دین و ایمان تحریف قرآن کی زد میں
مولانا اللہ یار خاندین و ایمان تحریف قرآن کی زد میں
دین مجموعہ ہے عقائد و اعمال صالحہ کا پھر اعمال صالح میں اعمال قلب اور اعمال جوارح سب آتے ہیں یعنی اعمال صالحہ کے تحت عبادات معاملات اور اخلاق وغیرہ زندگی کے تمام شعبے آ جاتے ہیں۔
عقائد اسلامیہ میں سر فہرست عقیدہ توحید آتا ہے تحریف قرآن کے جنون میں شیعہ مفسرین نے توحید کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس کی ذرا سی جھلک دیکھ لیں۔
1_ تفسیر مرۃ الانوار ص 11
کذا تاویل یداللّٰه و علیه و جنبه و قلبہ وسائر ما هو من هذا القبيل ما نسبه اللّٰه إلى نفسه و خصربه الامام حتى انه وردت الاخبار فی تاویل روح اللّٰه و نفسه بل لفظته الجلالة والاله والرب بالامام۔
اس طرح اللّٰہ کے ہاتھ سے مراد امام ہے اور اللّٰہ کی آنکھ اور دل سے مراد سے مراد امام ہے۔اور تمام وہ اوصاف جو اسی قبیل سے ہیں جن کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے ان سے مراد امام ہوتا ہے وہ اوصاف جو خاص اوصاف باری تعالیٰ کے ہیں رخ اللّٰہ لفظ الٰہ اور رب سے مراد امام ہے۔
عقائد میں سے عقیدہ توحید سے بسم اللّٰہ کی اور صفات باری تعالیٰ سب امام کے صفات قرار پائے۔
2_ ایضاً 59
و اما من ظلم فسوف نعذبه ثم یرد الی ربہ فیعذبه عذابأ نكراحتى يقول يليتني كنت ترابا ای من شیعه ابی تراب۔ المراد بالرب امیر المومنين لان الذی بل اللّٰه في تربية الخلائق في العلم و المکالات اليه وهو صاحبهم ويحذ كم به نفسه بالامام كما سيئاتي.
بہرحال جس نے ظلم کیا اس کو ہم عنقریب سزا دیں گے پھر رب کی طرف جو امیر المؤمنین اسے لوٹا جائے گا پھر علی رضی اللّٰہ عنہ اس کو سخت سزا دے گا پھر وہ ظالم کہے گا کاش میں ابو تراب یعنی علی رضی اللّٰہ عنہ کا شیعہ ہوتا یہاں رب سے مراد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ ہیں کیونکہ مخلوق کی تربیت اور علم ربانی کے کمالات حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے سپرد ہیں اور ان کا حاکم اور مالک ہے اللّٰہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے ذات سے مراد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ ہیں۔
الٰہ یعنی قابل پرستش اور لائق عبادت بھی علی رب بھی علی اور پہلے گزر چکا کہ خالق محیی و محیت بھی علی اب بتائیے اللّٰہ کے پلے میں کیا رہ گیا۔
3_ ایضاً ص 232
التصريح بتأويل عباد اللّٰه بولاية على والتسليم له بالامانة والخلافة.
اللہ کی عبادت سے مراد ولایت علی ہے اور ان کی امامت اور خلافت کا ماننا ہے۔
4_ ایضاً ص298
واقيموا الصلوة اقيموا امامة الائمة واطيعوهم الى بيناأنهم الصلوة.
نماز قائم کرو سے مراد آئمہ شیعہ کی امامت قائم کرو اور ان کی اطاعت کرو کیونکہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ نماز سے مراد امام ہیں۔
5_ ایضاً ص217
فاعلم انه قد ورد تاويل الصلوة بالائمة وبعلى و بولايته وولايتهم وكذا أورد تأويل السلوة الوسطى بعلى والمراد بالصلوات الائمة صلوة اللّٰه عليهم.
خوب جان لو کہ حدیثوں میں وارد ہو چکا ہے کہ نماز سے مراد امام ہیں اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی ولایت اور آئمہ شیعہ کی ولایت اس طرح درمیانی نماز سے مراد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ ہیں اور صلاۃ یعنی باقی نمازوں سے مراد باقی امام ہیں۔
یہ نقطہ سمجھ میں نہیں آیا کہ صلوۃ سے مراد آئمہ ہیں پھر صلوات اللّٰہ علیہم سے کیا مراد ہوئی یہ جملہ کوئی بے تکا سا لگتا ہے کہ جو صلوات ہیں ان پر صلوات۔
6_ ایضاً ص317
عن ما داؤد بن كثير قال قال ابوعبداللّٰه ياداؤد نحن الصلوة في كتاب اللّٰه تعالی ونحن الزكوة ونحن الصيام و نحن الحج ونحن الشهر الحرام ونحن بلدة الحرام ونحن كعبة اللّٰه ونحن قبلة اللّٰه ونحن وجہ اللّٰہ۔
داؤد بن کثیر امام جعفر سے روایت کرتا ہے کہ فرمایا اے داؤد! نماز ہم امام میں زکوۃ ہم میں روزہ ہے حج ہم ہیں حرمت والے مہینے چار میں حرمت والا شہر یعنی مکہ ہم ہیں کعبہ ہم ہیں قبلہ ہم ہیں اللّٰہ کا چہرہ ہم ہیں۔
ان متضاد اور بوقلموں صفات میں سے آپ تلاش کریں کہ امام کیا شے ہیں. اللّٰہ رب اور خالق ایک ذات ہے۔ واجب الوجود، نماز اور روزہ بدنی عبادت ہے جو اللّٰہ نے مقرر کی ہے۔ زکوۃ اور حج مالی اور بدنی عبادتیں ہیں ، یعنی امام معبود بھی ہیں عبادت بھی ہیں، حرمت والے مہینے۔ وقت کی طوالت کی مقدار ہے اور مکہ شہر ہے کعبہ عمارت ہیں یعنی امام ظرف زمان بھی ہے ظرف مکان بھی ہے مصروف بھی ہے اب بتائیے امام کیا ہے بوجھو تو جانیں ۔۔۔۔۔
خود کو زه و خود کو زه گرد خود گل کو زه
7_ ایضاً ص 212
اهدنا الصراط المستقيم قال دين اللّٰه نزل بہ جبرائیل وفی رواية من اللّٰه لولاية .
یعنی اللّٰہ کا دین ولایت علی ہے۔
مراد یہ ہے کہ تم دین کی تفصیلات کی جھنجھٹ میں کیوں پڑتے ہو نفس دین ہی علی ہے۔
8_ایضاً ص208 و تفسیر عیاشی زیر آیت فليعمل عملا صالحا
من الصادق يعنى بالعمل الصالح المعرفة بالائمة
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ عمل صالح نام ہی اماموں کی معرفت کا ہے۔
9_ ایضاً ص186 مناقب ابن شاذان میں امام رضا سے روایت ہے کہ
قوله تعالى بل كن بوا بالساعة قال يعني كذبوا بولاية على.
ارشاد باری تعالیٰ کے انہوں نے قیامت کا انکار کیا مراد ہے کہ علی رضی اللّٰہ عنہ کی ولایت کا انکار کیا۔
10_ ايضاً ص 148
وذلك الذين القيم باستكمال معرفتہ على وكذا سيئاتي في الهداية ما يدل على تأويل دين الحق بولاية على مع مادر ومن تأويل بدين بالولاية لقول صادق في غير قوله تعالى ان اللّٰه اصطفى لكم لدين الاية الدين ولاية على فلا تموتن - الا وانتم مسلمون لولاية على و قوله تعالى اقيموا الدين الى اقرار بالولاية قال تعالى ومن يكفر بالایمان بولاية على وقال تعالى وليعلمن الذين امنوا يعني بولاية على وقال الذين امنوا ولم يلبسوا ايمانهم بظلم يعنى امنوا بولاية على والو يخلطوا ولا يتهم بعلى ولاية فلان وفلان وفلان فأنه التلبس بالظالم.
اور یہ1 دین قوی سیدھا ہے اس سے مراد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی کامل معرفت ہے اس طرح عنقریب ہدایت کی بحث میں آئے گا کہ دین حق سے مراد ولایت علی ہے امام جعفر نے آیت ان اللّٰہ 2اصطضی آدم کی تفسیر میں فرمایا کہ دین سے مراد ولایت علی ہے اور فرمان باری تعالیٰ اور نا 3مرو سوائے اس حال کہ تم مسلمان ہو یعنی موت کے وقت ولایت علی کو ماننے والے ہونا اور آیت 4اقیمو الذین سے مراد اقرار ولایت ہے اور آیت ومن یکفر بالایمان سے مراد ولایت علی ہے اور آیت نمبر 6 میں امنو سے مراد ولایت علی کا اقرار ہے اور فرمان باری تعالیٰ کے جو لوگ ایمان لائے اور اس کے ساتھ ظلم کی آزمائش نہ کی سے مراد یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت پر ایمان لائے اور خلفائے ثلاثہ رضی اللّٰہ عنہم کی خلافت کو نہ مانا کیونکہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت کے ساتھ ثلثہ کی خلافت تسلیم کرنا ایمان کے ساتھ ظلم کو ملا دینا ہے۔
یعنی دین حق بھی علی ایمان بھی علی اور اسلام بھی علی اور سات آیتوں کی یہی تفسیر ہے۔
11_ مراۃ الانوار ص 57
من إلى بصير قال سمعت ابا عبد اللّٰه يقول تخذوا الهين انما هو اله واحد اعنى بذلك لان خذوا امامین انها هو امام واحد
ابو بصیر کہتا ہے میں نے امام جعفر سے سنا فرمایا کہ دو معبود نہ بناؤ معبود ایک ہی ہے مراد یہ ہے کہ دو امام نہ بناؤ امام ایک ہی ہے یعنی حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ
عن ابى الجارود عن ابي عبد اللّٰه في قول القا ال مع اللّٰه بل اكثر هم لا يعلمون قالا ای امام هدی مع امام ضلال في قرن واحد
اور ابی جارود امام جعفر سے بیان کرتا ہے کہ آیت الہ مع اللّٰہ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ آیا امام ہدایت کے ساتھ کوئی دوسرا گمراہ امام بھی ہے ایک ہی زمانہ میں۔
سوال یہ ہے کہ اگر امام ایک ہی ہے تو بارہ امام کہاں سے آ گئے۔
12_ تفسیر عیاشی ص1۔127
_عن زرارة عن عبد الرحمن بن كثير عن ابى عبد اللّٰه في قوله تعالى حافظوا على الصلوات والصلوة الوسطے وقومو اللّٰه قانتين قال الصلوة رسول اللّٰه وامير المومنين وفاطمة والحسن والحسين والصلاة الوسطى امیر المومنين و قومو اللّٰه قانتين طائعين الائمۃ
زرارہ ابن کثیر سے وہ امام جعفری سے بیان کرتا ہے کہ آیت حافظواعلی الصلوات میں نماز سے مراد نبی کریم ﷺ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ،فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا ،حسین رضی اللّٰہ عنہ اور حسن رضی اللّٰہ عنہ ہیں صلوۃ الوسطی سے مراد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ ہیں قانتین سے مراد آئمہ کی اطاعت ہے۔
13_ تفسیر البرہان 1ص231 میں بعینہ یہی تفسیر دی گئی ہے
تعداد تو پوری ہوگئی کہ پانچ نمازیں اور پانچ حضرات جو ترتیب پنجتن کی حدیث میں بیان ہوئی ہے اس کو دیکھا جائے تو صلوۃ وسطی تو حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا بنتی ہیں ۔ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو صلوۃ وسطی قرار دینے کی توجیہ کیا یہ عقدہ نہیں کھولا گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ تفسیر مراۃ الانوار ص 217کا حوالہ گزر چکا ہے کہ صلوات سے مراد آئمہ ہیں ۔ اس مفسر نے نبی کریم ﷺ اور حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کا اضافہ کسی بنا پر کر دیا ہے ۔ یہ دونوں آئمہ کی صنعت میں شمار نہیں ہوتے۔ ممکن ہے پانچ کی گنتی پوری کرنے کے لیے یہ نکتہ پیدا کیا گیا ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ صاحب مراۃ الانوار نے 12 کی تعداد کو پانچ نمازوں پر کیسے تقسیم کیا۔
تیسری بات یہ ہے کہ پانچ نمازوں میں تو نبی کریم ﷺ کا نام درج کر دیا گیا ہے، مگر قانتین کی تفسیر میں اطاعت صرف اماموں کا حصہ بنائی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت کی ضرورت نہیں صرف تبرک کے طور پر نام لے لیا، ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ امام جب نبی سے افضل ہوتا ہے تو افضل کے مقابلے میں مفضول کی اطاعت کیوں کی جائے ۔
14_ تفسیر مراہ النوار ص57
جمیل دراج امام ابو الحسن سے بیان کرتا ہے۔
قال تحدث السفلة فيذ يعون اما تقرء ان الينا ايابه ثم ان علينا حسابهم قلت بلى قال ان كان يوم القيامة وجمع اللّٰه الاولين والآخرين ولا نا حساب شيعتنا فما كان بينهم وبين اللّٰه حكمنا على اللّٰه فيه فاجاز حكومتنا وما كان بينهم وبين الناس استوهبنا منهم فوهبوه لنا وما كان بيننا وبينهم فنحن احق عفى وصفح .
امام نے فرمایا کمینے شیعہ بات کو ظاہر کر دیتے ہیں جو تم ان سے کرتے ہو کیا تم نے قرآن میں میں پڑھا کہ پھر انہیں لوٹ کے ہمارے پاس آتا ہے اور ہم ان کا حساب لیں گے میں نے کہا کیوں نہیں پڑھا فرمایا جب قیامت ہو گی تو اللّٰہ تعالیٰ اولین و آخرین کو اکٹھا کرے گا۔ ہمارے شیعوں کا صاب کتاب ہمارے سپرد کر دے گا تو ہم یوں کریں گئے کہ شیعوں اور اللّٰہ کے درمیان جو معاملہ ہے یعنی شیعوں نے اللّٰہ کی جو نافرمانی کی ہو گی ۔اس کے بارے میں ہمارا فیصلہ اللّٰہ پر چلے گا (معاذ اللّٰہ) اور اللّٰہ نے ہمیں اس کی اجازت دے رکھی ہے اور جہاں تک شیعہ اور مخلوق کے درمیان معالم ہے یعنی جوانوں نے ظلم اور تیر بازی کا مشغلہ رکھا ہو گا تو ہم ان مظلوموں سے کہیں گے کہ یہ سب مظالم نہیں ہبہ کر دو چنانچہ وہ ہبہ کر دیں گے اور ہم شیعہ کو معاف کر دیں گے، اور شیعہ کا اور ہمارا باہمی معاملہ جو ہو گا اس کے متعلق ہم انہیں معاف کر دینے کا زیادہ حق رکھتے ہیں ۔
امام نے شیعوں کی کمینگی کی خوب کہی ظاہر ہے کہ امام انہیں دین کی باتیں بتاتے ہوں گے اور وہ کمینگی کا اظہار اس صورت میں کرتے ہیں کہ ایسی باتیں پھیلا دیتے ہیں بلا دین شیعہ کوئی ظاہر کرنے کی شے ہے مفت میں جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرتے ہیں کمینے کہیں کے۔
مفسرین صاحب نے اس کی وضاحت تو کر دی کہ شیعوں کا حساب خود امام لیں گئے۔ تین نازک گوشے جہاں سے شیعوں کو مار پڑ سکتی ہے ۔ آئمہ نے ان کا انتظام پہلے سے کر دیا۔ حقوق اللّٰہ کا کھاتہ یوں صاف ہو گیا کہ قیامت میں شیعوں کا حکم اللّٰہ پر چلے گا اور اللّٰہ کو مجبوراً ماننا پڑے گا کیونکہ اللّٰہ نے پہلے ہی اختیارات اماموں کو سونپ رکھتے ہیں۔ رہا حقوق العباد کا کھاتہ تو بندوں کی کیا مجال ہے کہ اماموں کی منشاء کے خلاف کچھ سوچ بھی سکیں ، البتہ امام مخلوق کی عزت افزائی کرتے ہوئے ان سے حقوق معاف کرائیں گے ۔
رہی بات اماموں کے حقوق والی تو یہ ذرا دقیق ہے، کیونکہ حقوق کی دو ہی قسمیں شریعت اسلامیہ میں مذکور ہیں ۔ حقوق اللّٰہ اور حقوق العباد ۔ اس تیسری شق سے یہ خیال گزرتا ہے کہ امام نہ تو خالق ہیں نہ مخلوق پھر وہ کیا ہیں یہ بات شیعہ ہی بتا سکیں گئے عقل کی دسترس سے یہ نکتہ ماورا ہے، خیر امام جو کچھ بھی ہیں۔ شیعہ پر ان کے حقوق ضرور ہیں مگر شیعہ جب ان کے شیعہ ہیں حساب لینا بھی ان کا کام ہے اور سب حقوق بخشوا بھی لیے تو ظاہر ہے کہ اپنے حقوق کا ذکر ہی نہیں چھیڑیں گے، ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ شیعوں نے اختیار کے ساتھ جو سلوک کیا سو کیا اپنے اماموں کو بھی نہیں بخشا ۔ امام اول نے تنگ آ کر اپنے شیعوں کو یہاں تک کہ دیا تھا کہ میں دس شیعے دے کر امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کا ایک آدمی لینے کو تیار ہوں اور یہ سودا نفع کا ہے، مگر یہ سودا عملاً نہ ہوا تھا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ لوگ جانوروں کا " مارچہ کیا کرتے ہیں آدمی خواہ کیسے ہوں ان سے نباہ کرنا پڑتا ہے ۔
15_ مراۃ النوار ص20
ان المعرفة بنبوة الانبياء المتقدمين من ادم الى عينى غير راجبتہ علينا ولا تعلق لها بشيء من تكليفنا و قال ان اللّٰه تعالى ولنا على ان المعرفة بهم كالمعرفة به تعالی مز اسمه في انها ايمان والسلام وان الجهل والشك فيهم كالجهل و تعالى من المعده والشك فيه تعالى في انه كفر وخراج من الايمان الى ان قال والذی يدل على ان المعرفة بأمامة من ذكرناه من الأئمة من جملة الايمان و الم الاخلال مهما كفر ورجوع عن الإيمان اجماع۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کی نبوت کی معرفت ہم پر واجب نہیں نہ ہم اس کے مکلف ہیں اور کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی فرمائی کہ اماموں کی معرفت ایسی ہے جیسے خدا کی معرفت فرض ہے اماموں کی معرفت امام اور اسلام ہے اور اماموں کی عدم معرفت اور ان میں شک کرنا مثل عدم معرفت وجبہل باللّٰہ ہے۔اور ذات باری تعالیٰ میں شک کرنا کفر اور ایمان سے خارج ہونا ہے جو دلیل ان اماموں کی معرفت پر دلالت کرتی ہے جن کا ہم نے ذکر کیا خیر اس پر دلالت کرتی ہے کہ اماموں کی معرفت ایمان ہے اور اس سے خالی ہونا کفر ہے اس پر تمام شیعہ کا اجماع ہے۔
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ تمام انبیاء پر ایمان لانا فرض ہے اور اسی قرآن کی شیعہ تفسیر یہ ہے کہ انبیائے متقدمین پر ایمان لانے کی ضرورت ہی نہیں۔ قرآن میں اماموں کے متعلق اشارہ تک نہیں اور شیعہ تفسیر قرآن میں اماموں پر ایمان لانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا اللّٰہ پر ایمان لانا اور اماموں کی معرفت سے خالی ہونا کفر ہے اور اس تفسیر پر شیعہ کا اجماع ہے۔
16_ تفسیر مراة الانوار ص 27 تفسير سورة الجمعه
اذا نودى للصلوة من يوم الجمعة و الصلوة أمير المومنين يعنى بالصلوة لولاية وهي ولاية الكبرى فاسعوا الى ذكر اللّٰه وذكر اللّٰه على أمير المومنين وذر والبيع يعني الأول ( ابوبكر) ثم قال فاذا قضيت الصلوة اذا توفى على فانتشروا في الارض بعینی بالارض الاوصياء امر اللّٰه بطاعتهم كما امر بطاعة على.
جب جمعہ کے روز نماز کی طرف بلایا جائے نماز سے مراد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ ہیں اور نماز سے مراد ولایت بھی ہو سکتی ہے اور یہ ولایت کبریٰ ہے دوڑو اللّٰہ کے ذکر کی طرف ذکر سے مراد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ ہیں یعنی علی رضی اللّٰہ عنہ کی طرف جلدی آو اور بیت کرو اور خرید و فروخت چھوڑو یعنی ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کو چھوڑو پھر فرمایا جب نماز پوری ہو جائے یعنی حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ فوت ہو جائیں تو اماموں کی زمین میں پھیل یعنی اماموں کی امامت کرو جیسے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی کرتے تھے۔
تفسیر ہذا کے ص 59 کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ الٰہ یعنی معبود بھی علی رضی اللّٰہ عنہ ہیں رب بھی علی رضی اللّٰہ عنہ ہیں تو اذا توفی سے مراد یہ ہوئی کہ جب رب اور معبود فوت ہو جائے یعنی معبود اور رب یہ قوت بھی ہو جاتا ہے مگر فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ گیارہ خدا اور جو موجود ہیں اب شکایت نہیں ہونی چاہیئے کہ شیعہ ختم نبوت کے قائل نہیں کیونکہ آئمہ کے لیے تین وصفت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ مامور من اللّٰہ، مفترض الطاعت اور ان پر وحی کا نزول یہ تینوں وصف نبوت سے متعلق ہیں مگر اس تفسیر سے تو ظاہر ہے کہ شیعہ توحید کے قائل بھی نہیں جب بڑا ہی نہیں تو شاخوں اور پتوں کا کیا ذکر ۔