حدیث اغضاب فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہحدیث اغضاب فاطمہؓ
خاص وعام حلقوں میں یہ حدیث خاصی مشہور چلی آ رہی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا جس نے فاطمہؓ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا جس نے مجھے ناراض کیا اس نے اللہ تعالی کو ناراض کیا -
شیعہ کی طرف سے اس حدیث کا سارا بوجھ حضرت ابوبکر صدیقؓ پر ڈالا جاتا ہے اور پھر روایات کی روشنی میں اس کا کچھ بوجھ آتا ہے تو حضرت علی المرتضیٰؓ پر اور حقیقت میں یہ دونوں حضرات اس الزام سے بری ہیں۔
اس صورتحال میں میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے طلبہ کو اس حدیث کی کچھ اس طرح تفہیم کرائیں کہ اس کا بوجھ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت علی مرتضیؓ میں سے کسی پر نہ آئے ۔ (والله هو المستعان وعليه التكلان)۔
حضرت محمدﷺ نے اپنے اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہؓ کے گہرے رابطے کو بیان کرنے کے لیے آپ کی یہ شان بیان فرمائی :
حضرت مسعود بن مخرمہؓ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا :
ان فاطمة بضعة منى يوزني مااذاها
(صحيح مسلم جلد 2ص 290)
فاطمه بعضة مني فمن ابغضبها فقد اغصبني
( صحيح بخاري جلد1ص 532)
یہاں سے لفظ اغضاب سامنے آتا ہے اور اس سے حدیث اغضاب فاطمہؓ کاعنوان قائم ہوتا ہے ہیں۔
کچھ لفظ اغضاب کے بارے میں:
یہ غضب (غصہ) سے باب افعال ہے یعنی کسی کو دانستہ غصہ دلانا باب افعال کا ایک خاصہ تعدیہ ہے یعنی آگے دوسرے تک بات لے جانا حضوراکرمﷺ نے اس حدیث میں لفظ اغضاب میں ارشاد فرمایا جس سے مراد یہ ہے کہ جس نے حضرت فاطمہؓ کو غصہ دلایا اس نے مجھے غصہ دلایا۔ حضور اکرمﷺ نے یہ نہ کہا:
من غضبت عليه غضبت عليه
ترجمہ: جس پر فاطمہ ناراض ہوئی اس پر میں بھی ناراض ہوا۔
جب حضرت علی مرتضیٰؓ نے ابوجہل کی بیٹی کو نکاح میں لینے کی خواہش کی تو ان کا ارادہ حضرت فاطمہؓ کو ناراض کرنےکا نہ تھا اور جب وہ ناراض ہوئیں تو آپ نے اس نکاح کا ارادہ چھوڑ دیا اس سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ آپ کا ارادہ حضرت فاطمہؓ کو ناراض کرنے کا نہ تھا۔ آپ نے اغضاب نہ کیا تھا حضرت فاطمہؓ اگر اس پر ناراض ہوئی تو یہ غضب تو ہے لیکن اغضاب نہیں اور نہ کوئی مومن سمجھ سکتا ہے کہ معاذ اللہ حضرت علیؓ نے انہیں ناراض کرنے کا ارادہ کیا ہو اور حضرت محمدﷺ نے بھی حضرت علیؓ سے کسی ناراضگی کا اظہار نہ کیا تھا کیونکہ ابو جہل کی مسلمان بیٹی کو پیغام نکاح دینا شرعاً گناہ نہ تھا آپ نے صرف اتنا فرمایا کہ کہ علیؓ اگر اسے اپنے نکاح میں لانا چاہتے ہیں تو فاطمہؓ کو طلاق دے دیں پیغمبر کی بیٹی اور ابوجہل کی بیٹی ایک گھر میں جمع نہیں ہوسکتی ۔
اس سے معلوم ہوا کہ غضب اور اغضاب میں فرق ہے۔ حضور اکرمﷺ نے اس پر لفظ اغضاب سے نکیر فرمائی ہے،غضب (غصہ) سے نہیں۔ غصہ بیشتر بشری تقاضے سے بھی واقع ہو جاتا ہے اور دوسرے کو عمداً غصہ دلانا یہ ایک دوسری شے ہے اسی طرح یہ سمجھ لیجئے کہ اگر حضرت فاطمہؓ فدک نہ ملنے پر حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ناراض بھی ہوئی ہوں تو آپ کی ناراضگی ایک بشری تقاضے سے تھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انہیں فدک کا قبضہ نہ دینا انہیں ناراض کرنے کے لیے نہ تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کی نیت اغضاب کی ہرگز نہ تھی۔ حضور اکرمﷺ نےبھی اغضاب پر نکیر فرمائی۔ غضب پر نہیں وہ صرف بشری تقاضے سے واقع ہوجاتا ہے ۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت فاطمہؓ کے سامنے قرابت رسولﷺ کی وہ شان بیان کی کہ کوئی نادان سے نادان شخص بھی اسے اغضاب نہ کہہ سکے گا۔۔ حجتہ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں " کمال نادانی کی بات ہے کوئی شخص صدیق اکبرؓ کی طرف یہ بات منسوب کرے انہوں نے بالقصد حضرت فاطمہؓ کو غصہ دلایا "
اور آگے جا کر یہ بھی لکھتے ہیں کہ
روایات کو ٹٹولیے تو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مکرر یوں کہا والذي نفسي بيده القرابۃ رسول الله صلى الله عليه وسلم احب الى ان اصل من قرابتی(صحيح بخاري رجلد1ص526).
ترجمہ:"یعنی اللہ کی قسم! اے رسول اللہﷺ کی صاحبزادی رسولﷺ کی قرابت کے ساتھ صلہ کرنا اور ان کی خدمت کرنا مجھے زیادہ محبوب ہے۔ اپنے قرابتو ں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے سے" ۔
اور جب ان کی طرف سے اغضاب ہی نہ ہوا یعنی انہوں نے بالقصد ان کو غصہ نہ دلایا بلکہ کہ حتی المقدور اس کا بچا ؤ ہی کیا تو پھر وہ کس طرح اس وعید میں داخل ہوں گے؟ اگر بالفرض کچھ ہوا بھی تو اتنا ہوا ہو کہ حضرت فاطمہؓ بمقتضاۓ بشریت غصہ ہو گئی ہوں (ہدیہ الشیعہ ص 494 طبع جديد ملتان وطبع سوم ملتان ص460)
آگےآپ نے حضرت محمدﷺ کے اسی ارشاد کہ : من اغضب فاطمه فقد اغصبني
کا پورا پس منظر قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ کہ حضرت علیؓ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے تھے اس کے بعد حضور اکرمﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا حضرت حجتہ الاسلام ؒ نے پھر حضرت سہل بن سعدؓ کی یہ روایت اپنے لفظوں میں پیش کی ہے ہم اسے یہاں صحیح مسلم سے ہدیہ قارئین کرتے ہیں
جاء رسول الله صلى الله عليه واله وسلم بيت فاطمه رضي الله تعالى عنه فلم يجد عليا في البيت فقال اين ابن عمك فقالت كان بيني وبينه شيئ فغاضبني فخرج فلم يقل عندي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لانسان انظر اين هو فجاء فقال يا رسول الله صلى الله عليه واله وسلم هو في المسجد راقدفجاه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع قدسقط رداءہ عن شقہ فاصابه تراب(صحيح مسلم جلد2ص280)
اب اسےحضرت حجۃ الاسلام ؒ کے لفظوں میں پڑھیں۔ آپ لکھتےہیں "ایک بار حضرت امیرؓ حضرت الزہرہؓ سے رنجیدہ ہو کر گھر سے باہر تشریف لائے اور مسجد میں زمین ہی پر بدون تکیے بچھوئے سو گئے۔ جب پیغمبر حضرت محمدﷺ کو اس قصے کی خبر ہوئی آپ حضرت زہراؓ کے پاس تشریف لائے اور پوچھا کے تیرے چاچا کا بیٹا کہاں ہے حضرت زہراؓ نے عرض کیا مجھ سے لڑ کر نکل گئے ہیں اور دوپہر کو بھی یہاں نہیں سوئے۔"
یہ دونوں روایتیں ہے کچھ سنیوں ہی کی کتابوں میں نہیں بلکہ شیعوں کی کتابوں میں موجود ہیں۔ حضرت فاطمہؓ آخر بشر تھیں بمقتضائے بشریت غصہ آ جاتا تھا ورنہ حضرت علیؓ نے جب ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تو انہوں نے موافق حکم خدا اور رسولﷺ کوئی گناہ یا کسی گناہ کا ارادہ نہ کیا تھا پھر غصے کی وجہ بجز بمقتضائے بشریت اور کچھ نہیں۔
اس روايات میں فغاضبني کے الفاظ صر يح طور پر موجود ہیں۔ تاہم یہ بات بھی یقینی ہے کہ حضرت علیؓ نے اس سےاغضاب فاطمہؓ کا ارادہ نہ کیا تھا اس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی فدک پر قبضہ نہ دینے سے انہیں غصہ دلانے کا قصد نہ کیا تھا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ کہا تھا.
فقال ابو بكر رضي الله تعالى عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا نورث ما تركنا فهو صدقه انما ياكل آل محمد من هذا المال يعني مال الله ليس لهم ان يزيدوا على الماكل وانی ولله لا اغير شيئا من صدقات النبي صلى الله عليه وسلم التي كانت عليها في عهد النبي صلى الله عليه وسلم ولا عملن ولا فيها بما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم
(صحيح البخاري جلد2، ص246)
ترجمہ: حضرت ابو بكرؓ نے کہا آپﷺ نے فرمایا ہم (گروہ انبیاء) وراثت نہیں دیتے،جو مال چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے (بیت المال میں جائے)۔ حضور اکرمﷺ کی اولاد اپنا خرچہ اس مال سے ليتی رہے انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس پر کچھ بڑھا لیں اور میں بخدا حضور اکرمﷺ کے ان احوال پر اس عمل سےکچھ بھی تبدیل نہ کروں گا جو کہ آپﷺ کے اپنے دور میں تھا اور میں اس پرعمل کروں گا جو(اس میں) حضور اکرمﷺ کا عمل تھا ۔
اس پر پھر حضرت علیؓ نے بھی کلمه شہادت پڑھا اور اس بات کی گواہی دی حضور اکرمؓ کے عہد میں ایسا ہی ہوتا تھا آپ نے پھر ابوبکر صدیقؓ سے کہا;
اناقد عرفنا ياابابكرفضيلتك
ترجمہ: "بے شک ہم آپ کی فضیلت کو (جو آپ کو اس امت میں ہے) پہچانتے ہیں"۔
اور صرف یہی نہیں حضرت علیؓ نے آپؓ کی اس قرابت کا بھی ذکر کیا جو اپکو حضور اکرمؓ سے تھی اور آپ کے اس حق کو بھی تسلیم کیا اور بعض روایات میں ہے کہ اس اثنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھوں میں آنسو دکھائی دیے اور آپؓ نے فرمایا:
والذي نفسي بيده القرابةرسول صلی الله عليه السلم احب الي من ان اصل من قرابتي
(صحيح البخاري جلد1ص526)
ترجمہ: قسم اس ذات كی جسں کے قبضہ میں میری جان ہے ۔حضور اكرمﷺ كے اہل قرابت مجھے اپنے اہل قرابت سے زیادہ محبوب ہیں ۔
اس پس منظر میں کوئی سنجیدہ شخص یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ حضر ت ابوبکر صدیقؓ نےحضرت سيدة فاطمة الزهراءؓ كو اپنے سے ناراض کیا ہو چہ جائیکہ آپ نے خود ارادہ کیا ہو کہ آپ انہیں قصداً ناراض کریں جیساکہ لفظ اغضاب کا تقاضا ہے ۔
یہ لفظ جس طرح حضرت ابو بكرصديقؓ پر کسی طرح صادق نہیں آتا یہ حضرت علیؓ پر بھی کسی طرح درست نہیں اترتا۔جنھوں نےابو جہل کی بیٹی سے (جو اسلام لائے ہوئے تھی) نکاح کرنا چاہا اس پر حضرت فاطمہؓ ان سے ناراض ہوئیں جب حضرت علیؓ کو اس کا پتہ چلا تو آپ نے اس نکاح کا ارادہ چھوڑ دیا پھر بھی اگر وہ آپ سے ناراض رہی ہوں تو اسےایک بشری تقاضے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جا سکتا اور کسی پہلو سے بھی حديث اغضاب کا کوئی چھینٹا حضرت علیؓ پر نہیں آتا ۔
اس پر ہم حدیث اغضاب فاطمہؓ کی بحث ختم کرتے ہیں ۔ناراضگی ایک فعل قلب ہے۔ جس پر کوئی دوسرا مطلع نہیں ہو پاتا۔حضرت فاطمہؓ نے کبھی اپنی زبان مبارک سےاس کااظہار نہ فرمایا اور جس کسی نے کہا اپنے خیال سے کہا ظاہر ھے کہ خیال سے کوئی بات عقیدہ نہیں بنتی۔
والله اعلم وعلمه أتم واحكم