Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ، قادیانی اور مشرک مرد اور مشرک عورت سے نکاح کا حکم


شیعہ، قادیانی اور مشرک مرد اور مشرک عورت سے نکاح کا حکم

شریعتِ اسلامیہ کا حکم قران حکیم نے صاف الفاظ میں فرما دیا ہے کہ مشرک مرد اور مشرک عورت سے مسلمان کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ارشاد ربّانی ہے :ولاتنکحوا المشرکات حتّی یؤمن الخ: (بقرہ:122)

ترجمہ: اور نکاح مت کرو مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لے ائیں اور البتہ مسلمان لونڈی بہتر ہے مشرک عورتوں سے اگرچہ وہ تم کو بھلی لگے، اور نکاح نہ کرو اپنی عورتوں کا مشرک مردوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لے ائیں اور البتہ مسلمان غلام بہتر ہے مشرک سے اگرچہ کہ وہ تم کو بھلا لگے وہ بلاتے ہیں دوزخ کی طرف اور اللّہ تعالیٰ بلاتا ہے جنت اور بخشش کی طرف اپنے حکم سے اور بتلاتا ہے اپنے حکم لوگوں کو تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔

تشریح: کافر مرد اور عورت سے نکاح کے سلسلے میں اسلام کا حکم آنے سے قبل ہر ایک کا دوسرے سے نکاح ہوتا تھا اور اس کی اجازت تھی، اس آیتِ مذکورہ کے ذریعے یہ اجازت ختم کر دی گئی ہے۔ اب اگر مرد یا عورت مشرک ہو تو اس کا نکاح مسلمان سے درست نہیں ہے یا نکاح کے وقت دونوں مسلمان تھے مگر بعد میں ایک مشرک اور کافر (مرتد) ہو گیا تو کیا ہوا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ البتہ کافروں میں سے صرف یہود اور نصاریٰ کی عورت سے مسلمان کا نکاح جائز ہے یہ دوسری آیت سے معلوم ہوا ہے، وہ مشرکین میں داخل نہیں ہے بشرطیکہ وہ اپنے دین پر قائم ہوں، دہریہ (خدا کے مُنکر) اور ملحد (خدا کے ضروری احکام کو غلط تاویل سے توڑنے والے) نہ ہو۔ غرض یہ کہ مُشرک مرد اور عورت سے مسلمان مرد اور عورت کا نکاح ناجائز اور حرام ہے، اگرچہ اُن کی خوبصورتی اور اُنکے مال و دولت کی وجہ سے وہ بھلے لگیں۔

آیتِ مذکورہ میں جس بناء پر مشرک مرد اور عورت سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورت کا نکاح کسی بےایمان کافر سے نہیں ہو سکتا تا وقتیکہ وہ ایمان نہ لے آئے، خواہ وہ ہندؤ ہو یا آتش پرست، قادیانی ہو یا شیعہ، منکرِ قرآن و منکرِ احکامِ قرآن ہو یا منکرِ حدیث وغیرہ۔ کیونکہ مُسلمانوں کے نکاح کے لئے ضروری ہے کہ دوسرا فریق بھی مسلمان ہو ورنہ نکاح منعقد ہی نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ فُقہاء کرامؒ نے جملہ کافروں سے نکاح کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے۔

اور فتاویٰ عالمگیری: میں ہے کہ: آتش پرست عورتوں سے اور بُت پرست عورتوں سے نکاح ناجائز ہے اور فرقہ معطلہ اور زندیق عورت، فرقہ باطنیہ کا عقیدہ رکھنے والی عورت، فرقہ اباحیہ والی عورت، اور ہر اُس مذہب والی عورت سے جسکی عقیدہ باطلہ کیوجہ سے تکفیر کی جاتی ہے۔ (اس سے نکاح ناجائز ہے)۔

بدائع الصنائع میں علام کاسانیؒ نے لکھا ہے کہ مشرک اور کافروں سے نکاح ناجائز ہونے کے بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جو بھی اسلام اور ایمان سے خارج ہو گا اس کے ساتھ مسلمان مرد اور عورت کا نکاح نہیں ہو سکتا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زوجین کے درمیان جو سکون اور محبت و الفت نکاح کے لئے ضروری ہے وہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے کہ دونوں کی ملت اور دین و مذہب ایک ہو، کیونکہ غیر مذہب اور مخالف ملت کے ساتھ دینی عداوت ہر مسلمان مرد عورت کی فطرت میں ہوتی ہے تو اس فطری اور دینی عداوت کے ہوتے ہوئے ازدواجی محبت اور الفت کیسے قائم ہو گی؟ زوجین کے درمیان جو چین اور سکون پیدا ہونا ضروری ہے کیوں کر پیدا ہو سکے گا؟ حالانکہ نکاح کے مقاصد میں سے یہ اہم مقصد ہے کہ دونوں کی زندگی چین و سکون اور الفت و محبت کے ساتھ گزرے۔

رہا یہ سوال کہ پھر شریعت میں اہلِ کتاب یہودی اور عیسائی عورت سے نکاح کی اجازت کیوں دی گئی؟ تو اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اہلِ کتاب کی عورت کتب سابقہ اور انبیاء علیہم السلام سابق پر ایمان رکھتی ہے ان میں رسول اللہﷺ کے دین کا ذکر موجود ہے۔ جب وہ کسی مسلمان کے نکاح میں ائے گی تو غالب گمان اور قریب یقین امید یہی ہے کہ شوہر کے عقائد و اعمال کو دیکھ کر مسلمان ہو جائے گی۔

غرض اس امیدِ اسلام کی وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے بخلاف اس کے کسی مسلمان عورت کا نکاح اہلِ کتاب مرد کے ساتھ جائز نہیں ہے، اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی، کیونکہ عورتیں شوہر کے پاس جانے سے شوہر کے دین و مذہب سے متاثر ہوتی ہیں، اگر مسلمان عورت کسی اہلِ کتاب کے نکاح میں جائے گی تو خطرہ ہے کہ (العیاذ باللہ) وہ اسلام چھوڑ کر یہودیت یا عیسائیت قبول کر لے گی یہ بہت بڑی خطرناک بات ہو گی کفر ہو گا۔

مگر دوسرے کافروں کے مرد اور عورتوں سے مطلقاً نکاح جائز نہیں ہے۔ اسی وجہ سے کتبِ فقہ میں واضح طور پر موجود ہے کہ شرائطِ نکاح میں سے یہ ہے کہ اگر عورت مسلمان ہے تو مرد کا بھی مسلمان ہونا ضروری ہے ورنہ نکاح نہیں ہو گا۔

چنانچہ بدائع میں ہےکہ: نکاح کی شرائط میں سے ہے کہ عورت اگر مسلمان ہے تو مرد کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ پس ایماندار عورت کا نکاح ہےایمان غیر مسلم اور کافر مرد کے ساتھ ناجائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا حکم ہے کہ اپنی عورتوں کا نکاح مشرک اور کافر مردوں سے مت کرو یہاں تک کہ مرد ایمان لے آئے 

اور عقل و فہم کی رو سے بھی اگر مسلمان عورت کا نکاح کسی کافر مرد سے کر دیا جائے تو اس میں قویٰ خطرہ ہے کہ عورت کفر میں مبتلا ہو جائے گی۔ وجہ اس کی ظاہر ہے، کیونکہ شوہر اپنے کردار، رفتار اور گفتار ہر جہت سے اپنے دین و مذہب کفر کی طرف بلائے گا اور فطرتاً عورتیں ناقصۃ العقل اور ان کے قویٰ کمزور ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے مردوں کی ہر بات میں اطاعت کرتی ہیں اور باہمی تعلقات کی وجہ سے اطاعت کرنی پڑتی ہے۔ لہٰذا اپنے مردوں کی تقلید میں کفریات اختیار کر لیتی ہیں۔ تو عورت کے کفر کا سبب کافر کے ساتھ اس کا نکاح کر دینا ہوا اسی وجہ سے شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔

لوگوں کو اس غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہئے کہ مرد اپنے دین پر رہے اور عورت اپنے دین پر رہے۔ اور پھر نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح بے دین اور کافر لوگوں سے لڑکیوں کے نکاح کر دینے سے نکاح تو سرے سے نہیں ہوتا مزید خرابی یہ ہوتی ہے کہ خود ان کا دین برباد ہو جاتا ہے، لڑکی اور لڑکا خود بھی بےایمان ہو جاتے ہیں اور ایسے نکاح کے نتیجہ میں جو اولاد پیدا ہوتی ہے وہ کیسی ہو گی؟اس کا اندازہ ماں سے لگا لیجئے۔

اس واسطے مسلمان مرد اور عورت کے لئے وضاحت کی جاتی ہے نہ کسی کافر سے شادی کرے نہ ان کو لڑکی دیں، ورنہ اس کی سزا دنیا اور آخرت میں ماں باپ کو بھی بھگتنی ہو گی، اور اگر غلطی سے دے دی اور ظاہری طور پر نکاح ہو گیا تو اسے بلا تاخیر ختم کر دیں اور رشتہ توڑ دے۔

غرض کفاءت فی الدیانت یعنی زیادت دین و نقصان دین کا بھی شرع نے اعتبار کیا ہے۔ عورت اگر قدیم زمانہ سے مسلمان ہے تو نو مسلم مرد اس کا کفو نہیں ہے۔ عورت اگر بدون اجازت ولی نو مسلم سے نکاح کرتی ہے تو فقہ حنفی کی ایک روایت میں نکاح نہیں ہو گا، دوسری روایت میں نکاح تو ہو جائے گا مگر ولی کو یہ نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہو گا۔ اسی طرح عورت اگر دیندار گھرانے کی ہے اور عورت خود بھی دیندار ہے، پابند صوم و صلوٰۃ اور پرہیزگار ہے، لیکن مرد نام کا مسلمان ہے اور فاسق و فاجر ہے، پابند صوم و صلوٰۃ نہیں ہے، حلال و حرام کا پابند نہیں ہے، تو وہ دینی لحاظ سے عورت کا کفو نہیں ہے، ایسے مرد سے عورت بلا اجازت ولی نکاح نہیں کر سکتی، اگر کرے گی تو ایک روایت میں نکاح نہیں ہو گا، دوسری روایت میں نکاح تو منعقد ہو جائے گا مگر ولی کو فسخ کرانے کا اختیار ہو گا۔ ہاں ولی کی رضامندی اور اجازت سے نکاح غیر کفو جائز ہے، مگر اس طرح نکاح میں دین کی رُو سے چین و سکون، الفت و محبت کی زندگی نصیب نہ ہو گی، نہ ہی صحیح معنیٰ میں ازدواجی زندگی کا لطف اور مزہ آئے گا۔

(جواھر الفتاویٰ جلد 3، صفحہ 309)