امام کے علوم اور امام پر وحی کا نزول
مولانا اللہ یار خانامام کے علوم اور امام پر وحی کا نزول
10_ اصول کافی باب شب قدر
انه لينزل في ليلة القدر إلى ولى الامر نفسه بكن او كن او في امر الناس بكذا وكذا.
شب قدر میں امام زمان پر احکام کی تفصیل نازل ہوتی ہے جو اس کی اپنی ذات کے متعلق بھی ہوتی ہے اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی۔
11_ صافی شرح کافی علامہ خلیل قزوینی ص229
برائے ہر سال کتا بے علیحدہ است دارد کتاب است که در ان تفسیر احکام و حرارت کو محتاج اليه امام است تا سال و بچه نازل شوند بان کتاب ملا نگر در روح در شب قدر بر امام زمان تا آنکه انت اللہ تعالی باطل می کند بیان کتاب آنچه را میخواهد از اعتقادات امام من اتق و اثبات الی کند در او آنچه را میخوابد.
ہر سال کے لیے کتاب جدا ہوتی ہے اس سے مراد وہ کتاب ہے جس میں ان احکام حوارث کی تفصیل ہوتی ہے جن کی امام کو آئندہ سال تک ضرورت ہوتی ہے۔ شب قدر میں فرشتے اور جبرائیل اس کتاب کو لے کر امام زمان پر نازل ہوتے ہیں اس کتاب کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ امام کے جن عقائد کو چاہتا ہے مٹا دیا ہے اور جن قواعد کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔
شریعت اسلامی نے یہ تعلیم دی تھی ہر نبی اور رسول کی شریعت اپنے زمانے کے حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے اور نبی کریمﷺ کی آمد پر پہلے انبیاء کی شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔ امام چونکہ انبیاء سے افضل ہیں اس لیے ہر امام پر ہر سال کتاب نازل ہوتی ہے جو پہلے اماموں کی شریعت منسوخ کر دیتی ہے لہٰذا نبی کریمﷺ کی شریعت تو پہلے دہلے میں نسخ کی نذر ہوگئی۔
لہٰذا ختم نبوت کا عقیدہ مہمل ثابت ہوا فرشتے آئے ، کتاب نازل ہوئی، شریعت نازل ہوئی۔ نبی کریم پر ختم نبوت کب ہوئی ۔
12_ كشف الحجر ثمرة المهجر طبع تم - علا م رسید رضی الدین ابی القاسم علی بن موسی بن جعفر بن محمد طاؤس منتوفی 664 ھ ص 41
ان علوم المتك صلوات الله عليهم كانت اية الله جل جلاله فيهم ومعجزة والة على اما متهم لانهم لم يعرف لهم استاد يترددون اليه ولا يشتغلون عليه ولا رأهم شيعتهم ولا أعداء هم انهم يقرع ون تلك العلوم على بائهم عادة المتعلمين والاصفات المدمين والا عرف لهم كتاب مصنف اشتغلوا فيه ولا تأليفا حفظ معانيه ولو يعرف عنهم الا اذا مات الحي منهم قام الباقي بعده من ولده الذي أوصى اليه بالامامة مقامه في علمه وكلمه يحتاج اليه من الخصاص والكرامة .
تمہارے بارہ اماموں کے علوم اللّٰہ کی نشانی تھی اور ایک معجزہ تھا جو ان کی امامت پر دلالت کرتا ہے اماموں کا کوئی استاد نہیں ہوا جس کے پاس جا کر حصول علم میں مشغول ہوئے ہوں سنیوں نے نہ شیعہ نے اماموں کو دیکھا کہ اپنے باپ دادا اسے بطور طالب علم کچھ پڑھا ہو کوئی کتاب معلوم نہیں ہوئی جس کا امام نے مطالعہ کیا ہو کوئی تصنیف پائی گئی کہ ان کے معنی یاد کرنے میں مشغول ہوئے ہوں بس اتنا معلوم ہوا کہ ایک امام فوت ہوا تو دوسرا امام اس کی جگہ کھڑا ہو گیا جو سب کا امام کی اولاد میں سے تھا اور امام نے اس کی وصیت کی کہ علم میں خصوصیات میں فضیلت میں اسی کے مقام ہوگا۔
اماموں کی فضیلت کی یہ ایک اور دلیل ہوئی انبیاء کرام میں سے صرف نبی کریمﷺ کی صفت آتی ہے اور یہاں بارہ کے بارہ امام امتی ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ حضورﷺ کو اللّٰہ تعالیٰ نے امتی فرمایا اور اماموں کو شیعہ نے امتی اعلان کردیا تاکہ کسی پہلو میں کوئی کی رہ نہ جائے۔
البتہ یہ جو کہا گیا ہے کہ امام فوت ہوا تو دوسرا کھڑا ہو گیا۔ یہ مرحلہ کبھی سکون سے نہیں گزرا بلکہ امامت کے بارے میں اہل بیت میں جو خانہ جنگیاں ہوتی رہیں ان کی تفصیل درکار ہو تو ہماری کتاب تحذیر المسلمین اور الدین الخالص کا مطالعہ فرما دیں ۔
دوسری بات یہ کی گئی ہے کہ نیا امام سابقہ امام کی اولاد میں سے ہوتا مگر اس کی کیا وجہ ہے کہ دوسرے امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کی اولاد امامت سے محروم ہو گئی اور ایسی محروم ہوئی کہ بقیہ دس میں سے کوئی امام بھی ان کی نسل سے نہیں ہوا۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ انہوں نے شیعوں کی مرضی کے خلاف امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے حق میں حکومت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔
13_اعلام الوری، علامه طبری طبع تهران ص 277
عن جعف كان يقول علينا غابر و مزبور ونكت في القلوب نقر في الاسماء وان عندنا الجنفر الاحمر و الجغر الابيض و مصحف فاطمة عليها السلام وان عندنا الجامعة فيها جميع ما يحتاجون اليه تسئل عن تفسير كلامه فقال أما الغاير فالعلم بما يكون واما المزبور فالعليم بما كان وأما النكت في القلوب فهو الالهام واما النقر في الاسماء تحديث الملائكة تسمع كلا مملو کا نری شخصہم
امام جعفر فرماتے تھے کہ ہمارا علم (چار قسم کا ہے) ظاہر، مزبور نکت فی القلوب اور نقر فی الاسماع اس کے علاوہ ہمارے پاس سرخ جفر ہے اور سفید جفر بھی ہے مصحف فاطمہ بھی ہے اور ہمارے پاس "جامعہ"ہے اس میں وہ تمام احکام ہیں جن کے لوگ محتاج ہوتے ہیں بس راوی (جمیل) نے امام سے اس کی شرح پوچھی تو فرمایا غابر سے مراد علم ما یکون یعنی مستقبل میں جو کچھ ہونے والا ہے اس کا علم مزبور سے علم ما کان یعنی جو کچھ ماضی میں ہو چکا اس کا علم بہت فی القلوب سے مراد الہام ہے اور نقر في الا سماع سے مراد فرشتوں کی باتیں سننا ہے ہم فرشتوں کی باتیں سنتے ہیں ان کو دیکھ نہیں سکتے۔
امام نے علوم کی تفصیل کیا بتائی اس کی حدود متعین کرنا ہی ممکن نہیں، البتہ اس پر کئی اشکال وارد ہوتے ہیں مثلاً
1_ کتاب جامعہ اگر امام کے پاس موجود ہے تو ہر سال احکام کے نازل ہونے کی ضرورت کیا رہ گئی جبکہ اس کتاب کا تعارف کرایا گیا کہ اس میں وہ سب کچھ ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے اس لیے دونوں باتیں مشکوک نظر آتی ہیں اگر جامعہ واقعی جامعہ ہے تو ہر سال احکام نازل ہونا قابل تسلیم نہیں اور اگر واقعی ہر سال نزول احکام کی بات صحیح ہے تو جامعہ والی بات محض طفل تسلی ہے۔
2_ علم غابر بھی کچھ اٹل پچو بات معلوم ہوتی ہے اگر امام کو مستقبل کا علم ہوتا ہے اور ان کے اختیارات بھی خدائی اختیارات ہیں تو یہ چالیس روز تک اپنے کیے کو مدینہ کی گلیوں میں پھراتا اور اما طلب کرتا اور اپنے بھائی کو کوفہ میں بھیجناا اور مقام زبالہ پر اس کی موت کی اطلاع ملنا اور امام کا کہنا قد خذلنا شیعتنا، اور امام کو علم ہوتا کہ شہید کر دیا جاوں گا پھر خوامخواہ اپنے کہنے کو دشمنوں کے ہاتھ ذلیل کرانا وغیرہ ساری باتیں علم اور اختیار دونوں کی نفی کرتا ہے۔ اور اگر اس کی تاویل کی جائے کہ علم اور اختیار دونوں کے باوجود امام کی اپنی مرضی اور پسند سے ہو تو یہ گلہ شکوہ یہ شور و شین یہ چیخنا چلانا یہ نگے سر نگے پاؤں گلی گلی سینہ کوبی کرنا امام کے فیصلہ کے خلاف احتجاج ہی نہیں امام سے بغاوت ہے۔
3_ فرشتوں کی کلام تو امام سنتے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے پھر یہ کیسے معلوم ہوا کلام فرشتہ کر رہا ہے ممکن ہے جن ہو شیطان ہو کوئی اور مخلوق ہو پھر یہ تعجب کی بات ہے کہ خدا نے امام کو تخلیق ترذیق احیاء امانت سب اختیار دے دیئے مگر فرشتوں کے دیکھنے کا اختیار نہیں دیا مگر خدا کے کام حکمت سے خالی نہیں ہوتے ممکن ہے اماموں کو یہ احساس دلانے کے لیے یہ کیا ہو کہ تم مخلوق ہو اور میرے محتاج ہو ۔
4_ یہ مصحف فاطمہ کیا ہے نہ امام نے بتایا نہ راوی نے پوچھا کیا یہ حضرت فاطمہ کی تصنیف ہے یا اس کی صورت یہ ہے کہ کچھ قرآن حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ جمع کرتے رہے اور کچھ حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا جمع کرتی رہیں۔ اور دونوں مجموعے یکے بعد دیگرے اماموں کو منتقل ہوتے رہے اگر حقیقت یہی ہے تو حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا قرآن تو نا مکمل ہوا گو 18 ہزار آیات ہی کا ہو اور نوے پارے کا ہو پھر بھی ادھورا ہوا۔ کچھ حصہ تو وہ ہوا جس کو مصحف فاطمہ کہتے ہیں پھر یہ دعویٰ بھی غلط ہوا کہ حضرت علی ؓ کے بغیر کسی نے سارا قرآن جمع نہیں کیا بہر حال یہ ساری بات محمہ در محمہ ہے ۔ واللّٰہ اعلم۔
اعلام الوارلیٰ ص137
من على قال بعثني رسول الله الى اليمن قلت يا رسول الله تبعثنى وانا شاب اقضى بينهم ولا ادرى ما القضا قال فضرب في صدري اللهم اهد قلبه و لبت لسانہ
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریمﷺ نے مجھے یمن کا قاضی مقرر کیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللّٰہ آپ مجھے قاضی بنا کر بھیج رہے ہیں اور میں قضا سے واقف ہی نہیں پس حضورﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا اے اللّٰه اس کے دل کو ہدایت دے اور اس کی زبان کو ثابت رکھ۔
گذشتہ صفحات میں اللّٰہ کے علوم کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے اس میں اس روایت کو فٹ کر کے دیکھئے جس میں امام اول اعتراف کر رہے ہیں کہ میں فن قضاء سے واقف نہیں ہوں کیا ان کا آپس میں کوئی جوڑ نظر آتا ہے۔ شیعہ کہتے ے ہیں کہ آئمہ عالم ما کان وما یکون اور ابو الائمہ کہ رہے ہیں کہ میں تو شریعت کے مطابق فیصلے کرنے جانتا ہی نہیں ہے ۔ شیعہ کہتے ہیں کہ آئمہ کا مقام انبیاء سے بلند ہے اور ابو الائمہ کہ رہے ہیں کہ حضورﷺ کے ہاتھ پھیرنے سے اور حضورﷺ کی دعا سے میرے اندر فیصلے کرنے کی اہمیت پیدا ہو گئی۔ جو پہلے نہیں تھی مگر کوئی کہاں تک تضاد رفع کرے شیعہ کے تمام علوم تضادات ہی تضادات ہیں۔