امامت اور ولایت ہی دین و ایمان ہے
مولانا اللہ یار خانامامت اور ولایت ہی دین و ایمان ہے
1_ مراۃ الانوار تفسیر ص8
اقول سياتي الاخبار الكثيرة بتأويل الايمان والدین والحق و نحوها بالولاية وتأويل الكفر و الشرك و ما يبعت أهي بتراء الولاية ان الله عز وجل جعل ولايتنا اهل البيت قطب القرآن و قطب جميع الكتب اخبار في ان الولاية بعث بها الانبياء وانزلت الكتاب وكلف بها الاسم.
احادیث کثیرہ میں وارد ہو چکا ہے کہ ایمان دین اور حق سے مراد ولایت ائمہ ہے اور کفر شرک اور اسی قبیل کے دوسرے الفاظ سے مراد ولایت آئمہ کو ترک کر دینا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے ہم اہل بیت کی ولایت کو قرآن اور دیگر تمام کتب سما دی قطب اور محور بنا دیا ۔احادیث میں آیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ولایت کے لیے انبیاء کو معبود فرمایا کتابیں نازل فرمائی اور تمام مخلوق کو آئمہ شیعہ پر ایمان لانے کا مکلف بنایا۔
یہ حقیقت پہلے بیان ہو چکی ہے کہ شیعہ اصول تفسیر میں بنیادی اصول یہ ہے کہ الفاظ سے معانی اخد کر نا تو نری جہالت ہے علم نام اس چیز کا ہے کہ الفاظ میں اپنی پسند کے معنی داخل کئے جائیں یہ اصول آپ کو شیعہ کی تمام تفاسیر میں کار فرما نظر آئے گا، یہاں اسی اصول کے تحت دین ایمان اور حق کے الفاظ اور اصطلات کے معنی ایجاد کئے گئے ۔
ولایت کو قرآن اور دیگر تمام کتب سماوی کا محور قرار دیا ۔ قرآن میں تو ولایت کا ذکر ہی نہیں ۔ دوسری کتب سماوی میں بھلا کہاں ہو گا۔ نزول قرآن کے دوران تو چلئے اہل بیت موجود سہی پہلی کتب کے نزول کے وقت اہل بیت کا نام و نشان بھی نہیں تھا تو کتب سماوی کا محور ایک معدوم شے کو بنایا گیا۔ معدوم پر ایمان لانے کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ملتی مخلوق خدا نبیﷺ پر ایمان لانے کی مکلف اس وقت ہو جب نبی مبعوث ہو مگر امام پر ایمان لانے کی مکلف اس وقت ہو جب امام پر وہ عدم سے منصہ ثہود پر بھی نہ آیا ہو پھر یہ کہ نبی مبعوث ہوتا ہے نبوت کا اعلان اور دعویٰ کرتا ہے تو لوگ نبیﷺ پر ایمان لانے کے مکلف ہوتے ہیں مگر امامت عجیب شے ہے کہ امام پیدا نہیں ہوا۔ امامت کا دعویٰ نہیں کیا امامت کا اعلان نہیں کیا مگر مخلوق اس کی امامت پر ایمان لانے کی مکلف ہو گئی ہے کوئی بات ہوش کی ۔ دعویٰ اور اعلان دو پہلو ایسے ہیں کہ امام کہتے ہیں کہ ولایت ایک ایسی راز کی بات ہے جو جبریل نے نبی کریمﷺ کے کان میں سرگوشی کر کے کہی اور نبی کریمﷺ سے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے کان میں چھپ کے کہ دی مگر تم ہو کہ اسے اچھالتے پھرتے ہیں جب ولایت ظاہر کرنے کی چیز ہی نہیں تو اس پر ایمان کا مطالبہ کیا معنی رکھتا ہے۔ اس پر تعجب نہ کرنا چاہیئے کہ ولایت کے لیے انبیاء بھیجے گئے ولایت تو ابتدائے آفریش سے انسانیت کے لیے تحفے اور برکات لا رہی ہے۔
2_ تفسیر مراہ النوار ص 209
من سائر الآيات المشتملة على الصيحة مع ان الهلاك بالصيحة ايناني الاھم السالفة كان لعدم قبول الولاية.
تمام آیات قرآنی میں جو صحیہ چیخ کے عذاب پر مشتمل ہے جس سے سابقہ امتیں ہلاک ہوئیں وہ اس بنا پر تھا کہ امتوں نے شیعہ اماموں کی ولایت کا انکار کیا تھا۔
3_ ایضاً ص 380
وفي مواضعر القرآن ورد القبون والقرون معنی اسم المالكة ولا يخفى ان هلاك الامم كان بسبب ترك الولاية.
قرآن میں کئی جگہ لفظ قرن اور قرون آیا ہے اس مراد سابقہ امتیں ہیں جو ہلاک ہوئیں اور یہ امر پوشیدہ نہ رہے کہ سابقہ امتوں کی ہلاکت کا سبب ولایت کا قبول نہ کرنا تھا۔
4_ ایضاً ص388
قال تعالى فان توليتم نا علموا التفاعلی رسولنا البلاغ المبين قال والله ما هلك من كان قصدد، وما هلك من هلك حق يقوم قائمنا الاني ترك ولا يتنا ووجود متنا .
آیت قرآنی کو خوب جان لو ہمارے رسولﷺ کے ذمہ تو صرف احکام پہنچانا ہے امام نے فرمایا کہ خدا کی قسم تم سے پہلے جو امت ہلاک ہوئی اور جو بھی امام مہندی کے ظاہر ہونے تک ہلاک ہوگا وہ انکار امامت کے سبب ہی ہلاک ہوگا۔
یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ سابقہ امتوں کی ہلاکت کا سبب امامت کا انکار تھا۔ گذشتہ صفحات میں گذر چکا ہے کہ انبیاء پر جو مصیبتیں آئیں وہ صرف آئمہ شیعہ کے بارے میں توقف کرنے سے یا ان کے قبول کرنے میں سستی کی وجہ سے آئیں، امامت واقعی بڑا عجیب مسئلہ ہے نہ انبیاء کی سمجھ میں آتا ہے نہ ان کی امتوں کی عقل وہاں پہنچتی ہے فرق اتنا ہے کہ انبیا، کچھ لیت و لعل کرنے کے بعد مان جاتے رہے مگر امتوں نے تو صاف انکار ہی کیا لہٰذا انہیں تباہ ہونا تھا۔
ان تینوں تفسیری حصوں میں یہ اشارہ نہیں ملتا کہ ہلاک ہونے والی امتوں نے توحید و رسالت کو بھی قبول کیا یا نہیں بلکہ یہ بھی کہیں نہیں ذکر کیا گیا کہ انہیں توحید و سالت کی دعوت بھی دی گئی یا نہیں مگر شیعہ مفسرین کا دعویٰ ہے کہ نبیﷺ تو بھیجے ہی صرف اس لیے گئے تھے کہ اللّٰہ کا تعارف کرا دیں جب یہ علت خالی ٹھہری تو توحید ورسالت کی دعوت دینے کی ضرورت کب محسوس ہوئی ہو گی ۔ بات تو بالکل منطقی ہے مگر قرآن اس کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے کہ ہر نبی نے ہمیں کہا قولو لا الہ الا اللّٰہ یہ کہیں اشارہ نہیں ملتا کہ کسی نبی نے امامت کی دعوت بھی دی مگر اس عقدہ کا حل بھی شیعہ مفسرین نے ڈھونڈ نکالا ہے ۔
5_ تفسیر مراۃ انوار ص24
امام جعفر فرماتے ہیں:
فقال عرف الله ايمانهم بولايتنا وكفر هم بتركها يوم اخذ عليهم الميثاق وهمونی در صلب ادم .
اللّٰہ تعالیٰ نے مخلوق کا کفر و ایمان ہماری امامت کے انکار و اقرار ہی سے پہچانا اس روز جب مخلوق صلب آدمی میں بشکل زر تھی اور ان سے عہد لیا گیا تھا۔
6_ ایضاً ص26
ان الله اخدمية أق النمين على ولایۃ علی
روز میثاق میں اللہ تعالیٰ تعالی نے انبیاء سے علی کی امامت پر ایمان لانے کا عہد لیا تھا۔
7_ تفسیر البرہان 5:2
المدت پر یکم و ان محمد رسول انبيكم رسول وان لیا امیر المومد بن قال شو قال وان برهند او الله جاء بها محمد رسول الله
کیا میں تمہارا رب نہیں اور محمد جو رسول ہیں وہ تمہارے نبی نہیں ہیں اور کیا علی امیر المؤمنین نہیں ہیں یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی۔
عہد الست کی لوگوں نے بڑی ناقص تعمیر کی جو کہہ دیا کہ اقرار توحید تھا بس شیعہ مفسرین نے ثابت کردیا کہ اس مکار قطب اور محور تو امامت تھی اگر عدالت میں امامت کا ذکر نہ ہو تو انبیاء کی بعثت ہی عبث ٹہرتی ہے ۔ لہٰذا مخلوق جب صاب آدم میں بشکل ذر تھی اس سے امامت کا عہد لیا گیا تھا۔
مفسر البرہان نے ص 50 پر جو بات کی اس میں ایک کمی رہ گئی تھی لہٰذا آگے ص 52 پر وہ بھی پوری کردی۔
وتو بعده الناس متن سمى على اد والمونس ما انكر و ا فصله سمى امير العومة بين وادم بين الروب والحسد.
اگر لوگ جانتے کہ علی کو امیر المؤمنین کا لقب کب ملا تو اس کی فضیلت کا انکار نہ کرتے علی اس وقت امیر المؤمنین بنا جب آدم ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے۔
لوگ سچ کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ کو بنانے کے لیے کہیں اور جھوٹ بنانے پڑتے ہیں امامت کو دین و ایمان کا محور بنا دیا امامت کے دعوے اور اعلان کا ثبوت نہ ملا تو اسے عہد الست سے جوڑ دیا امامت پر ایمان کا مطالبہ جگ ہنسائی محسوس ہوئی تو حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو آدم کی پیدائش سے پہلے امیر المؤمنین بنا دیا۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا اور جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا کذب کر شمع ساز کرے۔
صاحب تفسیر البرہان نے روز میثاق میں انکار و اقرار کی وجہ دنیا میں اس کے کے اظہار کا بیان فرمایا:
9_ تفسیر البرہان 192:2
ثم دعو هو ان ولایتتان قربها و الله من أحب وانكرها من البعض و هي قوله تعالى وما كانو ليؤمنوا بما كن توا به من قبل.
پھر مخلوق کو ہماری امامت کی طرف دعوت دی تو بخدا جسے محبت تھی اس نے اقرار کیا ہو جسے بغض تھا اس نے انکار کیا یہ ہے اس آیت کا مطلب کہ جس کا وہ پہلے انکار کر چکے تھے. اسے کب ماننے والے تھے۔
ایک اور مفسر نے بات آگے بڑھائی ہے۔
10_ تفسیر عیاشی 124:2
وما كانو اليومنوا بما كذبوا به من قبل قال بعث الله الرسل إلى الخلق وهم في اصلاب الرجال وارحام النساء فمن صدق حینه را صدق بعد ذلك و من كذب حيثذ كذب بعد ذالک۔
اللّٰہ نے رسولﷺ اس وقت مخلوق کی طرف بھیجے جب لوگ آباؤ اجداد کے صلبوں اور ماؤں کے رحموں میں تھے اس وقت میں نے تصدیق کی اس نے دنیا میں بھی تصدیق کر دی اور جس نے اس وقت انکار کیا اس نے دنیا میں بھی انکار کیا یہ ہے اس آیت کا مطلب۔
صاحب تفسیر عیاشی نے رسولﷺ بھیجے لکھا ہے اماموں کا نام نہیں لیا ممکن ہے رسولﷺ سے اس کی مراد امام ہی ہو، بہر حال بات غور طلب یہ ہے کہ صلب ، پدر میں تو مادہ منویہ ہوتا ہے تو کیا مادہ منویہ کی طرف کوئی مادہ منویہ ہی رسول یا امام بنا کے بھیجا ؟
قاعدہ یہ ہے کہ رسولﷺ تو دار التکلیف میں مکلفین کے لیے مبعوث ہوتے ہیں۔ ماده مسخر کو کو از ما رسول تبلیغ کرتا ہے ۔
دوسری بات ذرا علمی ہے کہ تمام اہل علم خواہ وہ شیعہ ہی ہوں اس امر پر متفق ہیں کہ معدوم من بیست معدوم کو خطاب کرنا ضمانت خالص اور زی جہالت ہے چنانچہ عالم الدین رملاز المجتهدین - علامہ جمال الدین ابی منصور حسن بن زین الدین شهید ثانی - متونی سنہ 1011
ص 123 نمبر 133 نمبر 125
ما وضع الخطاب المشافة نحو ايها الناس و يا ايها الذين آمنوا لا يعمر بصبغة من تأخر من زمن الخطاب و انمایشیت حكم الله بدليل الآخر وهو قول اصحابنا و اكثر اهل الخلاف و قلب قوم منهم إلى تناوله بصبغة لمن بعد هم ولنا ان لا يليق المعدومين بايها الناس و نحوه وانكاره مكابرة وايضاً فأن الصبي . والمجنون اقرب الى الخطاب من المعدوم لوجود هما و . ايضا فهما بالانسانية مع ان خطابها نحو ذلك ممتنع قطعا . فالمعدوم أجدر أن يمتنع
حاضرین کے لیے خطاب کے صیغے یا ایھا الناس اور یاایھا الذین آمنوا کون لوگوں کو شامل نہیں کیا جو زمانہ خطاب کے بعد آئیں گے یا جو بعد میں پیدا ہوں گے یا مسلمان جو غائبین کے حکم میں شامل ہوں گے نہ کسی اور دلیل خارجی سے یہی مذہب ہے شیعوں کا اور اکثر اہل سنت کا بھی اہل سنت ہے۔
نبی پاکﷺ ایک جماعت کہتی ہے کہ صیغہ خطاب کا بعد والوں کے لیے بھی ہے اور ہمارے شیعہ کے نزدیک معدوم کے لائق ہی نہیں کہ یا ایھا الناس وغیرہ سے اسے خطاب کیا جائے اور اس کا انکار صاف حماقت ہے پھر لڑکا نہ بالغ اور پاگل تو خطا کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ انسانیت کے وقت سے معدوم ہیں بمقابلہ معدوم ہے کیونکہ وہ تو انسانیت سے متصف بھی نہیں جب لڑکے پاگل کو احکام شرعی کا مخاطب بنانا جائز نہیں تو معدوم کو خطاب کرنا کہاں جائز ہے۔
ایک اور شیعہ محقیق لکھتا ہے۔
کنز الفوائد ___ابی الفتح محمد بن علی کراجکی متوضی ص14 ص448
والنشر في حال عدمه اون حال وجوده و محال ان یا مره وهو في حال عدمه لأن المعدوم ليس بنى فتوجه اليه الأمر و الذين پشتون انه شي في حال عدم من المتكلمين لا يخالفون في انه لا يصح ان يومر و كا يقيم من شئ ان يفعل الا ان يكون حيا تا قادرا ولا يصح منه أيضا أن يفعل الحكم المتقن الا بعد كونه المأكله على ان المعدوم الا يوفر والا مر منوج إلى الطفل بشرط البلوم وكذلك للأمر معد و هرشه در وجوده و عقله الخطاب واما الخطاب المعدوم والجمادات والاموات نمحال .
کوئی شے یا معدوم ہو گئی یا موجود اور حالت عدم میں خطاب کرنا محال ہے کیونکہ کوئی شے نہیں ہے لہذا خطاب کا اس کی طرف روح کرنا محال ہے اور جو لوگ معدوم کو شے کہتے ہیں وہ متکلفین اس پر متفق ہیں کہ اسے خطاب نہیں کیا جاتا خطاب صرف اسے کیا جاتا ہے جو زندہ ہو قوم پر قادر ہو ذی عقل اور زی فہم ہو، لڑکے کو خطاب اس وقت کرتے ہیں، جب وہ بالغ ہو چکا ہو اور معدوم کو خطاب اس وقت کرتے ہیں جب وہ موجود ہو چکا ہو اور بشر عقل ہو معدوم کو خطاب کرنا اور جمنارت اور مرد کو خطاب کرنا محال ہے۔
تشاد تونیر شیعہ کے ہر مسلے میں موجود ہے مگر یہاں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ علمائے شیعہ اپنے مذہب اسے بھی کما حقہ واقف نہیں ان دو اقتباسات سے ظاہر ہے کہ
1_احکام میں خطاب موجودین کو ہوتا ہے معدومین کو نہیں ۔
2_ انبیاء ہمیشہ مکلفین کو خطاب کرتے ہیں نا بالغوں اور دیوانوں کو نہیں کرتے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ صلب پدریں اور رحم مادر میں کون مکلف ہو گا اور کس پر ایمان لانے کا مطالبہ ہوگا ۔ شیعہ متکلم کس معدوم کو لا شے کہہ رہے ہیں شیعہ مفسر اس پر ایمان لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں بھلا لا شے پر بھی ایمان لایا جاتا ہے۔ نبیﷺ زندہ انسانوں کی طرف مبعوث ہوتے ہیں نطفوں کی طرف نہیں اور نبی اور امام کے درمیان نیست عموم خصوص مطلق کی ہے یعنی ہر نبی امام ہوتا ہے اور امام نبی نہیں ہوتا ۔ اس بنا پر نبی پر غیر نبی کو فضیلت دینا صاف کفر اور زندقہ ہے۔