Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین المومنون حقا (سچے مومن)

  نقیہ کاظمی

دلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (سچے مومن)

وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجٰهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا‌ لَّهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ۞ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَهَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا مَعَكُمۡ فَاُولٰۤئِكَ مِنۡكُمۡ‌ وَاُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلٰى بِبَعۡضٍ فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ‌ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ۞
(سورۃ الانفال: آیت، 74، 75 )
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لے آئے، اور انہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، وہ اور جنہوں نے انہیں آباد کیا اور ان کی مدد کی وہ سب صحیح معنوں میں مومن ہیں۔ ایسے لوگ مغفرت اور باعزت رزق کے مستحق ہیں۔ اور جنہوں نے بعد میں ایمان قبول کیا، اور ہجرت کی، اور تمہارے ساتھ جہاد کیا تو وہ بھی تم میں شامل ہیں۔ اور ان میں سے جو لوگ پرانے مہاجرین کے رشتہ دار ہیں، وہ اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے کی میراث کے دوسروں سے زیادہ حق دار ہیں۔ یقیناً اللہ ہر چیز کا پورا پورا علم رکھتا ہے
تشریح: گزشتہ آیات میں مہاجرین و انصار کے رشتہ موالات کا تذکرہ تھا اور ان آیات میں ان کی مدح اور ثواب کا ذکر ہے چنانچہ فرمایا:
وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجٰهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا الخ۔
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے ہجرت کرنے والوں کو پناہ دی اور ان کی مدد کی یعنی مہاجرین و انصار۔
اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا‌ الخ۔ 
ترجمہ: یعنی وہی سچے مومن ہیں کیونکہ انہوں نے ہجرت، نصرت دین ایک دوسرے کے ساتھ موالات اور اپنے دشمنوں کفار و منافقین کے ساتھ جہاد کر کے اپنے ایمان کی تصدیق ہے۔
لَّهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ الخ۔
 ترجمہ: ان کے لیے مغفرت، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ جس سے ان کی برائیاں محو کردی جائیں اور ان کی لغزشیں ختم کردی جائیں گی۔
وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ۞
ترجمہ: اور عزت کی روزی یعنی ان کے لیے اللہ کی طرف سے نعمتوں بھری جنتوں میں خیر کثیر ہے۔ بسا اوقات اس دنیا ہی میں انہیں بہت جلد ثواب عطا کر دیا جاتا ہے جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور دل مطمئن ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ ان مہاجرین و انصار کے بعد آئیں، نیکیوں میں ان کی اتباع، ایمان لائیں، ہجرت کریں اور اللہ کے راستے میں جہاد کریں۔
فَاُولٰۤئِكَ مِنۡكُمۡ‌ الخ۔
ترجمہ: پس وہ لوگ تم ہی میں سے ہیں ان کے وہی حقوق ہیں جو تمہارے حقوق ہیں اور ان کے ذمے وہی فرائض ہیں جو تمہارے ذمے ہیں۔ ایمان پر مبنی یہ موالات اسلام کے ابتدائی زمانے میں تھی۔ اس کی بہت بڑی وقعت اور عظیم شان ہے حتیٰ کہ نبی مصطفیٰﷺ‎ نے مہاجرین و انصار کے درمیان جو اخوت قائم کی تھی، وہ خوص اخوت تھی جو اخوت عامہ و ایمانیہ کے علاوہ ہے، حتیٰ کہ ہے وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بنے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرما دی:  
وَاُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلٰى بِبَعۡضٍ فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ‌ الخ۔
ترجمہ: اور رشتے دار آپس میں زیادہ حق دار ہیں ایک دوسرے کے، اللہ کے حکم میں اس لیے میت کی وراثت صرف انہی لوگوں کو ملے گی جو اصحابُ الفروض ہیں یا میت کا عصبہ ہیں اگر میت کا عصبہ اور اصحابُ الفروض موجود نہ ہوں تو ذو الارحام میں سے وہ لوگ وارث بنیں گے جو رشتہ میں میت کے سب سے زیادہ قریب ہیں جیسا کہ آیت کریمہ کا عموم دلالت کرتا ہے۔
فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ‌ الخ۔
ترجمہ: اللہ کی کتاب میں یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی کتاب میں۔
اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ۞
 ترجمہ: کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔ اس کے احاطہ علم میں تمہارے احوال بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مناسبت سے تم پر دینی اور شرعی احکام جاری کرتا ہے۔
یعنی جن مسلمانوں نے ابھی ہجرت نہیں کی ہے اگرچہ مومن وہ بھی ہیں لیکن ان میں ابھی یہ کسر ہے کہ انہوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا دوسری طرف مہاجرین اور انصار میں یہ کسر نہیں ہے اس لیے وہ صحیح معنیٰ میں مومن کہلانے کے مستحق ہیں۔‎ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب وہ مسلمان بھی بالآخر ہجرت کر آئے تھے جنہوں نے شروع میں ہجرت نہیں کی تھی، اس آیت نے ان کے بارے میں دو حکم بیان فرمائے ہیں، ایک یہ کہ اب انہوں نے چونکہ وہ کسر پوری کردی ہے جس کی وجہ سے ان کا درجہ مہاجرین اور انصار سے کم تھا، اس لیے اب وہ بھی ان میں شامل ہوگئے ہیں، اور دوسرا حکم یہ کہ اب تک وہ اپنے ان رشتہ داروں کے وراث نہیں ہوتے تھے جو ہجرت کر چکے تھے اب چونکہ وہ بھی ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے ہیں، اس لیے اب ان کے وارث ہونے کی اصل رکاوٹ دور ہوگئی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ انصاری صحابہ کو ان مہاجرین کا جو وارث بنایا گیا تھا اب وہ حکم منسوخ ہوگیا، کیونکہ وہ ایک عارضی حکم تھا جو اس وجہ سے دیا گیا تھا کہ ان مہاجرین کے رشتہ دار مدینہ منورہ میں موجود نہیں تھے، اب چونکہ وہ آگئے ہیں اس لیے میراث کا اصل حکم کہ وہ قریبی رشتہ داروں میں تقسیم ہوتی ہے، واپس آگیا۔
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ وَاِذَا تُلِيَتۡ عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُهٗ زَادَتۡهُمۡ اِيۡمَانًا وَّعَلٰى رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُوۡنَ۞ الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَ۞ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا لَهُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ وَمَغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ‌۞
(سورۃ الانفال: آیت، 2، 3، 4)
ترجمہ: مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں سے فی سبیل اللہ خرچ کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جو حقیقت میں مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں، مغفرت ہے اور باعزت رزق ہے۔
اِلَّا الَّذِيۡنَ تَابُوۡا وَاَصۡلَحُوۡا وَاعۡتَصَمُوۡا بِاللّٰهِ وَاَخۡلَصُوۡا دِيۡنَهُمۡ لِلّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ وَسَوۡفَ يُـؤۡتِ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏۞
(سورۃ النساء: آیت، 146)
ترجمہ: البتہ جو لوگ توبہ کرلیں گے، اپنی اصلاح کرلیں گے، اللہ کا سہارا مضبوطی سے تھام لیں گے اور اپنے دین کو خالص اللہ کے لیے بنالیں گے تو ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ شامل ہو جائیں گے، اور اللہ مومنوں کو ضرور اجرِ عظیم عطا کرے گا۔