حدیث الحوض
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہحدیث الحوض
ایک حدیث کو غلط طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ بعض صحابہؓ کو حضورﷺ کے حوض پر آنے سے روک دیا جائے گا ۔آپﷺ کہیں گے یہ تو میرے صحابی ہیں آپ کو جواب دیا جائے گا : انک لا تدری ما احدثوا بعدک ۔آپ نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی باتیں اختیار کرلی تھی۔
یہ غلط بیانی کیوں ہے ؟
حدیث کی رو سے یہ ذکر ان لوگوں کا ہے جنہیں آپﷺ چہروں سے نہ پہچان پائیں گے آپﷺ انہیں ان کے وضو کے آثار سے سمجھیں گے کہ وہ آپﷺ کی امت کے لوگ ہیں ۔سو یہ حدیث آپ کے صحابہ کرامؓ کے بارے میں نہیں ہے یہ آپﷺ کی امت میں آئندہ آنے والے لوگوں کے بارے میں ہے ۔آپﷺ اپنے ساتھ رہنے والوں کو تو ان کے چہروں سے جانتے اور پہچانتے تھے۔ قرآن کریم سےاس پر شہادت موجود ہے :
تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا (پارہ26،الفتح،آیت 29)
ترجمہ : آپ دیکھتے ہیں ان کو رکوع میں جاتے اور سجدہ کرتے یہ ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی۔
اس پس منظر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ حوض کوثر سے روکے جانے والے آپ کے صحابہ کرامؓ میں سے نہیں آپ کی امت کے مختلف ادوار کے بدعتی ہیں ۔انہیں اگر امت ہونے کے ناطے اصحاب کہا جائے تو یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں ہو گا وہ اصطلاحی معنی کی رو سے صحابی نہ ہوں گے انہیں اصحاب کہا جائے گا تو وہ اصیحابی کے معنی میں ہوگا۔
حدیث کی کتابوں میں سب سے پہلی معروف کتاب موطا امام مالک ہے اس میں یہ حدیث کتاب الطہارہ کے باب جامع الوضوء میں دوسری حدیث ہے اس میں صراحت سے اخوان کا لفظ ہے جو غور طلب ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ابھی صحابہؓ سے نہیں ملے۔ وہ ایک اور دور کے لوگ ہیں اور وہ مختلف زمانوں کے لوگ ہوں گے وہ عام امت کے لوگ ہوں گے صحابی نہ ہوں گے ان الفاظ سے یہ بات قارئین اچھی طرح سمجھ پائیں گی کہ ہم نے اسے غلط بیانی کیوں کہا ہے یہ اس لیے کہ اس کی خود حضور اکرمﷺ نے تصریح فرما دی ہے حضورﷺ نے فرمایا :
وددتُ أني قد رأيت إخواننا" قالوا: يا رسول الله، ألسنا إخوانك؟! قال: "بل أنتم أصحابي، وإخواني الذين لم يأتوا بعد، وأنا فرطهم على الحوض" قالوا: يا رسول الله، كيف تعرف من يأتي بعدك من أمتك؟! قال: "أرأيت لو كان لرجل خيل غير محجلة في خيل دهم بهم؟ ألا يعرف خيله؟
(موطا امام مالک جلد 1 صفحہ نمبر 23 مکتبۃ البشری )
ترجمہ: میں نے چاہا میں نے اپنے ان بھائیوں کو دیکھا ہوتا ۔۔۔۔۔۔میں اپنے حوض پر ان سے پہلے پہنچا ہوا ہونگا ۔صحابہؓ نے سوال کیا اے اللہ کے رسولﷺ آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو کیسے پہچانیں گے جو آپ کے بعد کے لوگ ہوں گے ۔آپﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتے کہ کسی کے سفید ماتھے کے روشن چمک اور سیاہ مشکیں گھوڑے ہوں کیا وہ انہیں ان کے رنگ سے نہیں پہچانتا ؟
اس حدیث میں لفظ امت صریح طور پر وارد ہے یہ بتلا رہا ہے کہ وہ لوگ عام احاد امت میں سے ہوں گے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نہ ہوں گے ۔
موطا امام مالک کی یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ان الفاظ میں ملتی ہے ۔
وحدثني........مالك جميعا عن العلاء بن عبد الرحمن عن ابيه عن ابي هريره ان رسول الله صلى الله عليه واله وسلم اتى المقبرة فقال السلام عليكم دار قوم مؤمنين وانا ان شاء الله بكم لاحقون
(موطا الامام مالك ص 51 مكتبه البشرى )
"وددتُ أنا قد رأيناإخواننا" قالوا: أولسنا إخوانك یارسول للہ قال: "بل أنتم أصحابي، وإخواننا الذين لم يأتوا بعد، وأنا فرطهم على الحوض" قالواكيف تعرف من لم يأتي بعد من أمتك؟! قال: "أرأيت لو ان لرجل خيل غير محجلة بین ظھری في خيل بهم ؟ ألا يعرف خيله؟" قالوا: بلى یارسول اللہ قال: "فإنهم يأتون يوم القيامة غُرًا محجلين من الوضوء وأنا فرطهم على الحوض الا ليذادن رجال عن حوضي كما يذاد البعیرالضال اناديهم الاهلم فيقال انهم قد بدلو ابعدك فاقول سحقا سحقا"
(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 127 )
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں ایک دفعہ حضورﷺ قبرستان گئے ۔آپﷺ نے وہاں فرمایا اے مومنوں کے گھر میں رہنے والو! تم پر سلام ہو اور ہم بھی انشاءاللہ اس جہاں میں تم سے آملنے والے ہیں ۔میں چاہتا ہوں میں نے اپنے ان بھائیوں کو دیکھا ہو میں ان سے پہلے اپنے حوض پر پہنچا ہوں گا صحابہؓ نے سوال کیا اے اللہ کے رسولﷺ کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟آپ نے فرمایا تم میرے صحابی ہو اور بھائی وہ ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئے اور میں ان سے پہلے حوض پر پہنچوں گا انہوں نے کہا ۔حضورﷺ آپ اپنے ان امتیوں کو کیسے پہچانے گے جو آپ کے بعد پیدا ہوئے آپﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کسی کے روشن چمک کے گھوڑے سیاہ مشکیں گھوڑوں کے ساتھ ہو وہ اپنے گھوڑوں کو نہ پہچان پائے گا صحابہؓ نے کہا کیوں نہیں آپ نے فرمایا میرے وہ امتی اپنی وضو کے اثر سے چمکتی پیشانیوں سے پہچانے جائیں گے میں ان سے پہلے حوض پر پہنچا ہوا ہوں گا ایسا نہ ہو کہ میرے حوض سے کچھ لوگوں کو اس طرح روک دیا جائے جیسے کہ کسی راہ گم کردہ اونٹ کو روک دیا جاتا ہے ۔میں انہیں آواز دیتا ر ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں اور مجھے غیب سے یہ آواز دی جائے کہ انہوں نے آپ کے بعد آپ کے دین کو بدل دیا تھا پھر میں کہوں گا تم دور رہو پیچھے ہٹو میں تمہیں دیکھنا نہیں چاہتا۔
اس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے دین کو بدلنے والے بدعتی حضورﷺ کے صحابہؓ میں سے نہ ہوں گے آپ کی امت میں سے ہوں گے اور بعض طرق حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک قوم نہ ہوں گے آپﷺ نے فرمایا: ان کے لئے لفظ اقوام استعمال کیا۔
ليردن علي اقوام اعرفهم ويعرفونني ثم يحال بيني وبينهم
(کشف المغطی عن وجہ الموطا جلد 1 صفحہ63)
ترجمہ: میرے سامنے (یہ بدعتی) کئی قوموں کے لوگ ہوں گے میں ان کو پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے پھر میرے اور اُن میں ایک روک ڈال دی جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں کہوں گا یہ مجھ سے دور رہیں دور رہیں۔
اس روایت میں اقوام کا لفظ ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ بدعتی ایک دور کے لوگ نہ ہوں گے مختلف ادوار کے ہوں گے ظاہر ہے کہ یہ بات عہد صحابہؓ کی نہیں ہو سکتی اس لئے آپﷺ نے انہیں بھائی کہا صحابی نہ کہا ۔شیعہ ذاکرین حدیث حوض کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کو بد نام کرتے ہیں اور یہ حدیث ان کے اس جھوٹ کو پوری طرح بے نقاب کرتی ہے۔
حضرت امام احمد ؒ کی ایک روایت میں ان کے صحابیؓ نہ ہونے کی اس طرح بھی تصریح موجود ہے
عن انس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه واله وسلم طوبي لمن امن بي وراني مرة و طوبي لمن امن بي ولم يراني سبع مرار
(مسند احمد جلد 2 صفحہ 37 رقم الحدیث 12578 )
ترجمہ: بشارت ہے اس کے لئے ایک دفعہ، جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات مرتبہ بشارت ہے اس کے لئے جو مجھ پر ایمان لایا اور اس نے مجھے دیکھا تک نہیں (سات سےیہاں کثرت مراد ہے۔)
حافظ جلال الدین سیوطی ؒ نے جامعہ صغیر میں اسے حسن کہا ہے اس پر صحیح ہونے کا نشان لگایا ہے اور شارح جامع صغیر علامہ عزیزی نے اسے صحیح کہا ہے ( ترجمان السنہ جلد 2 صفحہ 6 )
اہلِ بدعت کے مختلف حلقے
یہ حدیث اس دین میں بدعات لانے والوں کی پر زور تردید کرتی ہے وہ اس امت میں دین میں بدعت پیدا کرنے والے مختلف حلقوں کے لوگ ہوں گے اور ان کی بدعات اپنی اپنی ہوگی۔
بدعات فی العقائد کے لوگوں میں معتزلہ، جہیمیہ، قدریہ شیعہ اور خوارج وغیرہ مختلف پہلو سے دین میں بدعات لانے والے ہوئے اور بدعات فی الاعمال کے مجرموں میں سالانہ ماتمی جلوس نکالنے والے بھی اور حرمین شریفین میں کفر کے پھر سے داخل ہونے کا عقیدہ رکھنے والے اور اذانوں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے خلاف مختلف اضافہ کرنے والے اپنی اپنی بدعات کی رو سے اہل بدعت سمجھے جاتے ہیں سو اس روایت میں اقوام کا لفظ ان مختلف دعاة الی البدعات کا پتہ دے رہا ہے۔ تاہم اس روایت کے حوالے سے اور اس کی تمام روایات اور طرق کو سامنے لانے سے یہ بات یقینی اور قطعی ٹھہرتی ہے کہ یہ لوگ ایک طرح کے بدعتی نہ ہوں گے اور صحابہ کرامؓ پر اس کی چھینٹ تک نہیں پڑتی۔ بدعت کی حدیں صحابہؓ کے بعد شروع ہوتی ہیں کسی صحابیؓ کے کسی دین کے کام کو بدعت نہیں کہا جا سکتا ۔ان میں جو جنگیں ہوئیں اور اختلافات ہوئے وہ انتظامی اور سیاسی کاموں میں ہوئے دین کے کسی عمل پر ہرگز کوئی اختلاف نہ تھا اور فروع میں ان میں جو اختلاف ہوئے وہ اس اجتہاد کی راہ سے ہوئے ۔حق اور باطل کے فاصلوں سے نہیں حضرت علی المرتضیؓ اور حضرت معاویہؓ کے اختلاف میں حضرت علی مرتضیؓ کا کھل کر کہنا کہ ہم دونوں کا دین ایک ہے۔ ہمارے اس موقف کی کھلی تائید کرتا ہے علامہ رضی شریف نے آپ کی زبان مبارک سے الامر واحد کے الفاظ نقل کئے ہیں :
وكان بدء امرنا انا التقينا والقوم من اهل الشام والظاهر ان ربنا واحد ونبينا واحد ودعوتنا في الاسلام واحدة لا نستزيدهم في الايمان بالله والتصديق برسوله ولا يستزيدوننا الامر واحد
( نہج البلاغہ جلد 3 صفحہ776)
ترجمہ: ہماری ابتدائی صورتحال یہ تھی کہ ہم اور شام والے( میں اور معاویہؓ) آمنے سامنے آئے اس عقیدے سے کہ ہمارا اللہ ایک نبی ایک اور دعوت اسلام ایک تھی نہ ہم ایمان باللہ اور اس کے رسول کی تصدیق میں ان سے کچھ زیادتی چاہتے تھے اور نہ وہ ہم سے کسی اضافے کے طالب تھے ہم میں بالکل اتحاد تھا سوائے اس اختلاف کے جو ہم میں خون عثمانؓ کے بارے میں پیدا ہوا اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے بالکل بری الذمہ ہیں۔
حضورﷺ کے صحابہؓ میں کسی نے کسی دوسرے صحابی پر یہ الزام نہیں لگایا کہ وہ حضورﷺ کے نام سے کوئی غلط بات کہہ رہا ہیں یا اس نے کوئی حدیث گھڑی ہے دین میں ہرگز کوئی اختلاف نہ تھا ۔ایک نبی کے الفاظ سے ختم نبوت کے عقیدے پر دونوں کا ایمان ایک ساتھ تھا ۔
امام مالک ؒ کی اس روایت سے صاف عیاں ہے کہ حضورﷺ ان لوگوں کو پہچانتے نہ تھے جو اس وقت حوض پر آئیں گے اور ان لوگوں کے بارے میں حضورﷺ کو اس وقت پتہ چلے گا کہ انہوں نے آپ کے دین کو بدلا تھا اور وہ کئی طرح کی بدعات دین میں لے آئے تھے۔ اس کے برخلاف شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خلفائے ثلاثہ کے بارے میں حضورﷺ کو شروع سے پتا تھا کہ وہ آپ پر ایمان لائے ہوئے نہیں سو امام مالک ؒ کی یہ مذکورہ روایت کسی طرح صحابہ کرامؓ کے بارے میں قبول نہیں کی جا سکتی ۔
سنی شیعہ اختلاف پانے والوں میں یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ شیعہ اس بات کے مدعی ہیں کہ حضورﷺ ان دین بدلنے والوں کو اپنے دور زندگی میں خوب پہچانتے تھے کہ یہ منافق ہیں اور حضورﷺ نے (معاذ اللہ) اپنے امتیوں کو تقیہ کی تعلیم دے رکھی تھی کہ وہ انہیں مسلمان کہتے رہے اور سمجھتے بھی رہے ہیں اور اس گمان میں انہوں نے خلافت کی بیعت میں اگر کچھ دیر بھی کی لیکن نماز میں ان کی امامت سے ایک نماز کی بھی تاخیر نہ کی۔
ان روایات کی روشنی میں اس میں ہرگز کوئی شائبہ اختلاف نہیں رہتا کہ حدیث حوض میں جن کو آگے آنے سے روک دیا جائے گا ان سے مراد حضورﷺ کے معروف صحابہ کرامؓ ہرگز نہ تھے ۔حدیث حوض کے ان الفاظ اور اس روایت کے جملہ طرق و اسانید پر نظر کر کے یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس میں شیعہ علماء کی غلط پروپیگنڈے میں صداقت کی کوئی رمق تک نہیں ۔
اس وقت ہم صرف حدیث حوض کی وضاحت کر رہے ہیں اور یہ بات ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ کتاب وسنت کی روشنی میں ان لوگوں کا پتہ کریں کہ کون کون اس حدیث کا مصداق ہیں ۔اثناعشریوں نے جو اپنے عقائد میں تقیہ کو عبادت کا درجہ دیا ہے اس سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے دین میں کئی مختلف راہیں اختیار کرنے کے باوجود انہیں عین دین کہتے رہے ہیں۔