میری کہانی میری زبانی(میاں ذولفقار علی فیصل آباد )
میاں ذولفقار علی فیصل آبادمیری کہانی میری زبانی
میرے آبا و اجداد ضلع فیصل آباد کے ایک قصبہ میں رہتے ہیں میرے والد سبزی بیچ کر گھر کے اخراجات پورے کرتے تھے ہم تین بھائی اور تین بہنیں ہیں ہمارے شہر کے نزدیک تاندلیانوالہ میں میرے ننھیال کا گھر ہے میں بچپن ہی سے زیادہ تر وہیں رہااتفاق سے میرے ننھیال کے گھر کے ساتھ ہی اہل تشیع کا ایک امام باڑہ اگرچہ اس محلے میں مسلمانوں کی آبادی شیعہ سے زیادہ ہے لیکن پھر بھی محرموں کے دنوں میں دور دراز سے شیعہ عورتیں بچے اور جوان وہاں جمع ہو کر ایسا ہجوم بنا دیتے ہیں کہ اللہ کی پناہ دس دن تک اس محلے میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی پھر بھی اس محلے کے تمام مسلمان آنے والے شیعہ مہمانوں کی بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں یہ سلسلہ قیام پاکستان سے پہلے کا چل رہا ہے یہ امام باڑہ گوگیرہ بنگلہ کے ایک بڑے شیعہ جاگیردار نے اپنے گرہ سے جگہ خرید کا بنایا میں اس وقت تقریبا پندرہ سولہ سال کا تھا ہر سال عاشورا اور محرم کے دنوں میں باقاعدہ طور پر شیعہ کے ساتھ ماتم اور دیگر مجالس میں شریک ہوتاتھا اس وقت شیعہ کے مخصوص عقائد و نظریات کا عام لوگوں کو علم نہیں تھا نہ ہی مسلمان اس طرف توجہ دیتے تھے بلکہ لوگ حضرت سیدنا امام حسین ؓکی مظلومیت کے واقعات سن کر شیعوں کے ساتھ تمام خرافات میں شریک ہوتے تھے گھوڑے وتعزیئے کی پوجا کرتے اور کالے رنگ کے کپڑے پہنتے بدصورت ملنگوں کی عزت تعظیم میں مسلمان بھی اہل تشیع سے کم نہیں تھے میرے ننھیال کے آباواجداد قیام پاکستان سے پہلے سے یہاں آباد ہیں بڑے صاحب ثروت اور کاروباری لوگ تھے وہ اپنے آپ کو باقاعدہ شیعہ تو نہیں سمجھتے لیکن شیعوں کے تمام رسم رواج ان کے اندر ضرور پائے جاتے تھےان سب رسموں میں اہل بیت عظام کے ساتھ محبت عقیدہ کی وجہ سے شریک ہوتے تھے
ہائی اسکول میں ضمیر شاہ توقیرشاہ میرے کلاس فیلو تھے ان کے ساتھ میری پکی دوستی تھی ان کے گھر آنا جانا بھی تھا ان کی ایک بڑی بہن زینب ایک پرائمری اسکول میں پڑھاتی تھی سکول میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ وہ بہت اچھی تقریر بھی کرتی تھی پورے علاقے میں مجلسیں پڑھنے کے لئے بھی جاتی تھی عشرہ محرم میں ایک دن میں تین تین چار چار جگہوں پر مجلسیں پڑھتی تھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میٹرک کے امتحان کے وقت میری کوئی تیاری نہیں تھی میں ضمیر شاہ سے ملنے ان کے گھر گیا تو ان کی بہن نے پوچھا میٹرک کا امتحان کب ہو رہے ہیں میں نے تاریخ بتائی اور اتفاق سے عاشورہ بھی قریب ہی تھا میں نے کہا میری کوئی تیاری نہیں زینب نے کہا تم اگر منت مان لو کہ میں اس بار عاشورہ کے دن
سیدنا حسین ؓ کے غم میں زنجیرزنی کرو تو اس کی برکت سے تم میٹرک کے امتحان میں پاس ہو جاؤ گے اس وقت زینب کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی میں میٹرک کی تیاری کے بجائے زنجیر زنی میں پروگرام میں شامل ہونے کی تیاری کرنے لگا اور خیالات کی دنیا میں میٹرک اچھے نمبروں میں پاس کرکے کالج میں بھی داخل ہو چکا تھا دس محرم کو قریباً بارہ بجے ایک ذاکر تاج دین حیدری کی مجلس شروع ہوئی ماتم فضائل بیان کرتے ہوئے اس نے کہا ماتم انبیاء کی سنت ہے ماتم کرنے والوں کا حشر حضرت حسین کی غم خواروں میں ہوگا ماتم حسین کی مخالفت کرنے والے جہنمی ہے ماتم حسین ایک نظریہ کا نام ہے یہ حق اور باطل کے پیروکار کے لئے حد فاصل ہے ماتم تمام عبادتوں سے افضل عبادت ہے تاج الدین حیدری قریبا دو بجے مجلس پڑھ کر چلے گئےذوالجناح برآمدہوا اور ماتم شروع ہوگیا سنگلاں والہ چوک میں ماتم عروج پر پہنچ چکا تھا یہاں پر ضمیر شاہ نے مجھے زنجیریں پکڑادیں اور میں غم حسین میں قمیض اتار کر شروع ہوگیا اور میں نے اپنے جسم کو زنجیروں کے ساتھ بندھی ہوئی چوڑیوں سے مارنا شروع کر دیا میرا پورا جسم میرے اپنے خون سے تر ہو چکا تھا مجھے کچھ پتہ نہ چلا جب مجھے ہوش آیا تو میری نانی اماں دودھ کا گلاس لئے میرے سامنے کھڑی تھی اردگرد میرے ماموں کی بیٹیاں اور چھوٹے بھائی رو رہے تھے میری آنکھ کھلنے پر انہوں نے اللہ کا شکراداکیا اس کے بعد جس دکھ کے ساتھ مجھے دن گزارنے پڑے بیان نہیں کر سکتا میری کمر پر زخم کے اندر پیپ پڑ چکی تھی کمر کے ساری جلد اتر چکی تھی ہڈیاں نظر آنے لگیں جب تکلیف برداشت سے باہر ہوئی تو میں نے ضمیر شاہ سے ذکر کیا تو اس نے اپنے کسی جاننے والے سے ایک تعویذ بنا کر مجھے دیا اور کہا کہ اس تعویذ پر ساتھ جوتے مار کر اس کو آگ میں جلا دیا جائے مولا حسین کی برکت سے آپ کا زخم ٹھیک ہو جائے گا میں نے اپنے ماموں کے بیٹے علیم کو تعویذ دیا اس نے سات جوتے مارے اور کھول کر دیکھنے لگا تو اس میں سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ فاروق کے نام تھےنیچے دشمنان اہل بیت لکھا ہوا تھا اس وقت ہمیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہے آخر کار درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی مصداق زخم ٹھیک ہونے کی بجائے میرا پورا جسم گلنا شروع ہو گیا کئی مہینے تک میں کمر کے بل لیٹ نہیں سکا تھا آخر کار مجھے میو ہسپتال لاہور میں داخل کر دیا گیا وہاں وارڈبوائے نصیر کے ساتھ میری دوستی ہوئی اس کو میں نے سارے حالات بتائیں جب تعویذ والی بات بتائی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ خوب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا بے غیرت یار کہنے لگا کاش مولانا حق نواز جھنگوی آج موجود ہوتے مجھے کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی
وقت گذرتا رہا اور وہ روزانہ تین مرتبہ میرے زخم کو دھوتا لیکن زخم ٹھیک نہیں ہورہے تھے دو ہفتے اسی طرح گزرے وہ ایک رات تین بجے میرے پاس آیا میں زخموں کی درد کی وجہ سے کرہ رہا تھا میرا ہاتھ پکڑ کر میرے قریب بنچ پر بیٹھ گیا میں نے نظر اٹھائی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے مجھے اس کے اندر اپنائیت محسوس ہوئی کہ میں نے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا بےساختہ میں بھی رونے لگا اس نے کہا جب سے آپ یہاں داخل ہوئے میں نے اپنی پوری توانائی صرف کردی ہیں آپ کے زخموں کو روزانہ دھوتا ہوں لیکن زخم ٹھیک ہونے کی بجائے زیادہ خراب ہو رہے ہیں آپ کا درد مجھ سے دیکھا نہیں جاتا آپ کے حوصلے اور ہمت کو دیکھ کر میں بے چین ہو گیا ابھی دو نفل پڑھ کر اللہ پاک سے آپ کے لیے دعا کر رہا ہوں رات کے قریب چار بجے جب سب مریض سوئے ہوئے تھے اس نے سرگوشی میں لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی اس نے کہا جن لوگوں کے کہنے پر آپ نے اپنے خوبصورت جسم کو لہولہان کیا ہے یہ لوگ بہت بڑے دھوکے باز فتنہ پرور آل نبیؐ کے دشمن اور منافقوں کے سردار ہیں اس نےکہاشیعیت وجل فریب اور بے ایمانی کا نام ہے آپ اچھے اور شریف خاندان کے چشم و چراغ ہیں آپ شیعیت کے دجل و فریب میں کیسے آگئے ہو شیعہ تو خود اہل بیت اور آل نبی کا دشمن ہیں انہوں نے سیدنا حسین کو دھوکے سے کربلا بلایا پھر ان کو بے یارومددگار کرکے بچوں کے سمیت شہید کردیا میں نے کہا مولا حسین کو تو یزید نے شہید کیا ہے وہ مولا حسین کا دشمن تھا پھر اس نے ایک عجیب بات کی جس سے میرے تن بدن میں بجلیاں کوندنےلگیں لیکن میں خاموش رہا اس نے سوال کیا کہ بتاؤ حضرت حسین کو اٹھارہ ہزار خط لکھ کر بلانے والےشیعان علی میں سے کوئی ایک شیعہ بھی حضرت حسین کے ساتھ کربلا کے میدان میں شہید کیوں نہ ہوا دوسرا سوال اس نے یہ کیا کہ حضرت حسین جب کربلا پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ مجھے بلانے والے سب لوگ اپنے وعدے سے منحرف ہو چکے ہیں انہوں نے حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے تین شرطیں پیش کیں جن میں سے تیسری شرط یہ تھی کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو میں خود اس کے ساتھ معاملات طے کروں گا اس نے کہا کہ جب منافق کوفیوں نےدیکھاکہ حضرت حسین یزید کے پاس جانے کے لیے تیار ہو چکے ہیں جس سے ہماری سازش یعنی حضرت حسین کو بلاکریزید کےساتھ لڑانے کی سازش ننگی ہو جائے گی تو انہوں نے رات کی تاریکی میں حضرت حسین کے خیموں پر حملہ کرکے انہیں اور ان کے بچوں کو شہید کردیا نصیر کی یہ بات ایسی تھی جیسے اس کے تمام احسانات کے باوجود میں برداشت نہ کر سکا میں نے فورا اس کو ڈانٹ دیا ایسی باتیں میں نے پہلی بار سنی تھی وہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا سردیوں کی رات قریب پانچ بج چکے تھے اس نے کہا آپ کو میری باتیں اچھی نہیں لگی تو میں معافی چاہتا ہوں اس نے میرے پاؤں پکڑ لیا جس سے میرا غصہ ٹھنڈا ہوگیا وہ بولا کہ کربلا کی کہانی ابھی آپ کو سمجھ نہیں آئے گی آپ میرے ساتھ ایک وعدہ کریں تو پھر ہم دونوں مل کر تمہاری تندرستی کے لیے دعا کرتے ہیں اس وقت نصیر کا لہجہ اتنا عاجزانہ اور پیارا تھا کہ میں نے وعدہ کر لیا اس نے کہا آج اسی وقت آپ شیعیت سے پکی توبہ کریں آئندہ کبھی ماتم نہیں کریں گے نہ ہی شیعہ کی کسی مجلس میں شریک ہوں گے آپ کی سچی توبہ کے بعد ہی ہم دونوں آپ کے زخموں کی صحت یابی کے لیے دعا کر سکیں گے میں اپنے زخموں کی وجہ سے اتنا لاچار و بے بس ہو چکا تھا کہ میں نے اسی رات شیعیت کی رسم و رواج سے سچی توبہ کرلیں پھر اس نے میرے لیے دعا شروع کی وہ دعا کرتا رہا اور میں آمین کہتا رہا جب دعا ختم کرکے اس نے منہ پر ہاتھ پھیرا یقین جانو مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جس سے میرا درد بہت ہلکا ہو گیا ہو اگلے روز شام چار بجے وہ آیا تو اس کے ہاتھ میں چھوٹا ٹیپ ریکارڈر اور کان میں لگانے والے ائیر فون تھا اس نے کہا یہ دو کیسٹیں آپ کے لئے آپ کی صحت یابی کا پہلا تحفہ ہے انہیں غور سے سنیں میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی لیکن میں محسوس کر رہا تھا کہ میرا درد اور زخم کے ساتھ ٹھیک ہو رہے ہیں اس کے جانے کے بعد میں نے کیسٹ سٹارٹ کی بڑی گرجدار آواز تھی درد اور دکھ کے ساتھ ایک آدمی تقریر کر رہا تھا میں نے تقریر سننا شروع کی اس کی آواز کے جادومیں ہی کھو کر رہ گیا دل چاہ رہا تھا یہ بات سنتا ہی چلا جاؤں جب تقریر کے اندر اس نے امی امی کہہ کر پکارا تو میرا دل چیخ اٹھا یہ الفاظ لاکھوں میلوں کے فاصلہ طے کر کہ عرش عظیم پر پہنچنے والی ہیں مولانا حق نواز جھنگوی شہید رحمۃ اللہ کی پشاوراور اوکاڑہ والی تقریر تھیں ان تقریروں کا سننا تھا کہ میرے دل کی دنیا بدل گئی صرف ایک ہفتے کے اندر مکمل صحت یاب ہو کر اپنے گھر آ چکا تھا مولانا حق نواز جھنگوی اس وقت دنیا میں موجود نہیں تھے مجھے ان کی زیارت نہ کرسکنے کا دکھ ساری زندگی رہے گا نصیر میری خیریت دریافت کرنے میرے گھر کئی بار آیا اس نے مجھے سپاہ صحابہ شامل کرلیا مکمل طور پر جماعت کا کارکن بن چکا تھا ہمارے شہر کے خطیب مولانا ضیا الرحمان فاروقی سپاہ صحابہ کے سربراہ بن گئے تھے ان کے مدرسہ جامعہ عمر فاروق اسلامیہ میں باقاعدہ جمعہ پڑھنے لگا ابھی چند جمعے پڑے تھے وہ گرفتار ہو کر مولانا محمد اعظم طارق کے ساتھ جیل چلا گیا میں ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب آگیا جہاں پر مجھے علامہ ضیاءالرحمن فاروقی کی دھماکے میں شہادت کی اطلاع ملی تھی بڑا دکھ ہوا اس کے چند دن بعد پتہ چلا کہ لاہور سمن آباد کی ایک مسجد میں بم پھینکا گیا ہے جس میں کی نماز شہید ہو گئے ان میں ایک میرا پیارا دوست بھائی اور محسن نصیر بھی تھا نصیر کی شہادت کی خبر سن کر کئی دن تک سو نہ سکا کئی روز تک کام پر بھی نہ گیا ان حالات سے اتنا دل برداشتہ ہوا میں نے پاکستان جانے کا ارادہ ترک کر دیا اپنے بچوں اور بیوی کو یہاں ریاض میں بلا لیا یہاں ایک دوست کی وسعت سے مجھے آپ کا رسالہ نظام الخلاف راشدی ملا یقین جانے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان نہیں کر سکتا آپ خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں خدارا اس رسالہ کو بند نہ کیجیے اسے پوری دنیا کے اندر عام کیجئے سپاہ صحابہ کا کام اور مشن اس وقت سب سے بڑی ضرورت ہے میں مولانا محمد احمد لدھیانوی اور ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں کی عظمت کو سلام کرتا ہوں تمام قارئین اور جماعت کے کارکنوں کو خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں اپنی جان دے کر بھی مولانامحمداحمدلدھیانوی کی حفاظت کریں آپ کی وساطت سے اپنے دست بستہ سلام مولانا محمد احمد لدھیانوی تک پہنچانا چاہتا ہوں انشاللہ اپنی آمدنی کا ایک خاص حصہ مشن جھنگوی کے لئے وقف کرنے کا عہد کرتا ہوں اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
عبدالحمید ریاض سعودی عرب