صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تحریف قرآن کی زد میں
مولانا اللہ یار خانصحابہ رسولﷺ تحریف قرآن کی زد میں
1_ تفسیر مراۃ الانوار 268:1
عن با فر قال یاداود عدونانی کتاب الله - الفحشاء والمنكر والبغی والخمر والميسر والانصاب والازلام والاوثان و الجبت والطاغوت والميتة و الدم ولحم الخنزير.
امام باقر نے کہا اے داؤد ہمارے دشمنوں (صحابہ رسول اور ان کے متبعین) کا ذکر کتاب اللّٰہ میں ان الفاظ میں ہوا ہے کسی کے لیے فخشاء کسی کا منکر کسی کا بغی اور شراب ،جوا،انصاب،ازلام, بت طاغوت مردار خون اور خنزیر کا گوشت ان سب الفاظ سے مراد صحابہ رسولﷺ ہیں۔
2_رجال کشی ص4
عن ابى جعفر قال كان الناس الهل الردة بعد النی صلى الله على وسلم الاثلاثة فقلت من الثلاثة فقال المقدار بن الاسود ابوذر غفاری و سلمان الفارسی
امام باقر سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد تمام صحابہ مرتدّ ہو گئے صرف تین بچ گئے میں نے پوچھا وہ کون ہیں فرمایا مقداد سلمان اور ابوذر۔
یعنی حضور اکرمﷺ کی 23 برس کی محنت پر شیعہ نے ارتداد کی وہ تہمت لگائی کہ دنیا انگشت بدنداں ہے۔مشرق و مغرب میں اسلام کا ڈنکا بجانے والے "مرتدّ" ہی تو تھے یہ نہ سمجھا جائے کہ شیعہ نے تین کو تو معاف کر دیا ان کی سیرت کا جو نقشہ شیعہ نے کھینچا ہے وہ اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔
3_ رجال کشی ص7
عن ابی بصير قال سمعت ابا عبد الله يقول قال رسول الله يا سلمان لو عرض علمك على مقداد لكفر ويا مقداد لو عرض علمك على سلمان لکفر
ابو بصیر کہتا ہے میں نے امام جعفر سے سنا کہ نبی كريمﷺ نے فرمایا اے سلیمان! اگر تمہارا علم مقداد کو معلوم ہو جائے تو وہ کافر ہو جائے اور اے مقداد اگر تمہارا علم سلیمان کو معلوم ہو جائے تو وہ کافر ہو جائے اور اے مقداد اگر تمہارا علم سلیمان کو معلوم ہو جائے تو وہ کافر ہو جائے۔
ابو بصیر کی پرکاری ملاحظہ ہو۔ ایک کا علم دوسرے کو معلوم ہو جائے تو کافر ہونے کی وجہ وہ علم ہوا جو ان کے پاس تھا۔ دوسرے کو معلوم ہونے سے تو وہ کافر ہو جائے تو جس کو معلوم ہوا یعنی جس کے پاس ہوا وہ کہاں مسلمان رہ گیا ۔
4_ اصول کافی- کتاب الحجہ
عن ابی عبد الله قال ذكرت التقية يوما عند علی بن الحسين فقال والله لو علم ابوذر ما فی قلب سلمان القتلہ ولقد اخار سول اللہ بينهما فما ظنكم بسائر الخلق.
امام جعفر نے فرمایا کہ ایک روز امام زین العابدین کے سامنے تقیہ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ بخدا اگر ابوذر کو معلوم ہو جائے جو کچھ سلیمان کے دل میں ہے تو اسے قتل کر دے حالانکہ نبی کریمﷺ نے دونوں کو بھائی بھائی بنایا تھا تو باقی مخلوق کا کیا پوچھتے ہو۔
اس روایت سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ سلمان کے دل میں وہ کچھ تھا جس کی سزا قتل ہے اور یہ سزا مرتد کی ہے لہذا معلوم ہوا کہ سلمان کے دل میں ارتداد چھپا ہوا تھا۔ اب بتائیے کہ ارتداد سے کون بچا یعنی شیعہ کے عقیدے تحریف قرآن کا یہ اثر ہے کہ نبی کریمﷺ کے تمام صحابہ مرتد قرار پائے۔
اس روایت سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ وہ تین جو پہلے ریلے سے بچ گئے۔ انہوں نے بھی عمر بھر کی سچی بات کوئی نہیں کی۔ اب سوال یہ ہے دین شیعہ کہاں سے آگیا نبی کریمﷺ سے تو وہ دین چلا جو آپ نے صحابہ کو سکھایا اور حجتہ الوداع میں اعلان کر دیا کہ فيبلغ المشاهد الغائب. یعنی جو موجود ہیں۔ وہ ان لوگوں کو دین پہنچائیں جو غائب ہیں بقول شیعہ جو مرتد ہو گئے انہوں نے کیا دین سکھانا تھا جو تین رہ گئے وہ عمر بھر دل کی بات زبان تک نہ لا سکے لہٰذا نبی کریمﷺ کے وصال کے ساتھ ہی بقول شیعہ دین تو ختم ہو گیا ، پھر شیعہ مذہب کے لیے کون سانیا رسول مبعوث ہوا۔
تفسیر البرهان 320:1
من الى جعفر قال لما قبض رسول لی صار الناس كلهم اهل جاهليت الاربعة الی ومقداد و سلمان و ابوذر ۔
امام باقر نے فرمایا اگر رسولﷺ خدا جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو سب لوگ مرتد ہو گئے سوائے چار اشخاص کے یعنی علی مقداد سلیمان اور ابوذر۔
یعنی 23 برس کی مسلسل محنت سے نبی کریمﷺ نے جو معاشرہ تیار کیا اور جس معاشرہ کے افراد کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے تمام لوگوں کے ایمان جانچنے کا معیار مقرر فرمایا فان امنوبمثل ماامنتم فقد اھتددا ان کے معلق شیعہ مفسر امام باقر کے ذمے لگاتا ہے کہ وہ مرتد ہو گئے اب کون فیصلہ کرے کہ اللّٰه سچا ہے یا شیعہ سچے ہیں۔
اس روایت پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام نے فرمایا صارالناس کلہم یعنی سب لوگ مرتد ہوئے سوائے چار کے تو پنجتن میں سے تین تن یعنی حضرت فاطمہ حسن اور حسین رضی اللّٰہ عنہم کس کھاتے میں شمار ہوئے ۔ ان چار میں تو ان کا نام نہیں اور اگر الناس میں ان کا شمار ہوتا ہے تو پھر شیعہ مفسر کا اعتراف ہے کہ یہ بھی مرتد ہو گئے۔
یہ عقدہ کوئی شیعہ ہی حل کرے ۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ کو اعتراف ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد میرے صحابہ میرا دین پھیلائیں گے اور تاریخ شاہد ہے کہ خلفائے ثلثہ نے اللّٰہ کا دین مشرق و مغرب میں پھلایا۔ سلطنت کی حدود کو وسیع کیا اور ایک عالم کو کلمہ پڑھایا یا مرتدوں سے یہ توقع ہو سکتی ہے یا یہ ممکن ہے کہ جس دین کو وہ خود چھوڑ بیٹھے ہیں اس کو بہلانے کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دیں،اس کے مقابلے میں حضرت علی اور شیعہ کے ائمہ نے اپنی ایک انچ زمین کا اضافہ بھی اسلامی مملکت میں نہیں کیا اور شیعہ کے علا کے ساتھ جو تین حضرات ارتداد سے بچ گئے انہوں نے ساری عمروں کی بات زبان نے کی زحمت گوارا نہ کی اب کون فیصلہ کرے کہ کسی کا پلہ بھاری رہا ۔
رجال کشی ص4
عن ابى جعفر قال كان الناس اهل الردة بعد النبی الاثلثة فقلت ومن الله فقال المقداد بن الاسود وابوذرالغفاری وسلمان الفارسی شعلم عرف الناس.
امام باقر نے فرمایاکہ نبی کریمﷺ کے بعد تین آدمیوں کے بغیر سارے لوگ مرتد ہو گئے میں نے پوچھا وہ کون ہیں فرمایا مقداد ، ابوذر اور سلمان۔
لیجئے انہی امام باقر کی یہ روایت ہے فرق اتنا ہے وہ تفسیر کی کتاب میں درج ہے اور یہ رجال کی کتاب میں اور ہیں دونوں کتا بیں شیعہ کی ثقہ کتابیں ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس روایت میں ارتداد کے ریلے سے بچنے والوں میں حضرت علی کا نام نہیں اور حضرت فاطمہ اور حسنین کا نام تو دونوں روایتوں میں نہیں گویا شیعہ مذہب کے مطابق نبی کریمﷺ کے بعد پنجتن میں سے جو چار تن رہ گئے وہ مرتد ہو گئے (معاذ اللّٰہ) اگر ان دونوں روایتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا تو پہلی روایت میں الناس کلہم اور دوسری روایت میں الناس کا مفہوم متعین کیا جائے اگر یہ الناس میں شامل ہیں تو بقول امام باقرار تدار سے بچ نہیں سکتے اور الناس میں شامل نہیں ہیں تو یہ بتا یا جائے کہ یہ مخلوق کی کونسی نوع سے تعلق رکھتے ہیں۔