Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

تحریف قرآن اور دین شیعہ

  مولانا اللہ یار خان

تحریف قرآن اور دین شیعہ

شیعہ کی عظمت اور فضیلت ثابت کرنے کے لیے تحریف قرآن کے ہتھیار سے جو کام لیا گیا ہے۔ اس کی چند مثالیں آپ گذشتہ باب میں دیکھ چکے ہیں۔ قدرتی طور پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ کو یہ عظمت صرف دین شیعہ کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے لہٰذا دین شیعہ سے بھی کچھ واقفیت ہونی ضروری ہے خواہ وہ اجمال ہی کیوں ہو۔ چنانچہ ہم دین شیعہ کی چند خصوصیات شیعہ آئمہ اور علماء کی زبانی پیش کرتے ہیں ۔

1) اصول کافی باب الکتمان 

امام جعفر فرماتے ہیں ۔

انكم على دين من كتمه اعزه الله ومن اذاعه الله الله .

تم ایسے دین پر ہو جس نے اس دین کو چھپا رکھا اللّٰہ اسے عزت دے گا اور جس نے دین کو ظاہر کر دیا اور پھیلا دیا اللّٰہ اسے ذلیل کرے گا۔

شیعہ وہ دین ہے جس کے چھپا رکھنے میں عزت ہے اور ظاہر کرنے میں ذلت ہے۔

سوال یہ ہے کہ شیعہ نے اپنی طرف سے جو کتابیں تصنیف فرمائیں ۔ مثلاً فقہ وغیرہ اور اماموں کی جو روایات اصلی یا نقل بنائیں اور پھیلائیں اور کتاب اللہ کی جو الٹی سیدھی تفسیر میں شائع کر ڈالیں کیا یہ دین کو چھپانا ہے یا ظاہر کرنا ہے، اگر یہ چھپانا نہیں کہلا سکتا تو یہ لازماً ظاہر کرنا ہوا۔ امام کے فرمان کے مطابق اس کا نتیجہ ذلت ہے مگر شیعوں میں تو بڑے بڑے معزز حضرات موجود ہیں۔ پھر امام کا قول کیونکر صحیح ہوا ! اللّٰہ سے یہ عقیدہ کھلتا ہے کہ انسانوں کے نزدیک ایسے شیعہ کتنے ہی معزز کیوں نہ ہوں اللّٰہ کے ہاں وہ ان کا ولی ہیں۔ اگر انہیں ذلیل نہ مانیں تو امام کو جھوٹا تسلیم کرنا پڑتا ہے، لہٰذا اب انسان خود فیصلہ کرے کہ اسے کونسی بات تسلیم کرنی ہے۔

2) فصل الخطاب___ علامه نوری طبری ص80

عن موسى بن جعفى عليهما السلام في حديث طويل فيه ولا تعلموا هذا الخلق اصول دین الله على ارضوا بما رضى الله لهم من ضلالهم .

امام موسیٰ بن امام جعفر سے ایک طویل حدیث میں بیان ہوا ہے کہ مخلوق کو اصول دین کی تعلیم مت دو انہیں دین مت سکھاؤ بلکہ ان کی گمراہی پر تم بھی راضی رہو جیسا اللّٰہ تعالیٰ ان کی گمراہی پر راضی ہے۔

پہلی روایت امام جعفر کی ہے دوسری ان کے بیٹے کی ، لہٰذا بات پکی ہو گئی ، کہ دین شیعہ ایسا دین ہے جو نہ ظاہر کرنے کے قابل ہے نہ اس قابل ہے کہ کسی انسان کو اس کی تعلیم دی جائے، پھر یہ ہے کہ کس مرض کی دوا کی ضرورت کا علاج -

دین نام ہی ضابطہ حیات کا ہے، اگر انسان کو جینے کا ڈھنگ سکھانا ذلت کا باعث ہو تو دین کی ضرورت کیا ہوئی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے دین اسلام کے متعلق بنیادی طور پر اعلان فرمایا ان الدين عند الله الاسلام کہ اللّٰه کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے پھر اس دین کے سکھانے کے لیے معلم انسانیت کی زبانی اعلان کرایا قل یا ایها الناس انی رسول الله اليكم جميعاً. کہ اسے بنی نوع انسان ! مجھے تمہاری طرف صرف اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں تمہیں دین سکھاؤں پھر اس معلم اور مزکی کو حکم دیا کہ اد الی سبیل ربک کہ لوگوں کو اپنے رب کے رستے کی طرف بلا یعنی دین اسلام کی دعوت دے اور یہ بات بار بار کہلوائی مثلاً : قل هذا سبيلي ادعوا الله على بصيرة اناه من اتبعنى - یعنی میں علی  وجہ البصیرہ اللہ کی طرف بلاتا ہوں میرا رستہ اور میرا دین یہی ہے اور جو میری اتباع کرے اس کا فریضہ بھی یہی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین شیعہ اللّٰہ کا پسندیدہ دین نہیں بلکہ سرے سے اللّٰہ کا دین ہی نہیں ورنہ اس دین کو ظاہر کرنے والا اللّٰہ کا مبغوض کیوں ہوتا۔

پھر یہ کر دیں شیعہ رسول کریمﷺ کا دین بھی نہیں کیونکہ آپ جس دین کے معلم اور نمائندے تھے اس کو چھپاتے نہیں تھے بلکہ علی وجہ البصیرت اس کی دعوت دیتے تھے۔

پھر یہ کہ دین شیعہ ان لوگوں کا دین بھی نہیں جو نبی کریمﷺ کے متبع اور پیرو ہیں، بلکہ یہ دین شیعہ کچھ ایسے ذہین لوگوں کا تیار کیا ہوا دین ہے۔ جو جانتے تھے کہ اسے ظاہر کرنا نری جنگ ہنسائی ہے لہٰذا قد غن لگا دی کہ جو ظاہر کرے گا وہ اللّٰہ کے ہاں ذلیل ہو گا۔ پہلی روایت میں اگر یہ الفاظ کہ "انکم علی دین"دینی امام جعفر کے ہیں تو اس سے ایک اور نکتہ ملتا ہے کہ امام جعفر کو زرارہ اور ابو بصیر علی نابغہ روزگار شخصیتوں کی کارستانیوں کا علم ہوگیا اور اس بات کا علم بھی ہوگیا کہ یہ لوگ ایسے لوگوں کا تیار کردہ دین قبول کر رہے ہیں۔ اس لیے انہیں تنبیہ کی کہ تم جس دین کو اپنا رہے ہو اسے ظاہر کرنا مفت کی ذلت قبول کرنا ہے نیز اس سے یہ نکتہ بھی ملا کر امام جعفر کا دین یہ نہیں تھا اس لیے فرمایا انکم علی دین ۔ اگر امام جعفر کا مذہب اسلام نہیں بلکہ دین شیعہ ہوتا تو فرماتے نحن على دين۔

3)فصل الخطاب ص 22 اور جال کشی

عن إلى بصير قال قال البوجعفر يقوم القائم با مر جدید و کتاب جدیدا۔

ابو بصیر کہتا ہے امام باقر نے فرمایا جب امام غائب ظاہر ہوگا تو نیا دین اور نئی کتاب لائے گا۔

اس روایت سے یہ عقدہ کھل گیا کہ پہلی روایت میں امام جعفر نے کیوں فرمایا کہ تم جس دین پر ہو اس کا ظاہر کرنے والا ذلیل اور اس کو چھپانے والا معزز ہے۔ امام باقر نے وضاحت فرما دی کہ دین شیعہ بالکل بے اصل ہے کیونکہ دین کی بنیاد کتاب پر ہوتی ہے جب شیعہ کے پاس کتاب ہی نہیں تو دین کہاں سے آ گیا ، البتہ امام نے شیعوں کی ڈھارس بندھائی کہ جس غائب امام کے تم منتظر ہو وہ آئے گا تو کتاب جدید لائے گا اور اس کتاب پر مبنی جدید دین بھی پیش کرے گا گویا دین شیعہ کی ابتداء اس روز ہو گی جب یہ دونوں چیزیں ظہور میں آئیں گی۔ رہا حال کا سوال تو ظاہر ہے کہ اب نہ اس کی کوئی اصل ہے نہ کوئی فرع بلکہ اس کی حیثیت وہی ہے جیسے کوئی ڈرامہ سٹیج کیا جاتا ہے کہ افسانہ بھی فرضی کردار بھی فرضی۔ محض وضع الوقتی کے لیے شوق پورا کرنے کی ایک صورت نکال لی گئی ہے۔

اس روایت میں لفظ " جدید ذرا کھٹکتا ہے۔ اگر امام غائب کتاب جدید لائے گا تو وہ کتاب قدیم کہاں گئی جو محمد رسول اللّٰہﷺ پر نازل ہوئی ۔ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے جمع کی۔ شیعہ اس کے انتظار میں دن گزار رہے ہیں اگر امام غائب نے بھی نئی کتاب لانی ہے تو شیعوں کی محرومی کی انتہا اس روز ہو گی جب امام قائم ظاہر ہوگا۔

کتاب تجدید کی صورت یہ بنی۔ رہا امر جدید کا سوال تو شیعوں کے لیے ایک اور جدید" مصیبت ہوئی کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے جو دین پیش کیا اور جو شریعت سکھائی وہ تو ہے قدیم. امام ظاہر ہو کر دین بھی نیا اور شریعت بھی نئی لائے گا۔ گویا اس دین اور شریعت کا دین محمد رسول اللّٰہﷺ اور شریعت محمد رسول اللّٰہﷺ سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ یعنی امام غائب جب ظاہر ہو گا تو شیعوں کے اس دعوے کے بطلان پر مہت صدیق ثبت کر دے گا کہ دین شیعہ کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ دین اسلام قدیم ترین دین ہے اور اس کی شریعت جو محمد رسول اللّٰہﷺ نے سکھائی وہ بھی قدیم ہے اور یہ دین اور شریعت جو امام نائب لائے گا وہ جدید ہوگی، لہٰذا امام کا ظہور شیعوں کے لیے گویا محرومی اور مایوسی کی انتہا ہوگی ۔