موجودہ قرآن محرف ہے
مولانا اللہ یار خان رحمۃ اللہموجودہ قرآن محرف ہے
انوار نعمانیہ : شیعه محدث نعمت اللّٰہ الجزائری 127_1-
قد استعاضة في الاختبار ان القرآن كما انزل لم يؤلفه الا أمي الثومة من عليه السلام بوصيته من الذين صلى الله عليه وسلم نبقى بعد موته ستة اشهر مشتق لا يجمعه فلما جمعه كما انزل اتى به الى المتخلفين من بعد ر سول الله وفي ذلك القرآن زياداة كثيرة وهو خال من التعریف۔
مستفیض روایتوں میں آ چکا ہے کہ قرآن جس طرح اور جتنا نازل ہوا تھا اس کو حضرت علی کے بغیر کسی نے جمع نہیں کیا کیونکہ نبی کریمﷺ نے ان کو وصیت فرمائی تھی حضورﷺ کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے ماتحت قرآن کے جمع کرنے میں مجبور ہے پھر خلفائے ثلاثہ کے پاس لائے۔۔۔۔۔
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا جمع کردہ قرآن موجودہ قرآن سے کئی گنا زیادہ ہے اور تحریف سے بالکل پاک ہے۔
محدث صاحب کی تحقیق قابل قدر ہے البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت علی نے جو قرآن جمع کیا کہاں سے کیا۔یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے حافظے کی مدد سے یا اپنی تحریروں کی مدد سے جب ہمہ وقت اسی کام میں لگے ہیں۔سارا امور بھی سینے میں ہے یا سفینے میں اپنے پاس ہے تو اس پر چھ مہینے کیوں کر صرف ہوئے؟یہ کام تو بہت جلد ہونا چاہیے تھا ہاں یہ ممکن ہے آپ نے
"عالم ما کان وما یکون" ہونے کی وجہ سے یہ معلوم کر لیا ہو کہ رکھنا تو چھپا کے ہی ہے لہٰذا اتنی جلدی کیا پڑی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ محدث صاحب نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے قرآن کا تعارف ان اوصاف سے کرایا ہے کہ ایک تو وہ قرآن موجودہ قرآن سے کئی گنا بڑا ہے دوسرا تحریف سے بالکل پاک ہے اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ موجودہ قرآن میں تحریف یقیناً ہو چکی ہے مگر کسی کے سلسلے میں تحریف اتنی ہے کہ موجودہ قرآن اصلی قرآن کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔
موجودہ قرآن کے محرف ہونے کا یقین پختہ کرنے کے لیے یہی محدث اگے اسی صفحہ پر اور صاحب فصل الخطاب ص39 پر رقم دراز ہیں:
ان تسليم تواترها عن الوحي را بھی وکون الکل قد نزل به الروح الأمين يفضى الى طرح الأخبار المستفيضته بل المتواترة الدالله بصريحها على وقوع التحريف في القرآن سلاما و مادة واخرا با معر ان اصحابنا رضوان الله عليهم قد اطبقوا على صحتها و تصديق بها كيف وهو لاء الاسلام رودا في مؤلفاتهم۔ اخبار ا كثيرة تشتمل على وقوع تلك الأمور في القرآن و ان الاية انزلت شعر غيرت الى هذا حكمه
ان سات کی قراءتوں کو متواتر تسلیم کیا جائے کہ جبرائیل آمین یہ لے کر نازل ہوئے تھے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شیعہ کی وہ روایات جو مستفیض بلکہ متواتر ہیں اور تحریف قرآن پر سریخ دلالت کرتی ہیں کہ تحریف پاروں میں بھی ہوئی اور اعراب میں بھی ہوئی ان سب کو رد کرنا پڑے گا حالانکہ سارے شیعہ علماء نے ان روایات کو صحت اور متواتر ہونے پر اتفاق و اجماع کیا ہے اور ان روایات کی تصدیق کی ہے۔۔۔
یہ روایات کیسے رد کی جا سکتی ہیں جبکہ بڑے بڑے فضلاء شیعہ نے ان کو اپنی کتابوں میں جمع کیا اور روایت کیا روایات بھی کثیر میں اور ان امور کے واقعہ ہونے پر مشتمل ہیں کہ یہ ایت اس طرح نازل ہوئی اور اس طرح قران میں اس کو متغیر کیا گیا۔
اس روایت سے حضرت علی کے قرآن کے تعارف کے ساتھ موجودہ قرآن کے محرف ہونے کے متعلق شیعہ کا جو عقیدہ ہے اس کی بنیاد کے استحکام کو اظہار بھی کیا گیا کہ:
1_موجودہ قرآن محرف ہے۔
2_اس محرف ہونے پر شیعہ روایات کثرت سے موجود ہیں۔
3_یہ روایات جہاں متواتر ہیں وہاں موجودہ قرآن کے محرف ہونے پر شریک دلالت کرتی ہیں۔ کوئی الہام نہیں۔
4_بڑے بڑے مقتدر شیعہ علماء نے ان روایات کی تصدیق کی ہے کہ یہ صحیح اور متواتر ہیں اور اپنی کتابوں میں ان روایات کو اسی تصدیق کے ساتھ نقل کیا ہے۔
اس روایت میں کوزے میں دریا بند کر دیا گیا ہے چنانچہ ہم ذرا تفصیل سے شیعہ کا یہ عقیدہ اور ان کے یہ اقرار ان کی سقہ اور مستند کتابوں سے لکھتے ہیں:
اقرار اول
تحریف قرآن کی روایت شیعہ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں جن پر شیعہ مذہب کا مدار ہے۔
فصل الخطاب ص212
وهي متفرقة في الكتاب المعتبرة التي عليها المعول واليها المرجع عند الاصحاب جمعت ما عثرت عليها في هذا الباب
قرآن کی یہ روایات شیعہ کی ان متفرق معتبر کتابوں میں موجود ہیں جن پر شیعہ مذہب کا مدار ہے اور اعتماد ہے میں نے ان روایتوں کو جمع کر دیا جو مجھے مل سکے تحریف قرآن کے بارے میں۔
2_ایضاً ص228
اعلم ان تلك الاخبار منة وله من الكتب المعتبر التي عليها معول اصحابنانی اثبات احكام الشريعة والاثار النبوية.
خوب جان لو کہ تحریف قرآن کے متعلق یہ روایات سند معتبر کتب سے منقول ہیں جن کی تابو پر علماء شیعہ کا پورا اعتماد ہے اور احکام شریعت اور احادیث نبوی کو ثابت کرنے میں ان پر مذہب کا مدار ہے۔
اقرار دوم
تحریف قران کی روایات کثیر ہیں بلکہ زائد اور زرد ہزار ہیں۔
فصل الخطاب 227
الاخبار الواردة في المواساد المخصوصة من القرآن الدالة على تفسير بعض الكلمات والآيات والسور بأحدى السوس المتقدمة وهي كثيرة جد احتى قال السيد نعمة الله الجزائری في بعض مولفاته كما حكى عنه أن الاخبار الدالة على ذلك تزيد علی الفي حديث و ادعى استقاضنتها جماعة كالمفيد و المحقق الداماد والعلامة المجلسي وغيرهم بل الشيخ ايضا صرحها في التبيان بكثرتها بل ادعى تواترها جماعة ياتي ذكرهم .
روایات جو مخصوص موارد میں قرآن سے وارد ہوئی ہیں۔جو قرآن کے کلمات آیات اور سورتوں کے متغیر ہونے پر دلالت کرتی ہوں اور یہ روایات اتنی کثیر ہیں کہ سید نعمت اللہ الجزائری نے اپنی تصانیف میں بیان کیا ہے کہ یہ روایات 2ہزار سے زائد ہیں اور علمائے شیعہ کی ایک جماعت نے ان روایات سے متفیض ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ جیسا کہ شیخ مفید محقق داماد اور علامہ مجلسی وغیرہ بلکہ شیخ ابو جعفر طوسی نے اپنی تفسیر التبیان میں کثرت کی تصریح کی ہے بلکہ تحریف قرآن کی روایات کے متواتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے ان علماء کا ذکر اگے آئے گا۔
پھر فصل الخطاب ص211
الاخبار الكثيرة المعتبرة الصريحة في وقوع السقط ودخول النقصان في موجود من القرآن زیاد فعلی مامر متفرقاني ضمن الادلة السابقة دانه اقل من تمام مانزل اعجانا على قلب سید الانس والجان من غير احتصابها باية او سورۃ۔
کثیر التعداد یہودیوں سے مخصوص نہیں۔
اقرار سوم
قرآن میں ہر قسم کی تحریف کی گئی ہے یعنی کلمات میں آیات میں سورتوں میں وغیرہ کمی اور زیادتی ہیں۔
تفسیر مراۃ النوار و مشکوۃ الاسرار۔ سید حسن شریف ص101 تبع تہران
و قد مر في فصول المقدمة الثانية ما يدل على وقوع التبديل والتحريف في القرآن خصوص منه سوال الزنديق الدال صريحة على ان اعداء الائمة هم العبدلون له۔
مقدمہ ثانیہ کے پہلے فصلوں میں گزر چکا ہے کہ رویات دلالت کرتی ہیں قرآن میں تحریف پر خصوصاً زندیق کے سوال کی روایات صاف دلالت کرتی ہے کہ اماموں کے دشمن وہ ہیں جنہوں نے قرآن کو تبدیل کیا ہے۔
2_ایضاً ص37
وامثالها من الآيات الكثيرة سوى ما ورد في التقديم والتأخير و اسقاط اسم على و أسماء أعدائه من الاخبار علی المتواترة التي تاتي في مواضعها
اسی طرح کی کثیر ایات ہیں سوائے ان کے جن میں تقدیم تاخیر ہو گئی بالخصوص حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا نام ساقط کرنا اور ان کے دشمنوں کے نام گرا دینا وغیرہ اس بارے میں روایات متواتر آئی ہیں۔
3_اینا متقدم ثانیه ص 34
اعلم ان الحق لا محيص عنه حسب الاخبار المتواترة الاتية وه برها ان هذا القرآن الذي في الدنياقة وقع فيه بعد رسول الله شيء من التغيرات والسقط الذين جمعوه بعد كثيرا من الكلمات والایات و ان القرآن المحفوظ ما جمعه على .
خوب جان لو کہ حق بات یہ ہے جس سے کوئی چارہ نہیں با اعتبار روایات متواتر کہ جو انے والی ہیں اور ان کے سوا بھی کہ اس قرآن میں جو ہمارے ہاتھوں میں ہے کئی قسم کے تغیرات واقع ہوئے اور جمع کرنے والوں نے بہت سے کلمات ایات اس قران سے نکال دی جو قرآن محفوظ ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جمع کیا تھا۔
اقرار چہارم
قرآن کی تحریف کا عقیدہ رکھنا ضروریات دین شیعہ سے ہے۔
وضح ہے کہ ضروریات دین کا انکار کفر ہے لہذا قرآن کو محرف نہ ماننا شیعہ کے نزدیک کفر ہے۔
1تغير مراة الانوار ص19
وا علم ان الاحاديث بغير المحصورة تعال على هذا الامور المذكور بل اكثرها مما هو مجمع عليه عند علمائنا الامامین و قد نص علی حقيقه ها بل كون جلها من ضروریات هذا المذاهب
خوب جان لو کے لا تعداد حدیثیں امور مذکور پر دلالت کرتی ہیں بلکہ اکثر ان میں وہ ہیں جن پر علماء شیعہ امامیہ کا اجماع ہے اور ان کے حق ہونے پر نص کی گئی بلکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تحریف قرآن کا عقیدہ شیعہ مذہب کی ضروریات دین سے ہے۔
2_اور انوار نعمانیہ ص 484
الوارد في هذا الكتب والسنة المتواترة بحيث صار من الضروريات الدينية يكفر منكرها اجماعا و رو فاقا.
اس کتاب یعنی انوار نعمانیہ میں اور سنت متواترہ میں ان روایات کا وارد ہونا اس حیثیت سے ہے کہ یہ مسئلہ ضروریات دین سے ہے جن کا منکر کافر ہے اجماع اور اتفاق سے۔
اقرار پنجم
تحریف قرآن کی روایات کا انکار کریں تو امامت کے عقیدے کا انکار بھی کرنا پڑتا ہے۔
فصل الخطاب ص239
لا يخفى ان هذا الخبر و كثيرا من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغیره و عندی ان الاخبار في هذا الباب متواترة معنى و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الاخبار و اسأبل ظني ان الاخبار في هذا الباب لا يقصر عن اخبار الامامة فكيف يثبتونها بالخیر۔
یہ امر پوشیدہ نہ رہے کہ یہ حدیث اور کثیر تعداد میں شیعہ احادیث جو صحیح ہیں اور تحریف قرآن پر صریح دلالت کرتی ہیں کہ قرآن میں کمی ہوئی اس میں تغیر و تبدل ہوا اور میرے نزدیک تحریف قرآن کے باب میں روایات متواتر ہیں ان کو رد کر دینا واجب کر دیتا ہے کہ شیعہ روایات سے اعتماد آٹھ جائے اور فن حدیث بے معنی ہو جائے بلکہ میرا ظن غالب یہ ہے کہ تحریف قرآن کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں۔
یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ مسئلہ امامت شیعہ مسجد کی بنیاد اور رجحان ہے اور یہ مسئلہ قرآن مجید اور حدیث نبوی سے ثابت ہو نہیں سکتا بلکہ اس کا اشارہ تک نہیں ملتا لے کے بس روایات ہی تو خیر جن کے سہارے امامت کا مسئلہ گھڑا گیا ہے۔ لہذا تحریف قرآن کی روایات کا انکار کرنے سے دو قسم کی محرومی سے دو چار ہونا پڑتا ہے پہلا اپنے ذخیرہ روایات سے دستبردار ہونا دوسرا امامت کے عقیدہ کا انکار کرنا یہاں آ کر شیعہ حضرات عجیب دورا ہے پر پہنچ جاتے ہیں اگر تحریف قرآن کا انکار کریں تو امامت خاص سے جاتی ہے اور اگر امامت کے عقیدے پر قائم رہے تو قرآن سے ایمان جاتا ہے مگر کوئی ایک فرد بھی زیادہ دیر تک کسی ایک کشمکش میں رہنا پسند نہیں کرتا تو ایک جماعت سے یہ کیوں کر توقع ہو سکتی ہے کہ مسلسل گومگو کی حالت میں رہے اخر شیعہ نے فیصلہ کر لیا کہ امامت سے چمٹے رہو قرآن کا اقرار کرنا پڑتا ہے تو ہماری بلا سے۔
اقرار ششم
تحریف قرآن عادت اور عقل کے عین مطابق ہے۔
فصل الخطاب ص72
ان كيفية حمد القرآن و تالیفہ استاز ستر سادتي لوقوع التعبير و التحريف فيه وقد أشار إلى ذلك العلامة المجلسي في مرأة العقول حيث قال والعقل يحكم بانه اذا كان القرآن سفرقا منتشرا عند الناس وتصدى غير المعصوم الجمعہ يمتنع عادة ان يكون كاملا موافقا للواقع
قرآن کی تالیف اور جمع کرنے کی کیفیت سے عادتاً یہ لازم آتا ہے کہ قرآن میں تغیر و تبدل واقعہ ہو۔علامہ مجلسی نے اپنی کتاب مراۃ العقول میں اس تحریف کی طرف اشارہ کیا ہے جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ عقل کا فیصلہ یہ ہے کہ جب قرآن کریم لوگوں کے پاس متفرق اور بکھرا ہوا تھا اور غیر معصوم اس کے جمع کرنے کے در پہ ہوئے تو یہ امر ادتا محال ہے کہ قرآن کامل واقعہ کے مطابق جمع ہوا ہے۔
2مرأة العقول شرح السول. ل شرح السول - علامہ باقر مجلسی 171:1
والعقل يحكم بانه اذا كان القرآن متفرقا من شرا عند الناس و تصدى غير المعصو م الجمعه بيبنع عادة ان يكون كاملا موافقا للواقع .
ترجمہ اوپر میں دیکھیے۔
اس اقرا کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن حکیم ان لوگوں نے جمع کیا جو غیر معصوم تھے اور ان غیر معصوم کا کامل طور پر صادق القول اور امین خانہ محال ہے لہذا قرآن میں تحریف ہونا گویا امر عادی ہے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر معصوم لوگ قرآن کو جمع کرتے تو وہ قابل اعتماد ہوتا۔لیکن ایک پیچیدگی کا حل کوئی نظر نہیں آتا کہ معصوم تو سارے کے سارے تقیانے دلدارہ تھے بلکہ ایک معصوم کے ذمے تو شیعہ نے یہ بھی لگا رکھا ہے کہ9/10 حصہ دین تقیہ میں ہے. تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر معصوم ہی قرآن کو جمع کرتے تو اس امر کی کیا ضمانت ہوتی کہ اس کا کون سا حصہ تقیہ کی نظر ہوا اور کتنا حصہ اصل قرآن ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ معصوم جمع کرتے جب بھی اللہ کی مخلوق تو اس سے محروم ہی رہتی کیونکہ بقول شیعہ معصوم نے جو قرآن جمع کیا وہ 14 سو سال تک کسی کو دیکھنا نصیب نہیں ہوا اگے کی اللہ جانے۔
ہاں جن غیر معصوم نے قرآن جمع کیا ان کی کار گردگی کی تفصیل ملاحظہ ہو۔
1فصل الخطاب ص146
ومن امثال تلك الامور نما كان معروف تجعلوه منکر از مامان منكرات ملون معروف
تحریف کی مثالوں میں سے یہ باتیں ہیں کہ اچھی باتوں کو برا بنا دیا اور بری باتوں کو اچھا بنا دیا۔
2_اور احتجاج طبرسی ص 124
فصار الحق في ذلك الزمان داند عمر باطلا - الكذب صدتا الصدت کذبا
خلفاء کے زمانے میں حق و باطل بنا دیا اور باطل کو حق جھوٹ تو سچ بن گیا اور سچ جھوٹ بن گیا۔
اس الٹ پلٹ کا نتیجہ کیا نکلا۔
فصل الخطاب ص51
ان هذه الأمة إلى الآن متحیرون تا لیون کی ادیا تھم واحکامهم
بے شک یہ امت اس وقت تک اپنے دین اور دین کے احکام کے بارے میں حیران ہیں۔
واقعائی نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا مگر ایک بات تحقیق طلب ہے کہ ھذا المۃ سے کیا مراد ہے علامہ نوسی طبرسی جس امت کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ مراد ہو سکتی ہے اور وہ شیعہ جماعت ہے اور ان کا تحیر بھی کوئی غیر فطری نہیں کیونکہ دعویٰ ہے کہ الہامی اور آسمانی دین ہے الہامی مذہب کے لیے الہامی کتاب ہونا ضروری ہے کہ اس سے رہنمائی حاصل کی جائے اب شیعہ کے متغیر ہونا کا سبب یہ ہے کہ جو کتاب موجود ہے وہ قابل اعتبار نہیں اور جو قابل اعتبار ہے وہ موجود نہیں بلکہ معصوموں کے بغیر کسی نے وہ کتاب دیکھی نہیں۔اس سورت میں سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں احکام خود بنائے جائیں اور انہیں ٹکسالی بنانے کے لیے منسوب کیے جائیں مذہب کے ساتھ ایک عقیدہ تو حل ہو گیا۔مگر دوسری مشکل یہ پیدا ہوگی کہ انسانوں کا تیار کیا ہوا مذہب اسمانی دین کیوں کر ہو گیا؟ وہ حالات جن کی وجہ سے امت شیعہ تغیر مسلسل کی کیفیت کا شکار ہے۔