Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

قاتلان حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کا انتقام

  ابو شاہین

اللہ تعالیٰ نے حضرت حسین شہید رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے زبردست انتقام لیا، جن میں عبیداللہ بن زیادسرفہرست ہے۔ جو شخص بھی اس قتل ناحق میں شامل تھا وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہ بچ سکا۔ عبیداللہ بن زیاد کو ابراہیم بن الاشتر نے قتل کیا اور اس کا سر کاٹ کر اسے مختار بن ابی عبیدثقفی کے پاس بھیج دیا۔ ابن عبدالبر فرماتے ہیں: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو 61 ہجری میں عاشورۂ محرم کے دن قتل کیا گیا تھا، پھر اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ عبیداللہ بن زیاد کو بھی 67 ہجری کو عاشورۂ محرم کے دن ہی موت کے گھاٹ اتارا گیا، اسے ابراہیم بن الاشتر نے ایک جنگ کے دوران میں قتل کر ڈالا اور اس کا سر مختار ثقفی کے پاس بھجوا دیا، مختار نے اسے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس اور انہوں نے اسے حضرت علی بن حسین رحمتہ اللہ کے پاس بھجوا دیا۔ (الاستیعاب حاشیۃ الاصابۃ: جلد، 1 صفحہ 382)

عمار بن عمیر کہتے ہیں: ’’عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے، تو ہم بھی وہاں جا نکلے۔ اچانک لوگ کہنے لگے: وہ آ گیا وہ آ گیا، پھر اچانک ایک سانپ نمودار ہوا یہاں تک کہ ابن زیاد کے نتھنے میں داخل ہو گیا۔ اس میں کچھ دیر رکا رہا اور پھر باہر نکل کر آنکھوں سے غائب ہو گیا، تھوڑی دیر کے بعد لوگ پھر کہنے لگے: وہ آ گیا، وہ آ گیا۔ پھر سانپ نمودار ہوا اور اس نے دو یا تین بار یہی کام کیا۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء: جلد، 3 صفحہ 349)

یزید بن معاویہ سے لوگ سخت ناراض ہوئے اور قتلِ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے اس سے نفرت کرنے لگے اور متعدد لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ مدینہ طیبہ کے لوگ بھی اس کے خلاف بھڑک اٹھے، پھر وہ ایک دوسرے سنگین جرم کا مرتکب ہوا، جو مدینہ منورہ میں واقعہ حرہ کے نام سے معروف ہے۔ اللہ رب کائنات نے اسے زیادہ مہلت نہ دی اور اس کی حکومت چار سال سے بھی کم عرصہ تک قائم رہ سکی۔ (الدولۃ النبویۃ: صفحہ 129)

ابو رجاء عطاردی نے فرمایا: حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت میں سے کسی کو گالی نہ دیا کرو اس لیے کہ ایک دفعہ ایک آدمی کہنے لگا: کیا تم اس فاسق سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی طرف نہیں دیکھتے اللہ اسے برباد کرے! اس کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں میں دو چمکدار چیزیں پھینکیں، جس نے اس کی بینائی ختم کر دی۔ (المعجم الکبیر، طبرانی: جلد، 3 صفحہ 119 اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں)

ابن کثیر فرماتے ہیں: قاتلانِ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے انتقام ایزدی پر مشتمل زیادہ تر احادیث و آثار صحیح ہیں۔ قاتلانِ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ میں ایسے لوگ بہت کم ہوں گے، جو دنیا میں کسی آفت یا تباہی سے بچے ہوں گے۔ ان میں سے زیادہ تر پاگل پن کا شکار ہو گئے تھے۔ (البدایۃ و النہایۃ، نقلا عن الدولۃ النبویۃ: صفحہ 129)