Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے المناک نتائج

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

شہادت سیدنا عثمانِ غنیؓ

قسط ہفتم

حضرت عثمانِ غنیؓ کی شہادت کے المناک نتائج

سیدنا عثمانِ غنیؓ کی شہادت نے مسلمانوں کو کس افسوسناک اور المناک صورت حال سے دو چار کر دیا یہ آپ پڑھ آئے ہیں آپؓ کی شہادت پر جو تلوار میان سے نکلی اس نے بہت سے مسلمانوں کو خاک و خون میں تڑپایا اس حادثۂ فاجعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد حضرت علی المرتضیٰؓ بھی شہید کر دیئے گئے جنگ جمل میں صحابہ کرامؓ خون میں نہلائے گئے جنگ صفین میں مسلمان فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہو گئیں پھر بھی اس کی پیاس ٹھنڈی نہ ہوئی مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا اور جو امن و سکون مسلمانوں کو اس سے پہلے حاصل تھا اب وہ خوف وہراس، بے چینی اور بد امنی میں بدل گیا اسلامی وحدت اور یک جہتی پارہ پارہ ہو گئی۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک خاص انداز میں شہادت عثمانؓ کا جائزہ لیا ہے آپ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت پر خلافتِ خاصہ کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

حضرت عثمان ذوالنورینؓ کی شہادت سے جو تغیر ہوا اور اس کے جو مفاسد مرتب ہوئے وہ سب سے بڑھا ہوا ہے رسول اللہ ﷺ نے اس تغیر کو زمانۂ خیر و زمانۂ شر میں حد فاصل قرار دیا ہے اور اپنے اشارہ کا مرجع اسی تغیر کو بنایا ہے بہت سی حدیثوں میں جو بحیثیت مجموعی متواتر ہیں اور اس تغیر سے خلافتِ خاصہ منتظمہ ختم ہو گئی جیسا کہ رسول اللہﷺ نے بہت سی حدیثوں میں اس کو صاف بیان کیا ہے اور رسول اللہﷺ نے بہت سی حدیثوں میں تینوں خلفاءؓ کا ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں اور اگر تم غور سے دیکھو تو جہاں کہیں خلافتِ خاصہ منتظمہ بالفعل کا ذکر ہے وہاں تینوں خلفاءؓ کا ذکر ایک ساتھ ہے اور جہاں کہیں خلافتِ خاصہ کا ذکر حضورﷺ کے سامنے یا آپﷺ کے پیچھے مہمات میں مداخلت کے ساتھ ہے وہاں صرف شیخینؓ کا ذکر ہے، حضرت عثمانؓ کی شہادت سے وہ تینوں قرن جن کی خیریت کی شہادت دی گئی ہے ختم ہو گئے تیسرا قرن حضرت ذوالنورینؓ کی خلافت کا زمانہ تھا جو قریب بارہ سال کے رہا ہے۔ حضرت ذوالنورینؓ کی روش میں بنسبت شیخینؓ کے کچھ فرق تھا کیونکہ حضرت ذوالنورینؓ کبھی عزیمت سے رخصت کی طرف اتر آیا کرتے تھے اور ان کے حکام بھی شیخینؓ کے حکام کے مثل نہ تھے اور رعیت بھی ان کی ویسی مطیع نہ تھی جیسی حضرت صدیقؓ اور حضرت فاروقؓ کی مطیع تھی گو ویسی خشونت بھی رعیت کی طرف سے ظاہر نہیں ہوئی تھی اور مخالفت کی کیفیت دل و زبان سے ہاتھ اور ہتھیار کی طرف منتقل نہ ہوئی تھی مگر اس قرن کے پورے ہوجانے کے بعد ان باتوں میں سوا مکابر کے کوئی نزاع نہیں ہو سکتا

(ازالۃ ج 1 ص 586)

محقق العصر حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمانِ غنیؓ وحدت امت کا نشان تھے آپؓ شہید ہونے تک وحدت امت کی فکر میں رہے جان تو دے دی مگر وحدت امت کو پارہ پارہ نہ ہونے دیا اور آپؓ گو کہتے رہے کہ میرے بعد تم سب ایک پلیٹ فارم پر نہ رہ پاؤ گے تاہم آپؓ کی آخری وقت کی دعا بھی وحدتِ امت کی تھی، آپؓ کی شہادت نے سب سے پہلے جس چیز کو متاثر کیا وہ وحدتِ امت تھی۔ آپ لکھتے ہیں:

آپؓ کے بعد امت اعتقاداً نہیں امارۃ  آپس میں مختلف ہوئی اور حالات اس طرح ترتیب پائے

(1) حضرت عثمانِ غنیؓ کے باغی خلیفۂ راشد حضرت علیؓ کے لئے ایک چیلنج بن گئے اور حضرت علیؓ کو کہنا پڑا کہ *يملكوننا ولا نملكھم* ان کی بات ہم پر چلتی ہے ہماری بات ان پر نہیں چلتی

(2) حضرت علی المرتضیٰؓ کی اس بے بسی پر حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ ان کا ساتھ چھوڑ گئے ان کا نظریہ یہ تھا کہ جو ظالموں پر قابو نہ پاسکے وہ قوت خلافت کس طرح رکھ سکتا ہے حضرت علیؓ نے اسے نقض بیعت قرار دیا تاہم معرکۂ جمل میں وہ حالات کی نزاکت کو سمجھ گئے اور انہوں نے حضرت علیؓ سے مصالحت کر لی اور ان کی مخالفت سے دست کش ہو گئے لیکن مفسدین نے انہیں پھر بھی نہ چھوڑا ۔

(3) گورنر شام حضرت معاویہؓ اور فاتح مصر عمرو بن العاصؓ نے اپنی بیعت کو ایسا معرض التواء میں ڈالا کہ حضرت علیؓ ان کے خلاف چڑھائی پر مجبور ہوئے، جنگ صفین دو حکموں کے تحکیم پر ختم ہوئی اور وہ کسی درجے میں بھی فیصلہ کن نہ ہوسکی۔

(4) تحکیم کے نتیجہ میں مسلمانوں میں پہلا اعتقادی فتنہ اٹھا اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ خوارج حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ دونوں کے خلاف اٹھے انہوں نے خلیفہ راشد حضرت علیؓ کو شہید کر دیا اور حضرت معاویہؓ کے خلاف ان کی سازشِ قتل ناکام رہی۔

امت میں یہ اختلافات کب اٹھے؟ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد اس سے پوری دنیا نے جان لیا کہ حضرت عثمانؓ واقعی وحدتِ امت اور اختلافِ امت میں ایک تاریخی فاصلہ رہے ہیں، حضرت عثمانؓ کا اپنے آخری وقت تک وحدت امت کا نشان بننا آپؓ کی خلافت کے برحق ہونے کی ایک کھلی تکوینی شہادت ہے۔

( خلفائے راشدین ج 2 ص 92)

اور یہ بات خود حضرت عثمانؓ نے بھی اپنے آخری وقت میں کہہ دی تھی آپؓ نے فرمایا کہ اگر تم نے میرے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے تو تمہاری وحدت ختم ہو جائے گی تم انتشار و خلفشار میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ آپؓ نے قسم کھا کر کہا:

والله لئن قتلتمونى لا تتحابوا بعدى ولا تصلوا جميعا أبدا ولاتقاتلوا بعدى عدوا جميعا أبدا۔

( البدايه ج 7 ص180)

لو قتلتموني لا يتحابون بعدى ابدا

المصنف لابن ابی شیبہ ج 7 ص 441)

خدا کی قسم اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو تم آپس میں کبھی محبت سے نہ رہ پاؤ گے اور نہ اکٹھے نماز پڑھ سکو گے اور نہ کبھی اکٹھے ہو کر دشمن کے ساتھ لڑ سکو گے.

ایک سوال اور اس کا جواب

حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت میں کیا کسی صحابی کا کوئی ہاتھ تھا ؟ اور کیا ان میں سے کوئی ایک صحابی بھی ایسا تھا جو آپؓ کی شہادت سے کبھی راضی ہوا ہو ؟

الجواب

حضور ﷺ کے صحابۂ کرامؓ میں ایک صحابی بھی ایسا نہ تھا جس کے دل میں حضرت عثمانؓ کے خلاف کوئی بوجھ ہو، ان سب کو معلوم تھا کہ حضورﷺ  نے حضرت عثمانؓ کو ہمیشہ نگاہ محبت و عزت سے دیکھا ہے اور آپؓ کے بارے میں بڑے فضائل و مراتب بیان فرمائے اور اشاروں کنایوں میں آپؓ کے خلیفۂ ثالث ہونے کی بشارت اور آپؓ کے شہید اور جنتی ہونے کی بشارت دی ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضور ﷺ تو حضرت عثمانؓ کو حق اور ہدایت پر بتائیں اور آپؓ کے اچھے ہونے کی گواہی دیں اور انہیں اپنے مؤقف پر استقامت سے رہنے کی تاکید فرمائیں اور دوسری طرف آپﷺ کے صحابہؓ ان سب ارشادات کو بیک نظر مسترد کرتے ہوئے ان کے قتل میں شامل ہو جائیں. جو لوگ صحابہؓ کو حضرت عثمانِ غنیؓ کے قتل میں شامل بتاتے ہیں اور انہیں اس گندگی میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ صحابہؓ کے نام پر حضرت عثمان غنیؓ کو نشانۂ طعن بناسکیں۔ استغفر الله العظيم ...

امام ابو بکر بن العربی المالکی (543ھ) لکھتے ہیں:

ان احدا من الصحابة لم يسع عليه ولا قعد عنه

العواصم من القواصم ص 143

صحابۂ کرامؓ میں سے کوئی بھی حضرت عثمانِ غنیؓ کی مخالفت میں آگے بڑھا اور نہ وہ آپؓ کی حمایت سے دست کش ہوئے

صحیح مسلم کے شارح اور محدث امام نووی (676 ھ ) کھل کر لکھتے ہیں:

لم يشارك في قتله أحد من الصحابة

نووی شرح مسلم ج 2 ص 143

حضرت عثمانؓ کے خون میں کسی بھی صحابی کا کوئی ہاتھ نہ تھا

شیخ الا سلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ لکھتے ہیں

ومعلوم بالتواتر أن أهل الامصار لم يشهدوا قتله فلم يقتله بقدر من بايعه وأكثر أهل المدينة لم يقتلوه ولا أحد من السابقين الاولين دخل في قتله كما دخلوا في بيعته

✍?(منهاج السنۃ: ج 8ص 313)

آپ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں

ان جماهير المسلمين لم يأمروا بقتله ولا شاركوا فى قتله ولا رضوا بقتله.. خيار المسلمين لم يدخل منهم في دم عثمان لا قتل ولا أمر بقتله  وإنما قتله طائفة من المفسدين في الارض من أوباش القبائل وأهل الفتن

(منہاج السنۃ: ج 4 ص 323)

علامہ ابو الشکور سالمی رحمہ اللہ التمہید میں لکھتے ہیں :

ولم يكن معهم من الصحابة أحد فنقبوا جداره ودخلوا عليه وقتلوه مظلوما

التمهيد ص 164

حضرت عثمانؓ کے گھر گھسنے والوں میں کوئی بھی صحابی نہ تھا، یہ دوسرے لوگ تھے جو دیوار پھاند کر اندر داخل ہو گئے اور آپؓ کو ظلماً قتل کردیا

مؤرخ شہیر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں

ليس فيه أحد من الصحابة

البدايه ج 7 ص 185 ص 198

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ لکھتے ہیں۔

کہ آپؓ کے ساتھ زیادتی کرنے والے مصری اور ان کے ساتھی تھے ان میں کوئی صحابی اور ان صحابہ کے پیچھے چلنے والا کوئی تابعی نہ تھا۔

قومی از مصریاں کہ نہ از بعد صحابه بود ندونه از تابعین لهم باحسان

(قرة العینین ص 143)

اس بارے میں سب سے زیادہ نام حضرت علی المرتضیٰؓ کا لیا جاتا ہے اور بہت سے لوگ اپنے  مذموم اپنے مقاصد کے تحت انہیں شہادت عثمانؓ کا ذمہ دار بتاتے ہیں، یہ بات بالکل غلط ہے، بیشک بعض معاملات میں آپؓ کو حضرت عثمانؓ کی پالیسی سے اختلاف ہوا اور آپؓ نے ان کی نشاندہی بھی کی تاہم آپؓ کو حضرت عثمانؓ کی شہادت کا ذمہ دار بتانا حضرت علی المرتضیٰؓ کی سیرت کو داغدار کرنا ہے جو ہرگز جائز نہیں۔ آپؓ حضرت عثمانؓ کی مدافعت کرنے والوں میں تھے اور اپنی ممکنہ حد تک آپ نے یہ کوشش بھی کی۔ آپؓ نے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت پر مامور فرمایا آپؓ کے لئے پانی بھیجنے کا انتظام کیا ان کوششوں کے باوجود تقدیر الٰہی پوری ہوئی پھر جب آپؓ کو شہادت کی خبر پہنچی تو آپ رو پڑے اس پر سخت دکھ کا اظہار فرمایا اور قاتلوں سے کھلے عام اظہار براءت کیا اور فرمایا کہ نہ میں نے کبھی اس کا حکم دیا تھا نہ میں ان کے اس عمل سے راضی ہوں خدا ان کو غارت و برباد کرے جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا۔ حضرت علی المرتضیؓ کے یہ بیانات آپ پہلے پڑھ آئے ہیں۔

پیش نظر رہے کہ حضرت علیؓ کو شہادت عثمان غنیؓ کا ذمہ دار بتانے والے رافضی اور خارجی ہیں اور دونوں نے اپنے مذموم مقاصد کے تحت آپ کو اس میں رگیدنے کی کوشش کی ہے رافضی گروہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عثمانِ غنیؓ چونکہ مستحق قتل تھے اس لئے یہ سب کچھ حضرت علیؓ کے حکم سے ہوا تھا اور اس میں حضرت علیؓ حق بجانب تھے اس لئے آپ رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت عثمانِ غنیؓ کا دفاع کرنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔ اودھ (انڈیا) کے ایک رافضی ملا حسین بخش کا یہ دل آزار بیان دیکھیے

قتل عثمان( رضی اللّٰہ عنہ) قطعی کوئی جرم نہیں تھا بلکہ یہ تو اسلامی معاشرے کے اعلی مقاصد کے عین مطابق تھا اور خود حضرت علی علیہ السلام عثمان (رضی اللّٰہ عنہ) کے دفاع کے لئے راضی نہیں تھے

امامت و ملوکیت ص 123"

جبکہ خارجی گروہ حضرت علیؓ کو بدنام کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ آپ رضی اللّٰہ عنہ نے ایک مظلوم خلیفہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہیں انہیں آپ پر قتل کا الزام لگانے میں کوئی حیاء نہیں آئی ( استغفر اللہ)

  ابن تیمیه رحمہ اللہ ان دونوں کے بارے میں لکھتے ہیں

(فكان أناس من محبى على ومن مبغضيه يشيعون ذلك عنه فمحبوه يقصدون بذلك الطعن على عثمان بانه كان يستحق القتل وأن عليا أمر بقتله ومبغضوه ويقصدون بذلك الطعن على على وأنه أعان على قتل الخليفة المظلوم الشهيد الذي صبر نفسه ولم يدفع عنها ولم يسفك دم مسلم في الدفع عنه فكيف فى طلب طاعته وأمثال هذه الأمور التي يتسبب بها الزائغون على المتشيعين العثمانية والعلوية )

( فتاوی ابن تیمیہ ج 35 ص 73)

جبکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰؓ کا دامن ان تمام آلائشوں سے پاک ہے جو آپؓ کی طرف رافضی اور خارجی لوگوں نے منسوب کر رکھا ہے

حضرت عثمانؓ کا حضرت علی المرتضیٰؓ اور آپؓ کے گھر والوں کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا، آپؓ نے کبھی حضرت عثمانؓ کی بد خواہی کی اور نہ آپؓ کی عزت واحترام پر کبھی کسی سے کوئی سودا کیا تھا، آپؓ نے ہمیشہ انؓ کے فضائل و مناقب بیان کئے اور اپنے تمام معتقدین کو حضرت عثمانؓ کے ادب واحترام کی تلقین و تاکید کی۔ آپؓ حضرت عثمانؓ کے خلاف بولنے والے کے سخت خلاف تھے اور ان سے کھلے عام براءت اور لاتعلقی کا اعلان کرتے تھے آپؓ بار بار کہتے تھے کہ سیدنا عثمانؓ مؤمن کامل ہیں حضورﷺ کے دوہرے داماد ہیں اور اہل جنت میں سے ہیں۔