اسلام مخالف قوتیں اور کربلا کا حادثۂ فاجعہ
ابو شاہیناسلام مخالف قوتیں واقعہ کربلا برپا کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور اس کے بعد انہیں مسلمانوں میں نزاع کھڑا کر کے وحدت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے کا سنہری موقع مل گیا، کوفہ غلط کار اور شریر لوگوں کا مرکز تھا، اس میں کچھ اچھے لوگ بھی موجود تھے۔ اس شہر میں کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آ بسے تھے، جبکہ یہود و نصاریٰ بھی ادھر ادھر سے آ کر اس میں آباد ہو گئے تھے، کئی عرب قبائل اور موالی بھی ادھر چلے آئے تھے۔ کوفہ میں زندیقیت اور جادوگر کا دور دورہ تھا، یہودی ’’تلمود‘‘ کی اشاعت میں لگ گئے اور نصاریٰ تجسید الوہیت کا پروپیگنڈہ کرنے لگے، انہوں نے خون سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے فائدہ اٹھایا اور اسے قربانی کا گراں قدر خون قرار دیتے ہوئے اپنے عقیدہ کی رُو سے مسیح علیہ السلام کے خون کے مشابہ قرار دیا اور اس طرح وہ اہل فارس میں سے اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور انہیں اس کے خلاف بھڑکانے کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقدس خون کو استعمال کرنے لگے۔ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کی حمایت کے لیے وہ یہ دلیل پیش کرتے کہ وہ ان کے داماد تھے اور یہ اس لیے کہ انہوں نے حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی ماں گیہان شاہ دختر یزدگرد سے شادی کی تھی۔ (فرق الشیعۃ: صفحہ 53 الطبقات: جلد، 5 صفحہ 156)
انہوں نے اس سانحہ فاجعہ کو انسانوں کے عام مصائب سے بڑھاتے ہوئے اسے انبیائے کرام کے مصائب کے ہم پلہ قرار دے دیا، (اثر اہل الکتاب فی الفتن و الحروب الاہلیۃ: صفحہ 491 تاریخ الامامیۃ و اسلافہم من الشیعۃ: صفحہ 54) اور یوں بڑی آسانی کے ساتھ اہل کتاب کے افکار و نظریات مسلمانوں کے ذہنوں میں سرایت کرنے لگے۔ نصاریٰ اور ان کے ہم نوا لوگوں نے یہ بھی اعتبار کر لیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے اور اپنے اہل خانہ پر ٹوٹنے والے مصائب و آلام اور قتل و غارت سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی، بلکہ انہیں تکلیف اس بات سے ہوئی تھی کہ ان کے ناناﷺ کی وہ امت جس کی رشد و ہدایت کے وہ امام اور حجت ہونے کی وجہ سے ذمہ دار تھے، وہ ان سے جنگ کر کے گمراہی کا شکار ہو گئی تھی۔ (اثر اہل الکتاب فی الفتن و الحروب الاہلیۃ: صفحہ 493)
یہ بات ہمیں مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے اور انہیں عذاب سے دوچار کیے جانے کے بارے میں نصاریٰ کا عقیدہ یاد دلاتی ہے۔ انہوں نے بڑی آسانی اور سہولت کے ساتھ اپنا یہ نظریہ و عقیدہ نو مسلم افراد کے ذہنوں میں بھر دیا، موالی تشیع کی طرف متوجہ ہونے لگے اور انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ میں ایک ایسا روحانی انسان دیکھا جس کے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے ازل ہی سے یہ بات طے کر دی تھی کہ وہ اپنے خون کی قربانی دیتے ہوئے اسلام کی حفاظت کریں گے اور اس طرح وہ مسیح علیہ السلام جیسا مخلصانہ کردار ادا کریں گے۔ (ایضاً)