Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عقیدہ رسالت تحریف قرآن کی ذد میں

  مولانا اللہ یار خان

عقیدہ رسالت تحریف قرآن کی ذد میں

جس قرآن میں نبی کریمﷺ کی رحمتہ للعالمینی فضیلت اور ختم نبوت کا علان کیا اسی قرآن سے حضورﷺ کے لیے زجر و توربیخ اور حضورﷺ کی توہین کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں جو سب تحریف قرآن کے عقیدے کا مرہون منت ہے۔

1-تفسیر فرات بن ابراهیم ص23

يا ايها الرسول بلغز ما انزل اليك ولولو ابلغ ما امرت به لحبط عملی بتوعید۔

کی تفسیر میں نبی کریمﷺ کی زبان سے کہلوایا گیا کہ مجھے جو حکم دیا گیا اگر میں نہ پہنچاتا تو وعید خداوندی سے میرے اعمال خبط ہو جاتے۔

اس ما امرت بہ کی تفسیر گزر چکی ہے کہ وہ پہنچانے والی بات حضرت علی کی خلافت اور امامت کا حکم ہے جیسا کہ مناقب شہر بن آشوب 107:3

بلغ ما انزل اليك فی على وان لم تفعل عذبتك عذابا أليماً .

یعنی حضرت علی کے متعلق جو بات آپ کو آگے پہنچانے کا حکم ہوا اگر اپ نے نہ پہنچائی تو تمہیں سخت دردناک عذاب ہوگا۔

سارے قرآن میں عذاب الیم کی وعید کسی اشد کافر اور بدترین منافق کے لیے آئی ہے مگر محبان اہل بیت نے تفسیری جولانی دکھاتے ہوئے اس وعید کا مخاطب نبی کریمﷺ کو ٹھہرایا ہے۔

2_ایضاً

عن البی جعفر فی قوله تعالى لئن اشرکت ليحبطن عملك قال ابو جعفر لئن الشركت بولاية على ليحبطن عملك۔

یعنی اے محمدﷺ!اگر علی کی ولایت میں تم نے کسی کو شریک کیا تو تیرے سارے اعمال اقارت جائیں گے۔

اس تفسیر سے ظاہر ہے کہ اصل مرکز حضرت علی کی ذات ہے انہی کا تعاون کرانے اور انہی کی خلافت منوانے کے لیے قرآن بھی نازل ہوا اور نبی کریمﷺ بھی مبعوث ہوئے لہذا حضرت علی کی شان تو لازمی طور پر حضورﷺ سے بلند ہوئی اس لیے نبی کریمﷺ کو ڈرایا جا رہا ہے کہ اگر آپ نے حضرت علی کی خلافت و امامت کی تبلیغ میں کوتاہی کی تو دردناک عذاب دیا جائے گا اسی سے یہ نقطہ بھی واضح ہو گیا کہ اگر حضرت علی یا دیگر ائمہ توحید اور رسالت کی تبلیغ میں کوتاہی کریں تو ان سے کوئی بازپریں نہیں ہوگی کیونکہ یہ تو ضمنی مسائل ہیں پوری انسانیت کے لیے مرکزی مسئلہ تو حضرت علی کی خلافت اور ائمہ کی امامت ہے۔

3: تفسیر قمی 286:2

قال تعالى فاستمسك بالذی اوحی اليك فی على أنك على صراط مستقيم يعنی انك على ولاية على وعلى هو الصراط المستقيم۔

اے نبی آپ اس چیز کو مضبوطی سے تھامے رکھیں جو حضرت علی کے متعلق آپ پر وحی کی گئی یقیناً آپ سیدھے راستے پر ہیں یعنی اے محمدﷺ آپ یقیناً ولایت علی کے عقیدے پر ہیں اور علی ہی تو صراط مستقیم ہیں۔

یعنی علی کے مقتدا بھی ہیں اور مستقیم بھی ہیں اور محمد رسول اللہ چونکہ ولایت علی کئ عقیدے پر ہیں لہذا آپ صراط مستقیم پر ہوئے یعنی محمد رسول اللّٰہ مطاع بن کے نہیں آئے مطیع بن کے آئے ہیں ۔

حضرت علی تو پہلے امام ہوئے آخری امام کی شان کا مقابلہ نبی کریمﷺ سے کیا جا رہا ہے۔ بصائر الدرجات ص 213امام غائب جب ظاہر ہوگا تو لوگوں کو زندہ کرے گا پھر یہ نقشہ ہوگا۔

اول من بایعه محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى صلوات الله علیہ

سب سے پہلے امام مہدی کے ہاتھ پر محمد رسول اللّٰہﷺ بیت کریں گے پھر علی بیت کریں گے۔

لیجئے امام مہدی پیر ہوئے اور معاذ اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ مرید ہوئے ۔ امام الانبیاء کی توہین اس سے زیادہ اور کیا کی جاسکتی ہے۔

4_ تفسیر قمی 26٫27:1

اهدنا الصراط المستقيم قال الطريق معرفة الامام وفی قوله الصراط المستقیم قال هو امیر المومنين و معرفته والدلیل علیه قوله وانه فی امر الكتاب لدينا على حكيم وھو امیر المؤمنین ۔

یعنی سیدھے راستے سے مراد امام کی معرفت ہے اور صراط مستقیم سے مراد حضرت علی ہیں اور یہاں حضرت علی کو پہچاننا مراد ہے اس کی دلیل قران کی دوسری آیت ہے کہ شان یہ ہے کہ علی اصل کتاب علی حکیم میں لکھا ہوا ہے" علی حکیم "سے مراد حضرت علی ہیں۔

اوپر نمبر کے تحت یہ بتایا گیا تھا کہ اسے نبی پاک آپ چونکہ ولایت علی کے عقیدے پر ہیں اور علی صراط مستقیم ہیں لہٰذا آپ بھی صراط مستقیم پر ہیں یہاں صراط مسقیم کے شیعہ مفہوم کی تائید ہوگئی۔

5: تفسیر البرہان 82:2

عن ابى موسى الدغابی قال كنت عنده و حضرہ قوم من الكرفيين فسالوا عن قول الله عز وجل لئن اشركت ليحبطن عملك ولتكونن من الخاسرين۔ قال ليس حيث تذهبون ان الله تعالى عز وجل حيث اوحى الى نبية ان يقيم عليا للناس علما الناس اليه معاذ بن جبل فقال اشرك فی ولايته الاول والثانی حتى ليكن الناس الى قولك ويصدقوك فلما انزل الله عز وجل يا أيها الرسول بلغ ما انزل اليك من ربك شكا رسول الله الى جبرائيل فقال ان الناس یکذبونی ولا يقبلون منى فانزل الله عز وجل لئن اشركت ليحبطن عملك ولتكونن من الخاسرين.

ابو موسیٰ الدغابی کہتا ہے کہ میں ایک دن امام کے پاس تھا کہ کوفہ سے ایک جماعت حاضر ہوئی اور قرآن کی آیت لئن اشرکت الخ کا مطلب پوچھا امام نے کہا ایسا نہیں جیسے تمہارا خیال ہے یعنی شرک باری مراد نہیں، بلکہ جب اللّٰه تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی طرف وحی کی کہ علی کو خلیفہ مقرر کر دیں تو معاذ بن جبل نے پوشیدہ طور پر نبی کریمﷺ سے عرض کی کہ خلاف میں ابوبکر صدیق اور عمر فاروق کو بھی شریک کر دیں تاکہ لوگوں کے دل سکون کو پکڑیں اور آپ کے فرمان کی تصدیق کریں پس جب اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا ، یا ایھا الرسول بلغ الم تو حضور نے تعمیل حکم کی بجائے جبرئیل سے شکایت کی کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے اور یہ بات قبول نہ کریں گے پس اس کے بعد بی آیت نازل ہوئی کہ اگر آپ نے معاذ بن جبل کی بات پر خلافت میں کسی کو شریک کیا تو آپ کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے۔

یہ تفسیر پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے، جیسے کسی افسانہ نگار نے ذہن میں ایک پلاٹ بنایا اب اس لیے مختلف کردار مختلف مواقع تلاش کر کے ایسا تانا بانا تیار کرنا ہے کہ ایک کامیاب افسانہ یا ڈرامہ بن سکے ۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کو یہ تاثر کہاں سے ملا کہ لوگ علی کی خلافت کی بات نہیں مانیں گے کیا حضرت علی اس قابل نہیں تھے کہ لوگ انہیں جانتے تھے یا کوئی اور بات تھی اور جو بات نبی کریمﷺ کو معلوم ہوگی اللّٰہ کو معلوم نہیں تھی۔

تیسری بات یہ ہے کہ معاذ بن جبل نے پوشیدہ طور پر حضورﷺ کو ایک مشورہ دیا تو آپ کو کیسے معلوم ہوگیا ؟ آپ تک یہ خبر پہنچنے کے ذرائع کونسے ہیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ کیا حضورﷺ نے اس تردید کے بعد حضرت علی کی خلافت کا کوئی اعلان کیا ؟ اگر نہیں کیا حبط اعمال کی صورت تو پیدا ہوگئی، اگر کوئی اعلان کیا تو حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے کسی موقع پر ہی سہی وہ اعلان کیوں نہ پیش کیا اور خلفائے ثلاثہ کی بعیت کر کے ان کے مشیر کیوں بنے رہے ، لہذا یہ تفسیر تو کیا ہوتی ادبی اعتبار سے ایک قابل التفات افسانہ بھی نہیں۔ یہ تھا اس تفسیر کا عقلی جائزہ اب عملی اعتبار سے دیکھئے۔

لئن اشرکت الخ آیت ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی یعنی مکی آیت ہے، مکی زندگی میں خلافت علی کا تصور کہاں تھا اور شرک کے لفظ میں یہ شیعی اور افسانوی مفہوم کسی کے ذہن میں تھا۔

اور یا ایھا الرسول بالغ الخ بقول شیعہ خم غدیر کے موقعہ پر نازل ہوئی اور شیعہ کا دعویٰ ہے کہ تمام فرائض کے بعد ولایت علی کا فریضہ نازل ہوا، حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ یہ آیت حجة الوداع کے موقعہ پر آٹھویں حج کو نازل ہوئی ۔ اب اس تاریخی ترتیب کو سامنے رکھ کر اس شیعی تفسیر پر غور فرمائیے ۔ خلافت کے حکم کی تبلیغ کا حکم مدینے میں اور وہ بھی حضورﷺ کی زندگی کے آخری حصے میں نازل ہو رہا ہے اور یہ حکم نہ پہنچانے پر تحدید برسوں پہلے مکّے میں نازل ہو رہی ہے۔

جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی۔

6_ تفسیر قمی:21:1

اولئك الذين اتينهم الكتاب والحكم والنبوة فان يكفربها هولاويعنى اصحابه وقریش وانکر وابيعة اميرالمومنين نقد وكلنا بها قوما ليسوا بها بكافرين یعنی شیعہ امیر المومنين ثم قال تادیبالرسول الله اولئك الذين هد الله فيهد اهم اقتده يا محمد .

وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب حکمت اور نبوت دی پس اگر ان کے ساتھ صحابہ اور قریش کفر کریں اور امیر المومین کی بعیت کا انکار کریں تو ہم نے کتاب و حکمت ایسی قوم کے سپرد کی جو اس کے ساتھ کفر نہ کرے گی قوم سے مراد شیعہ علی ہیں پھر اللّٰہ نے نبی کریمﷺ کو اور ادب سکھاتے ہوئے حکم دیا کہ یہ شیعہ قوم تو ہدایت یافتہ ہے اے محمد! توان شیعوں کے پیچھے چل ان کی اقتدا کر۔

لیجیے مسلمان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ آخری نبی ہیں افضل الرسل ہیں، امام الا نبیاء ہیں رحمتہ للعالمین ہیں ۔ شیعہ مفسرین سے ذرا حضورﷺ کا مقام اور مرتبہ پو چھیں، چلئے وہ سب کچھ سہی مگر حضورﷺ کو اللّٰہ نے حکم دیا کہ شیعہ کے پیچھے چلئے اس سے ایک تیر سے دو شکار ہوئے ایک تو نبی کریمﷺ کی توہین اس درجہ کی گئی ہے کہ اس سے آگے کوئی درجہ نہیں، دوسرا شیعہ کی عظمت اور شان بھی بیان ہوئی کہ انبیاء کہاں امام انبیاء کو شیعہ کا اتباع کرنے کا حکم مل رہا ہے۔ ملنگوں کی بن آئی۔

انا لله وانا اليه راجعون .

7_ تفسیر البریان 27:4

قال امیر المومنين ان الله عرض ولايتى على اهل السموات وعلى اهل الارض اقربها من اقرو انكرها من انكر و انكرها يونس نحبس الله فى بطن الحوت حتى اقربها .

حضرت علی نے فرمایا اللّٰه نے میری خلافت وامامت آسمان اور زمین کی مخلوق کے سامنے پیش کی میری امامت کا اقرار جس نے کیا سو کیا اور جس نے انکار کیا سو كیا حضرت یونس(علیہ) نے بھی انکار کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے سزا دی مچھلی کے پیٹ میں بند کر دیا جب اقرار کیا رہائی ملی۔

حضرت یونس کے ساتھ نہ جانے کیوں رعایت برتی گئی ان سے صرف حضرت علی کی امامت کا اقرار بجر کرایا حالانکہ امام الانبیاء کو حکم دیاکہ شیعوں کی اقتدا کرو۔

8: ایضاً ص37 امام ذین العابدین فرماتے ہیں:

ان یونس بن متی انما ما لقى فے الموت لانه عرضوا عليه ولاية جدى فتوقف عندها قال على بن الحسين ان الله تعالى لم يبعث نبيا من ادم الی ان صار جدك محمد صلى الله عليه وسلم الا وقد عرض عليه ولا يتكم اهل البيت فمن قبلها من الانبياء سلم وتخلص ومن توقف عنها و تتمتع فی حملها القى ما لقى ادم من المعصية ولقى مالقى نوح من الفرق ولقى مالقى ابراهيم من النار ما لقى يوسف من الجب وما لقى ايوب من البلاء ومالقى داؤد من الحيطة الى ان بعث الله یونس فاوحی الله اليه ان تول امیر المومنین عليا و الائمة الراشدين من صلبه فی كلام له قال يونس كيف اقول من لم ارہ ولم اعرفه وذهب مغاضباً.

حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں جو تکلیف اُٹھائی وہ اس وجہ سے تھی کہ ان کے سامنے حضرت علی کی ولایت پیش کی گئی انہوں نے قبول کرنے میں توقف کیا امام نے فرمایا اللّٰه تعالیٰ نے آدم سے نے کر محمد رسول اللّٰہ تک کوئی نبی نہیں بھیجا جس پر آئمہ شیعہ کی امامت نہ پیش کی گئی جس نبی نے امامت کو قبول کیا وہ بچ گیا جس نے توقف کیا یا سستی دکھائی اس کو سزا دی گئی جیسے حضرت آدم نے گناہ كی مصیبت اٹھائی،حضرت نوح نے غرق کی،حضرت ابراہیم نے آگ کی،حضرت یوسف نے کوئیں کی،حضرت داؤد نے گناہ کی،حتی کہ حضرت یونس کو اللّٰہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور وحی کی کہ حضرت علی کو اور اس کی اولاد سے ائمہ کو دوست بنا تو حضرت یونس نے عرض کیا میں عمل کو کیسے دوست بناؤں جسے نہ دیکھا نہ پہچانتا ہوں پھر غصہ میں چلا گیا۔

امامت کا کیا کہنا اور انبیاؤ کا کیا پوچھنا،انبیاء کے سامنے نہ توحید پیش کی گئی نہ رسالت نہ معاد، بس پیش کیاگیا تو عقیدہ امامت اور انبیاء بھی جیتنے اولوالعزم تھے انکار اور توقف ہی کرتے رہے ۔ بھلا ابولا نبیاء نے پہلی جوکی، باقی کیوں نہ کرتے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امامت کا گورکھ دھندا انبیاء کی سمجھ سے بالا تر ہے جبھی تو سوچ میں پڑ جاتے تھے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو عقدہ انبیاء کی سمجھ میں نہ آسکا اسے ہم جیسے عامی کیونکر سمجھیں یہ تو شیعہ کی عقل خدا داد ہی سمجھ سکتی ہے۔

پھر اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ شیعہ تفسیر کے اصول میں تمام انبیاء کی توہین کرتا غالباً بنیادی مطالبہ ہے۔

اس موقع پر شیعوں کے مسلمہ قانون بلکہ عقیدہ کا بیان مناسب معلوم ہوتا ہے تا کہ صرف حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق یہ تاثر نہ پیدا ہو کہ یہ زیرِ عتاب آئے۔

9: تفسیر مروۃ الانوار ص287

كل من جحدا او انكر اما متهم اوشك فى ذلك فهو كافر والكفر قول واعتقادۃ

پر وہ شخص جو شیعوں کے اماموں کی امامت کا انکار کرے یا اس میں شک کرے وہ کافر ہے ۔ اس کا قول اور عقیدہ کُفر ہے۔

"کل من" کہہ کر قانون بیان کر دیا۔ اماموں کی امامت کا انکار کرنے والا یا اس میں شک کرنے والا کوئی ہو ۔ عام آدمی ہو جلیل القدر صحابی ہو۔ نبی بو رسول هواوالعزم پیغمبر ہو کوئی ہو جو شک کرنے کافر ہے۔ لہذا جس كُفر کی چکی میں انبیاء بھی پس گئے اس سے صحابہ کا یا سُنّیوں کا بچ نکلنا کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔

ع دو پاٹوں کے بیچ میں ثابت رہا نہ کوئی

10: تفسیر مراہ انوار ص70

ان سبب ابتلاء ايوب كان شکه فى ولاية أمير المومنين عليه السلام ۔

حضرت ایوب کے گرفتار بلا ہونے کا سبب یہ تھا کہ آپ نے ولایت علی میں شک کیا تھا۔

11: ایضاً ص27

قال الصادق ان الله عرض ولا يتنا على اهل الامصار فلم يقبلها الااهل الكوفة .

امام جعفر فرماتے ہیں کہ اللّٰہ نے ہماری ولایت یعنی امامت تمام شہروں کے باشندوں کے سامنے پیش کی مگرماسوائے کوفہ والوں کے کسی نے قبول نہ کی۔

اس تفسیر سے دو عقد سے حل ہو گئے اول یہ کہ امامت کا مسئلہ صرف انبیاء کی سمجھ سے بالاتر نہیں بلکہ پوری انسانیت نے نہ اسے سمجھا نہ قبول کیا۔ کرہ ارض پر صرف ایک شہر کوفہ ہے، جو عقل و خود میں پوری دنیا سے بازی لے گیا۔

دوسرا عقدہ یہ بھی حل ہو گیا کہ امامت کے قبول کرنے کا مطلب کیا ہے، یعنی بارہ ہزار خط بھیج کے امام کو گھر بلاؤ جب آئے تو خود اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کرو اور جب قتل کر چکو تو ماتم شروع کر دو یہ ہے امامت کے قبول کرنے کا مطلب یا یہ ہے کہ امام کوئی فیصلہ کرے تو اسے کہو یا مذل المؤمنین پھر اس کے خیمے لوٹو، اس کا مال چھین لو، یوں امامت کے قبول کرنے کا حق ادا ہوتا ہے اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ امامت کا قبول نہ کرنا ہی اماموں کے لیے مفید ہے۔