تحریف قرآن اور مدح شیعہ
مولانا اللہ یار خانتحریف قرآن اور مدحِ شیعہ
قرآن میں مختلف مواقع پر انسانوں میں سے دو گروہوں کا ذکر آیا ہے یعنی مومن اور کافر بعض مقامات پر تیسری جماعت کا ذکر بھی کیا گیا جنہیں منافق کہا گیا۔ یہ تینوں اصطلاحات ان لوگوں کے طرز حیات کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو انہوں نے اس دنیوی زندگی میں اختیار کئے رکھی، جہاں تک اخروی زندگی کا تعلق ہے وہ دار الجزائر ہے اس لیے اعمال کی جزاء کے اعتبار سے قرآن نے دو قسم کے لوگوں کا بیان کیا ہے۔ اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال ، کسی جگہ تین گروہوں کا ذکر فرمایا۔ اصحاب المیمنہ ، اصحاب المشمئہ اور مقربون اور یہ فیصلہ قیامت کے دن ہو گا۔ اور اللّٰہ تعالیٰ خود فیصلہ فرمائے گا کہ کون کس گروہ کے ساتھ شامل ہونے کا مستحق ہے۔ شیعہ مفسرین قرآن نے شیعہ جماعت کا مقام اور منصوب متعین کرنے کے لیے قرآن سے خوب کام لیا ہے۔ ان کی نکتہ آفرنیاں دیکھ کر بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان پچھلے لوگوں نے بڑی سینہ زوری دکھائی ہے اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
(1)تفسیر البرہان:3
عن الى عبد الله قال يا صفوان البشران الله ملائكة معها قضبان من نور فاذا ارادوا الحفظہ ان تكتب على زائر الحسين سيئة قالت الملائكة للحفظة كفى فتكف فاذا عدل سنة قالت لها اكتبى اولئك الذين يبدل الله سياتهم حسنات۔
امام جعفر نے فرمایا اے صفوان خوش ہو جا اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کی ایک جماعت اس کام کے لیے مقرر کر رکھی ہے اور ان کے ہاتھ میں نور کا ڈنڈا ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کی قبر کی زیارت کرنے والے شیعہ کی برائی کراماً کاتبعین لکھنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ تو وہ جماعت انہیں لکھنے سے روک دیتی ہے وہ رک جاتے ہیں تقریباً سال بعد انہیں کہتے ہیں کہ اب لکھو یہ وہ شیعہ ہیں جن کی برائیوں کی نیکیوں سے بدل دیتے ہیں۔
اس تفسیر میں کئی نکات بیان ہوئے ہیں اول یہ کہ فرشتوں کی مختلف جماعتوں کی مختلف ڈیوٹیاں مقرر ہیں ایک جماعت کی ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کی قبر پر حاضر رہیں۔
دوم یہ ہے کہ جو شیعہ زائر زیارت قبر کے لیے آئے اس کی برائیاں لکھنے سے مقرر فرشتوں کو روک دیں۔
سوم یہ کہ ہاتھوں میں نور کے ڈنڈے ہوتے ہیں اس کی غرض غالباً یہی ہو گی اگر لکھنے والے فرشتے نہ رکیں تو انہیں سزا دے سکیں یا یہ کہ اس جماعت کی یونیفارم ہو گی جیسے لاٹھی پولیس کے پاس لاٹھی کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
یہاں کئی سوال ذہن میں ابھرتے ہیں۔
1) شیعہ حضرات اپنے امام کی قبر کی زیارت کے لیے جاتے ہیں تو وہاں بھی گناہ کا مشغلہ کچھ دیر کے لیے ترک نہیں کر سکتے۔
2) حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کی قبر کی زیارت کرنے کہاں جاتے ہیں کیونکہ شیعہ مجتہد علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب حیات القلوب 303:2 پر لکھا ہے.
امام جعفر فرماتے ہیں اے عمش حسین بن علی جب شہید ہوئے تو فرشتے آسمان سے اتر کر اور پانچویں آسمان سے لے کر اپنے والد مولا علی کے اس بت کے پاس اس کو رکھ دیا جس کو خدا تعالیٰ نے فرشتوں کی درخواست پر اپنے نور سے پیدا کر کے زیارت گاہ ملائکہ بنا دیا۔
ظاہر ہے کہ امام حسین کی نعش کو فرشتے پانچویں آسمان پر لے گئے اور وہاں رکھ دیا۔پھر زمین پر ان کی قبر کیسے بنائی گئی اور کہاں بنائی گئی اگر بنائی گئی تو جھوٹ موٹ کی قبر ہوئی اور اگر یہ قبر بناوٹی نہیں اصلی ہے تو پھر ملا باقر جھوٹا ہے لیکن وہ امام جعفر کی روایت بیان کر رہا ہے پھر انہیں سچا کیوں کر کہا جائے گا۔
3) چلئے قبر جیسی بھی ہے اصلی یا نقلی زائر قبر کا کام بن گیا-
4) اس امر کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ سلوک صرف زیارت کے دوران ہوگا یا اس زائر کے ساتھ ہمیشہ یہ سلوک ہوتا ہے.
5) شیعہ زائر کے نصیب جاگ اٹھے باقی شیعوں کے ساتھ کیا سلوک ہو گا یہ معلوم نہیں ہو سکا اس کے ساتھ ہی شیعہ کی اس خوش نصیبی کی وجہ بتائی گئی ہے.
حسينا أهل البيت يكفر الذنوب ويضاعف الحسنات۔
امام فرماتے ہیں کہ ہم اہل بیت کی محبت گناہ کو دور کرتی ہے اور نیکیوں کو دو چند کر دیتی ہے۔
بات بڑی قیمتی ہے کہ محبت کی نشانی کے لیے یا ثبوت کے آدمی قبر حسین کی زیارت کرے ائمہ کی قبروں کے متعلق شیعہ کا عقیدہ یہ ہے۔
2) کنز الفوائد __شیعہ عالم کراجکی ص258
لیس زيارتنا لمشاهد هم على انهم بها ولكن شرف المواضع فكانت غيبة الاجسام فيها .
ہماری ان قبروں کی زیارت اس لیے نہیں کی جاتی کہ اجسام ائمہ ان قبروں میں ہیں بلکہ شرف تو مکانوں کے لیے ہیں پس اجزام کی غیبت ہو گی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب جسم قبر کے اندر نہیں تو قبر کیونکر متبرک ہوگی البتہ صاحب کنز الفوائد تھے جو یہ فرمایا کہ امام تین دن سے زیادہ قبر میں نہیں رکھا جاتا بلکہ آسمانوں پر اٹھا لیا جاتا ہے اس وجہ سے ممکن ہے قبر کو شرف حاصل ہو گا کہ تین دن تک امام کا جسم اس میں رہا لیکن حضرت حسین کی قبر کے متعلق تو یہ شرف بھی ثابت نہیں ہوتا کیونکہ علامہ باقر مجلسی کا کہنا یہ ہے کہ فرشتوں نے حضرت حسین کی نعش قبر تک پہنچتے ہی نہیں دی جونہی وہ شہید ہوئے فرشتے اٹھا کر پانچویں آسمان پر لے گئے لہذا قبر امام حسین میں کیا تُک ہوئی اگر کسی قبر کا نام قبر امام حسین رکھ دینا ہی کافی ہے تو کیوں نہ گھر میں ہی ایک قبر بنا کر اس پر قبر امام حسین لکھ دیا جائے اور ہر شیعہ پیدائشی زوار بن جائے ۔
3) تفسیر البرہان 91:4:1
عن أبي بصير قال قال ابو عبد الله يا ابا محمد الله ملائكة بس تطون الذنوب عن ظهور شيعتنا كما يسقط الربة الورق في او ان مقتوله وذلك قوله تعالى عز رجل يسمحون بحمد را بهم ويستغفرون للذين امنوا ء الله ما اراد غیرکم۔
ابو بصیر کہتا ہے امام جعفر نے فرمایا اللّٰه نے فرشتوں کی ایک جماعت صرف اس کام پر مقرر کر رکھی ہے جو ہمارے شیعوں کی پشت پر سے گناہ صاف کرتی ہے جیسے ہوا موسم خزاں میں درختوں کے پتوں کو گرا دیتی ہے اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرشتے اللّٰه کی تسبیح اور حمد کرتے ہیں اور اہل ایمان کے لیے استغفار کرتے ہیں اللہ کی قسم اہل ایمان سے مراد تم شیعہ ہی تو ہو۔
غیر زائرین شیعہ کا معاملہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور وضاحت ہوگئی کہ غیر زائرین کے لیے فرشتوں کی ایک اور جماعت مقرر ہے، مگر ان میں غیر زائرین کی تخصیص کہیں نہیں بلکہ شیعہ ہونا کافی ہے فرشتوں کو صرف کام پر لگانا مقصود ہو تو بات دوسری ہے ورنہ یہ سارا نظام عبث نظر آتا ہے۔ جب گناہ کو مٹا دینے پر فرشتے مقرر ہیں تو گناہوں کا اندراج کرنے کی کیا ضرورت ہے جب لکھا ہوا مٹ جانا یقینی ہے تو لکھنے کا مقصد کیا ہوا۔ اس سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ شیعوں کے گناہ لکھنے پر فرشتوں کو مقرر کرنے کی ضرورت ہی نہیں جب انسان ایک نعل عبت پسند
نہیں کرتا تو اللّٰہ تعالیٰ سے کسی فعل عبث کی نسبت کرنا کوئی اچھا فعل نہیں۔
4) تفسیر مراۃ الانوار ص151
ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تاخر حيث قال الأمام والله ما كان له من ذنب ولكن ثمن له ان يغفر ذنوب شيعة على ما تقدم من ذنبهم وما تأخر
اے نبیﷺ تاکہ اللّٰه بخش دے جو آگے ہو چکا اور جو بعد میں ہوگا امام نے فرمایا خدا کی قسم رسول خداﷺ کا تو کوئی گناہ ہی نہ تھا یہ تو اللّٰہ نے ذمہ داری دی ہے کہ میں شیعوں کے اگلے پچھلے سارے گناہ بخش دوں گا۔
اللّٰہ تعالیٰ نے شیعہ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دینے کی ذمہ داری لے لی ہے قرآن گواہ ہے لہذا شیعوں کو گناہ کرنے کے معاملے میں سستی یا کم ہمتی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
5) تفسیر البرہان 429:2
يا على ان شيعتك مغفور لهم على ما كان فيهم من ذنوب وعيوب.
اے علی ! آپ کے شیعہ بخشتے ہوئے ہیں خواہ ان میں کتنے گناہ اور عیب ہوں۔
6) تفسیر البرہان 456:4
فنقول هولاء شيعتنا فيقول الله تعالى قد جعلت امرهم اليكم وشفعتكم فيهم غفرت المسيتهم ادخلو الجنة بغير حساب .
امام جعفر فرماتے ہیں کہ اگر اللّٰه نے کسی شیعہ سے گناہ کے متعلق سوال کیا تو ہم ائمہ کہیں گے یہ ہمارے شیعہ ہے تو اللّٰہ فرمائے گا اچھا تو ان کا حساب میں نے آپ کے سپرد کیا تمہاری شفاعت ان کے حق میں قبول کی اور میں نے ان بدکاروں کو بخش دیا اور ان کو حساب کے بغیر ہی جنت میں لے جاؤ۔
لوگ روز حساب سے یونہی ڈرتے اور لرزتے ہیں ۔ کتنا آسان نسخہ ہے ۔ نام لکھا دو شیعہ میں اور بدکاری میں ریکارڈ قائم کر دو۔ بغیر پوچھ گچھ جنت میں داخل ہو جاؤ اور ہمیشہ کے لیے عیش کرو۔
یہ تفسیری نکات بڑے خوشی کی اور حوصلہ افزا ہیں لیکن شیعہ علماء کے قلم سے کبھی کبھار کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جو سارا مزاکر کرا کر دیتی ہے۔ مثلاً
كنزل الفوائد ص 236
قد اخبر الله تعالى عز وجل عن ابن نبيه نوح انه ليس من اهلك انه عمل غير صالح هذا مع قول الرسول على روس الاشهاد في اخر ايام من الدنيا حيث وعظ امته وذكرهم دو صبا هر ثم اقبل على اهل بيته خاصة فقال يا فاطمة ابنة محمد اعملى فاني لا اغنى ، عنك من الله شيئا يا عباس يا عم رسول الله اعمل فاني لا أغنى عنك من الله شيئا ثم اقبل على سواهم من الناس فقال يا أيها الناس لايدعى مدع ولا يتمنى متمن والذي بعث بالحق لا ينجيف الاعمل مع رحمته ولو عصيرت لهويت اللهم هل بلغت
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی نوح علیہ السلام کے بیٹے کے متعلق فرمایا کہ وہ تیرے اہل بیت سے نہیں یہ سوال عمل غیر صالح ہے اس کے ساتھ ہی رسول کریمﷺ کا یہ قول جو اپنے علی الاعلان دنیاوی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا تھا جب آپ نے اپنی بیٹی کو نصیحت کرتے ہوئے مخاطب فرمایا اور وصیت فرمائی پھر آپ خاص طور پر اپنے اہل بیت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے بیٹی فاطمہ محمدﷺ عمل کرنا میں تم سے عذاب کا ذرا بھر حصہ بھی ٹال نہیں سکوں گا اے عباس اے رسول خدا کے چچا عمل کرنا میں تم پر سے عذاب الٰہی کا کوئی حصہ دور نہ کر سکوں گا۔ پھر ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے انسانوں کوئی مدعی دعویٰ نہ کرے اور نہ کوئی خواہشات کا بندہ خواہشوں پر رہے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبی برحق بنا کر بھیجا مجھے خود بغیر عمل اور اس کی رحمت کے نجات نہ ہو گی۔ اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو گمراہ ہو جاؤں اے اللّٰه! میں نے آپ کا حکم پہنچا دیا۔
علمائے شیعہ کا یہ اعتراف حقیقت دیکھ کر آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ
1) نبی کریمﷺ اپنی بیٹی کو تاکید فرماتے ہیں کہ بیٹی عمل کرنا۔ اگر اعمال کے متعلق مواخذہ ہو تو میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکوں گا۔
2)_ نبی کریمﷺ اپنے چچا کو تاکید فرما رہے ہیں کہ عمل صالح کا اہتمام کرنا میں تمہیں عذاب سے ہرگز نہیں بچا سکوں گا۔
مگر صاحب تفسیر مراۃ الانوار کہتے ہیں کہ شیعوں کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو سکے۔ صاحب تفسیر البرہان کہتے ہیں شیعہ سے پوچھ گچھ ہوگی تو امام کہیں گے یہ تو ہمارے شیعہ ہیں، پھر شیعوں کا حساب ہی نہ ہوگا اور سیدھے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔
حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ آیا نبی کریمﷺ کے مقابلے میں اماموں کا اختیار زیادہ ہو گا یا نبی کریمﷺ کا جو تعلق اور جو شفقت اپنی بیٹی اور چچا کے ساتھ ہے شیعوں کے ساتھ اماموں کا تعلق اس سے زیادہ ہے۔
یا نبی کریمﷺ اور اہل بیت نبوی کے مقابلے میں شیعہ زیادہ مقدس ہیں کہ ان کے متعلق نبی کریمﷺ عمل کی تاکید فرمائیں اور شیعہ کو اپنے امام بدکاری کا کھلا لائنسس جاری کر دیں۔ یا اللّٰہ! یہ کیا ماجرا ہے۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے اہل بیت کے متعلق یہ کہا ہے شیعوں کے متعلق تو کچھ نہیں فرمایا، مگر اس اقتباس میں ایک شق اور بھی ہے کہ حضورﷺ نے آخر میں فرمایا ایھا الناس یعنی بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ نہ صرف دعویٰ سے کام چلے گا نہ نری تمناؤں سے بلکہ عمل کی ضرورت ہے ۔ اس لیے اگر شیعہ پر لفظ انسان کا اطلاق ہو سکتا ہے تو عمل صالح کا یہ بھی مکلفت ہے اور اگر انسان کا لفظ شیعوں کی شان سے کم تر درجے کا ہے تو وہ آزاد ہیں ۔
اس اعلان کی مزید اہمیت یہ ہے کہ حضورﷺ نے اپنی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں فرمایا۔ اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا کہ یہ حکم منسوخ ہو گیا ، البتہ ایک بات ضرور ہے کہ اللّٰہ نے یا حضورﷺ نے یہ حکم منسوخ نہیں فرمایا مگر امام کو حق حاصل ہے کہ نبیﷺ کی شریعت ہی کو منسوخ کر دے تو یہ حکم اماموں کی طاقت اور ان کے اختیارت کے سامنے کب ٹھہر سکتا ہے ، بہر حال مختصر یہ ہے کہ اگر نبی کریمﷺ سے کوئی تعلق ہے تو کام کرنا پڑے گا اور حضورﷺ سے واقفیت ہی نہیں تو ہر طرح کی آزادی ہے کیونکہ فرشتوں کی جماعت مقرر ہے تمہاری پشتوں سے داغ
گناہ صاف کرتی رہے گی۔
7) تفسیر البرہان سید ہاشم بحرانی 35:2
عن ابي عبد الله ان الكروبيين قوم من شيعتنا من الخلق الاولى جعلهم الله خلف العرش لو قسم نور واحد منهم على اهل الأرض تكفا هر ثم قال ان موسى لما سئل ربه ما سئل امر واحدا من الكروبين تجلى للجيل نجمله دكا.
امام جعفر سے روایت ہے کہ ہمارے شیعوں میں سے ایک قوم کر دی ہے جو آدم سے پہلے پیدا ہوئی اللّٰہ نے انہیں عرش کے پیچھے آباد کیا اگر ان میں شیعہ کا نور پوری زمین کی مخلوق پر تقسیم کیا جائے تو کافی ہو گا۔ پھر فرمایا: کہ حضرت موسیٰ نے اپنے رب سے جو سوال کیا سو کیا تو اللّٰہ نے ایک شیعہ کو حکم دیا اس نے پہاڑ پر تجلی ڈالی پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا۔
قرآن کہتا ہے لا تجلی رہے یعنی رب موسیٰ ہم نے تجلی ڈالی پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور شیعہ تفسیر قرآن کہتی ہے تجلی شیعہ نے ڈالی ۔ متن اور تفسیر میں تطابق پیدا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ شیعہ کو رب تسلیم کیا جائے (معاذ اللّٰه) اگر ایسا نہ کیا جائے تو مفسر صاحب معاذاللّٰہ جھوٹے بلکہ پاگل تسلیم کرنے پڑیں گے اور اگر ایسا کیا جائے تو شیعہ کی عظمت اور فضیلت واضح ہو جاتی ہے مگر اللہ کے کلام کو معاذ اللّٰه جھوٹ ماننا پڑتا ہے جو ایک مسلمان کی ہمت سے باہر ہے۔ ہاں شیعہ تسلیم کر لیں تو بعید نہیں۔
8) تفسیر البرہان 54:1
فأن يكفر بما هولاء یعنی اصحابه و قريشا و من الذكر بيعة امير المومنين فقدا وكلنا یا قوما ليسوا بها بكافرین یعنی شیعه امیر المومنین ثر قال تاديب الرسول الله صلى الله علیه وسلم اولئك الذين هدى الله في هذا الهم اقتداد یا محمد
اصحاب رسولﷺ اور قریشی اور جنہوں نے امیر المؤمنین رضی اللّٰہ عنہ کی بعیت نہیں کی اگر کفر کریں تو ہم نے قرآن کو امیر المؤمنین رضی اللّٰہ عنہ کے شیعوں کے سپرد کر دیا۔ پھر نبی کریمﷺ کو ادب سکھاتے ہوئے فرمایا شیعان علی ہدایت یافتہ ہیں اے محمد تو ان کی اقتدا کر۔
شیعوں کی عظمت اور فضیلت کی انتہا ہو گئی وہ جس نے تمام انبیاء کی امامت کرائی سے حکم ہو رہا ہے شیعوں کا مقتدی بن۔
ع یہ نصیب اللّٰہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے۔