Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا نام و نسب خاندان اور فضائل و مناقب

  حامد محمد خلیفہ عمان

بحث اول 

 نام و نسب، جائے ولادت اور خاندان

 نام و نسب

سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا پورا نام یہ ہے:

حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب- ( طالب کا نام عبد مناف اور عبدالمطلب کا نام شیبۃ الحمد ہے۔ (الاستیعاب لابن عبدالبر: جلد، 3 صفحہ 1089)) بن ہاشم- ان کا نام عمرو ہے- بن عبد مناف- ان کا نام مغیرہ ہے -بن قصی- ان کا نام زید ہے -بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ (یہاں تک کا نسب نامہ ان کتب میں درج ہے: (سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد، 1 صفحہ 123، جلد، 2 صفحہ 495 البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر: جلد، 7 صفحہ 333 الاصابۃ: جلد،1 صفحہ 507)) بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔ (الطبقات الکبری لابن سعد: جلد، 2 صفحہ 19 تاریخ دمشق: جلد، 14 صفحہ 121 البدایۃ و النہایۃ: جلد، 7 صفحہ 333 اسد الغابۃ: جلد، 2 صفحہ 76)

آپ کی والدہ ماجدہ سیّدۃ النساء فاطمہ بنت رسولﷺ ہیں اور والد ماجد امیر المومنین خلیفہ راشد سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ ان کے دوسرے نورِ نظر تھے۔ جبکہ ان کے پہلے فرزند ارجمند سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما ہیں۔

 تاریخ ولادت

رب تعالیٰ نے سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیّدہ فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا، جگر گوشۂ رسولﷺ کو چار اولادیں عطا فرمائی تھیں: ’’حسن، حسین، زینب الکبریٰ اور ام کلثوم الکبریٰ رضی اللہ عنہم۔ (الطبقات الکبری لابن سعد: جلد، 3 صفحہ 20) سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے بڑے بھائی سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے بعد 5 شعبان 6 ہجری میں پیدا ہوئے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: 2852) جبکہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ شعبان یا رمضان 3 ہجری میں پیدا ہوئے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء: جلد، 3 صفحہ 343) ان کے علاوہ اور بھی تواریخ مروی ہیں۔ ( المستدرک للحاکم: 4789 علامہ ذہبی نے ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں اس روایت پر سکوت کیا ہے)

حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی ولادت کے درمیان فقط ایک طہر کا فاصلہ تھا۔ پھراس کے بعد سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حاملہ ہو گئیں۔ جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں: ’’حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے درمیان صرف ایک طہر کا وقفہ تھا۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: 2766) حاکم کہتے ہیں: بیان کیا جاتا ہے کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے درمیان صرف حمل کا زمانہ تھا۔ (المستدرک: 4803 تعلیق الذہبی فی التلخیص۔ علامہ ذہبی نے ’’التلخیص‘‘ میں اس پر سکوت کیا ہے) یعنی سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ایک سال بعد ہی سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہو گئے تھے۔ زبیر بن بکار کہتے ہیں: ’’سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما 5 شعبان 4 ہجری کو پیدا ہوئے تھے۔‘‘ (المعجم الکبیر: 2852) اس قول کی بنا پر حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی ولادت کے درمیان ایک سال سے کم کا وقفہ بنتا ہے۔ زبیر بن بکار سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں کہتے ہیں: ’’سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے بروز جمعہ 10 محرم 61 ہجری کو شہادت پائی۔ (ایضاً) نبی کریمﷺ کی وفات کے وقت سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ ایک ماہ کم سات برس کے تھے۔ کیونکہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ 5 شعبان 4 ہجری کو پیدا ہوئے تھے۔ (صحیح ابن حبان: 909)

سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا نام رکھا جانا

’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ میں روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ولادت کے ساتویں روز سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا نام ’’حسین‘‘ رکھا اور بیان کیا جاتا ہے کہ دونوں کی ولادت کے درمیان صرف حمل کا زمانہ ہی تھا۔ (المستدرک للحاکم: 4803 تعلیق الذہبی فی التلخیص: علامہ ذہبی نے ’’التلخیص‘‘ میں اس پر سکوت کیا ہے) یعنی دونوں بزرگوں کی عمروں میں صرف زمانہ حمل کی مدت کا وقفہ ہی تھا۔

امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام حمزہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نام ان کے چچا کے نام پر جعفر رکھا تھا۔ پس نبی کریمﷺ نے ان دونوں کا نام حسن اور حسین رکھ دیا۔‘‘ (المعجم الکبیر: 2780)

ممکن ہے کہ نبی کریمﷺ کے ان دونوں نواسوں کے یہ عظیم نام رکھنے سے قبل سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے مختلف نام تجویز کیے ہوں۔ روایات میں حرب، حمزہ اور جعفر کے ناموں کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ’’حسن‘‘ کی ولادت ہوئی تو نبی کریمﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: ’’مجھے میرا بیٹا دکھلاؤ (اور بتلاؤ کہ) تم لوگوں نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ ان کا نام ’’حسن‘‘ ہے۔‘‘ پھر جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ’’حسین‘‘ نے جنم لیا، تو نبی کریمﷺ تشریف لائے اور فرمایا: ’’مجھے میرا بیٹا دکھلاؤ، تم لوگوں نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ اس کا نام ’’حسین‘‘ ہے۔‘‘ پھر جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے تیسرے بیٹے کوجنم دیا، تو نبی کریمﷺ تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: ’’مجھے میرا بیٹا دکھلاؤ، تم لوگوں نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں بلکہ اس کا نام ’’محسن‘‘ ہے۔‘‘ پھر ارشاد فرمایا: ’’میں نے ان تینوں کے یہ نام ہارون کے تین بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے ناموں پر رکھے ہیں۔‘‘ (المستدرک للحاکم: 4773 قال صحیح الاسناد و لم یخرجاہ۔ علامہ ذہبی نے اس کو صحیح کہا ہے)

اس مقام پر میں چند اہم باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

ایک یہ کہ نبی کریمﷺ نے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے نام تعریف کے الف لام کے بغیر حسن اور حسین رکھے (نہ کہ الحسن اور الحسین)۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ہر قسم کی تعظیم و اجلال، تکریم و سیادت اور محبت و عقیدت کے مستحق ہیں۔

دوسرے یہ کہ تلاش بسیار کے باوجود مجھے کتب سیرت و تاریخ میں سے اس شخص کا نام نہیں مل سکا جس نے سب سے پہلے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو زہرا اور بتول کے لقب کے ساتھ پکارا۔

اسی طرح اس شخص کا نام بھی مجھے معلوم نہیں ہو سکا، جس نے امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو سب سے پہلے ’’امام‘‘ کا لقب دیا۔ خاص طور پر اپنے ایام خلافت میں آپ امیر المومنین کے لقب کے ساتھ پکارے جاتے تھے۔ مجھے کسی صحیح روایت میں یہ پڑھنے کو نہیں ملا کہ آپ کے اصحاب میں سے کسی نے آپ کو اس معنی میں ’’یا امام‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہو، جو اہل تشیع کی زبانوں پر عام ہے اور نہ مجھے ’’امیر المومنین‘‘ کی کنیت ’’ابو الحسین‘‘ کا کوئی سراغ ہی مل سکا ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ کنیت سب سے پہلے کس نے استعمال کی ہے۔ حالانکہ آپ کی کنیت ’’ابو الحسن‘‘ تھی۔ جہاں تک میری معلومات ہیں کسی روایت میں اس بات کا ذکر نہیں کہ آپ نے اپنی کنیت ’’ابو حسین‘‘ رکھی ہو۔

یہاں یہ اہم سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ نسبتیں، القاب اور کنیتیں سب سے پہلے کس نے ایجاد کیں؟

کیا ان نسبتوں کا تعلق اس فکری جنگ سے تو نہیں جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمنوں نے ان کے خلاف برپا کر رکھی ہے؟ اور وہ آج تک اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ امت مسلمہ کے قدم سنت نبویہ کے مسلمات پر سے اکھاڑ دئیے جائیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے بعض ناموں کو اتنا بلند کیا کہ انہیں پیغمبروں اور فرشتوں کے درجات سے بھی اوپر لے گئے اور اس فعل کا عذر یہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں ان ناموں سے بے حد پیار ہے، وہ ان ناموں کی بے حد تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور ان کی امامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ جبکہ عین اسی وقت یہی نام نہاد محبانِ آلِ بیت بعض دوسرے بلکہ بسا اوقات باقی تمام صحابہ کرام بالخصوص حضرات خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم اور دیگر اسلاف امت اور ابرار و اخیار کے ناموں کو بے حد بگاڑتے ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں، جو لوگوں کو ان سے نفرت دلاتی اور ان کے نزدیک انہیں مبغوض بناتی ہیں اور یہ سب کچھ حب آل بیت کی چھتری تلے کیا جاتا ہے۔ کیا آلِ بیت رضی اللہ عنہم ایسے ہی تھے؟

تاریخ کا مطالعہ کرنے والا اس وقت حیران و پریشان رہ جاتا ہے، جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ حب آل بیت رضی اللہ عنہم کے یہ نام نہاد دعوے داران کے انصار و اولیاء صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے سچے پیروکاروں سے شدید بغض اور نفرت رکھتے ہیں اور سیّد آل بیت، حضرت رسالت مآبﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ ان کا رویہ شدید کینہ پروری پر مشتمل ہے، یہ آل بیت کی زبان سے جو کتاب و سنت کی زبان ہے، برسرپیکار ہیں، جبکہ اُس زبان پر فخر کرتے ہیں، جس کا کتاب و سنت سے کوئی واسطہ نہیں۔

یہ سب سوالات اس بات کو لازم قرار دیتے ہیں کہ جسے بھی نبی کریمﷺ کے آل بیت، آپﷺ کی ذریت و ازواج، آپﷺ کے چچوں اور ان کی اولادوں سے، جن پر صدقات اور زکوٰۃ حرام ہے، محبت کرتا ہے، وہ ان بزرگ ہستیوں سے اعلیٰ درجہ کی محبت کرے، ان سے ولا و وفا کا بلند ترین تعلق رکھے اور یہ محبت و ولا خالص رب کی رضا کے لیے ہو جس میں عزت و شرافت، دانش و بینش، حزم و احتیاط اور ذکاوت و ذہانت کے دقیق ترین اور لطیف ترین پہلوؤ ں کی کمال رعایت کی گئی ہو۔ پس جو بھی آلِ بیت سے محبت کرتا ہے، وہ دراصل اپنے اوپر اس بات کو واجب کر دیتا ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے ان اہل سے بھی محبت کرے گا، جن سے آپﷺ کو محبت تھی۔ جن میں سرفہرست سیّدہ عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کا نام نامی اور اسم سامی آتا ہے، جن سے نبی کریمﷺ کو سب انسانوں سے زیادہ محبت تھی۔

ایسا شخص اپنی ذات پر جناب رسول اللہﷺ کے دو وزیروں سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہما کی محبت کو، ان کے مقام و مرتبہ اور قدر و منزلت کی معرفت کو اور ان دونوں پاکیزہ ہستیوں کی سیرت کی اقتدا کو واجب کرتا ہے۔ ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ جناب رسول اللہﷺ کے داماد اور آپﷺ کی دو لخت جگر کے شوہر شہید مظلوم، سیّدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ سے بھی بے پناہ محبت کرے اور اس سب پر مستزاد ایسے شخص پر کتاب و سنت سے محبت کرنا واجباتِ دینیہ میں سے ہے، جن کی بابت ذرا سا بھی شک انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ ایسے شخص پر کتاب و سنت کی نصرت کرنے والوں سے محبت کرنا بھی واجب ہے جن میں سرفہرست حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نام آتا ہے، جن کی خدمات نے انہیں ساری امت سے اونچا درجہ عطا کیا اور اس سبقت و فضیلت سے کسی ایک صحابی رسول کو بھی مستثنیٰ کرنا جائز نہیں، اس کے بعد کتاب و سنت کی زبان ’’لغت عربیہ‘‘ سے محبت کرنا بھی اس شخص کے فرائض میں داخل ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آل بیت سے محبت کے دعوے دار پر لازم ہے کہ وہ کتاب و سنت، عربیت اور قرونِ ثلاثہ کے تہذیبی نتائج اور صحیح اسلامی اقدار و شعائر سے سچی اور کھری محبت کرے، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسا شخص ہر اس انسان سے اپنی براء ت کا اظہار کرے جو ان مسلمات، عقائد، اقدار اور شعائر میں سے کسی ایک کا بھی دشمن ہے، اس کے مکر و فریب سے خود کو بھی اور امت مسلمہ کو بھی بچانا واجب ہے۔

محبت آل بیت کے یہ نام نہاد دعوے دار بزعم خویش خود کو مسلمان اور آل بیت اطہار سے سچی محبت کرنے والا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ زمینی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کہ یہ آل بیت سے تعلق رکھنے والے ہر عقیدۂ قرابت، لغت، ثقافت اور تشخص سے برسر پیکار ہیں، انہیں حضرات محدثین، فاتحین اسلام اور سلف صالحین سے شدید بغض و نفرت ہے۔

نبی کریمﷺ کے ’’حسنین‘‘ نام رکھنے میں کئی اہم اسباق ہیں، جن سے گھر، خاندان اور قبیلہ کے ذمہ دار حضرات اکثر غافل رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ بچوں کا نام رکھنے میں کوئی پروا نہیں کرتے یا پھر اپنے باپ دادا کی رسموں کی پیروی کرتے ہیں چاہے، وہ نام جنابِ رسول اللہﷺ کی سیرت سے کتنے ہی دُور کیوں نہ ہوں۔ بعض لوگ بچوں کا نام رکھنے میں سنتِ نبویہ اور عربی تشخص کا کوئی خیال نہیں رکھتے اور اہل مشرق یا اہل مغرب جیسے نام رکھ دیتے ہیں، چاہے ان کا اسلامی مفاہیم اور صفاتِ حمیدہ سے دُور کا بھی واسطہ نہ ہو۔

اس لیے ہمیں بچوں کا نام رکھنے میں نبی کریمﷺ کی ان نصیحتوں کو سامنے رکھنا چاہیے، نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:

’’پیغمبروں کے ناموں پر نام رکھو اور اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں اور سب سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں اور سب سے برے نام حرب اور مرہ ہیں۔‘‘(سنن ابی داود: 4950 علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے سوائے اس جملہ کے ’’پیغمبروں کے ناموں پر نام رکھو۔‘‘ (الادب المفرد للبخاری: 816))

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ایک آدمی کا بیٹا پیدا ہوا، اس نے اس کا نام قاسم رکھ دیا تو ہم نے کہا: ہم تمہیں ابو القاسم کہہ کر نہ پکاریں گے اور کوئی کراہت نہیں۔ نبی کریمﷺ کو جب اس بات کی خبر دی گئی، تو فرمایا: ’’اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمٰن رکھو۔‘‘ (الادب المفرد للبخاری: 815 علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے)

نبی کریمﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آپﷺ کی کنیت پر کوئی اپنی کنیت رکھے۔ چنانچہ فرمایا: ’’میرے نام پر اپنے نام رکھو، البتہ میری کنیت پر اپنی کنیت نہ رکھو اور جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘ (صحیح البخاری: 110)

اس ممانعت کی وجہ یہ ہوئی کہ بقیع میں ایک شخص نے کسی کو ابو القاسم کہہ کر پکارا تو آپﷺ نے مڑ کر اسے دیکھا، اس آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے آپ کو نہیں بلایا تھا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے نام پر نام رکھو البتہ میری کنیت پر اپنی کنیت نہ رکھو۔‘‘ (صحیح البخاری:2014-2015) اور فرمایا: ’’میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت مت رکھو، بے شک میں قاسم (تقسیم کرنے والا) ہوں اور میں تم لوگوں میں تقسیم کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم: 2131)

نبی کریمﷺ نے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا۔ اسی لیے آپﷺ نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا نام حرب سے بدل کر ’’حسین‘‘ رکھا۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت منذر بن اسید رضی اللہ عنہ جب پیدا ہوئے، تو انہیں نبی کریمﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپﷺ نے انہیں اپنی ران پر رکھا اور اپنے سامنے رکھی کسی چیز کی طرف متوجہ ہو گئے (اور ذرا دیر کو سو گئے) اس پر ابو اسید رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو نبی کریمﷺ کی ران سے اٹھا لیا۔ جب نبی کریمﷺ متوجہ ہوئے تو دریافت فرمایا: ’’بچہ کہاں ہے؟‘‘ ابو اسید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم نے اسے واپس کر دیا ہے۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: ’’اس کا نام کیا ہے؟‘‘ ابو اسید رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ’’فلاں ‘‘۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ اس کا نام منذر ہے۔‘‘ پس ابو اسید رضی اللہ عنہ نے اس دن سے اپنے بچے کا نام منذر رکھ دیا۔ (الادب الفرد للبخاری: 816 علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے عاصیہ کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا تھا۔ (الادب المفرد: 820 علامہ البانی رحمتہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے)

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: ’’اللہ کے نزدیک سب سے برا نام اس شخص کا ہے جس نے اپنا نام ’’ملک الاملاک‘‘ (شاہِ شاہ ہاں ) رکھا ہو۔‘‘ (الادب المفرد: 817 علامہ البانی رحمتہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے)

محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں: میں زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے ساتھ میری بہن تھیں، انہوں نے مجھ سے میری بہن کا نام پوچھا، میں نے بتلایا کہ اس کا نام برہ ہے، تو انہوں نے کہا: یہ نام بدل دو کہ کیونکہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نام برہ تھا، جب نبی کریمﷺ نے ان سے نکاح فرمایا، تو ان کا نام بدل کر زینب رکھ دیا۔ (الادب المفرد للبخاری: 821 علامہ البانی رحمتہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے)

یہ نصوص بتاتی ہیں کہ ایک نام کی جگہ اس سے زیادہ اچھا نام بھی رکھ سکتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ جس نے برا نام رکھا ہو یا وہ نام مسلمانوں کے مناسب نہ ہو اس کے پاس اس برے نام سے چھٹکارا پانے اور سنت نبویہ کی پیروی کرنے کے لیے اس نام کے نہ بدلنے کا کوئی عذر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ کو پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے دی جانے والی قربانی کا نام ’’عقیقہ‘‘ رکھنا بھی پسند نہ تھا۔ کیونکہ اس میں عقوق (نافرمانی) کا معنی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ جب نبی کریمﷺ سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے ’’عقوق‘‘ پسند نہیں۔‘‘ گویا آپﷺ نے عقیقہ نام کو ناپسند فرمایا اور ارشاد فرمایا: ’’جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کر لے۔‘‘ (الموطأ : 1066 عَقِیْقَۃ: یہ عَقٌّ سے مشتق ہے، جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ عقیقہ اصل میں نومولود بچے کے سر کی چوٹی کے ان بالوں کو کہتے ہیں، جن کے منڈوانے پر جانور کی قربانی دی جاتی ہے، یا ان بالوں کو عقیقہ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کو نومولود بچے کے سر پر سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ عقیقہ کرنا سنت ہے اور سنت یہ ہے کہ جانور ذبح کرنا، سر کے بال مونڈنا اور نام رکھنا یہ سب ساتویں روز کیا جائے۔ کیونکہ ولادت والے دن ہی یہ سب کام کرنے کی بابت کوئی روایت مروی نہیں۔ (صحیح البخاری، باب العقیقۃ: جلد، 5 صفحہ 2080))

پیدا ہونے والے بچے کی بابت چند دوسری سنتیں بھی ہیں، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں جناب حسین رضی اللہ عنہ کے پیدا ہونے پر ان کے کانوں میں نماز والی اذان کہی۔ (سنن الترمذی: 1514 قال الترمذی: حسن صحیح۔ علامہ البانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ (مسند احمد: 23920))

یہ وہ تربیتی مفاہیم و معانی ہیں، جن کی اساس رب تعالیٰ کی عبودیت کے اخلاقیات پر ہے، تاکہ ایک اسلامی معاشرہ عقیدۂ توحید اور اس کی مقاصد کی بنیادوں پر استوار و مستحکم ہو اور اس کے افراد کے مابین محبت و مودت کی بنیاد بھی صحیح عقائد پر ہو تاکہ ایک اسلامی معاشرہ فخر و غرور اور قطع تعلقی کے مظاہر سے کوسوں دُور ہو۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: ’’رب تعالیٰ نے تم لوگوں سے جاہلیت کے عیب کو دُور کر دیا ہے اب یا تو مومن متقی ہے یا بدبخت فاجر ہے اور لوگ سب کے سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔" (سنن الترمذی: 3955 و قال: ہذا حدیث حسن غریب۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے)