Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شہادت سیدنا عثمان غنیؓ قسط چہارم

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

شہادت سیدنا عثمان غنیؓ

 قسط چہارم

ان ظالموں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ایک نہ سنی اور کھانے پینے کی چیزیں روک رکھیں، ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ کو پتہ چلا کہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کا پانی بند کر دیا ہے تو آپؓ ان کے لیے ایک مشکیزہ میں پانی لے کر آئیں، باغیوں نے ان کے خچر پر تلوار سے حملہ کیا تو خچر بدک کر بھاگنے لگا۔ اس دوران حضرت ام المومنینؓ گرتے گرتے بچیں، پھر آپؓ کو اپنے گھر پہنچا دیا گیا۔ ام المؤمنین حضرت صفیہؓ نے بھی حضرت عثمانؓ کی حمایت و نصرت میں کوئی کمی نہ کی آپؓ نے کوشش کی کہ حضرت عثمانؓ تک کھانا اور پانی پہنچتا رہے۔

اس قدر سخت حالات میں بھی حضرت عثمانؓ صبر و تحمل کا پیکر بنے رہے، آپؓ نے ایک بیان میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

️تم اللّٰہ کو گواہ بنا کر بتانا کہ جب مسجد مسلمانوں کے لیے تنگ ہوگئی تھی اور حضورﷺ نے ساتھ والی زمین خریدنے کی ترغیب دی تو میں نے اپنے خالص مال سے وہ جگہ خریدی اور اسے مسلمانوں کے لیے وقف کردیا تھا اور آج یہ وقت آگیا ہے کہ تم مجھے اسی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے لیے بھی جانے سے روک رہے ہو۔

وانتم تمنعونی ان اصلی فیہ رکعتین۔ 

(البدایہ: جلد7، صفحہ178) 

تم اللّٰہ کو گواہ بن کر بتانا کہ جب حضورﷺ مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں کو میٹھے پانی کی سخت ضرورت تھی حضورﷺ نے بئر رومہ خریدنے کی ترغیب فرمائی تو میں نے اسے بھاری قیمت دے کر مسلمانوں کے لیے خرید لیا اور آج یہ وقت آگیا ہے کہ تم نے اسی کا پانی میرے لیے روک دیا ہے۔

آپؓ نے انہی دنوں ایک اور بیان میں فرمایا کہ 

️تم میرے قتل کے درپے کیوں ہو میں نے کسی کو قتل نہیں کیا، نہ کبھی زنا کیا اور نہ میں اسلام سے پھرا ہوں۔

انی اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہ ورسولہ

آپؓ نے ان سے یہاں تک فرمایا کہ اے لوگو میرے خون سے اپنے ہاتھوں کو نہ رنگنا، خدا کی قسم اگر تم نے ایسا کیا تو تم پھر کبھی اکٹھے نماز نہ پڑھ سکو گے، کبھی دشمنوں کے خلاف اکٹھے ہوکر جہاد نہ کر سکو گے، تم آپس میں مختلف ہو جاؤ گے۔

(طبقات جلد3 صفحہ49،)

(المصنف لابن ابی شیبہ جلد7 صفحہ441)

پھر آپؓ نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی

وَ یٰقَوۡمِ لَا یَجۡرِ مَنَّکُمۡ شِقَاقِیۡۤ اَنۡ یُّصِیۡبَکُمۡ مِّثۡلُ مَاۤ اَصَابَ قَوۡمَ نُوۡحٍ اَوۡ قَوۡمَ ہُوۡدٍ اَوۡ قَوۡمَ صٰلِحٍ ؕ وَ مَا قَوۡمُ لُوۡطٍ مِّنۡکُمۡ بِبَعِیۡدٍ 

(سورۂ ہود: آیت نمبر 89)

اور اے میری قوم ! میرے ساتھ ضد کا جو معاملہ تم کر رہے ہو، وہ کہیں تمہیں اس انجام تک نہ پہنچا دے کہ تم پر بھی ویسی ہی مصیبت نازل ہو جیسی نوحؑ کی قوم پر یا ہودؑ کی قوم پر یا صالحؑ کی قوم پر نازل ہوچکی ہے۔ اور لوطؑ کی قوم تو تم سے کچھ دور بھی نہیں ہے۔

(المصنف لابن ابی شیبہ جلد7 صفحہ442،

ابن سعد جلد3 صفحہ52،

آپؓ نے فرمایا کہ کیا تمہیں پتہ نہیں کہ جب میں رسول اللّٰہﷺ کے ساتھ پہاڑ پر کھڑا تھا اور پہاڑ حرکت کرنے لگا تو آپؓ نے فرمایا اے حرا ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور ایک شہید کھڑے ہیں۔ کیا تم اس بات سے بے خبر ہو کہ جب حضورﷺ نے مکہ میں مشرکین کے پاس مجھے بھیجا اور میرے قتل کی افواہ پھیلی تو آپ ﷺ نے بیعت لی تھی اور اپنے دستِ مبارک کو میرا ہاتھ فرما کر بیعت لی تھی.

(ایضاً: صفحہ179)

حضرت عثمانؓ انہیں بار بار پوچھ رہے تھے کہ اگر انہوں نے کوئی سنگین جرم کیا ہو کہ جس کے نتیجے میں انہیں قتل کر دیا جائے یا ان سے خلافت چھین لی جائے تو وہ انہیں بتائیں مگر وہ ایک بھی ایسا جرم ثابت نہ کرسکے جس سے وہ اپنا مؤقف درست بتا سکیں آپؓ انہیں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی ان خدمات کو یاد دلاتے رہے جن کی حضورﷺ نے تعریف فرما کر آپؓ کو دعاؤں سے نوازا تھا مگر انہوں نے آپؓ کی ایک نہ سنی کیونکہ وہ سننے کے لیے آئے ہی نہ تھے، ان کا مقصد سوائے اس کے کچھ اور نہ تھا کہ اسلامی خلافت کا تختہ الٹ جائے اور مسلمانوں کو اندرونی خلفشار اور انتشار میں مبتلا کر دیا جائے تا کہ وہ دشمنوں کے بارے میں بالکل غافل ہو جائیں۔

جیسا کہ ہم بتا آئے ہیں کہ صحابہؓ کی ایک بڑی تعداد حج کے لیے جاچکی تھی اگر انہیں یہ بات معلوم ہوجاتی کہ مصر، کوفہ، بصرہ اور دیگر جگہوں سے جو لوگ حج کے نام پر آرہے ہیں اور ایک جگہ آہستہ آہستہ جمع ہو رہے ہیں وہ صرف ایک دھوکہ ہے تو صحابہؓ کی بڑی تعداد کبھی مکہ مکرمہ نہ جاتی، اسی طرح اگر مدینہ والوں پر یہ بات کھل جاتی کہ یہ لوگ حضرت عثمانؓ کے عمال کے ظلم کے نام پر درحقیقت حضرت عثمانؓ اور آپؓ کی خلافت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو وہ بھی پہلے ہی مرحلہ پر ان کا راستہ روک دیتے، یہ حضرات اس گمان میں رہ گئے کہ بات اتنی دور تک نہ جائے گی۔ انہیں پتہ نہ چلا کہ یہ لوگ حضرت عثمانؓ کے خلاف انتہائی ظالمانہ قدم اٹھانے سے بھی نہ چوکیں گے۔

وکان اصحاب النبیﷺ الذین خذلوہ کرھوا الفتنۃ وظنوا ان الامر لا یبلغ قتلہ فندموا علی صنعوا فی امره ولعمری ولو قاموا او قام بعضھم فحثا وجہہم التراب لانصرفوا خاسرین۔

(طبقات جلد3 صفحہ53)

( تاریخ دمشق جلد16 صفحہ210) 

حضورﷺ کے صحابہؓ محض فتنہ کے اندیشہ کے پیشِ نظر آگے نہ بڑھے اور ان کا گمان تھا کہ معاملہ اس انتہاء تک نہ پہنچے گا پس بعد میں جو کچھ ہوا انہیں اپنے اس کردار پر ندامت ہوئی بخدا اگر یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوتے یا ان میں سے کچھ ہی کھڑے ہو جاتے اور ان کے منہ پر مٹی ہی پھینک دیتے تو وہ ناکام ہوکر لوٹ جاتے۔

حضرت علیؓ نے جب حالات کی سنگینی بڑھتی دیکھی تو آپؓ نے اپنے دونوں صاحبزادوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہما کو حضرت عثمانؓ کے دروازے پر کھڑا ہونے کا حکم دیا اور فرمایا کہ حضرت عثمانؓ کی حفاظت کرنا اور کسی بھی باغی کو آپؓ تک پہنچنے نہ دینا، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنہما نے بھی اپنے جوان بچوں کو آپؓ کی حفاظت پر مامور کر دیا یہ نوجوان حضرت عثمانؓ کے دروازے پر کھڑے ہوگئے تاکہ باغی اندر جانے میں کامیاب نہ ہوں۔

آپؓ کا عقیدہ تھا کہ اس موقع پر حضرت عثمانؓ کی نصرت اور ان کی حفاظت نہ کرنا گناہ ہے، آپؓ خود فرماتے ہیں:

واللہ قد دفعت عنہ قد خشیت ان اکون آثما۔

(نہج البلاغہ جلد2 صفحہ261) 

خدا کی قسم میں نے حضرت عثمانؓ کی طرف سے پورا دفاع کیا یہاں تک کہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں میں گنہگار نہ ٹھہروں.

حضرت عثمانؓ کے آس پاس جو حضرات موجود تھے یا جو لوگ کسی نہ کسی طریقے سے آپؓ کے پاس آسکتے تھے انہوں نے حالات کی سنگینی دیکھ کر حضرت عثمانؓ سے عرض کیا کہ اگر آپؓ ہمیں اجازت دیں تو ہم ان لوگوں سے قتال کریں اور انہیں ان کی اس حرکت کا سختی سے جواب دیں۔ حضرت عثمانؓ نے انہیں اس کی اجازت نہ دی اور نہایت سختی سے ان سب کو ہاتھ اٹھانے سے روک دیا، حضرت علیؓ نے پیغام بھیجا کہ میرے ساتھ پانچ سو کے قریب زرہ پوش لوگ موجود ہیں اگر آپ اجازت دیں تو انہیں آپؓ کے دفاع کے لیے بھیج دیا جائے اس لیے کہ آپؓ نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا جس کی بناء پر آپؓ کا خون کرنا حلال ٹھہرے، آپؓ نے حضرت علیؓ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اللّٰہ آپؓ کو اس کی جزا دے میں پسند نہیں کرتا کہ میری وجہ سے یہاں خون خرابہ ہو۔

فانک لم تحدث شیئا یستحل بہ دمک فقال جزیت خیرا ما احب ان یھراق دم فی سببی۔

(تاریخ دمشق: جلد16 صفحہ220)

اب یہاں تک کہ اس جھوٹ کو بھی دیکھیں جو شیعہ علماء دن رات بولتے ہیں اور حضرت عثمانؓ کی شہادت پر خوش ہوتے ہوئے نہیں شرماتے.

ہندوستان کے علاقہ اودھ کے ایک رافضی ملا حسین بخش کا بغضِ باطنی ملاحظہ کیجئے: وہ لکھتا ہے۔

قتل عثمانؓ قطعی کوئی جرم نہیں تھا بلکہ یہ تو اسلامی معاشرے کے اعلیٰ مقاصد کے عین مطابق تھا اور خود حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کے دفاع کے لیے راضی نہ تھے

(امامت و ملوکیت صفحہ123) 

یہ جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کو دفاع کی پیشکش نہیں کی؟ آپؓ نے اپنے بچوں کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لیے نہیں بھیجا؟ کیا سیدنا حسن رضی اللّٰہ عنہ حضرت عثمانؓ کی مدافعت کرنے میں زخمی نہیں ہوئے تھے؟ ان سب کے باوجود بھی اگر ملا حسین بخش اور اس قبیل کے لوگ جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہیں تو پھر اس یقین سے چارہ نہیں کہ یہ لوگ واقعی ابن سبا کی روحانی اولاد ہیں۔ 

جلیل القدر صحابی حضرت زیدؓ بن ثابت حضرت عثمانؓ کے پاس آئے اور کہا کہ بہت سے لوگ آپؓ کے پاس آنا چاہتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر آپؓ چاہیں تو ہم اللہ کے لیے آپؓ کی مدد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں ہم اللّٰہ کی فوج بن جائیں اور انہیں ان کے بھولے ہوئے دن پھر سے یاد دلا دیں اور ان کی شرارتوں کا مزہ انہیں چکھا دیں، آپؓ ہمیں اس کی اجازت دیں آپؓ نے فرمایا کہ نہیں میں تمہیں قتال کی اجازت نہیں دیتا۔

ان شئت کنا انصار اللہ مرتین قال فقال عثمانؓ اما القتال فلا۔

(طبقات ابن سعد جلد3 صفحہ51) 

آپؓ سے جن لوگوں نے بھی قتال کی اجازت مانگی اور کہا کہ انہیں مقابلہ کی اجازت دیں تو آپؓ نے انہیں منع کر دیا اور فرمایا کہ میرے دفاع کی ضرورت نہیں اور تم اپنے ہاتھوں اور ہتھیاروں کو روکے رکھو۔ عامر بن ربیعہؓ کہتے ہیں 

ان اعظمکم عنی غناء رجل کف یدہ و سلاحہ۔

(سنن سعید بن منصور جلد2 صفحہ336)

میرا سب سے بڑا مددگار وہ ہے جو میرے دفاع میں ہاتھ اور تلوار نہ اٹھائے۔

آپؓ کے غلام آپ کی حمایت میں آگے بڑھنے اور آپؓ پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار تھے، صرف انہیں آپ کے حکم کا انتظار تھا۔ حضرت عثمانؓ نے جب انہیں دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو شخص بھی اپنے ہاتھوں کو روک رکھے وہ آزاد ہے۔

من کف یدہ فھو حر۔

اعزم علی کل من رأی ان علیہ سمعا وطاعۃ الا کف یدہ و سلاحہ

حضرت حسنؓ نے آپؓ سے کہا کہ امیر المومنینؓ میں حسن بن علیؓ ہوں آپؓ امام برحق ہیں آپؓ مجھے حکم دیں تو میں اس بلوہ کا راستہ روکوں

 تو امام برحق مرا فرمان دہ تابلائے ایں از قوم تو دفع کنم

(کشف المحجوب صفحہ52)

آپؓ نے فرمایا بھتیجے بیٹھ جائیے اور انتظار کیجئے کہ اللّٰہ کیا فیصلہ فرماتے ہیں میرے لیے اب اس دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے یا فرمایا کہ میرے لیے جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

اجلس یا ابن اخی حتیٰ یاتی اللّٰہ بامرہ فانہ لا حاجۃ لی فی الدنیا او قال فی القتال۔

حضرت حسنؓ گلے میں تلوار ڈالے آپؓ کی مدافعت کے لیے تیار تھے حضرت عثمانؓ کو اس بات کا ڈر ہوا کہ کہیں حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے،آپؓ نے حضرت حسنؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر جائیں یہ بات حضرت علیؓ کی دلجوئی کے لیے بھی تھی اور اس لیے بھی کہ حضرت حسنؓ کو گزند نہ پہنچے۔

حضرت عثمانؓ جانتے تھے کہ حضورﷺ کو مدینہ سے بڑی محبت تھی، یہ آپ ﷺ کا دار الہجرت ہے اور حضورﷺ یہاں آرام فرما ہیں۔ اب اگر آپؓ اپنے ساتھیوں کو بھی قتال کی اجازت دیں گے تو نتیجہ مسلمانوں کے خون کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ کی بے حرمتی کی صورت میں ہوگا اور آپؓ یہ برداشت نہ کر سکتے تھے کہ مدینہ کی حرمت کسی طرح بھی پامال ہو۔

جب حضرت ابوھریرہؓ حضرت عثمانؓ کی حمایت میں تلوار لٹکائے نکلنے لگے تو حضرت عثمانؓ نے انہیں روکا اور فرمایا آپؓ اپنی تلوار پھینک دو میں تمہارے ہاتھوں کسی کا خون ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا، کیا تو چاہتا ہے کہ تو ہم سب کو قتل کردے؟ اگر تو نے ایسا کیا تو یہ ایک آدمی کا قتل نہ ہوگا بلکہ پوری انسانیت کا قتل ہوگا.

فانک واللہ ان قتلت رجلا واحدا فکانما قتل الناس جمیعا قال فرجعت ولم اقاتل۔

(دیکھئے طبقات ابن سعد جلد3 صفحہ51) 

فقال واللہ لئن قتلت رجلا واحدا فکانما قتل الناس جمیعا فرجعت ولم اقاتل۔

(سنن سعید بن منصور جلد2 صفحہ334) 

(سنن ابنِ ماجہ صفحہ11) 

چونکہ حضورﷺ نے مجھے صبر کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور میں نے آپﷺ سے اس بارے میں وعدہ کیا ہے سو میں اپنے وعدہ پر قائم ہوں، کوئی شخص بھی میرے لیے اپنی تلوار نہ اٹھائے۔ پھر آپؓ نے ہر اس شخص کو روک دیا جو آپؓ کی طرف سے ان باغیوں کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔

انہی دنوں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ آپؓ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپؓ عوام کے امام ہیں اور آپؓ جس حال سے دوچار ہیں وہ بھی آپؓ سے مخفی نہیں اس وقت تین باتوں میں سے کوئی ایک بات اختیار کرلیں 

1) آپؓ باہر نکلیں اور ان کا مقابلہ کریں ہم آپؓ کے ساتھ ہیں آپؓ حق پر ہیں آپؓ کی حمایت میں لوگ کھڑے ہیں۔ 

2) آپؓ کے لیے پیچھے سے دروازہ کھولتے ہیں آپؓ وہاں سے نکل جائیں اور مکہ مکرمہ چلے جائیں وہاں کوئی شخص آپ کے خون سے ہاتھ رنگنے کی ہمت نہ کرے گا۔ 

3) ملک شام چلے جائیں وہاں حضرت معاویہؓ موجود ہیں، وہاں یہ لوگ کسی طرح آپؓ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے.

آپؓ نے اس کے جواب میں فرمایا 

اما ان اخرج فاقاتل فلن اکون اول من خلف رسول اللّٰہﷺ فی امتہ بسفک الدماء واما ان اخرج الی مکۃ فانہم لن یستحلونی بہا فانی سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول یلحد رجل من قریش بمکۃ یکون علیہ نصف عذاب العالم فلن اکون ایاہ وانا ان الحق بالشام فانھم اہل الشام و فیھم معاویۃ فلم افارق دار ھجرتی ومجاورۃ رسول اللّٰہﷺ ۔ 

(مسند احمد جلد1 صفحہ108)

(تاریخ دمشق جلد16 صفحہ217)

یہ نہیں ہو سکتا کہ میں حضورﷺ کا خلیفہ ہوکر امت مسلمہ کو خون ریزی میں جھونک دوں۔ اور مکہ مکرمہ اس لیے نہیں جا سکتا کہ حضورﷺ سے میں نے سنا ہے کہ جو قریشی حرم مکہ میں خون خرابہ کرے گا اور ظلم کرانے کا باعث بنے گا اس پر آدھی دنیا کے باشندوں کا عذاب ہوگا جہاں تک شام جانے کا تعلق ہے تو یہ اس لیے نہیں ہو سکتا کہ میں دار الہجرت اور حضورﷺ کی مجاورت اور ہمسائیگی نہیں چھوڑ سکتا۔