اصل دین آئمہ کی محبت ہے
مولانا اللہ یار خاناصل دین آئمہ کی محبت ہے
دین نام اس ضابطہ حیات کا ہے جس کی بنیاد چند عقائد ہوں اور ان عقائد کے تقاضوں کے مطابق عملی زندگی کا نقشہ بنے اور ان اعمال کا مقصد اخروی زندگی کو پر سکون بنانا ہو ، کیونکہ دنیوی زندگی دراصل ایک مہلت عمل ہے اور عرصہ امتحان ہے جس میں انسان کو آخرت کی ابدی زندگی میں کامیابی کا سامان فراہم کرنا ہے۔
دین اسلام تو اللّٰہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے اس کے اجزائے ترکیبی میں اول وہ عقائد ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ﷺ کے ذریعے نوع انسانی کو پہنچائے ہیں ۔ دوم اعمال صالحہ ہیں جن کی تفصیل نبی کریم ﷺ نے اپنے ارشادات، اپنے افعال اور اپنی پسند و نا پسند کے معیار کے ذریعے انسانوں تک پہنچائے گویا دین ایمان نام ہوا عقائد صحیح اور اعمال صالحہ کا مگر دین شیعہ میں اس طویل اور نہایت مختصر کر دیا گیا ہے کہ دین نام ہے محبت اہل بیت کا اور بس۔
یہ بات کہ محبت کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے کے تقاضے کیا ہیں؟ اس کی پہچان کیا ہے ؟ کیا یہ صرف زبانی دعویٰ تک محدود ہے یا اس کی کوئی دلیل بھی درکار ہے یہ لمبی بحث ہے۔ شیعہ اس بحث میں پڑنا فضول سمجھتے ہیں بہر حال دعویٰ محبت کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
من الصادق قال على الدين لاالحب۔
امام جعفر فرماتے ہیں کہ دین صرف محبت کا نام ہے۔
اس روایت میں ابہام ہے کہ محبت سے مراد کس کی محبت ہے کیونکہ قرآن کریم میں بھی محبت کا بیان ہوا ہے ارشاد ہے والذین امنوا اشد حبا للّٰه یعنی اہل ایمان کی نشانی یہ ہے کہ انہیں تمام مرغوبات سے بڑھ کر اللّٰہ سے محبت ہوتی ہے اور حضور ﷺ کا ارشاد ہے ۔ لا یؤمن احدکم حتى اكون أحب اليهن والده وولده والناس اجمعین یعنی تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک تمہیں اپنے ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر میرے ساتھ محبت نہ ہو۔
اس روایت میں اس امر کی وضاحت نہیں کہ امام جعفر نے کسی کی محبت کو دین قرار دیا ۔ چنانچہ اس کی وضاحت شیعہ مفسرین قرآن نے کر دی۔
2_ تفسیر البرہان 4۔312 سورہ مجادلہ
قال محمد بن على الحنفية انما حينا اهل البيت شيء يكتبه اللّٰه سبحانه في اليمن قلب العبد ومن کتبه اللّٰہ فی قلبه لا يستطيع احدا محوه اما سمعت اللّٰه سبحان يقول اولئک الذين كتب اللّٰه في قلوبهم الایمان اخر الاية فحبنا اهل البيت ايمان۔
محمد بن حنفیہ کہتے ہیں بات صرف اتنی ہے کہ ہم اہل بیت کی محبت ایک ایسی شے ہے جو اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندے شیعہ کے دل میں دائیں جانب لکھ دیتا ہے اور اللّٰہ جس کے دل میں لکھ دیتا ہے کوئی اسے مٹا نہیں سکتا کیا تو نے نہیں سنا اللّٰہ تعالی فرماتا ہے یہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللّٰہ نے ایمان لکھ دیا ہے پس اہل بیت کی محبت ہی ایمان ہے۔
یعنی مفسر صاحب نے وضاحت کر دی کہ آیت میں جو لفظ ایمان آیا ہے اس کے معنی اول تو محبت ہی پھر محبت بھی اہل بیت کی۔
3_ تفسیر البرہان1۔277
عن ابى عبيدة المزار قال دخلت على ابى جعفر فقلت بابی انت و امى ربما خلابی الشيطان فخبثت نفسی ثم ذكرت حبى ایاکم بقطاعي اليكم خطابت نفسی قال يا زیاد و يحك وما الدين الحب
ابو عبیدہ المزار کہتا ہے کہ میں امام باقر کے پاس گیا اور کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان شیطان مجھے کئی بار وسوسہ ڈالتا ہے تو میرا نفس خبیث ہو جاتا ہے پھر محبت اہل بیت یاد کرتا ہوں اور اپنے اس عمل کو یاد کرتا ہوں کہ میں نے اپنے دل کو سب سے خالی کر کے اہل بیت کی محبت کے لیے وقف کر دیا تو میرا دل خوش ہو جاتا ہے تو امام نے فرمایا افسوس خیر تجھ پر سوائے محبت (اہل بیت) کے دین ہے کیا!
4_ تفسیر عیاشی 1۔167 بقدر ضرورت
اس روایت میں امام نے گو صرف حب کا لفظ استعمال کیا لیکن راوی نے وضاحت کر دی کہ اہل بیت کی محبت کی یاد ہی تمام پریشانیوں کا علاج ہے اور امام نے اس کے جواب میں فرمایا دین نام ہی محبت کا ہے لہذا مراد محبت اہل بیت ہی دین ہوا۔
5_ايضاً : 167
برید بن معاویہ روایت کرتا ہے کہ خراسان سے ایک آدمی آیا اور کہا :
واللّٰه ما جاء فى من حيث جئت الاحبكم اهل البيت فقال ابو جعفر تور واللّٰه لو احبنا حجر حشره اللّٰه معنا وهل الدين الا الحب .
باخدا مجھے صرف آپ کی محبت یہاں لے آئی ہے تو امام باقر نے فرمایا بخدا اگر پتھر بھی ہم سے محبت کرے تو ہمارے ساتھ جنت میں جائے گا اور دین بھلا ہے کیا صرف محبت اہل بیت۔
ان تفسیری روایات سے ظاہر ہے کہ شیعہ مفسرین نے قرآن کی معنوی تحریف سے کام لیتے ہوئے قرآن میں مذکور لفظ ایمان اور دین کو محبت اہل بیت کے معنی پہنا کر بلکہ اسی میں محصور کر کے ایسی شعبہ بازی کی کہ اللّٰہ اور رسول ﷺ سے تعلق ہی ذہن سے محو ہو جائے ۔ کتنا نفیس (SHORT CUT) اختیار کیا ہے۔
ان روایات میں ایک کمی محسوس ہوتی ہے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی نشانی بنا دی کہ قل ان کنتم تحبون اللّٰه فاتبعونی یعنی اے میرے حبیب ! اعلان کر دے کہ اگر تم اللّٰہ کی محبت کے مدعی ہو یا اللّٰہ سے محبت کرنا سیکھنا چاہتے تو میرا اتباع کرو اور حضور اکرم ﷺ نے اپنی محبت کی نشانی بتادی کہ من احب سنتی فقد احبنی. یعنی جسے میری سنت سے محبت ہے اس کا دعویٰ محبت سچا ہے ورنہ محبت کیا ہو گی بس محبت کی ایکٹنگ ہے مگر ان روایات میں محبت اہل بیت کو دین ایمان قرار دیا گیا اور یہ نہ بتایا کہ محبت کی نشانی کیا ہے محبت کرنے کا سلیقہ کیا ہے اور محبت کا ثبوت کیا ہے اس ابہام کا یہی فائدہ معلوم ہوتا ہے اس معاملے میں آزادی ہے، لہذا بھنگ پیو، شراب پیو، ننگ دھڑنگ نشے میں دھت رہو، اللّٰہ کے محبوبوں کو گالیاں دو، جھوٹ بولو ، زنا کرو۔ اہل بیت کی کوئی بات نہ مانو، بس زبان سے کہہ دو ہم محبان اہل بیت ہیں تو محبت کے تقاضے پورے ہو گئے۔ اماموں کے خیمے لوٹو، ان کا سامان ہتھیاؤ ۔ اماموں کو دھڑا دھڑ خطوط لکھ کے گھر بلاؤ جب آئیں تو ان کا گلہ کاٹو ، جب صفایا کر چکو تو ماتم کا ڈرامہ رچاؤ یہ ہے محبت اہل بیت ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا دے۔