قرآن کریم میں کمی کی چند روایات
مولانا اللہ یار خانقرآن کریم میں کمی کی چند روایات
گزشتہ صفحات میں احتجاج طبرسی کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ تقیہ کے احترام نے ائمہ کو قرآن میں تحریف کی تفصیل بتانے سے روکے رکھا پھر بھی شدت جذبات کی وجہ سے کچھ تفصیل دے دی گئی اس میں سے نمونہ کے طور پر قرآن میں کمی کی چند مثالیں بیان کر دینا مناسب ہوتا ہے۔
تفسیر قمی۔۔۔۔علی بن ابراہیم قمی۔۔یہ گیارہویں امام حسن عسکری کے شاگرد رشید ہیں اس میں انہوں نے اپنے استاد محترم کے ارشادات دیتے ہوئے جلد 1 صفحہ 10 پر فرمایا ہے۔
1_هو خلاف ما انزل اللّٰه فهو قوله كنتم خير امة اخرجت الناس انما نزلت خير ائمة .
یعنی قرآن میں جو خیر امۃ درج ہے وہ دراصل خیر آئمہ نازل ہوا تھا۔( یعنی دو حرف کم کر دئیے گئے)
موجودہ قرآن
2_ واجعلنا للمتقين اماما
شیعہ قرآن
2_واجعل لنا من المتقين
من کا لفظ نکال دیا گیا )
موجودہ قرآن
3يحفظونه من امر اللّٰه
شیعہ قرآن
3_يحفظونه بأمر اللّٰه
با کو نکال دیا گیا ہے۔
موجودہ قرآن
4_يا ايها الرسول بلغ ما انزل اليك من ربك
شیعہ قرآن
4_بلغ ما انزل اليك في على
(فی علی نکال دیا گیا)
موجودہ قرآن
5_ولو ترى اذا الظلمون في غمرات الموت
شیعہ قرآن
ولو ترى الذين ظلموا الى محمد حقهم في غمرات الموت
ال محمد حقھم کے الفاظ نکال دیئے گئے)
و مثله كثير نذكره في مواضعه
ایسی مثالیں کثیر ہیں جو ہم اپنے اپنے محل پر بیان کریں گے۔
مناتب شهر ابن آشوب ج 3 ص106 107
موجودہ قرآن:
1ومن يطع اللّٰه ورسوله فقد فاز فوزاً عظيما
( في ولاية على والأئمة من بعده - نکال دیا گیا)
اصل شیعہ قرآن
1 قوله تعالٰى ومن يطع اللّٰه ورسوله في ولاية على والائمة من بعده فقدا فاز فوزا عظيما هذا انزلت .
یعنی موجودہ قرآن کی رو سے اللّٰہ و رسولﷺ کی اطاعت کامیابی کی دلیل ہے یعنی اطاعت مطلق ہے اور شیعہ کے قرآن کی رو سے اطاعت مقید ہے کہ صرف ولایة علی اور ائمہ کے بارے میں اطاعت مطلوب ہے تو یوں کہا جائے گا کہ موجودہ قرآن میں کمی بھی کی گئی اور مقید کو مطلق بھی بنا دیا گیا ۔
موجودہ قرآن
2فستعلمون من هو في ضلال مبین
شیعہ قرآن
2فستعلمون من هو في ضلال مبین يا معشر المكذبين اتاکم
رسالة ربي في على والائمة من بعدہ۔
موجودہ قرآن
3 سال سائل بعذاب واقع للکافرین۔
شیعہ قرآن
3سأل سائل بعذاب واقع للكافرين بولايته على هكذا واللّٰه نزل بها جبرئيل.۔
موجودہ قرآن
4فابی اكثر الناس الاكفور .
شیعہ قرآن
4 فابی أكثر الناس بولاية على الاكفور اعن ابى جعفر نزل جبرئيل بهذا الآية هكذا.
موجودہ قرآن
5يا ايها الذين أوتوا الكتب امنوا بما نزلنا على عبدنا۔
شیعہ قرآن
5ايها الذين أوتوا الكتب امنوا بما نزلنا على عبدنا في على نورا مبيناً.
موجودہ قرآن
6 ان كنتم فی ریب مما نزلنا على عبدنا .
شیعہ قرآن
6 أن كنتم في ريب مما نزلنا على عبدنا انی علی ابن ابی طالب.
(امام جعفر سے روایت)
موجودہ قرآن
7 ولو انهم فعلواما یوعظون به لكان خيرالهم۔
شیعہ قرآن
7 ولوانهم فعلوا ما يوعظون به في على لكان خير الهم (امام باقر سے روایت)
موجودہ قرآن
8وقل جاء الحق من ربكم فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفرانا اعتدادنا للظلمين نارا.
شیعہ قرآن
8 وقال جاء الحق من ربكم في ولاية على فمن شاء فليومن ومن شاء فليكفر انا اعتدنا للظلمين الى محمد نارا
(امام باقر سے روایت)
موجودہ قرآن
9قد جاءكم الرسول بالحق من ربكم فامنوا خير لكم فأن تكفروا فان للّٰه۔الخ
شیعہ قرآن
9قد جاءكم الرسول بالحق من ربكم في ولاية على فأمنوا خير لكم وان تكفر بولاية على الخ
(امام باقر سے روایت)
موجودہ قرآن
10كبر على المشركين ما تدعوهم الیه۔
شیعہ قرآن
10 كبر على المشركين بولاية على على ما تدعوهم اليه يا محمد من ولاية على
( امام رضا سے روایت)
موجودہ قرآن
11انا نحن نزلنا عليك القرآن تنزیلا۔
شیعہ قرآن
11انا نحن نزلنا عليك القرآن بولاية على تنزيلا ( ابو الحسن سے روايت) وجدت في كتاب المنزل على الباقر)
موجودہ قرآن
12بئسما اشتروا به انفسھم ان يكفروا بما انزل اللّٰه.
شیعہ قرآن
12بئسما اشتروا به انفسھم
ان يكفروا بما انزل اللّٰه في على .
(امام باقر سے روایت)
موجودہ قرآن
13و اذا انزل ربكم قالوا اساطير الأولين.
شیعہ قرآن
13اذا انزل ربكم على قالوا اساطیر الاولین (امام باقر سے روایت)
موجودہ قرآن
14والذين كفروا أوليائهم الطاغوت۔
شیعہ قرآن
14والذين كفروا بولاية على ابن.ابی طالب اوليائهم الطاغوت (ان)
موجودہ قرآن
15إن الذين يكتمون ما انزلنا من البينت۔
شیعہ قرآن
15الذين يكتمون ما انزلنا من البيت فی علی ابن ابی طالب.
(امام باقر سے روایت)
موجودہ قرآن
16يا أيها الرسول بلغ ما انزل اليك۔
شیعہ قرآن
16يا ايها الرسول بلغ ما انزل اليك۔
موجودہ قرآن
من ربك وان لم تفعل فما بلغت رسالته۔
موجودہ قرآن
17هذا اصراط مستقيم۔
شیعہ قرآن
17هذا اصراط علی مستقيم۔
مناقب شهر ابن آشوب 3 : 121
موجودہ قرآن
18ولقد عهدنا إلى ادم من قبل .
شیعہ قرآن
18ولقد عهدانا الى ادم من قبل كلمات في محمد وفاطمة والحسن والحسين و الائمة من ذريتھم۔
(امام باقر سے روایت)
یہ تمام حوالہ جات اصول کافی میں بھی موجود ہیں جو امام غائب کی مصدقہ کتاب ہے تفسیر البرہان سید ہاشم بحران ج1 277
19امام جعفر اپنے والد امام باقر سے بیان کرتے ہیں کہ۔
ان اللّٰه اصطفى آدم و نوحا وال ابراهيم وآل عمران وال محمد على العلمين هكذا نزلت .
موجودہ قرآن میں آل محمد کہ الفاظ نہیں ہیں۔
اس ایت کی تفسیر قمی میں علی بن ابراہیم لکھتے ہیں۔
قال العالم ( امام ) نزل آل عمران.
وال محمد على العالمين .
شیعہ قرآن
واسقطوا أل محمد من الكتاب.
20۔۔۔۔تفسیر مرۃ الانوالہ ص37
من بزنطي قال دفع الى ابو الحسن مصحفاً وقال لا تنظر فيه ففتحته فقرات فيه لم يكن الذين كفروا فوجدت فيها اسم سبعين رجلا من قريش بأسمائهم واسماء ابائهم۔
بزنطلی کہتا ہے امام ابو الحسن نے مجھے قرآن دیا اور فرمایا اس میں نظر نہ ڈالنا میں نے اس قرآن کو کھلا اور سورۃ لم یکن الذین پڑھی تو میں نے اس میں ستر قریش کے نام معہ ان کے آباء کے نام پڑھے۔
ظاہر ہے کہ موجودہ قرآن میں لم یکن الذی میں کسی قریشی کا نام نہیں کمی تو ہو گئی مگر اس روایت سے ایک بات اور بھی معلوم ہوئی کہ شیعہ کا اپنے آئمہ کی محبت اور اطاعت میں اتنا بلند مقام تھا۔ امام نے جس کام سے منع کیا شیعہ نے وہ کام ضرور کیا اور ایسا کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کی جس سے یہ ظاہر ہوا کہ امام کی مخالفت کرنا شیعہ کا اصل دین ہے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ جبھی تو اپنے شیعوں کا امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے آدمیوں کے ساتھ اس شرح پر مارچہ کرنا چاہتے تھے کہ میرے دس شیعہ لے لو اپنا ایک آدمی مجھے دے دو شیعہ نے پہلے امام کے ساتھ جو سلوک کیا اخیر تک اسی پر قائم رہے ۔
(21)اسی کتاب میں ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے ابن نبات کے جواب میں فرمایا:
محى منه سبعون من قريش باسمائهم واسماء ابائهم وما ترك ابو لهب الازراء على رسول اللّٰه لانه عمه .
موجودہ قرآن میں ستر قریش کے نام معہ ان کے آباؤ کے نام کم کر دیئے گئے ہیں۔ ابولہب کا نام صرف نبی کریمﷺ کو ایذا دینے کے لیے چھوڑ دیا لگیا۔ کیونکہ وہ آپ کا چچا تھا۔
22ایضاً ص 27
وسیعلمون الذين ظلموا الآية و امثالها من الايات الكثيرة سوى ما ورد في التقديم والتأخير و اسقاط خصوصاً اسم على واسماء أعدائه من الاخبار المتواترة التي تأتي في مواضعها۔
وسیعلم الذین الخ یہ آیت اور اس قسم کی کثیر آیات سوائے اس تحریف کے جو قرآنی آیات اور سورتوں کی تقدیم تاخیر کے سلسلے میں ہوئی اور قرآن سے کمی کرنے خصوصا حضرت علی
رضی اللّٰہ عنہ کا نام اور ان کے دشمنوں کے ناموں کا روایات متواترہ میں ذکر ہے جو اپنے موقع پر بیان ہوں گی۔
کمی کا ذکر گو مبہم ہے مگر اتنی بات واضح ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ اور ان کے دشمنوں کے نام قرآن سے خارج کئے گئے جو موجودہ قرآن میں نہیں ملتے۔
دوسری بات اس روایت سے یہ معلوم ہوتی ہے قرآن کی قمی کی روایات متواتر ہیں اور متواترہ کا انکار کفر ہے لہذا تحریف قرآن کا انکار بھی کفر ہے ۔
(23)انا انزلناه في ليلة القدر
کی تفسیر کے تحت فصل الخطاب تفسیر قمی تفسیر البرہان تفسیر صافی، اور کتاب السیاری میں ہے :
تنزل الملئكة والروح فيها باذن ربهم من عندار بهم على اوصياء محمد بكل امر
اس رات جبرائیل ما دیگر فرشتوں کے اس رات ہر امر کے ساتھ اماموں پر نازل ہوتے ہیں۔
اور اسی آیت کے تحت تاویل الایات الباهرة في العترة الطاهرة عن ابى عبد اللّٰه قال تنزل الملئكة والروح فيها باذن ربهم من عند ربهم على محمد وآل محمد بكل امر سلام۔
شیخ کامل شرف الدین نجفی لکھتے ہیں مگر موجودہ قرآن میں من عند ربهم على محمد وال محمد موجود نہیں ہے۔
سورۃ قدر کی تفسیر قرآن میں کمی کے سلسلے میں بیان کی گئی ہے مگر تفسیر کے ضمن میں شیعہ کا ایک اور عقیدہ بھی بیان کر دینا بے موقع نہیں ہو گا۔
شیعہ کا عقیدہ ہے ہر سال لیلۃ القدر میں امام پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور نئے احکام لاتے ہیں۔ اس سے امامت کی عظمت تو واقعی ثابت ہوگئی مگر عقیدہ ختم نبوت کا انکار بھی ثابت ہو گیا۔ جب وحی کا سلسلہ جاری ہے تو نبوت بھی جاری ہے۔ پھر ختم نبوت کا عقیدہ کہاں باقی رہا ۔ اس حقیقت کو شیعہ مفسرین نے اپنے اپنے رنگ میں بیان کیا ہے ۔
تفسیر قمی 2-431 تفسیر البرهان 4۔488
1-قال تنزل الملائكة وروح القدس على امام الزمان ويدفعون ... اليه ما قد كتبوه من هذه الأمور من کل امر سلام قال تحية يحيى بها الامام إلى الفجر قيل لابي جعفر تعرفون ليلة القدر فقال وكيف لا تعرف ليلة القدر و الملكة يطوفون بنا فيها۔
ملائکہ اور جبرائیل امام زمان پر نازل ہوتے ہیں۔اور وہ دفتر جو فرشتوں نے لکھے ہوتے ہیں امام کو دے دیتے ہیں وہ تمام امور کے متعلق ہوتا ہے تحتیہ سے مراد سلام ہدیہ تحفہ ہے جو فجر تک یہ سلسلہ رہتا ہے امام باقر سے پوچھا گیا کیا آپ لیلۃ القدر کو پہچانتے ہیں فرمایا ہم کیسے نہ پہچانے حالانکہ فرشتے ہمارا طواف کرتے ہیں لیلۃ القدر میں۔
اور تفسیر البرہان میں تو ایک درجہ ترقی کر کے ایک اور بات کی گئی ہے 4۔484
2. تنزل الملائكة والروح فيها إلى الاوصياء یاتونهم بامر لم یکن رسول اللّٰه قد علمه .
اس رات جبرائیل اور صیا یعنی اماموں کی طرف نازل ہوتے ہیں اور اماموں کے پاس وہ امور لاتے ہیں جو رسول کریمﷺ بھی نہ جانتے تھے۔
لیجئے ختم نبوت کا انکار تو بجائے خود رہا خاتم النبیین بھی اماموں سے پیچھے رہ گئے اس تفسیری نکتہ کی وضاحت میں شیعہ مولوی نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضورﷺ کو ان امور کا علم نہیں تھا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کو علم تو تھا مگر ان امور کی تعلیم کسی کو نہ تھی۔
خوب یہ تو عذر گناه بد ترین گناہ والی بات ہوئی سوال یہ ہے کہ حضورﷺ نے تعلیم کیوں نہ دی کیا پیغمبر کی ڈیوٹی میں ہے کہ دین کو چھپائے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دے۔
پھر سوال یہ ہے کہ ان امور کے نہ بتانے کا کام نبی کریم ﷺ نے اللّٰہ کے حکم کے تحت کیا تھا یا اپنی مرضی سے اگر اللّٰہ کے حکم سے کیاتھا تو مقصد نبوت فوت ہوتا ہے اور اگر اپنی مرضی سے کیا تھا تو معاذ اللّٰہ کتمان دین خیانت اور اللّٰہ کی نافرمانی لازم آتی ہے۔ کیا کوئی مسلمان نبی کریمﷺ کے متعلق اس صورت کا تصور بھی کر سکتا ہے ۔
پھر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر سال نئے احکام جو آتے ہیں تو وہ سابقہ احکام سے زائد ہوتے ہیں یا سابقہ احکام کو منسوخ کر کے ان کا بدل ہوتے ہیں دونوں صورتوں میں یہ لازم آیا کہ ہر سال شریعت بدلتی رہتی ہے اور امام کو علم نہیں ہوتا کہ آئندہ سال کیا کیا تبدیلیاں ہونے والی ہیں گویا ختم بوت کا عقیدہ بھی گیا اور امام کا علم ماکان ومایکون کا عقیدہ بھی پادر ہوا ہوگیا۔
3 تفسیر البرہان 4۔483
انه لينزل في ليلة القدر إلى ولى الامر تفسير الأمور سنت سنة يوم فیها فی امر نفسه بكذا وکذا ركن اوفی الناس بكذا وكذا وانه ليحدث لولي الامرسوى ذلك كل يوم من علم اللّٰه عز ذكره الخاص المكنون العجيب المخزون مثل ما ينزل في تلك الليلة من الامرياتي بالامر من اللّٰه تعالى في ليالي القدر إلى النبي والى الاوصياء افعل كذا و كذا .
لیلۃ القدر میں ولی الامر یعنی امام پر ایک ایک سال کے امور کی تفسیر نازل ہوتی ہے اسی تفسیر میں امام کی ذات کے لیے احکام ہوتے ہیں کہ یوں کر اور لوگوں کے لیے بھی احکام ہوتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شب قدر کی طرح ہر روز امام پر پوشیدہ علم کے عجیب خزانے نازل ہوتے ہیں قدر کی راتوں میں نبی کی طرف اور اماموں کی طرف ملائکہ اللّٰہ کی طرف سے حکم لاتے ہیں کہ ایسا ایسا کرو۔
یہ سابقہ تحریر کی تائید ہے صرف اس میں سنتہ سنتہ کی تفصیل ہے کہ یہ نزول امر سال سال کے عرصے کے لیے ہوتا ہے۔
25- تفسیر عیاشی ج1۔194
انما هي قراءة على وهو التنزيل الذي نزل به جبريل على محمد عليها الصلوة والسلام و الا وانتم مسلمون الرسول اللّٰه تم الامام من بعده .
یعنی آیت الا و انتم مسلمون کے ساتھ لرسول اللّٰہ ثم الامام من بعدہ کا ٹکڑا بھی حضرت علی کے قرآن میں تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہے۔
25- تفسیر عیاشی 1 : 196
لقد نصركم اللّٰه بيدار وانتم اذلة فقال ( امام جعفر) وليس هكذا انزلها اللٌٰه انما نزلت وانتم قليل
26 - تفسیر عیاشی 1۔247
امام جعفر نے فرمایا کہ اصل قرآن میں قلیل کا لفظ تھا موجودہ قران میں اس کی جگہ لفظ اذلہ اپنے پاس سے لگا دیا گیا۔
يا ايها الذين امنوا اطيعوا اللّٰه وأطيعوا الرسول و اولی الامر منكم فان خفتم تنازعا في الامر فارجعوا إلى اللّٰه والى الرسول وأولى الامر منکم ھکذا نزلت
موجودہ قرآن میں ہے یہ آیت یوں ہے یايها الذين امنوا اطيعوا اللّٰه وأطيعوا الرسول وأولى الأمر منكم فأن تنازعتم في شیئ فردوه إلى اللّٰه والى الرسول گویا کمی بھی کی گئی اور لفظ بھی بدل دیے گئے۔
یه حصہ فارجعو الى اللّٰه والى الرسول و اولی الامر منکم ۔ کا تکلف اس لیے کیا گیا کہ اماموں کی امامت ثابت ہو جائے کیونکہ موجودہ قرآن میں تو ایسی امامت کا کہیں نشان تک نہیں ملتا اور شیعہ مذہب کا مدار ہی عقیدہ امامت پر ہے اس عقیدہ کی حفاظت کے لیے ہی عقیدہ تحریف قرآن وضع کیا گیا اور اسے ضروریات دین میں شامل کیا گیا۔ اور تقابل کے وقت بھی یہی کہا گیا کہ اگر ہم تحریف قرآن کا عقیدہ نہ رکھیں تو عقیدہ امامت سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔
قرآن میں جو تھوڑی تھوڑی کمی کی گئی اس کے تذکرہ میں سے یہ چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی ہیں۔
اب تھوک کمی کی روایات کا ایک آدھ نمونہ ملاحظہ ہو۔
فصل الخطاب ص 338 اور اصول کافی باب النوادر
1-ان القرآن الذي جاء به جبريل إلى النبي ﷺ سبعة عشر الف اية وفي رواية سليم ثمانية عشر الف اية.
جو قرآن جبرائیل امین نبی کریم ﷺپر لائے تھے وہ ستر ہزار آیت کا تھا اور سلیم بن قیس کی روایت ہے کہ 18 ہزار آیت کا تھا۔
صاف ظاہر ہے کہ تقریبا دو تہائی کم ہو گیا ایک تہائی رہ گیا اس حساب سے شیعہ کا قرآن تو 90 پاروں کا بنتا ہے 40 پاروں والی بات یوں ہی مشہور کر دی گئی ہے جو کھلی نا انصافی ہے۔
2۔احتجاج طبری ص129
وام ظهورك على تناكر قوله فان حفتم الاتقسطوا فی اليتمى فانكحوا ما طاب لكم من النساء الخوليس ليشبه القسط في اليتامى نكاح النساء ولاكل النساء ايتا ما فهو مما قدمت ذكره من اسقاط المنافقين من القرآن و بین القول في اليتامى وبين نكاح النساء من الخطاب والقصص اكثر من ثلث القرآن وهذا و ما اشبه مما ظهرت حوادث المنافقين فيه لاهل النظر والتأمل ووجد المطلون واهل الملل المخالفون للاسلام ساغا الى القدح فی القرآن
اور تجھے اللّٰہ کے قول فان خفتم الخ کے پسندیدہ نہ ہونے پر اطلاع ہوئی ہے اور تو کہتا ہے کہ یتیموں کے حق میں انصاف کرنا اور عورتوں سے نکاح کرنا آپس میں کوئی مناسبت نہیں رکھتا اور نہ تمام عورتوں یتیم ہوتی ہیں پس اس کی وجہ یہ ہے جو پہلے تم سے بیان کر چکا ہوں کہ منافقین نے قرآن سے بہت کچھ نکال ڈالا ہے۔ فی الیتامٰی اور فانکحوا کے درمیان بہت سے احکام اور قصے تھے جو تہائی سے بھی کچھ زیادہ حصہ بنتا ہے وہ نکال دیا گیا اس لیے بے ربطی پیدا ہو گئی اس قسم کی منافقوں کی تحریفات کی وجہ سے جو اہل نظر پر ظاہر ہو جاتی ہیں بے دینوں اور اسلام کے دشمنوں کو قرآن پر اعتراض کرنے کا موقع مل گیا ہے۔
اس روایت کو اگر درست تسلیم کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا لازم آتا ہے کہ ائمہ قرآن فہمی سے معذور تھے کیونکہ قرآن کا ایک ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ان آیات سے کہیں بے ربطی نہیں بلکہ صاف ظاہر ہے کہ مراد یتیم لڑکیاں ہیں جنہیں ہے سہارا سمجھ کر لوگ ظلم کرتے تھے لہذا حکم ہوا کہ اگر ان یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو تو معاشرہ میں دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرو تاکہ یتامٰی کے ظلم کا راستہ بند ہو جائے۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کے 40 پاروں والے قرآن کی روایت کی بنیاد یہی روایت ہے کیونکہ ایک تہائی جو ضائع ہوا وہ 10 پارے ہی بنتے ہیں لہذا پورا قرآن 40 پاروں کا ہی بنا۔ مگر اس بات کو شہرت دینے والوں نے یہ نہ سوچا کہ یہ کمی تو صرف ایک مقام پر کی گئی ہے۔ قرآن کے باقی حصوں میں جو کمی کی گئی ہے اس کا اندازہ تو سلیم بن قیس کی روایت سے ہوتا ہے۔ کہ اصل قرآن 18ہزار آیات کا تھا۔