شیعہ اماموں کا تعارف
مولانا اللہ یار خانشیعہ اماموں کا تعارف
شیعہ کے نزدیک اماموں کی عظمت کے بیان کے بعد ان کے ائمہ کا کچھ تعارف بھی ضروری ہے۔
1_ تفسیر عیاشی 252:1، بحار الانوار علامہ مجلسی 210 تفسیر البر بان 386:11
فكان الامام على ثم كان الحسن ثم كان الحسين بن علی ثم کان علی بن حسین ثم كان محمد بن علی ابو جعفر وكانت الشيعة قبل ان يكونوا ابوجعفر وهم لا يعرفون مناسك حجھم ولا حلا لهم ولا حرامھم حتى كان ابو جعفر فحج لهم و بين لهم مناسك و حجھم و حلالهم وحرامھم حتی استفتوا اعن الناس وصار الناس يتعلمون لهم بعد ما كانوا يتعلمون من الناس۔
پہلے امام علی رضی اللّٰہ عنہ، پھر حسن رضی اللّٰہ عنہ پھر حسین بن علی رضی اللّٰہ عنہ پھر علی بن حسین رضی اللّٰہ عنہ پھر محمد بن علی ابو جعفر تھے اور ابو جعفر یعنی امام باقر سے پہلے شیعہ نہ تو حج کے احکام جانتے تھے نہ حلال و حرام سے واقف تھے حتیٰ کہ امام باقر نے ان کے لیے حج کیا اور شیعہ کو حج کے احکام بتائے اور انہیں حلال و حرام سے روشناس کرایا حتیٰ کہ شیعہ دوسرے لوگوں سے سیکھنے سے مستغنی ہو گئے اور اب لوگ ان سے سیکھنے لگے۔
اس تفسیری اقتباس میں گو بارہ میں سے صرف پانچ اماموں کا ذکر ہوا ہے مگر کئی اہم مسائل حل کر دیئے گئے مثلاً
1_ اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ شیعہ مذہب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حلال و حرام کا تعارف پانچویں شیعہ امام محمد باقر نے کرایا، اس سے پہلے شیعہ حلال و حرام کا تصور ہی نہیں رکھتے تھے ۔
2_ عبادات میں حج کی عبادت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور حج کے مناسک بھی امام باقر ہی نے شیعہ کو بتائے ۔
3_ مناسک حج صرف بتائے نہیں بلکہ عملی نمونہ دیتے ہوئے شیعوں کے سامنے حج کیا اور انہیں حج کرنا سکھایا۔
4_ امام باقر سے پہلے شیعہ اپنے مذہب کے مسائل لوگوں سے سیکھتے تھے ۔مگر امام باقر کے بعد وہ ایسے عالم بن گئے کہ لوگ ان سے سیکھنے لگے ۔
یہ چاروں باتیں جہاں نہایت اہم ہیں وہاں ان سے کئی سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں مثلاً دین خواہ دین حق ہو یا دین باطل اس کی بنیاد اس وقت پڑتی ہے جب اس کے ماننے والوں کے لیے جائز و ناجائز یا حلال و حرام میں حد فاصل مقرر کی جائے اس کے بغیر دین کا کوئی تصور ہی ذہن میں نہیں آ سکتا دنیا کے مذاہب بلکہ دنیا کی کسی تحریک کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے اس کی ابتداء ہی اس سے ہو گی کہ یہ کام کرنے کا ہے یا نہ کرنے کا اور اگر شرعی اصطلاح استعمال کی جائے تو کہا جائے گا کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ۔ اس بات پر مزید غور کیا جائے تو معلوم ہوگا۔ اعمال میں اس تقسیم کی بنیاد دراصل وہ عقیدہ ہوتا ہے وہ فکر ہوتی ہے جو صحیح اور غلط جائز وناجائز کی تعین کرتی ہے ۔ اس سے ثابت ہوا شیعہ مذہب کی ابتداء ہی پانچویں امام سے ہوئی ۔ اس سے پہلے جب انہیں حلال و حرام میں تمیز نہیں تھی بلکہ اس کا تصور ہی نہیں تھا تو ان کے مذہب کے وجود کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
(ب) اس سے دوسرا سوال یہ پھوٹتا ہے کہ حلال و حرام تو پانچویں امام نے سکھایا تو پہلے چار کیا کرتے رہے ؟ کیا ان کو حلال و حرام کا علم تھا یا نہیں ؟
اگر علم تھا تو انہوں نے اپنے شیعوں کو حلال وحرام میں تمیز کرنا کیوں نہ سکھایا ؟ اور اگر ان میں خود علم ہی نہیں تھا تو امام کس بات کے ہوئے؟
اگر علم تھا مگر سکھایا نہیں تو کیا خود بھی حلال و حرام کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی بسر کی یا ان قیود سے بے نیاز ہو کر رہے ؟
اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے حلال وحرام کا علم رکھتے ہوئے ان پابندیوں کے تحت زندگی بسر کی تو اس کا ثبوت کیا ہے ؟
دوسری بات سے بھی کئی سوال پیدا ہوتے ہیں مثلاً امام باقر نے شیعہ کو حج کرنے کی اٹکل سکھائی تو معلوم ہوا کہ اس سے پہلے شیعہ حج کرتے ہی نہیں تھے ۔
(ب) جب شیعہ کو حلال و حرام کا علم نہیں تھا تو اس کا کب علم تھا کہ حج کرنا حلال ہے
یا فرض ہے یا عبادت ہے ۔
(ج) نبی کریمﷺ نے اپنی امت کو مناسک حج بتائے پھر حجتہ الوداع میں حضورﷺ نے خود حج کرنے کا عمل نمونہ پیش کیا ۔ دین کی تکمیل ہو گئی اور حضورﷺ نے حکم دے دیا۔ فليبلغ الشاهد الغائب تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ حج کے مسائل جو حضورﷺ نے بتائے وہ شیعوں کی سمجھ میں نہیں آئے یا شیعوں کو حضورﷺ پر اعتماد نہیں تھا۔
اگر یہ دونوں باتیں نہیں تو یوں لگتا ہے جیسے شیعہ کا حضورﷺ کے وقت وجود ہی نہیں تھا اور حجتہ الوداع میں کوئی شیعہ شریک نہیں ہوا۔
(د) امام باقر سے پہلے شیعوں نے کبھی حج نہیں کیا۔
تیسری بات کہ امام باقر نے شیعوں کو عملی طور پر حج کرنا سکھایا۔
اس سے ظاہر ہے کہ پہلے چار اماموں نے شیعوں کو حج کے مسائل نہیں بتائے اور کوئی حج نہیں کیا اگر وہ حج کرتے تو اپنے شیعوں کو حج کے مسائل کیوں نہ بتاتے اور اور سکھاتے، اگر انہوں نے مسائل بتائے سکھائے اور حج کئے تو شیعوں نے اپنے چار اماموں پر یہ تہمت کیوں لگائی کہ ہمیں تو کسی نے حلال و حرام کی تمیز بھی نہیں سکھائ جن کا اپنوں کے ساتھ یہ سلوک ہے غیروں کو ان سے کیا توقع ہے ۔
تمہارا تھا دوستدار حالی اور اپنے بیگانے کا رضا جو
سلوک اس سے کئے یہ تم نے تو ہم سے کیا کیا نہ کیجئے گا
4_ چوتھی بات کہ امام باقر سے پہلے شیعہ اپنا دین لوگوں سے سیکھتے تھے۔
(الف) سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کون تھے ؟
(ب) لوگ سے مراد امام تو ہو نہیں سکتے کیونکہ شیعہ کا اعتراف ہے کہ امام باقر سے پہلے انہیں دین کے بنیادی مسائل بلکہ حرام و حلال کا بنیادی مسئلہ بھی کسی امام نے نہیں بتایا۔
(ج) لوگ سے مراد صحابہ رضی اللّٰہ عنہم ہو سکتے ہیں مگر شیعوں کا اعتراف ہے کہ تین کے بغیر سب صحابہ رضی اللّٰہ عنہ (معاذ اللّٰه) مرتد ہو گئے تھے، لہٰذا شیعوں سے بعید ہے کہ وہ مرتدوں سے دین سیکھتے۔
(د) جو تین رہ گئے ان کے متعلق شیعہ کا عقیدہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بھی اپنے دل کی نہیں بتاتے تھے جیسا بیان ہو چکا ہے کہ سلمان اگر اپنے دل کی بات اپنے بھائی کو بتا دیتا تو وہ اسے قتل کر دیتا۔ حالات کی نزاکت کا جب یہ عالم تھا تو کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ شیعوں کو وہ کوئی سچی بات بتاتے۔ اب صرف تین جماعتیں باقی رہ گئیں مشرکین، یہود اور نصاریٰ تو ممکن ہے کہ شیعوں نے اپنا دین ان میں سے کسی جماعت کے لوگوں سے یا سب جماعتوں کے لوگوں سے سیکھا ہو۔
(لا) امام باقر کے بعد لوگ شیعوں کے محتاج ہو گئے یہ محتاجوں کی جماعت کونسی تھی ۔ مسلمانوں نے دین اسلام یا تو نبی کریمﷺ سے سیکھا یا حضورﷺ کے بعد صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم سے سیکھا انہیں شیعوں کی کوئی محتاجی نہ تھی رہ گئے مشترکین ، یہود اور نصاریٰ تو ممکن ہے تو ممکن ہے شیعوں نے اپنے استاتذہ کی نسلوں کو وہی دین سکھایا ہو جو انہوں نے اس کے آباؤ اجداد سے سیکھا تھا۔ مگر اس کا امکان بھی بہت کم ہے کیونکہ چھٹے امام نے اعلان کر دیا تھا کہ تم جس دین پر ہو اگر تم نے اسے ظاہر کیا تو اللّٰہ تمہیں ذلیل کرے گا اگر شیعوں کو امام پر اعتماد ہے تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی شیعہ اپنا دین کسی دوسرے کے سامنے ظاہر کر کے اللہ کے سامنے ذلیل ہو ۔ لہٰذا یہ بات کہ لوگ دین کے بارے میں شیعوں کے محتاج ہو گئے خواب کی بات معلوم ہوتی ہے ۔ رہی یہ بات کہ پانچویں امام سے پہلے شیعہ دوسرے لوگوں کے محتاج تھے ۔ شیعوں کی محتاجی کے پیش نظر خارج از امکان نہیں البتہ اس امکان کا رخ مشرکین یہود یا نصاریٰ طرف ہے مسلمانوں سے سیکھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
اصول کافی طبع جدید 31:3 پر یہی بات ذرا سے لفظی اختلاف کے ساتھ بیان ہوی ہے۔
شرح اصول کافی میں اس حدیث کا ترجمہ لکھتے ہوئے فرمایا شیعہ پیش از ابی جعفر مناسک حج و حلال و حرام "خود را هم نمی دانستند " اس روایت پر طویل غور و فکر کے بعد جو نتیجہ حاصل ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے۔
(1) نبی کریمﷺ کے زمانے میں شیعہ مذہب موجود نہیں تھا اور نبی کریمﷺ نے اس مذہب کی تعلیم مطلق نہیں دی۔
(2) شیعہ کے پہلے چار مزعومہ اماموں کے زمانے میں بھی شیعہ مذہب کا وجود نہیں تھا۔
(3) چوتھے سیدنا علی بن الحسین رضی اللّٰہ عنہ کا سن وفات 91 ھ سے یعنی اسلام کی ابتدائی صدی میں شیعہ مذہب کا نام و نشان بھی نہ تھا۔
(4) شیعہ مذہب امام باقر سے شروع ہوا اور ظاہر ہے کہ امام باقر نبی نہیں تھے۔
لہٰذا اس مذہب کا تعلق نبی کریمﷺ بلکہ کسی نبی کریم سے بھی مطلق نہیں اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے ہماری کتاب ایجاد مذہب شیعہ اور تحذیر المسلمين عن عبید الکاذبین۔
(5) سیدنا باقر سے اس مذہب کا آغاز تسلیم کیا جائے اور اس کے بغیر چارہ نہیں تو لازماً امام باقر کو نبی ماننا پڑے گا اور یہ عقیدہ ختم نبوت کے منافی اور صریح کفر ہے۔