Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

بعثت نبوی اور مقصد نزول قرآن تحریف قرآن کی ذد میں

  مولانا اللہ یار خان رحمۃ اللہ

بعثت نبوی اور مقصد نزولِ قرآن

تحریف قرآن کی ذد میں

ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو زمین پر جینے کا ڈھنگ سکھانے اور نیابت الہٰی کا فریضہ ادا کرنے کے لیے یہ مثردہ بنایا تھا کہ فاما یا تینکم منی هدای فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون -

یعنی تمہاری رہنمائی تو میں کرتا رہوں گا۔ البتہ تمہارا کام یہ ہے کہ جب میری طرف سے نہیں ہدایت پہنچے تو اس کی اتباع کرنا، ہاں جو میری دی ہوئی ہدایت کی اتباع کرے گا۔ اس کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا نہ غم ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالٰی نے یہ وعدہ پورا فرمایا اور مختلف زمانوں مختلف قوموں اور ملکوں میں اپنی طرف سے ہدایت دے کر انبیاء مبعوث فرمائے، وہ موجودہ ہدایت آسمانی کتابوں اور صحائف کی صورت میں انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل فرماتا رہا حتی کہ جب انسانیت ذہنی اور تمدنی اعتبار سے سن بلوغ کو پہنچی تواللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و آخری نبی بنا کر نوع انسانی کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ اور حضور ﷺسے یہ اعلان کرایا کہ

قل يا امها الناس اِنی رسول الله اليكم جميعا

یعنی اپ اعلان کر دیں کہ بنی نو انسان میں تم سب کے لیے اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

اس عظیم الشان فریضہ رسالت کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جو دستور العمل عطا فرمایا اس کا نام قران کریم ہے اور اس کی حیثیت متیعن کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ هُدًى وَرَحْمَةٌ وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ

اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حکم دیا کہ اس قران کے ذریعے تمام اہل دنیا کو ہدایت کا راستہ دکھائیں۔ پھر فرمایا:

تبارك الذي نزل الفرقان على عبد ، ليكون للعالمين نذيرا

اور حضورﷺنے مخاطبین اولین کو اور ان کے ذریعے انے والے نسلوں کو یہ فریضہ سونپا کے

اتبعوا ما انزل اليكم من ربکم

جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل ہوا اس کی اتباع کرو۔

ان حقائق کا خلاصہ یہ ہے کہ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اللہ تعالی نے یہ ذمہ داری سونپی کے ہر شخص تک میرا پیغام اور میرا کلام نہ صرف پہنچائیں بلکہ اس پر عمل کرنے کا طریقہ بھی سکھائیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سلسلے میں جتنا کام کیا اس کے ساتھ یہ اعلان بھی فرماتے گئے کہ ان اتبع الا ما یو حی الی میں تو صرف اسی کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر نازل ہوا۔

☆۔۔۔حضور اکرم ﷺنے یہ کتاب ہدایت سب کو پڑھ پڑھ کے سنائی اور اس کی حفاظت کا انتظام دو طرح کیا کہ حفظ بھی ہو اور کتابت بھی ہو اور یہ قدرتی عمل تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو فریضہ رسالت کی کماحقہ ادائیگی ممکن ہی نہیں تھی۔

☆۔۔۔۔ان ابدی اور تاریکی صداقتوں کے باوجود ایک گروہ جو مسلمان ہونے کا مدعی ہے اس معاملے میں بالکل مختلف نظریہ اور عقیدہ رکھتا ہے چنانچہ اصول کافی( ۴۴۱ طبع جدید۔)

باب کا عنوان ہے:

ان لو يجمع القرآن كله الا الائمة عليهم السلام.

(یعنی پورا قرآن اماموں کے بغیر کسی نے جمع نہیں کیا)

عن جابر قال سمعت ابا جعفر عليه السلام يقول ما أدعی اخذ من الناس أنه جمع القرآن كله كما انزل الاكتاب وما جمعہ و حفظه كما أنزل الله تعالى الاعلى بن ابی طالب۔

حضرت جابر فرماتے ہیں میں نے امام باقر علیہ سلام سے سنا کہ جو شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے پورا قران جمع کیا وہ جھوٹا ہے کیونکہ پورا قران سوائے علی بن ابی طالب کے کسی نے جمع نہیں کیااور نہ ہی یاد کیا ہے۔

عن ابى جعفرانه قال ما يستطيع احد ان يدعى ان عنده جميع القرآن كله ظاهره وباطنه غير الاوصياء۔

روایت ظاہر ہے امام جعفر علیہ السلام ۔سے

کوئی یہ دعویٰ کرنے کی قوت نہیں رکھتا کہ اسکے پاس سارا قرآن موجود ہے ۔ظاہر و باطن سواۓ اماموں کے۔

روائت سے ظاہر ہوتا ہے کہ

① نبی کریمﷺ نے قران کے جمع کرنے اور حفاظت کرنے کو کوئی ایسا اہم کام نہیں سمجھا کہ اس کا اہتمام فرماتے.

② یہ کام حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا نے ازخود کیا۔

③ قرآن صرف حضرت علی کی ہدایت کے لیے مخصوص تھا اس لیے صرف انہیں ہی سنایا گیا۔

روایت نمبر دو سے ظاہر ہوتا ہے کہ:

① قرآن صرف ائمہ کے پاس موجود ہے۔

② یعنی پہلے امام حضرت علی رضی اللہ عنہا نے بھی قرآن کو عام مسلمانوں کی ضرورت کی چیز تصور نہیں کیا اس لیے اسی پر اکتفا کیا کہ دوسرے امام کے سپرد کر دیں اور اسی طرح پوری رازداری سے یکے بعد دیگرے اماموں کے سپرد کیا جاتا رہے۔

③ کسی امام نے بھی قرآن اللہ کے بندو تک پہنچانا مناسب نہ سمجھا۔

یہ دو روایتیں ان حقائق کی تردید کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے کیونکہ اپ نے قران کے پھیلانے سنانے لکھوانے کا کوئی اہتمام نہیں کیا (بقول اصول کافی )اور اس بات کی تردید ہوتی ہے کہ قران پوری انسانیت کے لیے ہدایت ہے ہاں یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کے مقرر کردہ آئمہ کے کام کی کوئی چیز ضرور ہے اس لیے ہر امام نے دوسرے امام تک پہنچانے کا اہتمام کیا.

☆۔۔۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس قرآن کے متعلق اعلان باری ہے:

ان ھو الا ذکری العالمین

، وہ صرف اللہ کی ذات تک کیوں محدود درہا تو اس عقد سے کامل بتایا گیا۔

احتجاج طبرسی طبع قدیم ، (78)فصل الخطاب من تفسیر مانی مندا اور تفسیر مراة الانوار صفحہ (37)

ومشكوة الاسرار یہ سب شیعہ کی مستند کتا ہیں ہیں۔

لما فوصٰى رسول اللہ ﷺجمع علی علیه السلام القرآن وجاء به الى مهاجرین والانصار وعرضه عليهم لما قدا وصاء بذالك رسول الله ﷺفلما فتحه ابو بكر خرج في اول صفحته فتحها فضائح القوم فثبت عمر وقال على اردده فلا حاجة لنا فيه فاخذ على وانصرف

فلما استخلف عمر سئل علیا ان ید فع عليهم القرآن ان يحرفوه فيما بينهم فقال يا ابا الحسن ان جئت بالقران الذي جئت به الى ابي بكر حتى نجتمع عليه۔

جب نبی کریم فوت ہوئے تو حضرت علی نے قرآن جمع کیا اور مہاجرین و انصار کے پاس لائے اور ان کے پاس پیش کیا کیونکہ حضور نے حضرت علی کو اس کی وصیت فرمائی تھی جب حضرت ابوبکر نے قرآن کو کھولا تو پہلے ہی سفے پر قوم کی برائیاں نکل ائیں یعنی مہاجرین ونسار کی پس حضرت عمر نے کہا اے علی رضی اللہ عنہ یہ قرآن واپس لے لے ہمیں اس کی ضرورت نہیں حضرت علی قرآن لے کر چلے گئے۔

جب حضرت عمر خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے حضرت علی سے وہ قرآن طلب کیا تاکہ اس میں رد و بدل کر دیں چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابوالحسن! اگر آپ وہ قرآن لے ائیں جو اپ نے ابوبکر کو دکھایا تھا تو ہم اس پر متفق ہو جائیں۔

قال على عليه السلام هيهات ليس الى ذالك سبيل الما جئت به الى ابى بكر لتقوم الحجته و تقولوا يوم القيامة انا كنا عن هذا غافلين و تقولو اما جئتنا به ان القرآن الذي عندي لا يمسه الا المطهرون والاوصياء من ولدي، فقال عمر هل وقت لا ظهاره فقال على عليه السلام نعم اذا قام القائم من ولدي يظهره ويحمل الناس عليه .

حضرت علی نے فرمایا بات دور چلی گئی اب تو اس قرآن تک پہنچنا ممکن نہیں۔میں ابوبکر کے پاس صرف اس لیے لایا تھا کہ حجت پوری ہو جائے اور قیامت کو تم یہ نہ کہو کہ ہم قرآن سے غافل رہے یا یہ کہو کہ علی ہمارے پاس قرآن لایا ہی نہ تھا اور فرمایا کہ وہ قرآن تو ہمارے پاس ہے۔مگر اسے پاک لوگوں اور میری اولاد کے بغیر کوئی خاک نہیں لگا سکتا پھر حضرت عمر نے پوچھا تو اس قرآن کے ظاہر ہونے کا بھی کوئی وقت ہے حضرت علی نے فرمایا ہاں میری اولاد سے جب امام مہدی ظاہر ہوگا تو وہ قرآن لائے گا اور لوگوں سے اس پر عمل کرائے گا۔

☆۔۔۔یہ روایت بڑی طویل ہے بقدر ضرورت حصہ یہاں نقل کیا گیا ہے۔پوری روایت اپنے مقام پر آئے گی بہرحال یہ حصہ بھی بہت معلومات افزاء ہے۔مثلًا

خواجہ علی نے اکیلے یہ قرآن جمع کیا اور حضور اکرم کی وفات کے بعد جمع کیا۔مگر جو قرآن اس وقت امت کے پاس ہے وہ تمام صحابہ کے سینوں اور سفینوں کی مدد سے جمع کیا گیا ہے مگر پھر بھی وہ تو نقلی قرآن ہے اور حضرت علی اکیلے نے جو جمع کیا وہ اصلی قرآن ہوا۔

②۔ حضرت علی اپنا قرآن مہاجرین و انصار کے پاس لے گئے جون ہی کھولا گیا اس میں مہاجرین و انصار کی برائیاں سامنے اگئی یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً

۱... مہاجرین و انصار وہ جماعت تھی جو حضور اکرمﷺ نے ۲۳ برس کی محنت شاقہ سے تیار کی تھی. اس قرآن میں ایسی جماعت کی برائیاں درج تھی مگر یہ نہیں بتایا کہ خوبیاں کس جماعت کی درج تھی ظاہر ہے مہاجرین وانصار کو چھوڑ کر باقی تو صرف مشرکین اور یہود و نصاری ہی رہ جاتے ہیں تو کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قرآن میں ان لوگوں کے فضائل اور خوبیاں درج تھی.

۲... اگر اس میں مہاجرین و انصار کی برائیاں درج تھی تو یہ جماعت تیار کس نے کی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی کے قرآن نے حضورﷺ کی محنت کو قابل مذمت قرار دیا.

③۔۔۔اگر یہ برائیاں مہاجرین و انصار نے آج پہلی دفعہ دیکھی تھی تو جب یہ نازل ہوئی۔کیا حضور اکرم ﷺنے مہاجرین و انصار کو یہ برائیاں والی ایات پڑھ کر نہیں سنائی تھی اگر سنائی تھی تو مہاجین وانصار کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی پھر تعجب کرنے کی کیا وجہ ہے پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مہاجرین انصار کی برائی حضورﷺ نے سنا دی کیا ان کی اصلاح کا نزول کی ذمے نہیں تھا۔ جو قرآن امت کے پاس ہے اس میں تو مہاجرین و انصار کے اوصاف و فضائل شروع سے اخر تک بھرے پڑے ہیں بلکہ مہاجرین انصار کے ایمان کو یہ قرآن تو معیار قرار دیتا ہے.

فان امنوا بمثل ما امنتم به فقد اهتدوار

اے میرے نبی کے صحابہ اگر لوگ اسی طرح ایمان لائیں جیسے تم لائے ہو تب ہدایت یافتہ ہوں گے۔

یہ سب کمالات مہاجرین و انصار میں

ﷺ کی تربیت کے ذریعے ہی پیدا ہوئے اور اگر حضورﷺ نے یہ آیات مہاجرین و انصار کو سنائی ہی نہیں تو گویا حضور نے خود یہ اہتمام کیا تھا کہ قرآن کو چھپائے رکھیں اس سے بڑھ کر منصب نبوت اور حضورﷺ کی توہین اور کیا ہو سکتی ہے۔

④۔۔۔حضرت عمر کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا اسے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ قرآن کو پڑھیں یا اس پر عمل کریں بلکہ اتمام حجت مقصد تھا۔ لہذا ایک دفعہ دکھا دینا کافی سمجھا پھر کوئی لاکھ کوشش کرے قرآن کسی کو دکھایا نہیں جائے گا یعنی قرآن چھپا کر رکھنے کے لیے نازل کیا گیا بنی نو انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل نہیں ہوا تھا۔

⑤۔۔۔قرآن کے اظہار کے لیے جو وقت حضرت علی نے بتایا یہ بھی ایک راز سر بستہ معلوم ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ گیارہ امام قران کی ضرورت سے واقف نہیں تھے یا ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اللہ کی بات اللہ کے بندوں کے سامنے کہہ سکیں اور یہ اخری امام کوئی بڑا باہمت ہوگا کہ آخر قرآن کو ظاہر کر کے رہے گا۔

⑥۔۔۔پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بارھویں امام کے ظہور تک امت محمدیہ کی اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرے جب امت کے پاس کتاب ہدایت سرے سے موجود نہیں تو ظاہر ہے کہ نہ اس پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے نہ وہ مکلف ہے۔

مختصر یہ کہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ نبی کریمﷺ کا کام صرف یہ تھا کہ اللہ کی طرف سے جو وحی ائے چپکے سے حضرت علی کے کان میں کہہ دیں اور مہاجرین و انصار میں سے کسی کو کونو کان خبر نہ ہو کیا نبی کی بعثت کی یہی غرض ہوتی ہے اور کیا کتاب کے نزول کا یہی مقصد ہوتا ہے۔