مسلمان عورت کا کافر مرد سے نکاح کرنے اور اولاد کا حکم
مسلمان عورت کا کافر مرد سے نکاح کرنے اور اولاد کا حکم
سوال: اگر ایک مسلمان عورت اپنی مرضی سے کسی کافر کے ساتھ نکاح کر لے تو اس سے پیدا ہونے والے بچوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: یہ ایک حقیقت ہے کہ عائلی زندگی میں سکون و اطمینان بنیادی چیز ہے، اس کے بغیر زندگی کا مزہ نہیں رہتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ میاں بیوی کے درمیان فطری اور اعتقادی ہم آہنگی پائی جائے۔ اس لئے شریعت کسی ایسے رشتہ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی جہاں زوجین کے درمیان اعتقادی خلیج ہو، اس لئے میاں بیوی کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ مزید برآں باہمی ہم آہنگی کے لئے کفاءت میں یکسانیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح کافر سے جائز نہیں، بلکہ یہ نکاح باطل ہے، اور اس مرد اور عورت کے باہمی تعلقات زنا کے زمرے میں شمار ہوں گے۔ لہٰذا اس باطل نکاح کے نتیجہ میں جو بچے پیدا ہوں گے، ان کا نسب باپ سے ثابت نہ ہو گا، بلکہ وہ ماں کے تابع ہوں گے۔
والدليل على ذٰلك ولا يجوز تزوج المسلمة من مشرك و كتابی كذافی السراج الوهاج
ترجمہ: مسلمان عورت کا نکاح مشرک اور کتابی (اہلِ کتاب) مرد سے جائز نہیں۔
قال العلامة الشامیؒ: نكح كافر مسلمة فولدت منه لا يثبت النسب منه ولا وتجب العدة لانه نكاح باطل:
ترجمہ: علامہ شامیؒ فرماتے ہیں کہ اگر کافر مرد نے مسلمان عورت سے نکاح کیا اور اس سے بچہ پیدا ہوا تو اس کا نسب اس کافر سے ثابت نہ ہو گا، اور نہ ہی اس عورت پر عدت واجب ہے۔ کیونکہ یہ نکاح باطل ہے۔
(فتاوىٰ عثمانيه جلد 5، صفحہ 118)