Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ مذہب پر عقیدہ تحریف قرآن کے اثرات

  مولانا اللہ یار خاں

شیعہ مذہب پر عقیدہ تحریف قرآن کے اثرات

عقیدہ اور عمل کا تعلق اسی قسم کا ہے جو بیج اور درخت کا ہوتا ہے اس لیے انسان کا عقیدہ اس کی پوری فکری اور عملی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے شیعہ نے تحریف قرآن کے عقیدے کو شیعہ مذہب کی ضروریات دین میں داخل کر کے جو نئی روش اختیار کی ہے اس کا اجمالی نقشہ یہ ہے:

1_ قرآن کریم اللّٰہ کی کتاب ہے جو روح الامین کے ذریعہ رحمت اللعالمینﷺ کے قلب اطہر پر نازل کی گئی تا کہ حضور اکرمﷺ اس کتاب ہدایت کے ذریعہ قوم کو صراط مستقیم پر چلائیں اور اس کتاب کی روشنی میں ایسا معاشرہ تیار کریں جو اس کتاب کو پوری عملی تعبیر کے ساتھ آنے والی نسلوں کو منتقل کریں ۔ شیعہ نے اس مقدس جماعت کو نا قابل اعتبار قرار دیا۔ اس لیے اللّٰہ کی کتاب کو نا قابل اعتماد سمجھنا اس کا لازمی نتیجہ تھا۔ اور ان دونوں امور کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ حضرات اللّٰہ تعالیٰ کی رہنمائی سے محروم ہو گئے۔

2_ کتاب الٰہی کے بعد نگاہ انتخاب کا مرکز قدرتی طور پر معلم کتاب کی ذات ہی بن سکتی تھی ۔ قرآن سے دستبردار ہونے کے بعد حضور اکرم ﷺ سے رہنمائی حاصل کرنے کی واحد صورت تھی۔ مگر حضور اکرمﷺ کی تعلیمات آپ کے ارشادات اور ان کی عملی تعبیر کے امین وہی لوگ تھے جن کو حضور اکرم ﷺ نے پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے تیار کیا تھا۔ جب شیعہ کا اعتماد صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنھم سے اٹھ گیا تو حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات انہیں کہاں سے حاصل ہو سکتی تھیں۔ لہذا شیعہ کی دوسری محرومی یہ ہوئی کہ تعلیمات نبویﷺ یااحادیث نبویﷺ سے بھی انہیں دستبردار ہونا پڑا ۔

3_ شیعہ کے لیے صرف ایک سہارا رہ گیا اور وہ تھا اقوال ائمہ جن کو یہ حضرات حدیث ائمہ کہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات اقوال ائمہ سے رہنمائی حاصل کرنے سے بھی محروم ہو گئے۔ اس کی وجہ خود شیعہ اور ائمہ شیعہ کی زبانی سنیے :-

بحار الانوار ملا باقر مجلسی 1354، تفسیر البرھان 1: 29

الوسائل - كتاب القضا باب 19 تفسیر عیاشی 9-1

میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے ۔

ومنها الراوية المستفيضة بل المتواترة المعنى فانها بتفاوة يسير ماثورة في اكثر كتب الاصول ففي الكافي بعد موثوق عند ابى عبد الله رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول الله ﷺ ان على كل حق حقيقة وعلى ثواب نورا فما وافق کتاب الله فخذوه و ما خالف كتاب الله فدعوه هكذا في الامالي

اذاں جملہ ایک روایت ہے جو مستفیض بلکہ متواتر المعنی ہے اور معمول اختلاف سے اکثر کتب اصول میں مروی ہے چنانچہ کتاب کافی میں بسند معتبر امام جعفر سے روایت ہے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا کہ ہر سچی بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور ثواب کی بات میں ایک نور ہوتا ہے پس جو حدیث کتاب اللّٰہ کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب اللّٰہ کے خلاف ہو اسے چھوڑ اور کتاب امالی میں بھی ایسا ہی ہے۔

من كليب الاسدي قال سمعت ابا عبد الله قال ما اتاكم عنا من حدیث لا یصدقہ کتاب الله فهو باطل۔

کلیب اسدی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر سے سنا وہ فرماتے تھے کہ جو حدیث تمہیں ہم سے ملے اگر اس کی تصدیق کتاب اللّٰہ نہ کرے تو وہ حدیث باطل ہے۔

عن سديد قال كان ابوجعفر وابو عبد الله لا يصدق علينا الا بما يوافق كتاب الله وسنة نبیه۔

سدید کہتا ہے کہ امام باقر اور امام جعفر نے فرمایا ہم ہر اس حدیث کی تصدیق کریں جو کتاب اللّٰہ اور سنت رسول ﷺ کے مطابق ہو۔

وعن ايوب بن حر قال سمعت عبد الله يقول كل شيئ مردودا الی كتاب اللّٰه والسنة وكل حديث لا یوافق کتاب اللّٰہ فھو معرف۔

ایوب بن حر کہتا ہے میں نے امام جعفر سے سنا کہتے تھے کہ ہر شے کتاب و سنت کی طرف لوٹائی گئی ہے اور جو حدیث کتاب اللّٰہ کے مطابق نہ ہو وہ جعلی اور فرضی ہے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ ائمہ شیعہ کی تعلیم تواتر معنوی کی حد کو پہنچ گئی کہ قول رسول ہو یا قول آئمہ ہو اسے قرآن کی کسوٹی پر رکھو اگر وہ قول یا حدیث قرآن کے موافق ہے تو قبول کرو ورنہ اسے راوی کے منہ پر مارو۔

اس اصول نے شیعہ کے لیے مشکلات کا طوفان کھڑا کر دیا۔ وہ یوں کہ ہر شخص قول آئمہ کے نام سے جو چاہے بات کر سکتا ہے لہٰذا آئمہ نے اصول بتا دیا کہ جو بات ہماری طرف منسوب ہوا سے قرآن کی کسوٹی پر گھس کے دیکھ لو۔

اب پہلی مشکل یہ ہے کہ شیعہ کے پاس سرے سے وہ کسوٹی ہی موجود نہیں جو موجود ہے اس کو شیعہ کی 2000سے زائد روایات محرف اور غیر معتبر قرار دے چکی ہیں لہٰذا قول آئمہ کو اس کسوٹی پر پرکھنا بے سود ہے۔

اور جو بقول شیعہ اصلی کسوٹی ہے وہ اماموں نے کسی کو دکھائی نہیں تو قول آئمہ کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیسے ہو ؟ لہٰذا اقوال آئمہ سے بھی شیعہ کوئی ہدایت نہیں لے سکتے۔ کیونکہ اقوال آئمہ کو بغیر جانچ پڑتال کے پلے باندھ لیں آئمہ کی صریح مخالفت ہوتی ہے اور جانچنا چاہیں تو کسوٹی نہیں ملتی۔

4_قرآن کی تحریف کا عقیدہ رکھنے کا ایک اور اثر یہ ہوا کہ شیعہ کی نماز برباد ہوئی کیونکہ نماز کا رکن اعظم قرآت قرآن ہے۔ جب بقول شیعہ قرآن میں صحابہ رضی اللّٰہ عنھم نے اضافے کئے کمی کی ترتیب بدلی تو اب کیونکر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ حصہ قرآن کا یقینی اور غیر محرف ہے۔ عقلی امکان سے ہٹ کے نقلی ثبوت بھی شیعہ کے پاس ہے کہ قرآن میں جو تحریف ہوئی ہے اس کی نشاندھی یقینی طور پر کرنا ممکن ہی نہیں۔

چنانچہ فصل الخطاب ص587پر ارشاد ہے:

الاخبار متواترة بالمعنى على النقص والتغيير في الجملة لكن لا يمكن الجزم في مخصوص موضع و امرنا بقراءته والعمل به على ما ضبطه القراء إلى ان يظهر القائم۔

روایات متواتر بالمعنی قرآن میں کمی ہونے اور تبدیل ہونے پر دلالت کرتی ہیں لیکن یقینی طور پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ فلاں فلاں جگہ تحریف ہوئی ہے اور ہمیں اسی قرآن کے پڑھنے اور اسی پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک امام مہدی کا ظہور ہو۔

ممکن ہے اسی وجہ سے شیعہ بلعموم نماز کے معاملے میں لبرل ہے کہ جب ایک رکن ہی مشکوک ہے تو اس بیکار محنت سے کیا فائدہ۔

⑤۔۔اگر آئمہ کے اقوال کو قرآن کے معیار پر پرکھا نہیں جا سکتا تو طفل تسلی کے طور پر ان روایات کو عقل عامہ (کامن سنس) سے چانچ سکتے ہیں مگر اس بارے میں آئمہ نے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں مثلاً

(الف) امام کے کلام کے ستر پہلو ہوتے ہیں کون جانے کون سا پہلو صحیح ہے۔

(ب) آئمہ کی حدیث کا ایک وصف بیان ہوا کہ "صعب متصعب " ہوتی ہے۔

یعنی اس کا مطلب سمجھنا نہایت مشکل ہے۔

(ج) امام کے ہر کلام میں تقیہ کا احتمال لازما ہوتا ہے۔

لہذا یہاں عقل عامہ بھی رہنمائی کرنے سے قاصر ہے۔

بات تقیہ کے احتمال کی نہیں بلکہ تقیہ کا مسئلہ اتنا نازک ہے کہ اسے چھوڑنے کی ہمت نہ شیعہ میں ہے نہ آئمہ شیعہ میں چنانچہ

احتجاج طبرسی ص134

وليس ليسوغ مع عدم التقية التصريح باسماء المبدالين ولا الزيادة في اياته على ما اثبتوه من تلقائهم في الكتاب لما في ذلك من تقوية فبحر اهل التعطيل والكفر والملل المنحرفة من قبلتنا وأبطال هذا العلم الظاهر الذي قد استكان له الموافق والمخالف۔

شریعت تقیہ نے اس قدر منع کر رکھا ہے کہ نہ میں ان لوگوں کے نام بتا سکتا ہوں جنہوں نے قرآن میں تبدیلی کی ہے نہ اس زیادتی کو بتا سکتا ہوں جو انہوں نے قرآن میں شامل کر دی ہے۔ جس سے کفر اور مذاہب باطلہ کی امداد اور تائید ہوتی ہے اور اس علم ظاہری کا ابطال ہوتا ہے جس کے موافق اور مخالف سب قائل ہیں۔

پھر اسی کتاب کے ص 129 پر ہے:

ولو شرحت لك كلما اسقط و حرف و بدال مما يجرى هذا المجراى لطال و ظهر ما تحضره التقية اظهاره .

جو آیات قرآن سے نکال دی گئی ہیں اور جو تحریف اور تبدیلی کی گئی ہے۔ اگر میں ان کی تشریح کروں تو بات بڑھ جائے گی اور تقیہ جس چیز سے روکتا ہے وہ ظاہر ہو جائے گی۔

دیکھ لیجئے تقیہ کا معاملہ کتنا نازک ہے کہ جہاں شریعت محمدی ﷺ اور شریعت تقیہ میں تصادم ہو جائے یا ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا لازمی ہو جائے تو شریعت اسلامی کو چھوڑ دینا پڑے گا مگر شریعت تقیہ کو کسی حال میں نہیں چھوڑا جا سکتا۔

البتہ یہاں ایک پہلو نا قابل فہم ہے کہ تقیہ نے اس بات سے کیوں نہ روکا کہ قرآن کی تحریف کا شوشہ چھوڑ دیا جائے اور اس سے کیوں روکا کہ تحریف کی تعیین کردی جائے اگر وہاں بھی تقیہ کر لیا جاتا تو سارا درد سر ختم ہو جاتا ان دو مقامات پر دو مختلف طرز عمل اختیار کرنے سے تو نقشہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ بھس میں چنگاری ڈالی جمالو دور کھڑی ۔

جس حرکت مذبوحی کا ذکر ہو رہا ہے اس کی علمی تفصیل تو دی جا چکی میرے ساتھ عملی طور پر بھی یہ صورت پیش آئی۔ مرزا احمد علی شیعہ رئیس المناظرین نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ ہم تو موجودہ قرآن کو صحیح و سالم سمجھتے ہیں ، میں نے کہا کس دلیل سے کہنے لگے سنو احتجاج طبرسی میں ہے ۔

واما هذا القرآن فلاشك ولا شبهة في صحته وانه من كلام اللّٰه سبحانه هكذا صدر من صاحب الامر .

جہاں تک اس قرآن کا تعلق ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں نہ اس کی صحت میں شک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن اللّٰہ کا کلام ہے یہی امام غائب کا فرمان ہے۔

میں نے کہا مرزا جی! هذا القرآن میں ہذا کا اشارہ کسی قرآن کی طرف ہے کہنے لگے یہ ایسا ہی ہے جیسا ان هذا القرآن يهدي للتي هي اقوم ہے میں نے کہا میں اس ہذا کے متعلق نہیں پوچھ رہا بلکہ احتجاج طبرسی والے هذا کے متعلق پوچھ رہا ہوں ۔ مرزا جی بغلیں جھانکنے لگے تو میں نے کہا لیجئے میں آپ کو پوری بات بتا دوں ۔ احتجاج طبرسی میں اس ھذا سے پہلے یہ عبارت ہے ص11

والقرآن الذي جمعه امیر المومنين عليه السلام بخطہ محفوظ عند صاحب الامر عجل اللّٰه فرجه فيه كل شيئ حتى ارش الخدش۔

وہ قرآن جسے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے لکھا اور جمع کیا وہ امام غائب کے پاس محفوظ موجود ہے خدا امام کی مشکل آسان کرے اس قرآن میں وہ تمام چیزیں ہیں (جن کی لوگوں کو حاجت ہوتی ہے)حتی کہ خواہش کی اہمیت بھی اس میں مذکور ہے۔

اس سے آگے وہ عبارت ہے جو آپ نے سنائی ۔ لہذا ھذا کا اشارہ اس قرآن کی طرف ہے جو امام غائب کے پاس ہے جسے چودہ صدیوں میں کسی کو دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔

مرزا جی! آپ نے تقیہ کا ثواب حاصل کرنے کی کوشش تو کی مگر تحریف قرآن کے متعلق 2000 سے زائد روایات سے آپ کیونکر پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ اس تفصیل سے غرض یہ ہے کہ تحریف قرآن کا عقیدہ ایسا ہے کہ آدمی اگر برائے نام معقولیت کا رویہ بھی اختیار کرے تو اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ عقیدہ اور اسلام کا دعوی بالکل دو متضاد چیزیں ہیں۔ اور اسلام سے ایک قسم کا جذباتی تعلق توکسی نہ کسی رنگ میں موجود ہوتا ہے لہذا آدمی یہ کہنے سے ہچکچاتا ہے لہٰذا تقیہ کر کے ماڈرن شیعہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو موجودہ قرآن کو صحیح سمجھتے ہیں۔ لہذا یہ صحیح سمجھ لینا چاہیئے کہ کسی شیعہ کا قرآن کے متعلق یہ کہنا بالکل اسی طرح ہے جیسے وہ کہے کہ میرا امامت کے متعلق کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ شیعہ اگر قرآن کی عدم تحریف کا قائل ہو تو اسے عقیدہ امامت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔