سب معلوم کیسے ہو گیا؟ حالانکہ کہ تم میں ایک دوسرے کے درمیان کئی منزلوں کا فاصلہ ہے اور تم سب یہاں اکٹھے نظر آرہے ہو ایسا لگتا ہے کہ سب تمہاری سازش ہے انہوں نے جواب میں کہا کہ تمہارا جو جی چاہے سمجھو ہم تم پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس شخص(سیدنا عثمانؓ) کی اب ضرورت نہیں، اس کو ہٹائے بغیر ہم پیچھے نہ ہٹیں گے۔
اے اہل کوفہ و بصرہ تمہیں مصریوں کی اس بات کا کیسے پتا چلا کہ ان کو ایک خط ملا ہے جس میں انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تم لوگ بہت دور جا چکے تھے اور اتنی جلدی واپس آگئے ہو اللّٰہ کی قسم مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اس منصوبہ کو مدینہ میں ہی تیار کر دیا تھا۔
محمد بن مسلمہؓ نے ان سے وہ خط لیا اور سیدنا عثمانؓ کی خدمت میں تشریف لائے اور اس خط کی حقیقت معلوم کی. سیدنا عثمانؓ نے قسم کھا کر فرمایا کہ نہ میں نے کوئی خط لکھا ہے اور نہ میں نے کسی کو حکم دیا ہے اور نہ مجھے اس خط کے بارے میں کوئی علم ہے۔
سیدنا علیؓ اور دوسرے حضرات نے کہا کہ سیدنا عثمانؓ درست کہتے ہیں، مصری کہنے لگے: پھر یہ خط کس نے لکھا ہے؟ آپؓ نے لاعلمی کا اظہار فرمایا تو کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپؓ کو اس کا پتہ نہ ہو حالانکہ یہ خط آپؓ کے آدمی کے ہاتھ سے ملا ہے اور اس خط پر آپؓ کی مہر بھی لگی ہے.
اس وقت کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس بارے میں پوری تحقیق کیسے کی جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ کہیں مروان نے یہ خط نہ لکھا ہو۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے قسم کھا کر اس سے انکار کیا۔
سیدنا عثمانؓ کے خلاف محاذ بنانے والوں نے جس طرح سیدنا علیؓ، سیدنا زبیرؓ اور سیدنا طلحہؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ناموں سے جعلی خطوط مختلف علاقوں میں بھیجے ان کے لیے یہ کیا مشکل تھا کہ وہ اس قسم کا فرضی خط بنائیں اور اسے سیدنا عثمانؓ کے سر لگا دیں اور پھر پوری قوت کے ساتھ اس بات کو اچھالیں اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کر لیں۔
سیدنا عثمانؓ کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے کسی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا یہ صریح افتراء پردازی ہے۔ جو شخص سیدنا عثمانؓ کی سیرت و کردار سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے۔ لوگ ان کو قتل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے اس کے باوجود آپؓ اپنے ساتھیوں کو روکتے تھے، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپؓ ایک انسان کو بلا وجہ قتل کرنے کا حکم دیں۔(المنتقی صفحہ 572 اُردو)
جن لوگوں نے سیدنا عثمانؓ کی خلافت پر حملہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا، یہ کوئی اچانک حملہ نہ تھا ایک نہایت منظم انداز میں اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا رہا تھا۔ آپؓ کے نام پر جو خط تیار کیا گیا وہ بھی کوئی پہلا اور انوکھا خط نہ تھا بلکہ اس قسم کے خطوط اس سے پہلے بھی تیار کیے گئے تھے۔ کیا ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ، امیر المؤمنین سیدنا علیؓ، سیدنا طلحہؓ اور سیدنا زبیرؓ کے نام پر جعلی خطوط نہیں پھیلائے گئے اور پھر ان بزرگوں نے کھلے عام ان خطوط سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا تھا؟
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے قسم کھا کر کہا کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں میں نے انہیں کوئی خط نہیں لکھا تھا واللہ ما کتبت لکم کتابا
(سیر الشہداء للسحیبانی: صفحہ 51)
سیدنا عثمانؓ نے قسم کھا کر اس خط سے براءت کا اظہار کیا سیدنا علی المرتضیٰؓ اور دوسرے اکابرین صحابہؓ نے کھل کر آپؓ کی تائید کی مگر ابنِ سباء یہودی کے کارندوں نے سیدنا عثمانؓ کی بات ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ پہلے سے ہی یہ طے کرکے آئے تھے کہ وہ ہر حال میں سیدنا عثمان غنیؓ کو خلافت سے دستبردار کر کے رہیں گے اور ہوا بھی یہی، وہ اپنی بات پر اڑے رہے، سیدنا عثمانؓ نے ان کا یہ مطالبہ سختی سے مسترد کر دیا اور آپؓ بھی اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹے رہے آپؓ نے ان سے کہا کہ جہاں تک میرے عمال کے بارے میں کوئی بات ہے تو میں وہ مطالبہ پورا کر دیتا ہوں لیکن تمہاری یہ بات کہ تم خلافت سے دستبردار ہوجاؤ یہ نہیں ہوسکتا، یہ قمیص اللّٰہ نے مجھے پہنائی ہے اور حضورﷺکی زبان سے میں نے یہ بات سنی کہ یہ قمیص اللّٰہ نے مجھے پہنائی ہے میں اسے نہیں اتاروں گا۔
لا انزع سربالا سربلنیہ اللّٰہ ولکن انزع عما تکرھون
(طبقات جلد 3 صفحہ 49)
چنانچہ انہوں نے آپؓ کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور آپؓ کو مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے بھی روک دیا، معاملہ جب حد سے بڑھنے لگا تو سیدنا عثمانؓ نے سیدنا علیؓ اور سیدنا طلحہ ؓکو بلایا وہ تشریف لے آئے تو آپؓ نے ان سب کے سامنے فرمایا کہ
اے اہل مدینہ میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں اور اللّٰہ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے بعد تم پر بہتر شخص خلافت کرے، میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم نے وفاتِ عمر پر دعا مانگی تھی کہ اللّٰہ تمہیں تمہارے بہترین پر جمع کردے اگر تم کہتے ہو کہ خدا نے تمہاری دعا قبول نہیں کی تم خدا کے نزدیک کم مرتبہ ہو تو کہو کہ اللّٰہ کا دین اس کے ہاں اس قدر بے حقیقت ہے کہ وہ اس کا فیصلہ نہ کر پایا کہ اپنے دین کا والی کس کو بنا رہا ہے یا کہو کہ خلافت شوریٰ سے نہیں ہوئی تو پھر امت نے خدا کی نافرمانی کی یا کہو کہ اللّٰہ نے میرا انجام نہیں جانا۔ میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا مجھے اسلام میں سبقت اور تقدم حاصل نہیں ہے اللّٰہ نے ہر بعد والے پر مجھے مقدم کیا اور فضیلت عطاء فرمائی ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ پھر آپؓ ایک جمعہ کو منبر پر کھڑے ہوئے اس وقت آپؓ کے ہاتھ میں وہی عصا تھا جس پر حضورﷺ دوران خطبہ ٹیک لگایا کرتے تھے اور سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللّٰہ عنہما بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے تو مجمع میں سے جحیاہ نامی شخص اٹھ کر آپؓ کو برا بھلا کہنے لگا اور آپؓ کے منبر سے اترنے کا مطالبہ کیا اور آپؓ کے ہاتھ سے عصا لیکر اسے اپنے دائیں گھٹنے پر رکھ کر توڑ دیا جس سے اس کا پیر زخمی بھی ہوا(اللّٰہ نے اسے پھر یہ سزا دی کہ اس کا یہ پیر گل سڑ گیا تھا اور اس میں کیڑے پڑ گئے تھے) سیدنا عثمانؓ منبر سے نیچے اترے اور عصا کو دوبارہ جوڑنے کا حکم دیا
اسی طرح ایک اور موقع پر باغیوں نے سیدنا عثمانؓ کے ساتھ گستاخی سے پیش آنے کی کوشش کی تو سیدنا زید بن ثابت ؓوغیرہ نے انہیں باز آنے کے لیے کہا تو باغیوں کے ٹولے نے انہیں مارا اور جو لوگ سیدنا عثمانؓ کی حمایت میں کھڑے ہوئے ان پر بھی پتھر مارے حتیٰ کہ سیدنا عثمانؓ کو بھی نہ چھوڑا، آپؓ اس حملہ میں منبر سے بیہوش ہو کر گر گئے تھے پھر لوگوں نے آپؓ کو اٹھا کر آپؓ کے گھر پہنچایا۔
سیدنا علی، سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر رضی اللّٰہ عنہم اس دوران آپؓ کی عیادت کو آئے اور بتایا کہ مصریوں اور دیگر باغیوں نے دوسرے مسلمانوں کو بھی اپنی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے تو آپؓ کو اس کا افسوس ہوا۔ اس دوران صحابہؓ کی ایک جماعت آپؓ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ آپؓ اجازت دیں تاکہ ہم ان کے خلاف قتال کرکے ان کی شرارتوں کو روک دیں آپؓ نے فرمایا کہ نہیں، اور انہیں قسم دی کہ وہ ہتھیار نہیں اٹھائیں گے اور پرسکون رہیں گے۔
باغیوں نے آپؓ کے گھر کا محاصرہ کر کے آپؓ کا باہر نکلنا بند کردیا۔ بہت سے لوگ معاملہ کی نزاکت کو سمجھ نہ پائے تھے جبکہ بہت سے اس امید پر تھے کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی مصالحت پر منتج ہو جائے گا، ان میں سے کسی کو بھی یہ امید نہ تھی کہ یہ لوگ اس حد تک بھی جائیں گے کہ سیدنا عثمانؓ کو شہید کردیں گے۔ باغیوں کا اصرار تھا کہ سیدنا عثمانؓ خلافت چھوڑ دیں جبکہ سیدنا عثمانؓ اس بات پر سختی سے قائم تھے کہ وہ خلافت نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ انہیں حضورﷺ نے سختی سے اس پر ڈٹے رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ جن دنوں بیمار تھے آپؓ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ کوئی آپؓ کے پاس ہوتا ہم نے کہا حضورﷺ فرما دیں تو ابوبکرؓ کو بلا دیں، آپﷺ نے کوئی جواب نہ دیا ہم نے کہا سیدنا عمرؓ کو بلالیں، آپؓ پھر بھی خاموش رہے ہم نے کہا عثمانؓ کو بلالیں حضورﷺ نے فرمایا ہاں انہیں بلاؤ۔ چنانچہ سیدنا عثمانؓ جب تشریف لائے تو حضورﷺ نے تنہائی میں ان سے کچھ گفتگو فرمائی حضورﷺ کی باتیں سن کر سیدنا عثمانؓ کا رنگ بار بار بدلتا تھا۔ حضورﷺ نے سیدنا عثمانؓ سے کیا فرمایا اسے خود سیدنا عثمانؓ سے سنیے۔ آپؓ نے یہ بات اس وقت فرمائی جب آپؓ اپنے گھر میں قید کر دیے گئے تھے آپؓ نے فرمایا۔
ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عھد الی امرا فانا صابر نفسی علیہ
(مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 106)
حضورﷺ نے مجھ سے ایک خاص عہد لیا تھا اور میں اس بارے میں صبر کرنے والا ہوں۔
قیس کہتے ہیں کہ لوگوں نے آپؓ کو اس دن بڑے صبر کے ساتھ وہ لمحات گزارتے دیکھا تھا۔
اور یہ خاص عہد جس معاملے میں لیا گیا ہے اس کا بیان بھی حضورﷺ نے فرما دیا ہے
یا عثمان ان ولاک اللّٰہ ھذا الامر یوما فارادک المنافقون ان تخلع قمیصک الذی یقمصک اللّٰہ فلا تخلعہ۔
(ابن ماجہ صفحہ 11)
(مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 107)
(الصواعق المحرقہ صفحہ 10)
اے عثمانؓ اللّٰہ اگر کسی دن تمہیں خلافت سے نوازے اور منافقین چاہیں کہ یہ قمیص جو اللّٰہ نے تجھے پہنائی ہے تو اتار دے تو تم اسے ہرگز نہ اتارنا
حضورﷺ نے اس میں اشارہ فرما دیا کہ جب بھی وہ وقت آئے اور لوگ آپؓ سے خلافت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کریں تو ان کی بات نہ ماننا، یہ خلافت اللّٰہ نے تمہیں عطاء فرمائی ہے اس میں جان تو دی جاسکتی ہے مگر اللہ کی پہنائی خلعت پر کسی طور حرف نہ آنے دینا، آپ ﷺ نے ان لوگوں کو جو آپؓ سے دستبرداری کا مطالبہ کر رہے تھے منافق اور ظالم قرار دیا ہے، چنانچہ سیدنا عثمانؓ کو اپنی جان سے زیادہ حضورﷺ کی بات کا احترام تھا، آپؓ نے جان تو دے دی مگر خلافت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ آپؓ کی مظلومانہ شہادت کی خبر حضورﷺ نے پہلے دے دی تھی۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے ایک فتنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا
(جامع ترمذی ج 2 صفحہ 212)
( الصواعق المحرقہ صفحہ 110)
️اس میں عثمانؓ مظلوم ہونے کی حالت میں مارا جائے گا۔
ان دنوں صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد حج کے لیے مکہ مکرمہ میں جا چکی تھی بہت سے صحابۂ کرامؓ غزوہ کے لیے گئے ہوئے تھے، ادھر مدینہ میں صحابہؓ کی تعداد کم تھی ان میں بہت سے حضرات اس خوش فہمی میں رہے کہ گفت وشنید کے بعد معاملہ رفع دفع ہو جائے گا اور بات دور تک نہ جائے گی چنانچہ باغیوں نے لوگوں کی کمی اور حج کی وجہ سے ان کی غیر حاضری کا فائدہ اٹھایا
(وانتھزوا الفرصۃ بقلۃ الناس وغیبتھم فی الحج
ان میں سے بعض بزرگوں نے باغیوں کو سمجھانے کی کوششیں جاری رکھیں مگر وہ اس ایک مطالبہ کے سوا کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ تھے اور ادھر سیدنا عثمانؓ اس ایک بات کے سوا باقی باتوں کو تسلیم کر سکتے تھے معاملہ دن بدن بڑھتا رہا تقریباً چالیس روز تک سیدنا عثمانؓ کے گھر کا گھیراؤ جاری رہا اور اس دوران سیدنا عثمانؓ کے گھر کا پانی بند کر دیا گیا اور آپؓ تک پانی پہنچانے کی بھی اجازت نہ دی گئی۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنے غلاموں کے ذریعہ آپؓ تک پانی پہنچانا چاہا مگر وہ بھی بڑی مشکل سے آپؓ تک پہنچایا گیا اس میں آپؓ کا غلام زخمی ہوا۔
سیدنا علیؓ نے ان لوگوں سے کہا: اے لوگو جو کچھ تم کر رہے ہو یہ نہ تو مسلمانوں کا کام ہے اور نہ ہی کافروں کا، تم سیدنا عثمانؓ سے کھانے پینے کی چیزیں کیوں روک رہے ہو، روم اور فارس کے لوگ بھی اگر کسی کو قید کرتے ہیں تو وہ اسے کھلاتے پلاتے ہیں اور سیدنا عثمانؓ نے تو تم لوگوں سے کوئی تعرض بھی نہیں کیا ہے تم کس بنا پر ان کا محاصرہ کر رہے اور ان کے قتل کو جائز سمجھتے ہو؟