Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تحریف قرآن کے موضوع پر شیعہ کتب

  مولانا اللہ یار خان رحمۃ اللہ

تحریف قرآن کے موضوع پر شیعہ کتب

شیعہ علماء نے تحریف قرآن کے عقیدہ کی اہمیت کے پیش نظر نہایت وسیع علمی ذخیرہ بھی تیار کیا ہے چنانچہ چند کتابوں کے نام۔دیے جاتے ہیں ۔

1- کتاب السیاری ----احمد بن محمد سیار

2- تفسیر نہج البیان فی کشف معانی القرآن ۔محمد بن حسن شیعبانی

اس کتاب میں آیات اور حروف کی تعداد بتائی گئی ہے جو قرآن سے خارج کئے گئے۔

3- کتاب التحریف---- احمد بن محمد خالد برقی

4- کتاب التنزیل التغیّر---- محمد بن خالد

5- کتاب التنزیل فی القرآن والتحریف---- علی بن حسین بن فضال

6- کتاب التحریف والتبدیل ----محمد بن حسن صیرفی

7- کتاب التنزیل والتحریف ----شیخ حسن بن سلیمان علی

8- التفسیر المقصود علی ما انزل فی اہل البیت علیہم السلام---- محمد بن عباس بن علی بن مروان ماہیار المعروف بابن الحجام ۔

علامہ شیعہ کا کہنا ہے کہ ایسی کتاب شیعہ مذھب میں نہیں لکھی گئی۔جو100صفحہ کی ہے غالباً یہ طبع نہیں ہوئی(صاحب تفسیر البرہان نے اس کتاب کا تعارف یہ کرایا ہے)

9- کتاب قرأت امیرالمومنین ----ابو طاہر عبدالواحد بن عمرقمی

10- مراة الانوالہ ومشکواة الاسرار----شیخ محدّث حلیل ابوالحسن شریف

11فصل لخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب----علّامہ

12- کتاب تاویل الایات الباہرہ فی عترةالطاہرہ----شیخ کامل شریف الدین نجفی ان میں سے بعض تو مستقل طور پر تحریف قرآن کے موضوع پر لکھی گئی ہیں اور بعض میں ذیادہ حصّہ تحریف قرآن کے متعلق ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ شیعہ کے لیے فرار کی کوئی راہ نہیں نظر آتی اس لیے ان کتابوں کو نابود کرنے کی مہم چلی ہوئی ہے ہمیں اس موضوع پر چند کتب بڑی جستجو اور کوشش کے بعد ایران سے مل سکی ہیں۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے یا اس پر قلم اُٹھانے کے لیے ذیل کتب کا موجود ہونا ضروری ہے ۔

1- تفسیر قمی ----علی بن ابراہیم شاگرد امام حسن عسکری

2- تفسیر مراة الانوارومشکوةالاسرار----شیخ ابوالحسن شریف

3- تفسیر صافی----مناقب شہربن آشوب۔فصل الخطاب۔احتجاج طبرسی

4-اور اصول کافی----ویسے اجمالی طور پر تحریف قرآن کا مسئلہ شیعہ کی ہر کتاب میں ملتا ہے۔

مشائخِ اربعہ

اس"امت" میں سے چار آدمیوں نے قرآن میں عدم تحریف کا عقیدہ پیش کیا۔ 1شیخ صدوق ،2شریف مرتضی 3ابو جعفر 4اور ابو علی طبرسی ۔ نہ جانے کس ترنگ میں یہ بزرگ یہ بات کہہ گئے۔ اتنا بھی نہ سوچا کہ ایسا کہنا کا مطلب یہ ہے کہ اگلے پچھلے تمام شیعہ مفسّر محدّث اور فقیہہ کافر قرار پائے۔ اس بنا پر علامہ خلیل قزدینی شارح اصول کافی نے ان چاروں کو عقل کا واسطہ دی کر جواب دیا۔ زیر بروایت

ان القران الذى جاءبه جبريل الى محمد ﷺ سبعة عشرةالف ایتہ

دعوی اینکہ قرآن ہمیں است کہ در مصاحف مشہورہ است خالی ازاشکال نیست و استدال بریں اہتمام اصحاب واہل اسلام بضبط قران بغایت رکیک است بعد اطلاع بر عمل ابوبکر و عمر و عثمان

(کتاب فضل القران جزششم)

نہ دعوی کرنا کہ یہی قرآن ہے جو موجودہ شکل میں موجود ہے اشکال اور اعتراض سے خالی نہیں۔باوجود اس کے شعیہ اصحاب کا اوراہل اسلام کا ضبط قرآن کے ساتھ استدلال کرنا نہایت رکیک اور کمزور ہے اور یہ معلوم ہو گیا ہے کے اسکو جمع کرنے والے ابو بکررضی اللّٰہ عنہ و عمر رضی اللّٰہ عنہ و عثمان رضی اللّٰہ عنہ ہیں"

بات وہ ہی ہے جو فضل الخطاب اور احتجاج طبرسی میں سے اوپر بیان ہوی ہے مگر انداز اپنا ہے کے جب قرآن کو جمع کرنے والے غیر معصوم ہیں تو اس قرآن پر کیا اعتبار کرنا.لہذا ان چاروں کو جو شعیہ ہو کرعدم تحریف قرآن کے قائل ہیں عقل سے کام لینا چاہیے تھا.

اس امر کا امکان ہو سکتا تھاکے شاید شعیہ علماء میں سے اور بھی کوئی اس عقیدے کا ہو تواس امکان کو بڑے اہتمام سے رفع کر دیا گیا ہے۔

فضل الخطاب 33

ولم یعرف من القدماءموافق لہم.ایضا34

ولم یعرف الخلاف صریحاالامن ہذہ المشائخ الادبعتہ

"مقتدین شعیہ میں سے ان چار میں سے اتفاق کرنے والا کوئی نہیں ملتا۔

تعریف قرآن کے عقیدے کی صریح مخالفت ان چار مشائخ کے بغیر کسی نے نہیں کی۔"

علامہ خلیل قزوینی نے کہا ہے کہ قرآن کے غیر محرف ہونے کا دعویٰ ہی غلط ہے اور علامہ نوری نے کہا ہے کہ ان چار کا مذہب غلط ہے۔خود ساختہ ہے۔ متقدمین سے ماخوذ نہیں۔ متقدمین یعنی بارہ امام ان کے شاگرد ان کے شاگردوں کے شاگرد چوتھی صدی ہجری تک سب تعریف قرآن کا عقیدہ رکھتے تھے لہذا ان چار کا عقیدہ بارہ اماموں کے خلاف ہے پھر علامہ نوری نے ترقی کر کے یہ بھی بتا دیا شعیہ متقدمین اور متاخرین میں کوئی ایک بھی ان کا ہم نوا نہیں ہوا۔لہذا ان چاروں کا عقیدہ غلط ہے حق ہمیشہ جمہور کے ساتھ آتا ہے۔صرف یہی ایک وجہ نہیں بلکہ یہ چاروں حضرات اگر عدم تحریف قرآن کا عقیدہ منوانا چاہتے تھے تو انہیں

(ا) عدم تحریف پر روایات کثیرہ پیش کرنی تھیں ۔

(ب) روایات میں مستفیضہ متواترہ اور صحیح

(ج) اماموں کا عقیدہ پیش کرتے۔

(د) وہ روایات صریح طور پر عدم تحریف قرآن پر دلالت کرتیں۔

ان چاروں کر تروید جس انداز میں کی گئی ہے اس سے ایک اصول مستنبط ہوتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شیعہ عالم یا عامی یہ کہے کہ میں تحریف قرآن کا قائل ہوں تو اسے یہ ثبوت پیش کرنے پڑیں گئے۔

1- کتب شیعہ میں جو زائداز 2000 یا 12000 ہزار روایات تحریف قرآن کی موجود ہیں اور جن کو شیعہ محدّثین مستفیض متواتر اور صحیح قرار دیتے ہیں اور جو صاف طور پر تحریف قرآن پر دلالت کرتی ہیں ان سب کو غیر مقبول اور غیر معتبر ہونے کی کوئی ایسی خاص وجہ بیان کرے جس سے شیعہ کے اصول ائمہ کے فن حدیث پر کوئی اثر نہ پڑے اور روایات امامت مردود نہ قرار پائیں۔

2- اپنی معتبر کتابوں میں ایسی روایات پیش کرے جو ائمہ سے منقول ہوں صحیح ہوں، معتبر ہوں، عدم تحریف پر صریح دلالت کرتی ہوں۔صرف اقوال علماء کے پیش کرنے سے کام نہ چلے گا۔

3- ایسا شخص یہ اعلان کرے کہ جو شخص تحریف قرآن کا عقیدہ رکھے وہ قطع کافر ہے۔ خواہ کوئی مفسر ہو ،محدث ہو، فقیہہ ہو یا سفیر ہو۔

اگر نہ کر سکے تو تقیہ کا تکلف نہ کرے ۔ اپنے عقیدے پر جمار ہے۔ کوئی دشواری نہیں ھذا المشایہ الاربعة کی ترتیب جو علامہ نوری نے استعمال کی ہے اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی علامہ نوری طبرسی تفسیر مراةالانوار کی تعریف کے ضمن میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ تحریف قرآن کا عقیدہ شیعہ مذھب کی ضروریات دین سے ہے۔ اور ضروریات دین کا انکار کفر ہے۔اور یہ چاروں حضرات تحریف قرآن کا انکار کر رہے ہیں۔پھر بھی علامہ نوری انہیں مشائخ ہی سمجھتے ہیں۔ اپنا اپنا ظرف ہے۔کفر اور مشخیت کا جمع کرنا علم کے زور سے ہی ممکن ہے ورنہ تو اجتماع نقیضین ہی نظر آتا ہے۔

آپ ان کتابوں کے تواتر سے انکار کر سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں جب توریت محرف متواتر ہو گئی تو قرآن محرف متواتر نہیں ہو سکتا ۔ پس یہ قرآن متواتر بھی ہے اور محرف بھی مشائخ اربعہ نے قرآن کی عدم تحریف کے لیے تواتر کا سہارا لیا تھا۔ مگر تحریف قرآن کے عقیدے کو ضروریات دین میں سمجھنے والوں نے اس دلیل کے بخیئے بھی ادھیڑ دیئے مگران کی "شیخی" کو بحال بھی رکھا۔ بات کچھ اس طرح بنی کہ پنچوں کا آنا سر آنکھوں پر مگر پرنالہ وہیں رہے گا۔ یعنی تواتر کا نظریہ تسلیم مگر تحریف پہلے اور تو اتر بعد۔ "مشائخ" نے جو بصرہ کوفہ کی مثال دی ہے وہ قطعی طور پر بے محل ہے ان شہروں کے وجود کے راویوں اور ناقلوں کو کسی نے متفق علی الکذب نہیں کہا۔ اور شیعہ نے ناقلین قرآن کی پوری جماعت کو کاذب قرار دیا ہے۔ اور سب کو جھوٹ پر متفق ہونا تسلیم کیا ہے لہذا یہ مثال مشائخ کے دعوے کو تقویت دینے کی جگہ ان کی خود فریبی کی عمدہ مثال ہے پھر اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر بصرہ کوفہ کے تمام ناقلین جھوٹے بھی ہوں تو ان شہروں کے وجود عدم میں تبدیل نہیں ہو جائیں گے۔ آدمی خود وہاں جا کر اپنے مشاہدہ سے تصدیق کر سکتا ہے۔ قرآن مجید کا معاملہ اس طرح نہیں ہے۔ کیونکہ کسی کے بس کی بات نہیں کہ خود جا کر دیکھ لے کہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے نبی کریمﷺ پر نازل ہو رہا ہے اس منظر کے دیکھنے والے تو وہی ہیں جنہیں شیعہ حضرات متفق علی الکذب مانتے ہیں لہذا عینی گواہ جو ناقلین ہیں ان پر سے اعتماد اٹھ گیا تو نقل سے لازماً اعتماد اٹھ گیا۔ اس ساری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ مشائخ اربعہ نے جو عدم تحریف قرآن کا عقیدہ پیش کیا تو انہوں نے ایک طرف تمام متقدمین شیعہ کی مخالفت کی دوسری طرف تمام متاخرین شیعہ علماء نے اس مشائخ کی وہ گت بنائی کہ ان بیچاروں کے متعلق یوں محسوس ہونے لگا کہ نہ إلى الذى نہ االذى