حدیث دوازدہ امیر (حدیث 12 امام)
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہحدیث دوازدہ امیر (حدیث 12 امام)
دنیا میں عام انسانی زندگی ایک اجتماعی پیرایہ میں چلتی ہے انسان فطری طور پر ایک تمدن کا محتاج ہے۔انسانوں کا ہر حلقہ اپنی ضروریات پوری کر کے دوسروں کی ان کے حلقوں میں کوئی ضرورت پوری کر رہا ہے۔ہر حلقے میں کام کرنے والے کسی کو بڑا بنا کر اپنی یہ تمدنی ضرورت پوری کرتے ہیں ہر انسانی سوسائٹی کو ایک امیر کی اپنی تمدنی زندگی میں ضرورت ہے۔حضرت علی مرتضیؓ اس ضرورت کو ایک لا بدی (جس کے بغیر کام نہ چل سکے) ضرورت کہتے ہیں شریف رضی آپ سے نقل کرتا ہے آپ نے کہا۔
إِنَّهُ لاَبُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِير بَرّ أَوْ فَاجِر، يَعْمَلُ فِي إِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ، وَيَسْتَمْتِعُ فِيهَا الْكَافِرُ، وَيُبَلِّغُ اللهُ فِيهَا الْأَجَلَ، وَيُجْمَعُ بِهِ الْفَيءُ، وَيُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ، وَتَأْمَنُ بِهِ السُّبُلُ، وَيُؤْخَذُ بِهِ لِلضَّعِيفِ مِنَ الْقَوِيِّ، حَتَّى يَسْتَرِيحَ بَرٌّ، وَيُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِر۔
(نہج البلاغہ جلد اول خطبہ 40،ص184 مترجم مخل حویلی موچی دروازہ لاہور )۔
ترجمہ: لوگوں کے لئے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے وہ اچھا ہو یا برا، اگر وہ اچھا ہوگا تو مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گااور اگر برا ہوگا تو کافر اس کے عہد میں لذائد سے بہرہ اندوز ہوگا اور اللہ اس نظام حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا۔ حاکم کی وجہ سے مال خراج اور غنیمت جمع ہوتا ہے اور دشمن سے لڑا جاتا ہے راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزورکو حق دلوایا جاتا ہے یہاں تک کہ نیک حاکم راحت پائے اور برے حاکم کے مرنے یا معزول ہونے سے دوسروں کو راحت پہنچے۔
حضرت علیؓ کے اس ارشاد کی اہل سنت کی کتابوں سے بھی اس طرح تصدیق ملتی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں حضورﷺ نے فرمایا۔
إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ ، يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ ، وَيُتَّقَى بِهِ ، فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَلَ ، كَانَ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرٌ ، وَإِنْ يَأْمُرْ بِغَيْرِهِ كَانَ عَلَيْهِ مِنْهُ
(صحیح مسلم ج2،ص 126)
ترجمہ: بیشک امام(امیر) ایک ڈھال ہے۔جس کے ماتحتی میں دشمن سے لڑا جاتا ہے اور بچا جاتا ہے۔اگر وہ اللہ کے ڈر سے چلے اور عدل کریں اسے اس پر اجر ملتا ہے اور اگر تقوی کے بغیر چلے تو اس زیادتی کا بوجھ اسی پر آتا ہے۔
حضرت امام نووی ؒ کی اس شرح میں لکھتے ہیں کہ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ سے مراد کفار مسلم بخاۃ، خوارج اور سب اہل فساد ہیں اور يُتَّقَى بِه سے مراد دشمن کے شر اور مطلق اہل فساد کے شر سے بچنا ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم دو طرح کے ہوتے ہیں اچھے ہوں یا برے اور نظام مملکت اور سلطنت ان کے بغیر چل ہی نہیں پاتا اور یہ وہی بات ہے جو حضرت علی مرتضیٰؓ نے بقول شریف رضی کہی ہے۔سو امیر کا ہونا ضروری ہے چاہے اچھا ہو یا برا ہر مذہب سوسائٹی میں امیر کی ضرورت سے چارہ نہیں وہ کس طرح بھی ہو۔ اسلام کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ایک پیشن گوئی فرمائی کہ بارہ امیروں تک حوزہ اسلام اس قدر قوی اور منیع رہے گا کہ حوزہ اسلام پر حملہ کرنے کی کسی دشمن کو ہمت نہ ہوں گی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو شیعوں نے خوامخواہ بارہ امام کی حدیث بنا لیا ہے ۔اور وہ اسے اپنے بارہ اماموں پر لائے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کو یکسر بھول جاتے ہیں کہ یہ حدیث حکمرانوں کے بارے میں ہے اور ان کے بارہ اماموں میں سے نو امام تو اس طرح رہے کہ ایک دن بھی وہ حکومت کہیں نہ کر پائے۔اس پہلو سے تاریخ کے بارہ حکمرانوں میں کون ہےاور کون نہیں اس میں اختلاف ہو سکتا ہے۔قطع نظر اس سے یہ بات روز روشن سے زیادہ واضح ہے اس حدیث سے مراد اثناعشریوں کے بارہ امام ہرگز مراد نہیں ہیں کیوں کہ ان میں تو کئی ایک دن بھی حکومت نہ کر پائے۔ حضرت امام زین العابدین ؒ جب مسجد نبوی میں درس حدیث دیتے تھے اس وقت حوزہ اسلام کو کھلے دشمنان اسلام سے کون بچائے ہوئے تھا؟اور خود امام کس کی حفاظت کے سایہ تلے شام سے مدینہ منورہ آئے تھے اور وہاں ان کا درس حدیث قائم ہوا تھا۔شیعوں کا یہ وسوسہ غلط ہے کہ وہاں مسجد نبوی میں حضرت زین العابدینؓ کا خاص شاگرد زہری تھا ہرگز درست نہیں ابن شہاب زہری شیعہ نہ تھا ورنہ امام مالک ؒ جیسے عظیم امام اہلسنت اس سے ہرگز روایت نہ لیتے۔ شیعوں نے خواہ مخواہ انہیں اپنی اسماء الرجال کتابوں میں شیعہ ظاہر کر رکھا ہے۔اس صورتحال سے نکلنے کے لیے بعض شیعہ مبلغین یہ موقف اختیار کرتے ہیں کے مسجد نبوی میں امام زین العابدینؓ کے درس حدیث کے دو حلقے تھے ایک عام اور دوسرا خاص اور یہیں سے ان کے ہاں عامہ اور خاصہ کی دو اصطلاحیں چلیں ۔ابن شہاب زہری ان کے خاص حلقے کے طالب علم تھے اور ان پر ان کی پوری حکومت چلتی تھی۔ان کا دوسرا حلقہ عامہ تھا جہاں وہ کبھی تقیہ بھی کرتے تھے سو اس راہ سے امام زین العابدینؓ امام محمد باقر ؒ، امام جعفر صادق ؒ اور امام موسی کاظم ؒ بھی اپنے اپنے وقت میں حکمران رہے اور حدیث دوازدہ امام اپنے موضوع پر قائم رہی۔
الجواب: حدیث دوازدہ امیر میں جس حکمرانی اور امارت کا ذکر ہے وہ منیعا کے لفظ کی روشنی میں وہ حکمرانی ہے جو سرحدی دشمن کو حملے سے روک رہی ہو نا یہ علمی آزادی جس میں حضرت امام زین العابدینؓ مسجد نبوی میں اپنے درس حدیث سے بالکل آزاد تھے ۔
شیعہ مبلغین کے ہاں اس درس خاص کا سلسلہ ابن شہاب زہری کے بعد جابر جعفی سے چلا اور بڑے بڑے ائمہ علم جابر جعفی کے حلقے کے معتقد ہوئے حضرت امام سفیان ثوری(161ھ) جن کی علمی شان اہل کوفہ میں مسلمات میں سے تھی وہ بھی جابر جعفی سے روایت لیتے تھے۔
صرف حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ہیں جو جابر جعفی کے خلاف تھے اور نقد حدیث میں ان کی نظر بہت گہری تھی اس صورتحال میں مناسب ہوگا کہ ہم حدیث دوازدہ امیر اپنی کتب حدیث ہدیہ قارئین کریں۔
حضرت جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ میں حضورﷺ کے پاس حاضر ہوا میرے ساتھ میرے والد حضرت سمرہؓ بھی تھے میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ھوئے سنا .
لا يَزَالُ هَذَا الْإِسْلَامُ عَزِيزًا مَنِيعًا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً ثم فَقَالَ كَلِمَةً لَمْ أَسْمَعْهَا فَقَالَ أَبِى إِنَّهُ قَالَ كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ
(صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 119 صحیح بخاری جلد 2، صفحہ 1072)
ترجمہ: اسلام (حوزہ اسلام) ہمیشہ غالب رہے گا (باہر سے کوئی طاقت اس کے خلاف اٹھ نہ سکے گی) وہ منیع ہوگا ان سب کے خلاف یہ بات بارہ حکمرانوں تک رہے گی (وہ اچھے ہوں یا برے اس کا یہاں کوئی ذکر نہیں) اس کے بعد آپ نے کوئی بات کہی میں لوگوں کے شور سے اسے سن نا پایا یا سمجھ نہ سکا میں نے اپنے والد سے پوچھا آپ نے کیا فرمایا؟انہوں نے فرمایا کہ آپﷺ نے فرمایا یہ بارہ حکمران قریش سے ہوں گے۔ان حکمرانوں کے لئے خلیفہ کا لفظ صحیح مسلم کی روایت میں متن حدیث میں ہے صحیح بخاری میں اس کی بجائے امیر کا لفظ ہے سو اس سے مراد سیاسی حکمران ہی ہیں۔سوان بارہ میں اچھے اور برے دونوں ہو سکتے ہیں۔ لفظ امام بھی ہو تو اس کا مطلب حکمران ہی ہوگا ۔ تائم اس حدیث الائمہ من قریش پر مزید نظر کی ضرورت ہے۔ ان بارہ کا مقسم قریب قریش ہوگا۔جس کی آگے بہت سی شاخیں ہیں۔
بارہ حکمران قریش میں سے ہوں گے
حضور اکرمﷺ کو اپنے کلام میں جوامع الکلام کی فضیلت دی گئی تھی سو آپ کا کلام کبھی فصاحت اور بلاغت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔علم معانی میں اس پر بحث کی گئی ہے ہر تقسیم اپنے مقسم قریب کی ہوتی ہے مقسم بعید کی نہیں۔یہ بارہ حکمران اپنے مقسم قریب کی رو سے قریش میں سے بتلائے گئے ہیں۔ ان کا مقسم بعید عرب قوم یا بنی سام ہیں اور انہیں ان بارہ کا مقسم ٹھہرانا علم معنی کے خلاف ہوگا، یعنی اس حدیث کو یوں نہ بیان کیا جا سکے گا یہ بارہ عربوں میں سے ہوں گے، یہی کہا جائے گا کہ وہ قریش سے ہوں گے اور یہی ان کا مقسم قریب ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ یہ بارہ قریش کے کسی ایک بطن سے نہ ہوں گے قریش کے مختلف بطون سے ہوں گے اگر یہ بارہ قریش کے کسی ایک بطن سے ہوتے تو پھر اس حدیث کا مقسم قریب وہ بطن ہوتا قریش نہیں۔حضورﷺ کا انہیں کلھم من قریش سے بیان کرنا بتلاتا ہے کہ وہ سب بنو امیہ یا بنو ہاشم یا بنو تمیم اور بنو عدی سے ہونگے ان سب کا مقسم قریب قریش ہوگا۔سو اثناعشری میں جس طرح کا یہ عقیدہ رکھتے ہیں وہ سب بنو ہاشم سے ہوں گے اس سے ان کا مقسم قریب بنو ہاشم ٹھہرتا ہے قریش نہیں ۔اس کے لیے نبیﷺ کو یہ کہنا چاہیے تھا کلھم من بنی ھاشم نہ کہ کلھم من قریش یا دونوں کو سامنے رکھ کر آپﷺ فرماتے الا امۃ من قریش غرسوا فی بطن بنی ھاشم جب اہل سنت کتب حدیث میں یہ روایت کسی جگہ اس طرح نہیں ملی تو معلوم ہوا کہ حدیث الائمہ من القریش کسی صورت میں صرف بنی ہاشم کی خلافت کے لئے نہیں ہو سکتی۔حدیث کے یہ الفاظ خود اس عقیدے کی کھلی تردید کر رہے ہیں۔کہ وہ سب بنو ہاشم میں سے ہوں گے۔
حدیث آئمہ من قریش کی تفہیم ایک اور طریق سے
امام ابو داؤد(275ھ ) نے اپنی سنن (جلد 2 صحفہ 239) اس حدیث کو اس طرح بھی روایت کیا ہے۔امام محی الدین نووی ؒ(676ھ) اسے امام ابو داؤد ؒ سے اس طرح نقل کرتے ہیں ۔
ویجتمع المسلمون علیه کما جاء فی سنن ابی داؤد کلھم تجتمع علیه الامۃ
(شرح صحیح مسلم جلد2 صحفہ 119).
ترجمہ: تمام مسلمان ان میں سے ہر ایک کی خلافت پر متفق ہوں گے۔ان میں سے ہر ایک پر پوری امت جمع ہوگی۔ سو اس شرط کی رو سے امام موسیٰ کاظم ؒ ان بارہ اماموں میں نہیں آتے انہیں لوگ صرف اثناعشریوں کا امام جانتے ہیں۔ اسماعیلی شیعہ انہیں امام نہیں مانتے ۔وہ ساتواں امام حضرت امام جعفر ؒ کے بعد ان کے بیٹے اسماعیل کے بیٹے کو مانتے ہیں اور اب تک یہ شیعوں کا یہ اسماعیلی سلسلہ ظاہر امام کے پیروؤں کا ملتا ہے۔اور اثناعشریوں کو سب امام غائب کے منتظر سمجھتے ہیں۔
سو یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ اثناعشریوں کے بارہ امام کسی طرح اس حدیث دوازدہ امیر کی مراد نہیں ہو سکتے۔اورنہ اس حدیث کی رو سے ان کی کوئی فضیلت ثابت ہوئی ہے ہاں اتنی فضیلت ان کے لیے ضرور نکلتی ہے کہ ان کے دور میں اسلام کے کھلے دشمنوں میں سے کوئی سرحدات اسلام پر حملہ آور نہ ہو سکے گا۔اور اس دور میں یزید کا ساڑھے چار سال کا دور حکومت بھی آ جاتا ہے۔
وہ اپنے والد کی وصیت پر عمل نہ کرنے سے عقوق والدین کا ضرور مرتکب تھا۔اس بات کو حل کرنے کے لیے سارے قارئین حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی اس روایت پر بھی کچھ غور کریں آپ کے دور میں مدینہ منورہ میں یزید کی طرف سے والی کون تھا۔عبداللہ بن مطیع۔ امام مسلم ؒ اپنی صحیح میں روایت بیان کرتے ہیں ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ا سے ملنے گئے آپ کا ارادہ اسے حضرت محمدﷺ کی ایک حدیث سنانے کا تھا۔ عبداللہ بن مطیعؓ نے جب اتنے بڑے آدمی کو اپنے ہاں آتے دیکھا تو اس نے معاً اپنے عملے سے کہا کہ ان کے لیے چٹائی بچھائے۔ آپ نے اسے اس سے منع کیا اور فرمایا میں تمہارے ساتھ مجلس کرنے نہیں آیا تجھے صرف ایک حدیث سنانے آیا ہوں اور وہ یہ کہ مسلمانوں کی سلطنت ایک ہو تو اسے کسی طرح دو نہ ہونے دینا۔اس سلطنت کی وحدت اتنی ضروری ہے کہ اس کے لیے ہر قربانی دی جا سکے گی۔
عن نافع قال جاء عبداللہ بن عمر الى عبد الله بن مطيع حين كان من امرا لحرۃ ماکان زمن یزید بن معاویہ فقال اطرحوا لابی عبد الرحمن وسادۃ فقال انی کم اتک لا جلس اتیتک لا حدثنک حدیثا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول من خلع یدا من طاعۃ لقی اللہ یوم القیمۃ لا حجۃ له و من مات و لیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیه
( صحیح مسلم جلد 2 صحفہ128)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرؓ عبداللہ بن مطیعؓ کے ہاں ایام حرہ میں گئے جب یزید بن معاویہ حکمران تھا عبد اللہ بن مطیعؓ نے انہیں دیکھتے ہی اپنے عملے کو حکم دیا کہ ان کے لیے تکیہ بچھاؤ حضرت عبداللہؓ نے فرمایا میں تم سے مجلس کرنے نہیں آیا میں تمہیں ایک حدیث سنانے آیا ھوں ۔میں نے حضورﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے کسی امیر کی سلطنت سے خروج کیا وہ اللہ تعالی کے ہاں قیامت کے دن اس طرح پیش ہوگا۔ کہ اس کے پاس اس کی کوئی حجت نہ ہو گی اور جو شخص کسی امام کی اطاعت کے بغیر مرا تو اس کی وہ موت جاہلیت کی موت شمار پائے گی۔
اس میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے تقریباً وہی بات بیان کی ہے جو حضرت علیؓ نے کہی تھی ۔کہ لوگوں کے لیے کوئی نہ کوئی امیر وہ اچھا ہو یا برا ضرور ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی انسان تمدن قائم نہیں کر پاتا اس روایت کی روشنی میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یزید کی بیعت کرنے کی وجہ پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے یزید کی حکومت کو کیوں تسلیم کیا تھا۔وہ صرف اس لیے کیا تھا کہ سلطنت اسلامی جو دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی اور اسے حضرت حسنؓ اور حسینؓ نے ایک بڑی قربانی سے پھر سے ایک کیا تھا وہ کسی غلطی سے پھر دو حصوں میں نہ بٹ جائے ورنہ وہ یزید کو کسی درجے میں کوئی فضیلت نہ دیتے تھے ان کا دل ہمیشہ سے حضرت حسنؓ اور حسینؓ کے ساتھ تھا اس حدیث کی روشنی میں اس سوال کا جواب کھل کر سب کے سامنے آجاتا ہے کہ۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے یزید کے خلاف کیوں خروج نہ کیا؟
صرف اس لئے کہ سلطنت اسلامی میں حضرت حسنؓ حسینؓ کی اس عظیم قربانی کے بعد پھر سے دو حصوں میں نہ بٹ جائے اس میں آپ نے جو حدیث والی مدینہ عبداللہ بن مطیعؓ کو سنائی۔اس طرح کی ایک دوسری حدیث حضرت عرفجہؓ نے بھی حضورﷺ سے اس طرح روایت کی ہے آپ نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔
فمن ارادان یفرق امر ھذہ الامۃ وھی جمیع فاضربوہ بالسیف کائنا من کان
(صحیح مسلم جلد 2صفحہ 128)
ترجمہ: جو چاہے کہ اس امت کو ایک ہونے کے بعد پھر سے دو حصے کر دے اسے فوراً قتل کر دو چاہے جو بھی ہو۔اس حدیث کا معنی امام نووی ؒ اپنی شرح حدیث صحیح مسلم میں لکھتے ہیں۔ فیہ الامر بقتال من خرج علی الامام او اراد تفریق کلمۃ المسلمین و نحو ذلک و ینھی عن ذلک و ان لم ینته قوتل
ترجمہ: اس میں اس سے قتال کا حکم ہے جو امیر کی اطاعت سے نکلے یا حوزہ اسلام میں تفریق ڈالے، اسے اس سے روکا جائے اگر وہ نہ رکے تو اس سے قتال کیا جائے۔
ایک اور اہم سوال اور اس کا جواب
اس پر شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ پھر حضرت حسینؓ نے یزید کے خلاف خروج کیوں کیا؟اس کا واضح جواب یہی ہے کہ انہوں نے بھی خروج نہ کیا تھا؟ کیا کوئی شخص اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر کسی حاکم کے خلاف خروج کرتا ہے کبھی نہیں اگر یہ خروج ہوتا تو حضرت حسینؓ اپنی آخری شرطوں میں کبھی یہ صورت پیش نہ کرتے کہ مجھے واپس مدینہ جانے دیا جائے صرف اتنی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ وہ یزید کے ظاہری کردار سے خوش نہ تھے اور وہ اس کی سلطنت میں مدینہ نہ رہنا چاہتے تھے۔
اس وقت ہمارا موضوع یہ سانحہ کربلا نہیں یہ بات صرف عبداللہؓ بن عمر کے بارے میں سامنے آ گئی ہے کہ وہ دل سے یزید کی کسی فضیلت کے قائل نہ تھے اور وہ اس کے خلاف وہ اس حدیث کی وجہ سے خروج نہ کرنا چاہتے تھے وہ اس پر بھی مطمئن تھے کے اسلامی سرحدوں کے پاس کسی جگہ وہ سکونت پذیر ہو جائیں اور کسی سیاست میں نہ آئیں۔
برصغیر پاک و ہند کے اہل سنت یزید کو بارہ اماموں میں شامل نہیں کرتے
۔یہ حقیقت ہے کہ زید کا دور حکومت تقریبا ساڑھے چار سال کے قریب رہا مگر برصغیر پاک وہند کے اہل سنت کے مرکزی بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ(1176ھ) یزید کو بارہ امیروں کی فہرست میں جگہ نہیں دیتے۔آپ اپنی کتاب قراۃ العینین فی تفضیل الشیخین میں لکھتے ہیں کہ یزید اپنے پورے دورِ حکومت میں کبھی استحکام نہ پا سکا۔ہمیشہ ہنگامی حالات میں ہی گھرا رہا ۔کبھی اپنے آپ کو حضرت مسلم بن عقیلؓ سے بچانے میں کبھی حضرت حسینؓ سے بچانے میں کبھی واقعہ حرہ ۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی زندگی تک وہ مکہ میں حکومت نہ پا سکا حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔
یزید بن معاویہ خود ازین میاں ساقط است بجھت عدم استقرار و حدت معتدبھا و سوء سیرت او
(قرۃالعینین ص298مطبع مجتبائی دہلی )
ترجمہ: یزید بن معاویہ اس بارہ امیروں کی فہرست میں نہ آئے گا کیوں کہ مدت مدید ملنے کے باوجود کبھی اپنی حکومت میں استقرار نہ پا سکا اور اپنی بری عادات کے باعث وہ ان حکمرانوں کی فضیلت نہیں پاتا جو اپنے وقت میں حوزہ اسلام کو ایک رکھے ہوتے ہوں۔عرب ممالک میں اگر بعض علماء یزید کو اس فہرست میں لاتے رہے تو برصغیر پاک وہند کے علماء کو اس میں حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ،حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ ،حضرت سید احمد شہید ؒ اور مولانا اسماعیل شہید ؒ کے ساتھ رہنا چاہیے۔علماء دیوبند ؒ محدثین دہلی ؒ کے ہی علمی وارث سمجھے جاتے ہیں۔
ایک اور سوال اور اس کا جواب
۔بعض لوگوں نے اس پر بھی سوال اٹھایا کہ حضرت علیؓ بھی تو اپنے عہد خلافت میں استحکام نہ پا سکے تھےوہ بارہ حکمرانوں کی فہرست میں کیسے آگئے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی خلافت زیر اختلاف نہ رہی حضرت معاویہؓ کا کبھی ان سے خلافت میں نزاع نہ تھا۔وہ صرف بیعت میں تاخیر کئے ہوئے تھے کہ پہلے امام مظلوم حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو گرفت میں لے لو حضرت علیؓ بھی اس میں کسی مناسب وقت کے انتظار میں تھے۔ پھر حضرت علیؓ کی اپنی شہادت (گواہی) سے ان کی حضرت امیر معاویہؓ سے بھی اس بات پر مصالحت ہوگئی تھی کہ دونوں اپنے اپنے مقبوضات میں نظام چلائیں اور کوئی کسی پر حملہ آور نہ ہو پھر اس پیش رفت کی تکمیل میں حضرت سیدنا حسنؓ اور حضرت سیدنا حسینؓ نے حضرت معاویہؓ سے صلح کر کے انہیں حضرت امیر معاویہؓ بنا دیا۔ حضرت علیؓ کو اپنی خلافت میں پورا استحکام اور استقرار حاصل تھا اور اس کے لئے جنگ صفین ایک بڑی شہادت ہے کہ شامی فوجوں نے بھی اپنی شکست سے بچنے کے لیے حضرت علیؓ کی افواج کے سامنے قرآن پیش کر دیے تھے کہ یہ کتاب ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے اس روشنی میں کوئی صاحب علم یہ نہیں کہہ سکتا۔معاذ اللہ چوتھے خلیفہ راشدؓ کو اپنی سلطنت میں استحکام حاصل نہ تھا۔اگر وہ اپنے عہدِ حکومت میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے فیصلوں پر ہی چلتے رہے تو اس کی وجہ ان کی اپنی خلافت کی کمزوری نہ تھی وہ اس حقیقت سے اچھی طرح خبردار تھے۔ حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ اب تک مسلمانوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔یہ صرف قاضی نور اللہ شوستری کی رائے رہی ہے کہ انہیں اپنی سلطنت میں استحکام حاصل نہ تھا۔ظاہر ہے کسی مختلف فیہ بات سے کسی بات کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کسی اختلاف کو مٹانے کے لیے کسی اتفاق کی ضرورت ہوتی ہے۔اس پر ہم حدیث بارہ امیر کی بحث کو ختم کرتے ہیں۔