Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مقدمین علمائے شیعہ اور عقیدہ تحریفِ قرآن

  مولانا اللہ یار خان

مقدمین علمائے شیعہ اور عقیدہ تحریفِ قرآن

ان امور پر تفصیلی بحث ہو گئی کہ

1_تحریف قرآن کی روایات شیعہ کی معتبر کتب میں ہیں۔

2_ یہ روایات کثیر التعداد ہیں۔

3_ زائد از دو ہزار ہیں۔

4_ یہ روایات سے ہی متواتر اور متنفیض ہیں۔

5_ یہ روایات تحریفِ قرآن پر صحیح دلالت کرتی ہیں۔

6_ یہ روایات علمائے شیعہ کے عقیدہ تحریفِ قرآن کی بنیاد ہیں۔

7_ تحریفِ قرآن کا عقیدہ شیعہ مذہب کے ضروریات دین سے ہے۔

☆۔۔اب ذرا ان علمائے شیعہ سے بھی ملیں جو اس مہم میں پیش پیش ہیں۔

فصل الخطاب ص338

قد عرفت مشروحا ان النقصان انما تطرق على القرآن بسبب خلافة اهل الجور والعدوان وبلوغ ما ذكرناه ونقلئناه من اول المقدمات الى ههنا ازيد من حدا تو اتر كما لا يخفى على منصف مع عدم عنوانا على كثير من كتب الاخبار و قدادعی تواترهاجماعته منهم المولوی محمد صالح نے شرح الكافى. حیث قال فی شرح ماوردان القرآن الذى جاء بہ جبرئيل إلى النبىﷺ سبعة عشرة الف أية وفى رواية سليم ثمانية عشرة اية. واسقاط بعض القرآن و تحریفه ثبت من طرقنا بالتواتر معنوی كما يظهر لمن تامل فى كتب الاحاديث من اولها الى اخرها ومنهم الفاضل قاضى القضاة علی ابن عبد العالى ما لفظه ان ایراد الاكابر الاصحاب اخبارنا. فى كتبهم المعتبرة التى ضمنوا صحة ما فيها قاض بصحتها فان له طرقانى تصحيحها غير جهة الزواة كالا جماع على مضمون امتن وليس عندی تنصیص هولاء الفحول بصحة المتن بأدون من توثيق الرواة . و منهم الثنيہ المحدث الجليل الشيخ ابو الحسن الشريف فے مقدمات تفسيره. ومنهم العلامة المجلسى قال فى مراة العقول فى باب انه لم يجمع القرآن له الا الائمة ومنهم السيد المحدث الجزائرى فى منبع الحيرة ومنهم المولوى محمد تقى المجلسى و منهم الفاضل الاميرنا علاء الدین كلستانی شارح النهج وقال الفاضل المتبع المولوى الحاج محمد الارد بيلى تلميذ العلامة المجلسى فى اول کتاب جامع الرواة وبالجملة ببركة نسختى هذا يمكن ان يصير قريبا من اثنى عشر الف حديث او اكثر من الاخبار التى كانت بحسب المشهور بين علمائنا

آپ تفصیل سے معلوم کر چکے ہیں کہ اہل ظلم و جورکی خلافت کی وجہ سے قرآن میں نقصان و تحریف نےراہ پائی۔جیسا کہ میں نے نقل کیا ہے تحریفِ قرآن کی روایات حد تواتر سے زائد ہیں۔ایک مصنف مزاج ادمی پر خواه وہ حدیث کی بہت سی کتابوں سے واقف نہ ہو یہ امر پوشیدہ نہیں۔ اور تحریف قرآن کی روایتوں کے متواتر ہونے کا نتیجہ محدثین کی ایک جماعت نے دعوی کیا ہےان میں مولوی محمد صالح ہے جس نے شرح کافی میں بیان کیا کہ جو قرآن جبرائیل امین محمدﷺ پر لے کے آیا تھا وہ 17ھزار آیات کا آیا تھا۔اور سلیم کی روایت میں ہے کہ 18 ہزار آیات کا ہے. قران کے بعض حصوں کا ساقط ہونا اور اس میں تحریف ہونا شیعہ مذھب میں تواتر سے ثابت ہے۔ یہ حقیقت ہر اس شخص پر واضح ہو گئی جو حدیث کی کتابوں کو اول سے آخر تک دیکھے۔ ان میں سے ایک فاضل قاضی القضاۃ علی بن عبدالعالی ہے ۔اس نے کہا ہے کہ ہمارے اکابر محدثین نے ان احادیث کو اپنی معتبر کتب میں درج کیا ہے جو کچھ ان کی کتابوں میں لکھا ہے اس کی صحت پر وہ محدثین ضامن ہوئے ہیں۔ روایات پر جرح کرنے کے علاوہ بھی ان کے صحیح ہونے کے لیے کئی طریقے ہیں جیسا کہ اس مضمون کی تین کتب پر اجماع ہونا۔ اور میرے نزدیک ان بڑے بڑے فضلاء شیعہ کا روایات کی صحت کی نص کر دینا راویوں کی توثیق کرنے سے کم نہیں پھر ان میں شیخ محدث جلیل ابو الحسن شریف بهى ہے جیسا کہ اس نے اپنی تفسیر مراۃ الانوار کے مقدمے میں لکھا ہے پھر ان میں علامہ باقر مجلسی بھی ہے اس نے مرۃ العقول شرح اصول میں ایک باب باندھا ہے۔کہ پورا قرآن صرف اماموں نے جمع کیا۔پھر ان میں سید محدث الجزائری بھی ہے اس نے منبع حیات میں بیان کیا پھر ان میں مولوی محمد تقی مجلسی بھی ہے پھر ان میں فاضل مرزا علاء الدین بی ہے جو شارخ النہج ہے اور حاجی محمد اردبیلی جو علامہ مجلسی کا شاگرد ہے اس نے اپنی کتاب جامع الروات کی ابتدا میں کہا کہ حاصل کلام یہ ہے کہ میری کتاب کے اس نسخہ کی برکت سے ممکن ہے کہ تحریف قران کی روایات 13 ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہوں بمقابلہ ان روایتوں کے جو ہمارے علماء کے نزدیک مشہور ہیں.

ايضا 344

اعلم انا قد ذكرنا فى ذيل الدليل السابق صراحته دلالته ماتضمن كلمته السقوط والتغير والتبديل، و التحريف والمحو على المطلوب

خوب جان لو ہم نے دلیل سابق میں ذکر کیا ہے جو صاف اور صریح دلالت کرتی ہیں۔قرآن میں کلمات کو ساقط کرنے تحریف کرنے بدل دینے اور مٹا دینے پر۔

یہ اکابر شیعہ علماء تحریف قرآن کے عقیدے میں صرف ذاتی طور پر ہی رسوخ نہیں رکھتے بلکہ اس عقیدہ کے مبلغ ہیں اور اس کے انکار کو کفر قرار دیتے ہیں۔مگریہاں ہمہ یہ قدرتی بات ہے کہ شیعہ کوئی بات بھی کرے اس پر تقیہ کا امکان ضرور ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ شیعہ کے نزدیک 9/10 حصہ دین جب تقیہ میں مضمر ہے تو اس گنج باوآرد کو کوئی کیسے جانے دے اللہ جزادے ان کے علامہ نوری طبری کو بات صاف کر گئے ہیں۔

فصل الخطاب ص12

فيقول العبد المذنب حسين بن محمد تقى النورى الطبرسى جعله الله تعالى من الواققين ببابه المتمسكين بكتابه هذا كتاب لطيف و سفر شریف عملته فے تحريف القرآن وفضائح اهل الجور والعدوان و سميته فصل الخطاب فى تحريف كتاب رب الارباب وجعلت له ثلاث مقدمات و بابین واودعت فيه من بدائع الحكمة ما تقربه كل عين وارجوا ممن ينتظر رحمته المسيئون ان ينفعنى به يوم لا ينفع مال ولا بنون

گنہگار بندہ حسین بن محمد تقی النوری الطبرسی۔اللّٰہ تعالٰی اسے اپنے دروازے پر کھڑا ہونے والوں میں کرے اور اپنی کتاب سے تمسک کرنے والوں سے بنائے کہتا ہے کہ یہ کتاب بڑی لطیف اور گراں قدر ہے میں نے اس میں تحریف قرآن کا مسئلہ اور ظالموں کی برائیاں بیان کی ہیں۔اور اس کا نام رکھا ہے فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب میں نے اس میں تین مقدمات اور دو باب رکھے ہیں اور میں نے اس کتاب میں عجیب حکمتیں بیان کی ہیں جنہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور میں خدا سے امید کرتا ہوں اس کی رحمت کی جس کے گنہگار لوگ منتظر ہیں کہ یہ کتاب مجھے قیامت کے دن نفع دے گی جس روز مال اور اولاد کچھ نفع نہ دیں گے۔

علامہ نوری طبرسی نے عقیدہ تحریف قرآن کی اہمیت واضح کر دی کہ یہ عقیدہ رکھنا ھی شیعہ کی نجات کے لیے کافی ہے۔بھلا کس کا دل گردہ ہے کہ قرآن پر ایمان لا کر نجات خروی سے دستبردار ہو جائے۔خلفائے ثلاثہ کے جو رد ظلم کے عقیدے سے تو عقیدہ تحریف قرآن میں اور جلا آجاتی ہے۔لہذا علامہ نوری نے اپنی نجات کو یقینی بنانے کے لیے تحریف کتاب رب الارباب کے ساتھ ساتھ ضمنی طور پر صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہ بالخصوص اصحابہِ ثلاثہ رضی اللّٰہ عنھم کو بھی ثواب پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

علامہ نوری طبرسی پر ہی موقوف نہیں شیعہ علماء کے نزدیک تحریف قرآن کا عقیدہ تو دراصل شیعہ مذہب کی بنیاد ہے۔علامہ نوری نے مقدمین شیعہ علماء کے نام لکھے ہیں۔ اب مقدمین اور متاخرین علمائے شیعہ میں سے چند اور چوٹی کے خضرات کے نام دیے جاتے ہیں۔

تفسیر مراۃ الانوار شیعہ محدث عظیم ابو الحسن شریف ص 49 فصل رابع

اعلم ان الذي يظهر من ثقة الاسلام محمد بن يعقوب الكلينی طاب ثراه انه كأن يعتقد التحريف والنقصان فی القرآن لانه مرواى روایات كثيرة فی هذا المعنى فی كتاب الكافی الذی صرح فی اوله بانه كان يثق فيما رواه فيه ولم يتعرض لقدح فيها ولا ذكر معارضاً لها و كذلك شيخه على بن ابراهيم التی فأن تفسیرہ مملوئة وله غلو فيه ووافق القی والكلينی جماعة من اصحابنا المفسرين کالعیاشی و النعمانى وفرات بن ابراهیم وغير هم وهو مذهب اكثر متتى محدثى المتاخرين وقول الشيخ الاجل احمد بن ابى طالب الطبرسى نما ينادى كتابه الاحتجاج و نصرة شيخنا العلامة باقر لوم اهل البيت و خادم اخبار هم فى کتابہ بحار الانوار وبسط الكلام فيه بما لا مزید عليه وعندى فى وضوح هذا القول بعد تتبع الاخبار و تفحص الاثار بحيث يمكن الحكم يكون من ضروریات مذهب التشيع دانہ اکبر مفاسد غصب الخلافته فتد برحتی تعلم توهم الصدوق حيث قال فى اعتقاداته . الخ

خوب جان لو کہ جو چیز ثقتہ الاسلام محمد بن یعقوب الکلینی کے متعلق ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ وہ تحریف قرآن اور قرآن میں کمی کا عقیدہ رکھتا تھا۔کیونکہ شیخ نے اس سلسلے میں بہت سی روایات اپنی کتاب کافی میں درج کی ہیں اور انہوں نے اپنی کتاب کے شروع میں لکھ دیا ہے کہ جتنی روایتیں اس کتاب کافی میں ہیں ان پر مجھے یقین اور وثوق ہے کہ سب صحیح ہیں۔اور شیخ نے ان روایات پر کوئی جرح اور تنقید نہیں کی۔ اس طرح کلینی کہ استاد علی بن ابراہیم قمی بھی یہی عقیدہ رکھتے تھے ان کی تفسیر روایات تحریف قرآن سے پُر ہے ۔اور ان کو اس مسئلہ پر بڑا غلو تھا اس مسئلہ پر شیعہ مفسرین کی جماعت نے اتفاق کیا ہے مثلا مفسر عیاشی نعمانی اور فرات بن ابراہیم وغیرہ۔اور اکثر محدثین، محققین، متاخرین شیعہ وغیرہ کا یہی مذہب ہے اور شیخ اجمل احمد طبرسی کا بھی یہی فرمان ہے جیسا کہ ان کی کتاب احتجاج طبرسی عقیدہ ہے کہ اعلان کرتی ہے اور باقر مجلسی جواہل بیت کے علوم کا خزانہ اور ان کی روایات کا خادم ہے اس نے بھی اپنی کتاب بخار الانوار میں اس مسئلہ کے متعلق وسط سے بحث کی ہے۔ تحریف قرآن کے مسئلہ پر اس سے زیادہ بحث کرنا ممکن نہیں۔ میرے نزدیک روایات کی پیروی کرنے اور آثار کی پڑتال کرنے کے بعد تحریف قرآن کا قول واضح ہے۔اس پرحکم کرنا ممکن ہے کہ مسئلہ تحریف قرآن ضروریات مذہب شیعہ ہے اور سب سے بڑا فساد غصب خلافت کا ہے۔اس پر غور کرو تاکہ تم پر شیخ صدوق کا وہم عدم تحریف قران واضح ہو جائے جو انہوں نے رسالہ اعتقادیہ میں لکھا ہے۔

یہ کتاب پوری تفسیر قران نہیں بلکہ صرف سورہ بقرہ کے نصف تک ہے مگر یہ تفسیر اس قدر بلند پایا ہے کہ علامہ نوری طبرسی اپنی کتاب فضل الخطاب ص31 میں لکھتے ہیں:

الشيخ ابى الحسن الشريف جد شیخنا صاحب الجواهر وجعله فی تفسيره المسمى بمراة الانوار من ضروريات مذهب التشيع

شیخ ابو الحسن الشریف ہمارے شیخ صاحب الجواہر کا دادا ہے۔ اس نے مسئلہ تحریف قرآن کو اپنی تفسیر مرۃ الانوار میں ضروریات مذہب شیعہ کے طور پر ذکر کیا ہے۔

مختصر یہ ہے کہ اس "عظیم" مفسر نے بڑی تحقیق کی ہے اور اس کا حاصل تحقیق یہ ہے کہ

1_ مسئلہ تحریف قرآن میں اکابر شیعہ مفسرین متفق ہیں۔

2_ تمام محدثین جو محقق ہیں مقدمین میں سے ہوں یا متاخرین میں سے اس مسئلہ پر متفق ہیں۔

3_ مثال کے طور پر جو نام شیخ نے ذکر کیے ہیں۔ شیعہ مذہب میں بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

4_مسئلہ تحریف قرآن شیعہ مذہب کے ضروریات دین سے ہے یعنی جو شخص تحریف قرآن کا قائل نہیں اور قرآن کو صحیح اور کامل سمجھتا ہے وہ شیعہ مذہب سے خارج ہے۔

یہ آخری شق بڑی فیصلہ کن اور مابہ الامتیاز ہے یعنی مذہب اسلام کا فیصلہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم کو اللّٰہ تعالٰی کی صحیح اور کامل کتاب نہ سمجھے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور مذہب شیعہ کا فیصلہ ہے جو شخص تحریف قرآن کا عقیدہ نہ رکھے یعنی جو شخص موجودہ قرآن کو تحریف شدہ بدلہ ہوا نہ سمجھے وہ مذہب شیعہ سے خارج ہے۔واقعی یہ مقام بڑا نازک ہے تحریف قرآن کا مسئلہ ایسی حد فاصل ہے۔کہ تحریف قرآن کا عقیدہ رکھو تو اسلام سے خارج اور یہ عقیدہ نہ رکھو تو مذہب شیعہ سے خارج۔ انسان کو فیصلہ کی آزادی ہے جو پہلو چاہے اختیار کر لے آخر آزادی رائے انسان کا پیدائشی حق جو ہوا۔

شیعہ محدث سید نعمت اللّٰہ الجزائری کا ذکر ہو چکا کہ آپ نے اپنی کتاب انوار النعمانیہ2 .484 پر یہی فیصلہ دیا ہے.

الوارد فى الكتاب والسنة المتواترة بحيث صارمن الضروريات الدينية يكفر منكرها اجماعاً ووفاقاً

جو مسئلہ قرآن میں یا حدیث متواتر میں آجائے وہ ضروریات دین سے ہے اور ضروریات دین کا منکر اجماعاً اتفاقاً کافر ہے۔

ہم نے تحریف قرآن کے منکر کے لیے شیعہ مذہب سے خارج کی ترکیب استعمال کی تھی۔ مگر شیعہ محدث الجزائری نے تو کوئی ابہام نہیں رہنے دیا اور بات دو ٹوک کر دی کہ تحریف قرآن کا منکر کافر ہے ۔ اب تو تقیہ کی ڈھال بھی کوئی کار آمد نظر نہیں آتی یعنی اگر کوئی شیعہ بزرگ کسی مصلحت کے تحت یہ باور کرانے کی کوشش کرے کہ کہ ہم تحریف قرآن کے قائل نہیں ہیں تو اسے اعلان کرنا پڑے گا کہ شیعہ علما ازاول تا آخر سب کافر تھے۔ کیونکہ وہ سب تحریف قرآن کا عقیدہ اپناتے رہے بلکہ اس عقیدہ کو ضروریات دین میں شامل کرتے رہے لہذا اس جھوٹی رواداری اور تصنع سے کوئی فائدہ نہیں۔ اپنے دین کی ضروریات کی حفاظت کیجئے اور تحریف قرآن کے عقیدے پر قائم رہئے ورنہ آپ کے سارے شیوخ اور ثقتہ الاسلام اور مفسرین محدثین آپ کے نزدیک کافر قرار پائیں گے۔

اس امر کی نزاکت کااحساس نہ کرتے ہوئے چار شیعہ علماء نے نہ جانے کس بنا پر عدم تحریف قرآن کے متعلق لب کشائی کی۔ ظاہر ہے کہ متقدمین اور متاخرین شیعہ مفسرین، محدثین، محققین جب دہائی دے رہے ہیں کہ قرآن بدل گیا، قرآن کم ہو گیا۔ قرآن میں من مانے اضافے ہوگئے قرآن کے مضامین آگے پیچھے کر دیئے گئے تو ان کے مقابلے میں چار آدمیوں کی زیر لب گفتگو کی مثال وہی ہے کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز ہے تو کون اس آواز پر کان دھرے پھر بھی ان کی خوب " تواضع" کی گئی۔ علامہ طبرسی نے فصل الخطاب ص25 پر شیخ صدوق کی بات کو مبنی بر وہم قرار دیتے ہوئے ایک طویل فہرست ان علماء کی دی ہے جو شیعہ مذہب کے ستون ہیں اور وہ سب تحریف قرآن کا عقیدہ رکھتے ہیں۔