شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن کا فتویٰ شیعہ لڑکے سے کیا ہوا نکاح
شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن کا فتویٰ
(رئیس دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور)
شیعہ لڑکے سے کیا ہوا نکاح
سوال: ایک شخص نے نکاح کے وقت اپنا عقیدہ اہلِ سنّت والجماعت کا ظاہر کیا لیکن نکاح کے بعد معلوم ہوا کہ وہ یا علیؓ یا غوث الاعظم جیسے الفاظ کہتا ہے، شیعوں کا عقیدہ رکھتا ہے اور اہلِ سنّت والجماعت کے عقائد سے اختلافات کرتا ہے کیا ایسے شخص سے کرایا گیا سنی لڑکی کا نکاح درست ہے؟
جواب: شریعت نے نکاح کی صحت کے لئے اسلام کی شرط رکھی اور اسلام کے بعد کفایت (یعنی برابری) کو بھی معتبر و قابلِ لحاظ ٹھہرایا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص قرآن کریم کی کمی بیشی حضرت جبرائیلؑ کی وحی میں غلطی سیدنا علیؓ کی اُلواہیت شیخینؓ کی صحابیت سے انکار وغیرہ جیسے اعتقادات رکھتا ہو جو کہ ضروریاتِ دین کا انکار ہے تو پھر نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا، البتہ اگر وہ ضروریاتِ دین کا انکار تو نہ کرتا ہو لیکن غلط نظریات کا حامل ہو تو بھی شیعہ اور سنی کے عقائد میں اختلافات اور ہم آہنگی کے فقط ان کی وجہ سے عدم کفایت کا دعویٰ معتبر قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا لڑکی کا خاندان عدم کفایت کا دعویٰ کرکے بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرا سکتے ہیں۔
والدّلیل علیٰ ذٰلک ومنھا اسلام الرجل اذا کانت المرأۃ مسلمۃ فلا یجوزا نکاح المومنۃ الکافر:
ترجمہ: اور نکاح کی شرائط میں سے ایک آدمی کا مسلمان ہونا بھی ہے، جب عورت مسلمان ہو۔ لہٰذا مسلمان عورت کا کافر مرد سے نکاح کرنا جائز نہیں۔
نعم لا شک فی تکفیر من قذف السیدہ عائشہؓ واعتقدالا لوھیۃ گی علی او نحو ذلک من الکفر الصریح
ترجمہ: ہاں اس شخص کی تکفیر میں کوئی شک نہیں جو سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر قذف، سیدنا علیؓ کی اُلوہیت کیسے صریح کفریہ عقائد کا قائل ہو۔
(فتاویٰ عثمانیه جلد 5، صفحہ 122)