شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ تشیع کی فکری اور اعتقادی تاریخ میں تبدیلی کا نکتہ آغاز ثابت ہوئی
ابو شاہینواقعہ شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو تشیع کی فکری اور اعتقادی تاریخ میں تبدیلی کا نقطہ آغاز خیال کیا جاتا ہے، اس لیے کہ اس دردناک حادثہ کا اثر شیعہ میں تشیع کے جذبات بڑھانے اور ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس واقعہ کی اہمیت اس بات سے بھی اجاگر ہوتی ہے کہ تشیع شہادت حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما سے قبل محض ایک سیاسی رائے اور نظریہ تھا، جس کی ابھی تک شیعہ کے عقائد تک رسائی نہیں ہوئی تھی، مگر جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا، تو تشیع ان کے خونوں میں رچ بس گیا اور ان کے دلوں کی گہرائی تک اتر گیا اور ان کے نفوس میں ایک راسخ عقیدہ کی صورت اختیار کر گیا۔ (نظریۃ الامامۃ: صفحہ 47 مواقف المعارضۃ: صفحہ 338) انہوں نے شہادت حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شہادت سے بھی اہم قرار دے دیا، اس لیے کہ سیدنا حسینؓ رسول اللہﷺ کی بیٹی کے فرزند ارجمند تھے۔ (الخوارج و الشیعۃ: صفحہ 188 مواقف المعارضۃ: صفحہ 339)
فارسیوں نے تشیع کی اساس کو گلے لگا لیا اور یوں شیعی عقائد کا مرکز سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد قرار پائے، جبکہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور ان کی ذریت کو یہ مرکزیت حاصل نہ ہو سکی۔ انہوں نے یہ مبدأ بھی قبول کر لیا کہ خلافت حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور ان کی ذریت کا الوہی حق ہے اور یہ کہ امامت کا انعقاد نص کی بنیاد پر ہوتا ہے نہ کہ اختیار کی بنیاد پر۔ (الوثائق السیاسیۃ للجزیرۃ العربیۃ: صفحہ 19-20) بلکہ شیعہ نے میدان کربلا میں بہنے والے خون حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مسیحیت کے نزدیک مزعومہ خون حق کی طرح بڑی قدر و قیمت کا حامل قرار دے دیا۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 339 التاریخ السیاسی، عبدالمنعم ماجد: جلد، 2 صفحہ 77) شہادت سیدنا حسینؓ کے بعد نہ صرف یہ کہ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے درمیان فکری اور اعتقادی امتیاز ظاہر ہوا بلکہ قتل حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خود شیعہ کو بھی متاثر کیا اور وہ کئی فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ (فرق الشیعۃ، نوبختی: صفحہ 23 مواقف المعارضۃ: صفحہ 339) لیکن چونکہ تمام شیعہ کے نزدیک شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خاص اہمیت حاصل ہے لہٰذا وہ یوم عاشوراء کی اہمیت پر بڑا زور دیتے اور اس دن غم کے اظہار کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔
انہوں نے اس دن کی فضیلت کے لیے بے شمار احادیث و آثار بھی گھڑ رکھے ہیں، شیعہ کے نزدیک عاشورۂ محرم کے دن حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر رونے سے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
اس دن کے انھی مزعومہ فضائل و مناقب کی وجہ سے ان کے نزدیک یوم عاشوراء منانا ایک دینی فریضہ بن چکا ہے جس میں حکام و محکومین سبھی شریک ہوتے اور اپنے مذہبی جذبات کے اظہار میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔ (ایران فی ظل الاسلام، عبدالمنعم حسنین: صفحہ 104 مواقف المعارضۃ: صفحہ 3)
تشیع اور عقائد تشیع کے واضعین نے یوم عاشوراء کی اہمیت پر بڑا زور دیا ہے، (مواقف المعارضۃ: صفحہ 340) تاکہ تشیع اس کے پیروکاروں کے دل میں بھڑکیلے عقیدے کی صورت میں باقی رہے۔ ہر شیعہ ریاست اس امر کا بڑا اہتمام کرتی رہی ہے۔ جیسا کہ عراق میں دولت بویہیہ اور مصر میں دولت عبیدیہ فاطمیہ۔ (ایضاً)