Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

تحریف قرآن اور مدح امامت و آئمہ شیعہ

  مولانا اللہ یار خاں

تحریف قرآن اور مدح امامت و آئمہ شیعہ

تحریف قرآن سے شیعہ تفسیر قرآن کہتے ہیں سے دو محاذوں پر جھولا نئی طبع دکھائی گئی ہے ایک طرف قرآن ہی سے اللّٰہ تعالیٰ کی توہین انبیاء کی توہیں، امام الانبیاء کی توہین اور دین حق کی توہین دل کھول کے کی گئی ہے تو دوسری طرف شیعہ نے اپنے محترعہ اور مزعومہ عقائد کو قرآن مجید کے زمر ہی لگایا بلکہ ان کو اتنا اچھالا کہ جو کچھ نہیں تھا اسے سب کچھ بنا کے دکھا دیا۔ اس سلسلے میں شیعہ مفسرین کی فکری غواصیوں کی شان ملاحظہ ہو۔

امام نبی ﷺ سے افضل ہوتا ہے

1- تفسير مراة الانوار ص 20

أئمتنا عليهم السلام افضل من سائر الانبياء هو الذي لا يرتاب فيه من تبتع اخبارهم على وجه الاذعان واليقين والاخبار في ذلك اكثر من ان تحصى وعليه عمدة الامامية.

ہمارے شیعہ اماموں کا تمام انبیاء سے افضل ہونا وہ حقیقت ہے کہ جس نے شیعہ احادیث کو پورے یقین کے ساتھ پڑھا وہ اس میں شک نہیں کر سکتا اس بارے میں اتنی حدیثیں ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا اور اسی عقیدے پر امامیہ فرقہ کا مدار ہے۔

امامت کا تعارف کرانے کے لیے بسم اللّٰہ ہوئی تمام انبیاء کی توہین سے اللّٰہ نے مخلوق کی رہنمائی کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے اور اعلان فرما دیا من يطع الرسول فقد اطاع اللٌٰہ  شیعہ نے کہا میں نہ مانوں انبیاء تو اماموں کے 15۔2 ہیں اور یہ عقیدہ شیعہ مذہب کی جان ہے یعنی شیعہ مذہب کی بسم اللّٰہ ہوتی ہے اللّٰہ کے حکم کے انکار اور انبیاء کی توہین سے۔

2_ تفسیر البرہان 1۔51

ولو يعلم الناس متى سمى على امیر المومني : ما انكر و افضله سمى وادم بين الروح والجسد .

نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر لوگ یہ جانتے ہیں کہ علی رضی اللّٰہ عنہ کو کب امیر المؤمنین کا لقب ملا تو علی رضی اللّٰہ عنہ کی فضیلت کا انکار نہ کرتے یہ لقب اس وقت سے ہے جب حضرت آدم روح اور جسد کے درمیان تھے۔

یہ پہلی تفسیر کی تائید ہو گئی کیونکہ نبوت کا معاملہ ابھی زیر غور ہی نہیں آیا کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو ولایت و امامت کا منصب تفویق کر دیا گیا۔

3_ تفسیر البرہان 2۔368

قال ابو جعفر ما بعث اللٌٰه نبيا قط الا بولايتنا و البرات من اعدائناء ذلك في كتاب اللّٰه ولقد بعثنا في كل امر رسولا منهم ان اعبدوا اللّٰه واجتنبوا الطاغوت الى ان قال ومنهم من حقت عليه الضلالة بتكذيب آل محمد.

امام باقر کہتے ہیں کہ اللّٰہ نے کوئی نبی ایسا مبعوث نہیں کیا جس سے ہماری محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کا عہد نہ لیا ہو اور یہ بات کتاب میں موجود ہے کہ ہم نے ہر امت میں رسول مبعوث فرمایا کہ عبادت کرو اللّٰه کی اور بتوں سے اجتناب کرو ان میں سے کچھ لوگوں نے آل محمد کی تکذیب کر کے گمراہی قبول کی۔

یہ تفسیر پہلی دونوں کی تائید ہو گئی کہ نبوت کا معاملہ تو بعد میں زیر غور آیا اور ہر نبی سے عہد لیا گیا کہ شیعہ کے اماموں سے محبت کرو گے اور ان کے دشمنوں پر تبرا بازی کرو گے لہذا اب کیا شبہ رہ گیا کہ امامت کا درجہ نبوت سے افضل ہے اور امام سارے انبیاء سے افضل ہے۔

امام میں خدائی اختیارات

4_ تفسیر مراۃ الانوار ص67

*التفويض في الخلق والرزق به والتربية والامامة ولاحياء فان ما قالوا ان اللّٰه حلقهم فوض اليهم أمرا لخلق فهم يخلقون ویرزقون ویمیتون و یحیون

یہ سوال ہو کے آیا مخلوق کو پیدا کرنا انہیں رزق دینا موت اور زندگی دینا اماموں کے اختیار میں ہے انہیں تو ایک بڑی جماعت شیعہ نے کہا کہ اللّٰہ نے اماموں کو پیدا کیا اور مخلوق کے سامنے کام ان کے سپرد کر دیے امام ہی پیدا کرتے ہیں رزق دیتے ہیں موت اور حیات انہی کے اختیار میں ہے۔

اس تفسیر سے اماموں کی برتری میں کوئی شبہ نہ رہا۔ کیو نکہ انبیاء علیہم السلام کا کام زیادہ سے زیادہ اللّٰہ کا پیغام اللّٰہ کی مخلوق تک پہنچانا ہے مگر اماموں کو تو اللّٰہ تعالیٰ اپنے سارے اختیار سونپ کے بے فکر ہو گیا ہے۔ امام جب الوہیت کے مقام پر پہنچ گئے تو انبیاء سے لازماً افضل ہو گئے اس لیے آئمہ کو (OFFICIATING ) خدا تو ضرور ماننا پڑے گا خواہ ایمان رہے یا نہ رہے ۔

5_ ایضاً ص 68۔69

فلما فرض اللّٰه إلى رسوله فقد فوض البناء الاخبار في الكافي وغير كثيرة من الشمالي قال سمعت أبا جعفر يقول من احللنا له شيئا اصابه من إعمال الظالمۃ لان الائمة منا مفوض اليهم فما احلوا فهو حلال فماحرموا فهو حرام.

اللّٰہ نے جو کچھ اپنے رسول ﷺ کو سونپا ہے وہی آئمہ کو سونپا ہے اس قسم کی احادیث اصول کافی وغیرہ میں بے شمار ہیں شمالی کہتا ہے کہ امام باقر نے فرمایا جس شخص کے لیے ہم حلال کر دیتے ہیں کوئی چیز جو اسے ظالموں کے اعمال سے پہنچتی ہے (پس وہ حلال ہے) کیونکہ جسے حلال کہیں وہ حلال ہیں اور جسے حرام کہیں وہ حرام ہیں۔

ابو ہبیرہ کہتا ہے امام جعفر نے فرمایا اگر امام مہدی کسی کو ایک لاکھ دے اور کسی کو ایک درہم دے تو دیکھنے والے کے دل میں یہ کھٹکنا نہ چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا کیونکہ امام کو پورا اختیار ہے جو چاہے کرے میں کہتا ہوں یہ تفویض کی صورت تو دنیا کے حالات کے لحاظ سے ہے رہی آخرت کی بات تو اماموں کو دو اختیارات ملیں گے جو مخلوق میں سے کسی کو نہیں ملیں گے مثلاً شفاعت کرنا، حکم دینا، روکنا، جنت میں بھیجنا، دوزخ میں ڈالنا ،سب اماموں کے اختیار میں ہوگا اسی حقیقت پر متواتر احادیث دلالت کرتی ہیں

یہاں معلوم ہوتا ہے مفسر صاحب نے انبیاء سے رعایت کی ہے یا بات مبہم چھوڑ دی ہے یہ بات کہ اللّٰہ نے جو کچھ اپنے رسول ﷺ کو سونیا دی ہم اماموں کو سونپا صحیح نظر نہیں آتی کیونکہ رسولوں کو تخلیق ترزیق ، مخلوق کی موت وحیات کا اختیار نہیں دیا یہ اختیار تو صرف آئمہ شیعہ کو ملا ہے یہ اور بات ہے کہ ملا صرف شیعوں کی طرف سے ہے۔

یہاں ایک بات کھٹکتی ہے وہ یہ کہ آئمہ کے اتنے وسیع اختیارات ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے تمام اختیارات آئمہ کو سونپ دیئے ہیں مگر دوسری طرف شیعہ روایات میں آئمہ اور ابو الائمہ کی مجبوری اور بے بسی کے جو نقشے کھینچے گئے ہیں وہ کسی طرح اس سے جوڑ نہیں کھاتے۔ شیعہ کہتے ہیں خلافت چھین لی، امامت چھین لی میراث چھین لی گھر بلایا قتل کر دیا۔ صدیوں سے شیعہ اس محرومی کے سوگ میں رونے دھونے میں لگے ہیں، آئمہ کے وہ اختیارات کہاں گئے ۔ کسی وقت کے لیے اٹھا رکھے ہیں۔ شیعوں کی کہانیوں سے تو اماموں کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے اور اگر یہ سب کچھ اماموں نے اپنے اختیار سے کیا تو شیعہ کیا آئمہ کے فیصلوں کے خلاف یہ احتجاجی ہڑتالیں کرتے ہیں آخر ان میں کونسی تُک ہے۔ اس تضاد کو کون رفع کرے۔

6_ كنز الفوائد شیعہ عالم ابو الفت محمد بن علی کر اسکی متوفی سن 449ھجری ص259

عن ابن اعين قال سمعت ابا عبد اللّٰه يقول ما تنبأبني قط الا بمعرفتنا و تفضيلنا على من سوانا و ان الامة مجتمع على ان الانبياء عليهم السلام قد بشر و انبينا و تنبهوا على امره ولا يصح عنهم ذلك الا وقد أعلمهم اللّٰه به فصدقوا وامنوا بالمخبر به وكذلك قدروت الشيعة بانھم قد بشروا بالائمة اوصياء رسول ِاللّٰہﷺ

ابن اعین کہتا ہے میں نے امام صادق سے سنا کہ ہر نبی صرف ہماری معرفت کے لیے اور غیروں پر ہماری فضیلت بیان کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا۔اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ سابقہ تمام انبیاء نے محمد رسول ﷺ کے معبود ہونے کی بشارت سنائی اور ان کے آنے پر متنبہ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالی نے انبیاء کو اس کی اطلاع دی تھی پس انبیاء کرام نے رسول کریم ﷺ کو تصدیق کی اور ایمان لانے بالکل اسی طرح شیعہ نے روایت کی کہ انبیاء نے آئمہ شیعہ اور اوصیاء رسول ﷺ کی بھی بشارت سنائی تھی۔

ایک بات تو بالکل واضح ہو گئی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ایک لاکھ اور کئی ہزار انبیاء صرف اس لیے بھیجے کہ اماموں کا تعارف کرا دیں ۔ باقی کام امام خود کرلیں گے مگر ایک مسئلہ وضاحت طلب ہے کہ انبیاء کا تعارف کرانے کے لیے کس کو بھیجا گیا ۔ انبیاء جب اپنا تعارف خود کراتے رہے تو آئمہ جو انبیاء سے افضل ہیں اپنا تعارف خود کیوں نہ کرا سکے ، ممکن ہے اس میں امامت کی کسر شان ہوتی ہے ۔

انبیاء نے اماموں کا تعارف کرا دیا مگر اماموں نے کیا کیا ۔ اس کی تفصیل درکار ہو تو ہماری کتاب تحذیر المسلمین کا مطالعہ فرما لیجیے، کچھ اجمالی بیان آگے آ رہا ہے۔

ایک اور بات بھی حل طلب ہے کہ شیعہ عالم نے حضور اکرم ﷺ کی بشارت دینے پر امت کا اجماع لکھا ہے لیکن آئمہ کی بشارت کے لیے امت سے کیوں نہ پوچھا گیا یہ ثواب شیعوں کی فرد عمل کے لیے ہی مختص ہے۔ اگر امت کا اجتماع کوئی سند ہے تو اماموں کی بشارت کا معاملہ تو غیر مستند ثابت ہوا۔ شیعہ روایات سند نہیں بن سکتی کیونکہ شیعہ اس سے بھی بڑے ایک ثواب کے بہت حریص ہیں اور وہ ہے تقیہ جو9/10حصہ دین ہے اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ شیعہ نے یہاں تقیہ سے کام نہ لیا ہو ۔

پھر یہ کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی بشارت سنانے کی اطلاع اللّٰہ تعالیٰ نے انبیاء کو دی تھی یہ آئمہ اور اوصیاء کی بشارت دینے کی اطلاع کسی نے دی ۔ اس امر کی طرف کوئی اشارہ نہیں اس لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ شیعہ ہی نے دی ۔

7_ تفسیر مراۃ الانوار ص68

والخامس الاختيار في ان يحكموا ظاهر الشريعة او يعلمهم او بما بلھمهم اللّٰه من الواقع ومن الحي وهذا ايضا احد معاني رواية محمد بن سنان و عليه ايضا دلت الاخبار

پانچویں بات یہ ہے کہ آئمہ کو اختیار ہے ظاہری شریعت پر عمل کریں یا اپنے عمل کے مطابق یا جو الہام ان کو ہوتا ہے واقعات یا حق کا یہ بھی ایک معنی محمد بن سنان کی روایت کا ہے اور اس پر احادیث بھی دلالت کرتی ہے۔

یعنی مذہبی تقاضا پورا کرنے کے لیے شریعیت کو سامنے ضرور رکھا جائے ۔ رہی بات اس پر عمل کرنے کی تو امام کو اختیار ہے کہ شریعت کے احکام کے الفاظ سے معنی اخذ کریں یا ان الفاظ میں اپنی پسند کے معانی داخل کریں۔

8_ ایضاً 67

ان جماعۃ من الشیعہ اختلفوا فی تفویض اللّٰہ امر الخلق والرزق فی آئمہ فقال جمع الف اللّٰہ قدر الائمہ علی ذالک وفوض الیھم فختلقوا ورزقوا الخ

شیعہ کی ایک جماعت نے تفویض کے مسئلہ میں یہ اختلاف کیا ہے کہ تخلیق اور ترزیق کا کام اللّٰہ نے اماموں کے سپرد کیا ہے مگر ایک جماعت نے کہا ہے اللّٰہ نے آئمہ کو یہ اختیار دیا ہے لہذا وہ پیدا بھی کرتے ہیں اور رزق بھی دیتے ہیں۔

اوپر نمبر 7 کے تحت یہ بیان ہوا کہ امام کو اختیار ہے کہ شریعت پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرے اب اس کی وجہ سنیے:

9_ کنزالفوائد ص173

ولنا ايضا مذهبنا في الالهام وعندنا ان الامام عليه يصح ان يلهم من المصالح و الاحكام ما يكون هو المخصوص به دون الامام

الہام کے بارے میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ اماموں کو مخلوق کی اصلاح کے احکام کا الہام ہوتا ہے اور ایسے الہام صرف اماموں کے ساتھ مخصوص ہیں۔

یعنی شریعت کے احکام خوا وہی رہیں ان کی تعبیر اس الہام کے مطابق ہوتی جو امام کے ساتھ مخصوص ہے۔

10_ تفسیر مراۃ الانوار ص158

عن البأقرانه قال ان اللّٰه عزوجل تفرد في وحدا انينه ثم تكلم بكلمة فصارت نورا ثم خلق من ذلك النور المحمد وعنيا وعترته عليهم السلام ثم تكلم بكلمات فصارت روحا واسكنها في ذلك النور و اسكنه في احد اننا فتحن روح اللّٰه و كلمته احتجب بناء لى خلقه

امام باقر فرماتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ اپنی توحید میں منفرد تھا پھر اللّٰہ نے ایک کلمہ بولا وہ کلمہ نور بن گیا پھر اس نور سے اللّٰہ تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ اور ان کی عزت کو پیدا کیا پھر اللّٰہ تعالیٰ نے ایک اور کلمہ بولا پھر وہ روح بن گیا اس روح کو اللّٰہ نے اس پہلے نور میں داخل کیا اور اس نور کو ہمارے بدنوں میں داخل کر دیا پس ہم آئمہ روح اللّٰہ میں اور کلمۃ اللّٰہ ہے اللّٰہ تعالیٰ ہمارے وجود میں داخل ہو کر مخلوق سے پوشیدہ ہو گیا۔

اماموں کے جسموں میں اللّٰہ تعالیٰ داخل ہو گیا اس طرح حلول کرنے سے پوشیدہ ہوگیا مگر امام بارہ ہیں تو معلوم ہوا کہ عیسائی بڑے کم ہمت ثابت ہوئے کہ تین خدا بنا کر تھک گئے اور شیعہ بڑے باہمت ثابت ہوئے وہ تو ایک میں تین اور تین میں ایک کے معمے میں پھنس گئے مگر یہ ایک میں بارہ اور بارہ میں ایک تک پہنچ گئے۔

11_ تفسیر مراۃ الانوار ص 335

فاوحي الى عبده ما اوحى مثل النبيﷺعن الوحی فقال اوحی إلى ان عليا سيد المومنين وامام المتقين۔

شب معراج میں اللّٰہ نے اپنے بندے کی طرف وحی کی جو کی نبی کریم ﷺ سے اس وحی کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میری طرف وحی کی گئی کہ علی رضی اللّٰہ عنہ مومنوں کا سردار ہے اور امام المتقین ہے۔

لیجئے اللّٰہ نے تو ایک بات راز میں رکھی تھی شیعہ نے کھوج لگا لیا اور راز افشا ہو گیا کہ معراج کی رات اللّٰہ نے جو بات اپنے محبوب سے پردے میں رکھی تھی وہ یہی تو تھی کہ علی مومنوں کا سردار اور متقیوں کا امام ہے اس وحی میں بظاہر حضرت علی رضی اللّٰہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے مگر مزید غور کیا جائے تو شیعوں کی فضیلت اسی تفسیر سے ظاہر ہے کہ مومن بھی شیعہ ہیں اور متقی بھی شیعہ ہیں اس لیے ایمان اور تقوی کی بہار دیکھنا مطلوب ہو تو شیعہ کو دیکھ لو مجسم ایمان اور رواں دواں تقویٰ ۔

12_ ایضاً ص248

قال تعالى عالم الغيب والشهادة بما اولناہ من القائم وقيامه فتاويل الشهادة حينئذ الامام الحاضر

غیب سے مراد شیعوں کا امام مہدی ہے اور شہادت سے مراد موجودہ امام ہے۔

مگر اب تو غائب بھی وہی ہے اور حاضر بھی وہی ہے لہذا دونوں لفظوں سے مراد امام ہوا۔

13_ تفسیر مراۃ الانوار ص181

ولقد اتيناك سبعا من المثاني والقرآن العظيم قال ان الظاهر في سورة الحمد وباطنھا ولد الولد والسابع منها القائم.

اے نبی ﷺ! ہم نے آپ کو سات آیتوں والی سورۃ فاتحہ اور قرآن عظیم بھی دیا اس آیت میں سات سے مراد امام شیعہ ہیں اور ساتواں امام مہدی مراد ہے۔

آئمہ کی عظمت کا انکار کیا ہو سکتا ہے مگر یہاں ایک حسابی پیچیدگی نظر آتی ہے اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں سات امام دیئے پہلا سوال یہ ہے کہ باقی پانچ کس نے دیئے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ امام جعفر تک چھ اور امام مہدی ساتویں ہوئے اس طرح سورہ فاتحہ کی تکمیل ہوئی تو موسیٰ کاظم سے حسن عسکری تک پانچ امام کس کھاتے میں آئے ۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کی تکمیل کے لیے آخری حرف امام مہدی کو قرار دینے میں کیا حکمت ہے باقی بھی امام ہیں۔

ہاں اس کی ایک تفسیر معلوم ہوتی ہے کہ اللّٰہ نے دو چیزیں دینے کا اعلان فرمایا۔ اول سورت فاتحه دوم قرآن عظیم لہذا سات امام تو فاتحہ بن گئے باقی پانچ قرآن عظیم ہو گئے۔ مگر اس تفسیر میں ایک خامی نظر آتی ہے کہ فاتحہ لمبی اور قرآن چھوٹا رہ جاتا ہے ، پہلے اس میں بھی کوئی حکمت ہوگی ۔

14_ تفسیر مراۃ الانوار ص241

ان هذا القرآن يهدي التي هي اقوم والقران یھدى إلى الامام .

یہ قرآن مضبوط راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے مراد یہ ہے کہ یہ قرآن امام کا تعارف کراتا ہے یعنی مضبوط راستہ امام ہی تو ہے۔

15_ ایضاً ص 279

ان الذين قالوا ربنا اللٌٰه ثم استقاموا استقاموا على الأئمة وأحمد ابعد واحد

جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللّٰہ ہے پھر اس پر جمے رہے مراد یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے تمام اماموں کی امامت پر قائم ہے۔

16_ تفسیر فرات بن ابراہیم ص 61

ان جميع الرسل والملائكة والارواح خلقوالخلقنا۔

تمام رسول فرشتے اور ارواح ہماری خاطر پیدا کیے گئے ہیں۔

یہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا قول ہے آپ نے اپنے عہد خلافت میں کوفے کے منبر پر یہ فرمایا اس کے راوی امام باقر اور امام جعفر ہیں ۔

آئمہ کے مقام بلند کا اندازہ بھی ہوگیا اور انبیاء کی توہین کی بھی حد ہو گئی۔

17_ اعلام الوریٰ _ علامہ طبرسی طبع تہران ص 388

ان شيعتحم و مع كثرتها فی الخلق وغليتها على اكثر البلاد اعتقدت فيهم الامامة التي تشارك النبوة وادعت عليهم الآيات والمعجزات والعصمة عن الزلات حتى ان الغلاة قد اعتقدات فيهم النبوة والالهية وكان اسباب اعتقادهم ذلك فيهم حسن اثارهم وعلى أحوالهم وكمان في صفاتهم۔

اماموں کے شیعہ مخلوق میں کثرت تعداد میں ہیں اور ان کا اکثر شہروں میں غلبہ بھی ہے یہ شیعہ ان اماموں کی امامت کا اقرار کرتے ہیں یعنی امامت کے متعلق ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ نبوت میں شریک ہے اور شیعہ کا دعویٰ ہے کہ اماموں سے نشانات اور معجزات کا صدور ہوا اور ان کا دعویٰ ہے کہ امام معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہیں بلکہ شیعہ نے غلو کر کے یہ بھی کہا ہے کہ امام صرف نبی ہی نہیں خدا بھی ہیں اور ان کے اعتقاد کی وجہ یہ ہے کہ اماموں سے عمدہ نشنات اعلی حالات اور ان کے کمالات اور صفات کا ظہور ہوا۔

اماموں کے متعلق شیعہ کے عقیدہ کی تفصیل یہ بتائی کہ

1_امام معصوم عن الخطا ہوتا ہے۔

2_امام نبوت میں شریک ہوتا ہے.

3_ امام میں خدائی اختیارات اور اوصاف ہوتے ہیں.

4_ امام سے معجزات ظاہر ہوتے ہیں.

ان اعتقاد کی وجہ یہ قراردی کہ امام سے جن کمالات صفحات اور آثار کا اظہار ہوتا ہے ان کا تقاضہ یہ ہے کہ امام کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے.

لہذا جس شیعہ کو امام کے کمالات کا اعتراف ہے اس کا عقیدہ لازماً یہی ہوگا جو صاحب اعلام الوری نے لکھا ہے۔

18_ تفسیر مراۃ الانوار ص 30

ذكر كراجكي في اثبات عظم الشأن الولاية وعدم الفرق بين النبوة والامامة في التكليف بهما و عدم صحة الدين بدونهما.

ذکر کیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ نبوت اور امامت میں کوئی فرق نہیں انسان جس طرح نبوت پر ایمان لانے کا مکلف ہیں اسی طرح امامت پر ایمان لانے کے بھی مکلف ہیں جس طرح نبوت پر ایمان لائے بغیر ایمان صحیح نہیں اسی طرح امامت پر ایمان لائے بغیر ایمان درست نہیں۔

نبوت اور امامت میں فرق نہیں یعنی نبی اور امام میں فرق نہیں ۔ جیسے نبی پر ایمان لانا فرض ہے اسی طرح امام پر ایمان لانا فرض ہوا ۔ نبی کریم ﷺ کے بعد نبی آنا موقوف ہوا مگر امامت شروع ہی بنی کریم ﷺ کے بعد ہوئی ، لہذا ہر امام پر ایمان لانا بھی اسی طرح فرض ہوا جس طرح انبیاء پر ایمان لانا تو ثابت ہوا کہ ختم نبوت کا عقیدہ کوئی چیز نہیں کیونکہ ایمان لانے کی ایک چیز باقی رہی ، نبی کریم ﷺ کے بعد بارہ امام ہوئے اور امام پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اور امام افضل ہوتا ہے، نبی سے لہٰذا شیعہ ختم نبوت کے قائل نہ ہوئے بلکہ ان کے عقیدے کے مطابق اجرائے نبوت حق ہے ۔