حدیث عالمی غلبہ رسالت
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہحدیث عالمی غلبہ رسالت
الْحَمْدُ لِلهِ وَسَلَّمُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى اللهُ عَيْد أَمَّا يُشرَكُونَ أَمَّا بَعْدُ:
آنحضرتﷺ نے اپنے عالمی غلبہ رسالت کی اس طرح خبر دی ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللّٰہ عنہ حضور اکرمﷺ سے اسے اس طرح روایت کرتے ہیں:
ان الله زوى لى الارض فرأيت مشارقها ومغاربها وان امتى سيبلغ ملكها مازوى لى منها واعطيت الكنزين الاحمر والابيض
( صحیح مسلم جلد 2، ص399)
ترجمہ:
بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ساری زمین لپیٹ کر رکھ دی میں نے اس کے سارے مشرقوں اور مغربوں کو تہہ ہوا دیکھا اور میری امت کا قبضہ ان سب پر ہوگا جو میرے سامنے جمع کیے گئے اور میں اس کے سونا اور چاندی دونوں خزانے دیا گیا۔
یہ دونوں خزانے قیصر و کسریٰ کے ہیں۔ زمین کے مشرق و مغرب اس کے شمال و جنوب کے مقابل آپ کو زیادہ دور تک پھیلے دکھائے گئے اور بتایا گیا کہ آپ کی امت ان سب تک پہنچے گی اس حدیث میں آپ کے عالمی نمایہ رسالت کی خبر دی گئی ہے۔
شارح صحیح مسلم امام محی الدین النووی (676 ھ ) اس حدیث پر لکھتے ہیں:
هذا الحديث فيه معجزات ظاهرة وقد وقعت كلها بحمد الله كما أخبر به صلى الله عليه وسلم .. وصلوات الله وسلامه على رسوله الصادق الذي لا ينطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحی
(صحیح مسلم جلد2، ص200)
ترجمہ:
اس حدیث میں آپ کے (حضورﷺ ) کھلے معجزات کا ذکر ہے۔ جو بحمد اللہ سب کے سب اس طرح پورے ہوئے جیسا کہ آپﷺ نے ان کی خبر دی تھی ، اللّٰہ تعالیٰ کا آپ پر صلوۃ و سلام ہو جو اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے تھے ۔ سوائے اس کے کہ آپ کو اللّٰہ تعالیٰ جو کہتے آپ وہی کہتے ۔
اس حدیث کو سمجھنے میں یہ امور زیادہ قابل غور ہیں:
لشکر کا قبضہ بادشاہ کا قبضہ ہی ہوتا ہے حضورﷺ کی امت کا ان مشارق و مغارب پر قبضہ پانا اور اس کا وہاں تک جاتا حضورﷺ کے عالمی قبضہ کے ہی نقوش ہیں۔ اس سےصاف صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام فاتحین عجم حضورﷺ کے ہی خلفاء تھے کہ ان کا وہاں تک جاتا حضورﷺ کا عالمی قبضہ سمجھا گیا اگر ان کی خلافت خلافت صادقہ نہ ہوتی تو یہ ان کی فتوحات حضورﷺ کی فتوحات شمار نہ کی جاتیں اس کی تصدیق قرآن پاک کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ، وَكَفَى بااللہ شهيدًا
( ب 22، التح 28)
ترجمہ:
وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول سیدھی راہ پر اور سچے دین پر تاکہ اوپر رکھے اس کو ہر دین پر۔
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالٰی کا حضورﷺ سے اس عالمی غلبہ کا وعدہ اس صورت میں پورا ہونا سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ کی امت کے یہ فاتحین عجم پورے دل کے خلوص سے آپ کی امت ہوں جن پر نفاق کا کسی پہلو سے کوئی شبہ نہ کیا جا سکتا ہو ان مخلصین کے اخلاص کا پتہ اس سے اگلی آیت میں اس طرح دیا گیا ہے:
محَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرْتَهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا
(پ 26 ، الله 29)
ترجمہ:
حضورﷺ اللّٰہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر نرم دل ہیں آپس میں تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ڈھونڈتے ہیں اللّٰہ کا فضل اور اس کی خوشی ۔
دو علامات ان کے ظاہر کی جتلائی گئیں اور دو میں ان کے اندر کے حالات کی خبر دی گئی جن میں اشارہ تک نہیں ہو سکتا کہ ان کا ظاہر اور باطن ایک نہ ہو کہ ان کا ظاہر تو اشداء اور رحماء کا ہو اور اندر سے انہیں فضل الٰہی اور رضوان الٰہی کی طلب نہ ہو۔
یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عبد رسالت میں جو لوگ حضورﷺ کے ہاتھ پر اسلام لاتے تھے اور ان کا ظاہر عمل اسلام ہی تھا یعنی ظاہری پیرائے میں جھک جانا مگر جب اللّٰہ تعالیٰ انہیں يا أيها الذين امنو سے خطاب کرتے تو اس سے ان کے اسلام کی اندرونی تصدیق ہو جاتی تھی۔ یہ پیرا یہ تصدیق ایمان صحابہ قرآن پاک میں صرف ایک دو جگہ نہیں سینکڑوں جگہ پر ہے اور جہاں یہ اندرونی تصدیق نہ تھی وہاں صاف کہہ دیا گیا:
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلْ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰـكِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا يَدۡخُلِ الۡاِيۡمَانُ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ ۚ وَاِنۡ تُطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَا يَلِتۡكُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِكُمۡ شَيۡئًــا ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
کہتے ہیں گنوار کہ ہم ایمان لائے تو کہہ تم ایمان نہیں لائے پر تم کہو ہم مسلمان ہوئے اور ابھی نہیں گھسا ایمان تمہارے دلوں میں اور اگر حکم پر چلو گے اللہ کے اور اس کے رسول کے کاٹ نہ لے گا تمہارے کاموں میں سے کچھ اللہ بخشتا ہے مہربان ہے۔
یہ سورت مدنی ہے۔ یہ اس وقت اتری جب حضور اکرمﷺ مدینہ منورہ میں تھے اور مدینہ میں مسلمان اس وقت ایک بڑی تعداد میں تھے۔ ان دنوں مدینہ کے بدو کون لوگ تھے جو بطور گنوار اس آیت میں مذکور ہوئے یہ وہ دیہاتی تھے جنہیں گھر بیٹھے بٹھائے بغیر کسی محنت کے کلمہ پڑھنا مل گیا اور ابھی ایمان اپنی پوری شان میں ان کے دلوں میں نہ بسا تھا انہیں کہا گیا تم نے مسلمان ہو کر اپنے آپ کو مسلمانوں کی پکڑ سے بچا لیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ابھی ایمان ان کے دلوں میں نہ بسا تھا لیکن ان کے دلوں میں اصل کلمہ اسلام کا انکار کبھی تو نہ تھا ایسا ہوتا تو انہیں منافقوں میں شمار کیا جاتا انہیں مسلمان ہونے کا حق نہ دیا جاتا۔ یہ صورت حال فقط ایک دفعہ ہی واقعہ ہوئی اور عام اسلام لانے والے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے یا ایها الذین امنوا سے اپنے ایمان کی تصدیق پاتے رہے سو حضورﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والے وہ خوش نصیب تھے جن کے ایمان کی خود اللّٰہ تعالیٰ نے تصدیق کی۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ مبارک خطاب اس وقت کے تمام مسلمانوں کے ایمان کی ایک آسمانی تصدیق ہے۔ سو ان کے ایمان میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ سورہ حجرات کی مندرجہ بالا آیت میں ان گنواروں کے اعمال کی قبولیت کا بھی اشارہ ہے اور ظاہر ہے کہ یہ قبولیت انہی کو ملتی ہے جن کے اندر کسی پہلو سے کلمہ اسلام کا انکار نہ ہو۔
حضورﷺ کا عالمی غلبہ رسالت کس طرح پوری دنیا میں وسیع ہوتا رہا
جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے فتح کردہ ممالک کو حضورﷺ کے عالمی غلبہ رسالت میں پھیلتے دکھایا وہاں وہ فتوحات جو حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کی زیر کمانڈ مسلمانوں کو حاصل ہوئیں ان کو بھی اللّٰہ تعالیٰ نے حضورﷺ کے عالمی غلبہ رسالت میں پھیلتے ہی دکھایا ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ شام میں شاہانہ شان میں رہتے تھے۔دروازے پر دربان بھی ہوتا تھا ان میں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی سی سادگی نہ تھی اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ شام سے عیسائی سلطنت قریب تھی اور مدینہ سے وہ ایک لمبے فاصلہ پر تھی اور اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ شاہانہ شان کے امتی بھی حضورﷺ کو اپنے اس عالمی غلبہ رسالت کے سائے میں آگے بڑھتے دکھائے گئے۔
آپ ایک دفعہ حضرت عبادہ رضی اللّٰہ عنہ کی بیوی ام حرام رضی اللّٰہ عنہا کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ آپ کی آنکھ لگ گئی، جب آپ کی آنکھ کھلی تو آپ پر ایک خوشی طاری تھی آپ سے ام حرام رضی اللّٰہ عنہا نے اس مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا:
قال ناس من امتى عرضوا على غزاة في سبيل الله يركبون ثبج هذا البحر ملوكاً على الاسرة او مثل الملوك على الاسرة
(باب افضل الناس مو من مجاهد بنفسه وماله)
( صحیح بخاری جلد 1 ص 391)
ترجمہ:
میری امت کے کچھ لوگ مجھے خواب میں اللّٰہ کی راہ میں جہاد کرتے دکھائے گئے وہ اس سمندر میں کشتیوں میں بادشاہوں کی طرح بیٹھے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوں۔ اور باب غزوۃ المراۃ فی البحر میں ہے:
قال ناس من امتى يركبون البحر الاخضر في سبيل الله مثلهم مثل الملوك على الاسرة (جلد2، ص 403)
ترجمہ:
میری امت کے کچھ لوگ بحراخضر میں اللّٰہ کی راہ میں جہاد کرتے جا رہے ہیں۔ وہ ایسے لگتے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بادشاہوں کے طریقہ پر رہنے والے امتی بھی آپ کو اپنے اس عالمی غلبہ رسالت میں دکھائے گئے سو اس سے یہ حقیقت عالمی سطح پر عیاں ہے کہ حضوﷺ کو اپنی کامیاب رسالت کی خبر پہلے سے دے دی گئی تھی کہ آپ کی امت کی فتوحات سب آپ کے کھاتے میں ہی جائیں گی لشکر کتنے ہی کیوں نہ ہوں ان کی فتح بادشاہ کی فتح ہی شمار ہوتی ہے۔
حضور عالم کو اپنے مشن میں نا کام سمجھنے والے؟
یہ وہ نازک موضوع ہے کہ اس پر غور کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اثنا عشری شیعوں نے حضورﷺ کے سفر آخرت کا جو نقشہ اپنے ہاں کھینچ رکھا ہے۔ وہ کھلے لفظوں میں یہ ہے کہ آپﷺ (معاذ اللہ ) دنیا میں اپنے مشن رسالت میں ناکام رہے۔ عام مسلمانوں نے اپنے حلقوں میں یہ باتیں شیعوں سے عام سنی ہوں گی۔ علامہ خمینی سے لے کر علامہ کلینی تک سب ایک ہی بحر ظلمات سے بولتے اور ذکر اہل بیت کرتے سنے جاتے ہیں مثلاً :
1_ حضورﷺ اپنے آخری دور علالت میں اپنے چچا حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہ بن عبد المطلب کو اپنی مسجد میں امام بنانا چاہتے تھے مگر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے آپ کی بات چلنے نہ دی اور اپنے باپ کو مسجد نبوی میں امام کھڑا کر دیا۔
2_ آپ نے اپنے بستر علالت پر وصیت لکھانے کے لیے کاغذ اور قلم مانگا مگر آپﷺ کی سوسائٹی پر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کا اتنا عجب تھا کہ آپ کو کاغذ اور قلم نہ دیا گیا اور حضورﷺ نے بھی اس کے بعد باوجود یکہ کئی دن اپنے بستر پر رہے پھر کاغذ اور قلم کا کوئی سوال نہ کیا۔
3_ جب آپﷺ کی وفات ہوئی تو آپﷺ کے جسد اطہر کو آپ کے خاندان کے سپرد کر کے انصار صحابہ خلافت قائم کرنے لگ گئے (معاذ اللہ ) آپﷺ کے جنازہ تک کی پرواہ نہ کی گئی ۔ استغفر اللہ العظیم
4_ آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کے گھر جو لوگ بھی تعزیت کے لیے جمع ہوتے رہے تھے انہیں وہاں آنے سے سختی سے روک دیا گیا اور حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے انہیں آگ لگانے تک کی دھمکی دی۔ استغفر اللہ العظیم۔
5_ پھر حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا جب خلیفہ اول سے اپنے والد کی میراث لینے گئیں تو انہیں فدک کی زمین نہ دی گئی۔
6_ قرآن کریم میں حضورﷺ کو اپنے مشن میں چار ذمہ داریاں دی گئی تھیں ان میں ایک ذمہ داری صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کے دلوں پر تزکیہ کی محنت کی تھی۔ شیعہ نادان سمجھتے ہیں کہ آپﷺ اپنے دن رات ملنے والے صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کا تزکیہ بھی نہ کر پائے۔ انہیں قرآن پہنچانے کی ذمہ داری بھی صحیح ادا نہ کی جو قرآن جمع کیا گیا وہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے جمع کردہ قرآن سے مختلف ہے تو امت تک صحیح قرآن نہ پہنچا۔ کیا یہ عام امت کی اصل قرآن سے محرومی نہیں؟ یہ (معاذ اللہ ) حضورﷺ کی اپنے مشن میں ناکامی سمجھی جائے گی کہ آپ وہ کام نہ کر پائے جو آپ کے مقاصد بعثت تھے۔
شیعہ ذاکرین اور مجتہدین اپنی مختلف اداؤں سے حضورﷺ کو اپنے مشن میں ناکام بتلاتے ہیں لیکن اپنی بارہ سو سالہ تاریخ میں انہوں نے اپنے اس موقف کا بھی کھل کر اظہار نہیں کیا۔ وہ اپنے اس موقف کو ہمیشہ چھپا کر رکھتے ہیں۔ اس صورت عمل میں یہ ذمہ داری علمائے حق کی ہے کہ وہ حضور اکرمﷺ کی عالمی سطح کی کامیاب رسالت کو جتنا بھی ہو سکے۔ عامہ مسلمین کے سامنے لائیں اور انہیں سمجھائیں کہ شیعہ اثنا عشری صرف صحابہ واہل بیت کے خلاف نہیں وہ حضور اکرمﷺ کو بھی اپنے مشن میں نا کام سمجھتے ہیں۔
حضورﷺ کی عالمی سطح پر کامیاب رسالت
قرآن کریم کی کل 114 سورتیں ہیں ان میں آخری 114 نمبر کی سورت ہے۔ وہ یہ ہے: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِأَفْوَاجًا (30، النصر )
ترجمہ:
جب آئے اللّٰہ کی مدد اور مکہ فتح ہو جائے اور آپ لوگوں کو فوج در فوج اللّٰہ کے دین میں آتا دیکھیں تو اب آپ تسبیح و تحمید میں لگ جائیں۔
اس کا نام ہی سورہ نصر ہے اور یہ خدا کی طرف سے حضورﷺ کی رسالت کی آسمانی نصرت کا اظہار ہے۔ کیا یہ حضورﷺ کی اپنے مشن میں کامیابی پر مہر نہیں ہے؟ اس سے پہلے پ 26 میں بھی حضورﷺ کو فتح مبین کی خبر دی تھی۔ قرآن کریم کے ان دو حوالوں کی روشنی میں اثنا عشریوں کی یہ بات کیسے تسلیم کی جاسکتی ہے کہ حضورﷺ اپنے مشن میں (معاذ اللہ ) ناکام رہے۔
سورہ نصر میں آپﷺ سے جو انہیں نصرت کا وعدہ کیا گیا یہ وہ نصرت نہیں جو آخرت میں ہو اس میں فوجی نصرت کا بیان ہے۔ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ انه أفواجا اور حضورﷺ کو صاف لفظوں میں کبر دیا گیا کہ اپنی اس کا میابی کو آپ انہی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ افواجا اور تو دیکھے گا لوگوں کو داخل ہوتے دین میں فوج در فوج۔
جب آپ کی رسالت اپنے اس نقطہ کامیابی پر پہنچے ۔ پھر آپ بیشک تسبیحات میں لگیں، اسباب کی دنیا میں آپ اپنے تمام معرکوں میں پورے کامیاب ہو چکے۔ لیکن روافض کا عقیدہ کہ آپﷺ اپنے مشن میں (معاذ اللہ ) ناکام رہے یہ عقید و قطعا صحیح نہیں۔
کر سکتی ہے بے معرکہ زندگی کی تلافی
اے پیر حرم تیری مناجات سحر کیا۔
رسالت محمدی کی آسمانی نصرت کا بار بار اظہار
اللّٰه تعالیٰ نے اولاد آدم کی ہدایت کے لیے نبوت اور رسالت کا نظام قائم کیا اور پیغمبر اپنے اپنے دور میں اس کی پیغام رسانی کرتے رہے جب سب پیغمبر ہو چکے تو مکہ میں آخری پیغمبر اپنی آفاقی شان سے جلوہ گر ہوا۔مکہ کی غار حرا میں حضرت جبریل علیہ السلام آپﷺ کے سامنے آۓ اور آپﷺ کے سینے میں عالم بالا کی تجلیات اتار دیں۔آپﷺ پہلے تو صرف مکہ اور اس کے مضفات میں اللّٰه تعالٰی کی پیغام رسانی کرتے رہے لیکن بعد میں آپﷺ کو پورے کرہ زمین کے پورے مشرق ومغرب میں آپﷺ کی رسالت کی پھیلتی چمک دکھا دی گئ یہ آپﷺ کو اللّٰه تعالٰی کی طرف سے آپﷺ کی آفاق نبوت کا اشارہ تھا۔ اپ حضورﷺ کے آخری غلبہ رسالت کی یہ حدیث پہلے پڑھ آئے تھے۔حضرت ثوبان رضی اللّٰه عنہ کہتے ہیں آپﷺ نے فرمایا۔
ترجمہ
اللّٰہ تعالٰی نے میرے لیے تمام روۓ زمین کو لپیٹ دیا۔میں نے اس کے تمام مشرقوں اور مغربوں کو تہ ہوا دیکھا اور فرمایا میری امت وہاں تک قبضہ زمین پائے گی جتنا مجھے اس میں دکھا دیا گیا۔
پھر اور مواقع پر بھی اللّٰه تعالٰی نے قران کریم میں آپﷺ کے اس بین الاقوامی غلبے کی اس طرح بشارت دی کہ یہ آخری پیغمبر تمام ادیان عالم اور نظریات حیات پر غالب آۓ گا ۔یہ آپﷺ کے عالمی غلبہ رسالت کی پہلی آسمانی شہادت ہے۔
ترجمہ
اس نے بھیجا اپنے رسول کو صداقت اور سچا دین دے کر تاکہ اسکو غلبہ دے ہر دین پر اور پڑے برا سمجھیں اسے اہل شرک فتح مکہ تک حضورﷺ کی دعوت اسلام توحید باری تعالٰی وحدت امت سے چمکتی رہی اور اسکا مرکز مدینہ منورہ کی سلطنت اسلامی تھی۔مدینہ منورہ میں اللّٰه تعالٰی نے مسلمانوں کو اپنی اسمانی نصرت کے بارہا جلوے دکھاے۔
ترجمہ
بیشک اللّٰه تعالٰی نے تمہاری مدد کی مقام بدر میں (فرشتے بھیج کر)اور تم اس وقت کمزور تھے ۔
اس جنگ میں مسلمانوں نے اللّٰه تعالیٰ کی نصرت کو فرشتوں کے اترنے میں دیکھا۔ وہ صحابہ اکرام جو ابھی مسلمان نہ ہوے تھے اور اللّٰه تعالی نے انہیں شان صحابیت سے نوازنا تھا اس دن مشرقین مکہ کے ساتھ بدر کی جنگ میں دکھائے ہی نہ گۓ۔اور مسلمان یہ جنگ جیت گۓ۔جنگ احد میں بھی جب مسلمان درہ چھوڑنے کی غلطی کر چکے تھے۔پھر مسمانوں نے اپنی شکست کو فتح میں بدلتے دیکھا۔پھر جنگ خندق میں حضورﷺ نے ایک سخت چٹان پر ضرب لگاتے بڑی بڑی سلطنتوں میں اپنی کامیاب رسالت کی چمک دیکھی ۔اور اسے کھلے طور پر بیان فرمایا۔اس پر مشرقین جس پراے پر مہاجرین پر آواز کستے تھے ان کے لکھنے سے قلم لرزتا تھا۔
پھر آپ پ کے اس غلبے کی خبر آپﷺ کو پارہ23صورتۀ لصف آیت 9، میں بھی دی گئ۔
یہ صحیح ہے کے پندرہ سو مسلمان جو مکہ سے باعزم عمرہ احرام باندھ کر نکلے تھے اور اس سال عمرہ نہ کر سکے تھے ۔یہ بظاہر مسلمانوں کی ایک مہم میں ناکامی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پندرہ سو صحابہ میں مہاجرین تقریباً چوتھائی تھے لیکن کیا مسلمانوں نے بغیر عمرہ کی کسی ایک مدنی کی پیشانی پر بل پڑا ہوا دیکھا۔فتح مکہ سے پہلے اللّٰه تعالیٰ نے مسلمانوں کو ,دو ایک اپنی آسمانی نصرت کے جلوے بھی دکھاے ایک اگلے سال صحابہ کا کعبہ میں داخل ہونا اور دوسرا جنگ خیبر جس میں اللّٰه تعالیٰ نے آپﷺ کو کھلے آسمانی جلوے سے نوازا۔ اور یہود مدینہ سے نکلنے میں ہی مجبور پائے گئے۔
اس وقت قیصر و کسریٰ کی دو بڑی سلطنتیں تھیں کسریٰ کا پایہ تخت ایران تھا اور قیصر کا شام حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے دور خلافت میں یہ دونوں ختم ہوئیں۔ کسریٰ کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوا نہ قیصر کے بعد شام میں کوئی اس کا جانشین ہوا۔ ساتویں صدی کے محدث امام نووی رحمۃ اللّٰہ لکھتے ہیں:
و اما قيصر فأنهزم من الشام و دخل اقاصى بلاده فافتتح المسلمون بلاد هما و استقرت للمسلمين واللّٰه الحمد انفق المسلمون كنوز هما في سبيل اللّٰه كما اخبر صلى الله عليه وسلم وهذه معجزات ظاهرة ( شرح صحیح مسلم جلد 2، صفحہ 396)
ترجمہ:
رہا قیصر تو اس نے شام میں شکست کھائی اور اپنے دور کی کسی دور کی سرحد میں جا بسا اور مسلمانوں نے ان دونوں (کسریٰ اور قیصر ) کے خزانے اللّٰه کی راہ میں خرچ کیے جیسا کہ اس کی حضورﷺ نے پہلے سے خبر دی تھی تو یہ حضورﷺ کی آسمانی نصرت آپ کے معجزات میں ہے۔
وهذا الحديث فيه معجزات ظاهرة وقد وقعت كلها بحمد اللّٰه كما أخبر به صلى اللّٰه علیه وسلم
( شرح مسلم جلد 2، صفحہ 496)
پھر یہی نہیں۔ فتح مکہ کے بعد مسلمان حنین کی جنگ میں بری طرح گھر گئے تھے۔ پھر ان میں کون تھا جس کا عالی حوصلہ اس وقت بارہ ہزار مسلمانوں کو آسمانی نصرت کی بشارت دے رہا تھا ؟ یہ وہی تھا جو اس سے بہت پہلے مکہ میں مشرکین کی تینوں تجویزوں کو ناکام کر کے مکہ سے نکلنے میں پوری طرح کامیاب رہا تھا۔
مشرکین مکہ کی آپ پر قابو پانے کی تعین تجویزات
وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ
(پارہ9، الانفال: 30)
ترجمہ:
اور جب فریب کرتے تھے کافر کہ تجھ کو قید میں ڈال دیں یا مار ڈالیں یا مکہ سے جلا وطن کر دیں اور وہ داؤ کر رہے تھے اور اللّٰه اپنا داؤ کر رہا تھا اور اللّٰه کا داؤ سب سے بہتر ہے۔ آپ ایک مکان میں تھے کہ مشرکین نے ایک رات اس مکان کو پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا۔ اس رات حضرت علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ آپﷺ کے بستر میں فروکش تھے۔ اس لیے کہ وہ آپ کی بجائے شہید ہوں لیکن حضورﷺ اس طرح اللّٰه کی حفاظت میں ان کی آنکھوں میں خاک جھونکتے ہوئے اس مکان سے نکلے کہ وہ آپ کو دیکھ نہ پائے ۔ کیا یہ آپﷺ کی رسالت کی آسمانی نصرت نہ تھی ؟ پھر کیا کسی کو بھی پتہ چلا کہ آپﷺ اس وقت حضرت ابوبکر کے گھر چلے گئے ہیں؟ اور ان کی بیٹی حضرت اسماء ہیں آپ کے لیے توشہ دان باندھ رہی ہے اور آئندہ حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کی اس بیٹی کا تعارف اس رات حضورﷺ کے سفر ہجرت سے آفاقی شہرت پالے گا۔ اور انہیں اسماء رضی اللّٰہ عنہا ذات النطاقین کہا جایا کرے گا اور پھر آپﷺ حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کو ساتھ لیے رات کی تاریکی میں مکہ سے نکلنے میں پوری طرح کامیاب ہو گئے۔
پھر ذرا جنگ حنین کا بھی حل دیکھئے:
حضورﷺ کا بارہ ہزار کے اتنے بڑے ہجوم پر اتنا کنٹرول تھا کہ وہ سب آپ کے اشارہ چشم کے منتظر رہے اور جب وقت آتا انہیں اپنی جانیں دینے سے کبھی کوئی دریغ نہ ہوتا تھا اب جب یہ بارہ ہزار مقام حنین میں جمع تھے اور یہیں بنو ثقیف اور بنو ہوازن مسلمانوں پر حملہ کرنے والے تھے تو کچھ مسلمانوں کو اس دن اپنی بڑی تعداد سے دھوکہ ہو گیا کہ اب انہیں کسی طرح شکست نہ ہو سکے گی اللّٰه تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس گمان سے نکالنے کے لیے قرآن کریم میں یوم حنین کا اس طرح نقشہ کھینچا ہے:
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ الْجَبَتُكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَيْتُمْ مُدْبِرِينَ ثُمَّ انْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَانْزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَفِرِينَ
( پارہ10، التوبہ 26)
ترجمہ:
اور بیشک اللّٰه مدد کر چکا ہے تمہاری بہت میدانوں میں اور حنین کے دن جب تمہیں تمہاری اپنی کثرت بہت اچھی لگ رہی تھی پھر وہ کچھ کام نہ آئی تمہارے۔ اور تنگ ہو گئی تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے پھر ہٹ گئے تم پیٹھ دے کر پھر اتاری اللّٰه نے اپنی طرف سے تسکین اپنے رسولﷺ پر اور ایمان والوں پر اور اتاری فوجیں کہ جن کو تم نے نہیں دیکھا اور عذاب دیا کافروں کو اور یہی سزا ہے منکروں کی۔
پچھلی آیت کے ربط سے شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللّٰہ نے جنگ حنین کا اس طرح نقشہ کھینچا ہے:
حضورﷺ پر یہ غیر معمولی نصرت آسمانی کتنے وقت میں اتری؟ اور مکہ سے رات کی تنہائی میں نکلنے والا ایک یتیم کتنے وقت میں یہ عظیم انقلاب لے آیا؟ ہجرت پر ابھی پانچ سال بھی نہ گزرے تھے کہ آپﷺ تین جنگوں کے فاتح ہو کر چھٹے سال پندرہ سولہ سو مسلمانوں کے کہنے پر عمرہ کا احرام باندھے عازم مکہ ہوئے اور رستے میں کوئی طاقت انہیں مکہ کے قریب پہنچنے سے روک نہ سکی پھر مکہ بھی بغیر جنگ لڑے فتح ہو گیا اور جنگ خیبر میں بھی آپﷺ کی آسمانی نصرت اس شان سے جلوہ گر ہوئی کہ یہودیوں کو وہاں سے نہایت بے آبرو ہو کر نکلنا پڑا یہاں تک کہ آپﷺ کی رسالت خود ایک آسمانی نشان بن گئی۔
قارئین کرام! قرآن کریم میں خود اس آیت کو سورہ المائدہ 67 سے دیکھیں اس سے اوپر بھی تورات اور انجیل کا ذکر ہے اور اس کے بعد بھی انہیں کا ذکر ہے۔ سو یہ ضمانت آپ کو انہی سے بچانے کے لیے تھی۔ مسلمانوں کے کسی گروہ سے بچانے کے لیے نہیں نہ اس کا حدیث ولایت سے کوئی تحقیق ہے کہ آپ کے بعد آپ کا جانشین کون ہو؟
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت حدی
عرب کی زمیں جس نے ساری بلند دی
مسلمانوں کی ان تمام مہمات اور عظیم لشکروں میں سب سے زیادہ با ہمت اور حوصلہ مند کون نظر آتا رہا ہے؟ وہی شخصیت کریمہ جس کو اللّٰه تعالیٰ نے مدتوں پہلے والله يَعْصِمُكَ مِنَ الناس کی ضمانت دے رکھی تھی کہ کافروں کے کے ناپاک ہاتھ کبھی آپ تک نہ پہنچ پائیں گے۔ ان سے ڈرنے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حضورﷺ کے مخالفین میں مشرکین مکہ مجوس ایران اور منکرین آخرت سب چھوٹی طاقتیں تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ طاقتور اہل کتاب تھے۔ حضورﷺ کو ان سے بچائے رکھنے کے لیے آپﷺ کو قرآن پاک کی سورہ المائدہ آیت 27 میں يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلْعُ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَلَنَهُ يَعْصِبْتَ من الناس تک آپﷺ کو کامیاب پیغام رسانی کی بشارت دے دی گئی تھی ۔ ما انزل الیست میں پوری تئیس 23 سالہ وحی کا پہنچانا مراد ہے اس کا غدیر خم سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ۔ اس پس منظر میں ہم حالات کا کچھ اس طرح تجزیہ کرتے ہیں:
فتح مکہ میں حضورﷺ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ داخل ہوئے تھے انہیں اس طرح دیکھ کر مکہ والوں سے اور دو ہزار ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ان کو طلقاء کہا جاتا ہے۔ اب یہ بارہ ہزار کا لشکر جرار تھا اور مکہ بغیر کسی جنگ کے فتح ہو گیا تھا اس میں مکہ کی بھی عزت و آبرو رہی اور ان بارہ ہزار مسلمانوں کے بھی ۔ کہ یہ حضور ﷺ کی آسمانی نصرت کا ایک روشن جلوہ نہ تھا کہ ایک یتیم رات کی تنہائی میں مکہ سے نکلنے والا کس طرح آٹھ سال کے قلیل عرصہ میں مکہ اور مدینہ کا تاجدار ہو گیا۔
اس عظیم آسمانی غلبے کے باوجود مکہ کے مہاجرین اپنے گھروں میں نہیں جا بیٹھے وہ حضورﷺ کا ہی لشکر تھا اور وہ آپﷺ کے ہی حکم کے منتظر کے منتظر تھے آپﷺ نے ان سب کو طائف کی طرف نکلنے کا اشارہ کیا۔
فتح مکہ قریش مکہ کی ہی شکست سمجھی گئی اور اب پورا عرب اٹھا ثقیف اور ہوازن کے تیر انداز پورے عرب میں تیر اندازی میں نام رکھتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کو للکارا ۔ حافظ ابن کثیر اپنے تفسیر یر میں لکھتے ہیں:
ایک روایت میں ہے کہ جب بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے اپنے ملنے والے یہودیوں سے کہا کہ یہی تمہاری درگت ہو اس سے پہلے ہی تم اس دین برحق کو قبول کر لو تو انہوں نے جواب دیا: چند قریشیوں پر جو لڑائی کے فنون میں بے بہرہ ہیں۔ فتح مندی حاصل کر کے کہیں تم مغرور نہ ہو جانا ہم سے اگر پالا پڑا تو ہم تمہیں معلوم کرا دیں گے کہ لڑائی کسے کہتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر اردو پارہ چھٹا صفحہ 111)
یہی ثقیف اور ہوازن نے جو فتح مکہ کا بدلہ لینے کے لیے پورے عرب کو مسلمانوں کے خلاف ابھار کر میدان میں لے آئے تھے۔ حضورﷺ نے اس حکمت سے اپنے ساتھ کے دس ہزار مسلمانوں کو جو اب بارہ ہزار ہو گئے تھے واپس اپنے گھروں میں جانے کا نہ کہا تھا۔ یہ سیاست آپ نے کسی جنگجو قوم سے نہ سیکھی تھی یہ سب تدبیریں اور راہیں آپ کو اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے سمجھا دی جاتیں اور انہی سے آپ کا آسمانی غلبہ قائم ہوا اور یہ اس آسمانی غلبے کا حصہ تھا کہ آپ کے سیاسی جانشین اس ایک عالمی غلبہ میں دنیا کے مشارق و مغارب تک پہنچے۔
رسالت محمدی کی تئیس 23سالہ کامیاب تبلیغ
حجۃ الوداع میں تاریخی اظہار اسلام
آنحضرتﷺ نے اپنی مدنی زندگی میں ایک ہی حج کیا اور ایک حج ہی بشرط استطاعت امت پر فرض بتلایا تاکہ امت پر کسی سنت حج کی مشقت نہ آئے۔ مسلمانوں پر ایک سال پہلے سے حج کے دروازے کھل چکے تھے لیکن آپ نے اس حج کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کو مسلمانوں کا امیر بنایا اور خود اگلے سال حجتہ الوداع پر تشریف لائے اور اپنی 23 سالہ ذمہ داری پوری کرنے کا اپنی امت سے اس طرح اقرار لیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اسدن خطبہ دیا:
الا ان الله حرم علیکم دمائكم وأموالكم كحرمة يومكم هذا فى بلدكم هذا في شهركم هذا الاهل بلغت؟ قالوا نعم قال اللهم۲۳ اشهد اللهم اشهد (ثلثاً) ويلكم او ويحكم. انظروا لا ترجعوا بعدى كفاراً يضرب بعضكم رقاب بعض (صحیح بخاری جلد 2، ص632)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں فان دمائكم واموالكم واعراضكم عليكم حرام بھی مروی ہے۔ دیکھئے کتاب الحج باب الخطبة ايام المنی جلد 1، ص234)
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے اس دن خطبہ دیا اور فرمایا: اچھی طرح سن لو کہ تمہارے خون اور تمہارے اموال اسی طرح تمہارے لیے لائق احترام ہیں جیسا کہ یہ عرفات کا دن تمہارے اس شہر میں اور اس مہینہ میں لائق حرمت ہے۔ کیا میں نے یہ بات ( تم تک ) پہنچا دی؟ سب نے اقرار کیا ہاں آپ نے (اللہ کی طرف دھیان کر کے ) فرمایا اے اللّٰہ تو اس پر گواہ رہ۔ ایسا تین دفعہ ہوا پھر آپ نے کہا افسوس تم پر ۔ یا ہائے تم پر ۔ دھیان رکھنا میرے بعد پھر کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں توڑنے لگو۔
حضرت ابوبکرہ کی روایت میں امام بخاری رحمتہ اللّٰہ لکھتے ہیں کہ آپﷺ نے دماء کم جمة القد واموالکم کے ساتھ واعراضکم کے الفاظ بھی کہے اور یہ بھی فرمایا تھا:
وستلقون ربكم فسيألكم عن اعمالكم الا فلا ترجعوا بعدى ضلالاً يضرب بعضكم رقاب بعض الا ليبلغ الشاهد الغائب فلعل بعض من يبلغه ان يكون اوعى له من بعض من سمعه ..... ثم قال هل بلغت هل بلغت(صحیح بخاری جلد 2 ص 833)
ترجمہ:
تم اپنے رب سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کا پوچھے گا۔ دھیان رکھنا میرے بعد میرا رستہ نہ بھول جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں توڑنے لگو۔ دھیان کرو جو یہاں موجود ہیں وہ اس تک یہ بات پہنچائیں جو یہاں نہیں آیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا ہو جس کو یہ حاضر پہنچا رہا ہے اس سے زیادہ جاننے والا اس یقین سے جس نے اسے سنا۔
اور آخر میں آپ نے دو دفعہ پوچھا کیا میں نے بات پہنچا دی؟ کیا میں نے بات پہنچا دی۔ صحیح مسلم میں آپ کا یہ بین الاقوامی خطاب اور بھی زیادہ واضح پیرائے میں ملتا ہے آپ نے فرمایا:
(مخطب الناس وقال ان دماء كم واموالكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا فى بلدكم هذا الا كل شئى من امر الجاهلية تحت قدمی موضوع ودماء الجاهلية موضوعة .... وقد تركت فيكم مالن تضلوا بعده ان اعتصمتم به كتاب الله وأنتم تسألون عنى فما انتم قائلون قالوا نشهد انك قد بلغت و ادیت و نصحت فقال بأصبعه السبابة يرفعها الى السماء وينكتها الى الناس اللهم اشهد اللهم اشهد
(ثلث مرات) ( صحیح مسلم جلد 1 ، ص 397)
ترجمہ:
اور آپ نے لوگوں میں خطبہ دیا اور کہا بیشک تمہارے خون تمہارے اموال تم پر اسی طرح لائق احترام ہیں۔ جس طرح یہ آج کا دن (عرفات کا دن ) تمہارے لیے لائق احترام ہے۔ اس ماہ ذواج میں تمہارے اس شہر میں۔ خبردار رہو کہ دور جاہلیت کی ہر چیز میرے ان قدموں کے نیچے دب چکی اور جاہلیت کے تمام خون بھی اپنی جگہ ختم ٹھہر ے۔ اور میں تم میں وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم اگر اسے تھامے رہو تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے وہ کتاب اللّٰہ ہے اور تم سے میرے بارے میں سوال ہو گا سو تم کیا کہو گے؟ حاضرین نے کہا ہم شہادت دیں گے کہ آپ نے اپنی رسالت ہم تک پہنچا دی اسے ادا فرمایا اور ہماری خیر خواہی کی آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا اے اللّٰہ تو گواہ رہ، اے اللّٰہ تو گواہ رہ، آپ نے ایسا تین دفعہ کہا۔ ان بیانات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ آپ یہ اقرار اپنی تئیس سالہ تبلیغ رسالت پر لے رہے ہیں کہ اللّٰہ رب العزت نے جو ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی۔ آپ نے اسے پورا کیا اور اللّٰہ کی یہ امانت مسلمانوں تک پہنچ گئی پھر یہ بات اس پر اور مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ کہ آیت تکمیل دین بھی اسی دن میدان عرفات میں اتر۔
الْيَوْمَ المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دینا
( پارہ 6 ، المائده 3)
ترجمہ:
آج میں نے پورا کر دیا تمہارے لیے دین تمہارا اور پوری کی تم پر میں نے اپنی نعمت اور پسند کیا میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین۔
اب اس پس منظر کی روشنی میں کوئی صاحب علم کہہ سکتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دین اسلام کو محبت الوداع میں نہیں 18 ذوالحجہ کو بمقام غدیر خم مکمل فرمایا تھا؟ ہر گز نہیں! حجتہ الوداع کے بعد آپﷺ 81 دن اپنی دنیوی زندگی میں رہے اور پھر ربیع الاول میں آپ نے سفر آخرت اختیار فرمایا۔ حجتہ الوداع کے بعد آپ پر جو وحی بھی آئی وہ انتظامی اور اخلاقی امورکی ہی رہی اسلام کے اصول و عقائد سب آیت تکمیل دین سے پہلے حضورﷺ کی امت کو مل چکے تھے۔
حجتہ الوداع کے بعد کسی یہودی سے یہ بات سنی گئی کہ اگر آیت تکمیل دین کی طرح کوئی آیت ہم
میں آتی تو ہم اس دن کو اپنی عید کا دن ٹھہراتے حضرت عمر علی رضی اللّٰہ عنہ نے جواباً کہا:
اني لأعلم أى مكان انزلت.... انزلت و رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم واقف بعرفة
( صحیح بخاری جلد 2، ص 634)
حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ نے کہا جب یہ آیت اتری تو ہماری دو عیدیں تھیں ۔ ایک یوم جمعہ اور ایک یوم عرفہ ۔ سو اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ آنحضرتﷺ کا خطبہ حجتہ الوداع آپﷺ کے پورے تیس سالہ دور وحی کی کامیاب تبلیغ کا اظہار تھا صرف ایک دو جزئیات کے ملنے ملانے کی تصدیق نہ تھا دو دو تین تین دفعہ بات دہرا کر اپنی پوری تبلیغ رسالت کا اقرار لیا جا رہا تھا کوئی اصولی اور اعتقادی بات ایسی نہ تھی جو اس دن آیت تکمیل دین سے خارج رہی ہو امور شریعت سب طے پا چکے تھے۔ اس کے بعد آپﷺ نے صرف انتظامی امور سیاسی نصائح اور مکارم اخلاق اور آسمانی بشارات تو بیان فرمائیں لیکن اصول دین اور شرع متین میں کسی بات کا اضافہ نہ فرمایا اثنا عشریوں کا یہ عقیدہ صحیح نہیں کہ تکمیل دین 9 ذوالحجہ کو نہ ہوئی تھی۔ 18 زواحجہ کو ہوئی جب آپﷺ مدینہ کی طرف واپس لوٹے تو رستے میں غدیر خم کے پاس قیام فرمایا اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت کا اعلان فرمایا۔ یہ ہرگز درست نہیں۔
انہوں نے یہ عقیدہ کس لیے بنایا صرف اس لیے کہ 18 ذوالحجہ کے اس ارشاد سے کہ میں جس کا دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے جس کی اس سے محبت نہیں اس کی مجھ سے محبت نہیں اس روایت سے چونکہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت نہ ہوئی تھی اس لیے انہوں نے عقیدہ اختیار کیا کہ دین کی تکمیل 9 ذوالحجہ کو نہیں 18 ذوالحجہ کو مقام غدیر خم ہوئی تھی حالانکہ اہل سنت کتابوں کی رو سے یہ مقام غدیر خم کسی آیت نزول نہیں ہوا۔
جب آپ پر آیت تبلیغ دین اتری تو یہ وہ موقع تھا جس میں آپ کے پورے تئیس سالہ دور وحی کے کامیاب ہونے کی خبر دی گئی۔ اور آپ کو اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ اللّٰہ تعالٰی آپ کے مخالفین کے ہر حیلہ و حجت سے پوری طرح آپ کو اپنی پوری حفاظت میں رکھیں گے۔
آپ اس آیت کو پھر سے مطالعہ فرمائیں کیا اسے کسی بھی صورت میں آیت تکمیل دین الیوم اکملت لکم دینکم کے بعد اتری آیت سمجھا جاسکتا ہے؟ اور الیوم ( آج) کے لفظ کی وجہ سے اسے دو بار اتری قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں اللّٰہ تعالیٰ نے آیت تبلیغ رسالت میں آپ پر اس طرح اپنی حجت تمام کی کہ اب آپ کے مخالفین کی کوئی بات آپ کے خلاف نہ چلے گی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے ہر حیلہ و حجت سے بچانے کی ضمانت دے دی ہے:
يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ
(پارہ 6 ، المائده 67)
ترجمہ:
اے رسول پہنچا دے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو تو نے کچھ نہ پہنچایا اس کا (اس کی کوئی وحی نہ پہنچائی) اور اللّٰہ تجھ کو بچائے گا لوگوں سے بیشک اللّٰہ راستہ نہیں دکھاتا قوم کفار کو ۔ اس آیت میں یہ تین صورتیں سامنے رہیں اس آیت پر شیخ الاسلام رحمہ اللّٰہ علیہ نے یہ نفیس حاشیہ لکھا ہے:
آپﷺ کی تمام تر کوششوں اور قربانیوں کا مقصد وحید ہی یہ تھا کہ آپﷺ خدا کے سامنے فرض رسالت کی انجام دہی میں اعلیٰ سے اعلیٰ کامیابی حاصل کریں لہذا یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ کسی ایک پیغام کے پہنچانے میں بھی آپ ذرا سی کوتاہی کریں۔
عموماً یہ تجربہ ہوا ہے کہ فریضہ تبلیغ ادا کرنے میں انسان چند وجوہ سے مقصر رہتا ہے۔
1_ یا تو اسے اپنے فرض کی اہمیت کا کافی احساس اور شغف نہ ہو۔
2_ یا لوگوں کی عام مخالفت سے نقصان شدید پہنچنے یا کم از کم بعض فوائد کے فوت ہونے کا خوف ہو۔
3_ یا مخاطبین کے عام تمر دو طغیان کو دیکھتے ہوئے جیسا کہ پچھلی اور اگلی آیات میں اہل کتاب کی نسبت بتلایا گیا ہے کہ تبلیغ کے مشمر اور منتج ہونے سے مایوسی ہو۔
پہلی وجہ کا جواب يا أيها الرسول سے فما بلغت رسالته تک دوسرى كا والله يعصمك من الناس میں اور تیسری کا ان الله لا يهدى القوم الکافرین دے دیا گیا۔ یعنی تم اپنا فرض ادا کیے جاؤ اللّٰہ تعالیٰ آپ کی جان اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمانے والا ہے وہ تمام روئے زمین کے دشمنوں کو بھی آپ کے مقابلہ پر کامیابی کی راہ نہ دکھلائے گا باقی ہدایت و ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ایسی قوم جس نے کفر و انکار پر ہی کمر باندھ لی ہے اگر راہ راست پر نہ آئی تو تم غم نہ کرو اور نہ مایوس ہو کر اپنے فرض کو چھوڑو ۔ نبی کریمﷺ نے اس ہدایت ربانی اور آئین آسمانی کے موافق امت کو ہر چھوٹی بڑی چیز کی تبلیغ کی۔ نوع انسانی کے عوام و خواص میں جو بات جس طبقہ کے لائق اور جس کی استعداد کے مطابق تھی۔ آپ نے بلا کم و کاست اور بے خوف و خطر پہنچا کر خدا کی حجت بندوں پر تمام کر دی ۔ (ص 158طبع سعودی عرب)
اس کے بعد آپﷺ لکھتے ہیں جس سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ یہ آیت حجتہ الوداع سے پہلے کسی وقت نازل ہوئی تھی۔ حج سے واپسی پر بمقام غدیر خم نہیں۔ غدیر خم میں کوئی آیت نہیں اتری۔ آپ لکھتے ہیں:
وفات سے دو ڈھائی مہینہ پہلے حجتہ الوداع کے موقعہ پر جہاں چالیس ہزار سے زائد خادمان اسلام اور عاشقان تبلیغ کا اجتماع تھا آپ نے علی رؤس الا شہاد اعلان فرما دیا کہ:
اے خدا تو گواہ رہ میں تیری امانت پہنچا چکا
اس آیت تبلیغ (بلغ ما انزل اليك) کے سیاق و سباق میں اہل کتاب کا ہی ذکر ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت بنیادی طور پر مسلمانوں کے تخاطب میں نہیں۔ اہل کتاب کے تخاطب میں ہے اور وہی حضورﷺ کے خلاف سب سے بڑی طاقت تھے۔ اس وقت مشرکین اور مجوسی اور دہریہ کوئی بڑی طاقت نہ رہے تھے۔ اس سلسلہ آیات میں شیعہ کے اس دعویٰ میں کوئی جان نہیں کہ یہ آیت تبلیغ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت قائم کرنے کے لیے تھی۔
ان 23 سالہ مختلف مراحل وحی میں حضورﷺ کا اس طرح ان کے مکر سے نکل جانا اور مدینہ میں آپ کا جس عقیدت اور گرمجوشی سے استقبال کیا گیا وہ عبدالمطلب کے اس یتیم پوتے کی آسمانی نصرت کا ایک ایسا ڈنکا تھا کہ اس کے پیچھے کسی دنیوی سبب اور حیلے کا کوئی تصور تک نہیں کیا جا سکتا پہلے پیغمبروں میں سے کسی کے ساتھ اس حیرت ناک پیرائے میں سچائی کے پھول کھلتے نہیں دیکھے گئے یہ ایک قیامت تک رہنے والی نبوت کی شان تھی جس سے اس دور وحی کا آغاز ہوا۔ یہ سب حالات کو آپ سے پردے میں تھے لیکن اس دوران آپ کبھی کسی پریشانی میں نہیں دیکھے گئے غار میں حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ تو بہت پریشان اور فکر مند تھے لیکن آپ کا دست شفقت اس یقین و الفت سے آپ کو تھپکی دے رہا تھا کہ گویا آپ کے سامنے آپ کی رسالت کا مستقبل ایک کھلی کتاب کی طرح روشن ہے اور آپ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس یقین سے نہیں نکلے کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اپنی رسالت کے ساتھ سب ادیان و نظریات پر غالب کریں گے اور یہ پیشگوئی لیظهره علی الدین کلہ ہر صورت میں آپ پر پوری ہو کر رہے گی۔
یہ وہم نہ کیا جائے کہ حضورﷺ آخر میں اپنے اس موضوع میں ناکام ہو گئے تھے جیسا کہ ایرانی سربراہ خمینی نے گمان کیا ہے کیونکہ اس آیت سے پہلی آیت جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے خود آپکے اس مشن (اظہارِ رسالت) کو کامیاب کرنے کا بڑے زور دار لفظوں میں اعلان کیا ہوا ہے:
يُرِيدُونَ أَنْ تُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الكَفِرُونَ (پارہ 28، الصف 8)
ترجمہ:
( بے انصاف) لوگ چاہتے ہیں کہ بجھا دیں اللّٰہ کی روشنی اپنی افواہوں سے اور اللّٹ کو پوری کرنی ہے اپنی روشنی اور پڑے برا مانیں منکر ۔
اس پر حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں:
یعنی منکر پڑے برا مانا کریں اللّٰہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا۔ مشیت الٰہی کے خلاف کوئی کوشش کرنا ایسا ہے جیسے کوئی احمق نور آفتاب کو منہ سے پھونک مار کر بجھانا چاہے۔ یہی حال محمدﷺ کے مخالفوں کا اور ان کی کوششوں کا ہے۔شاید بافواھھم کے لفظ سے یہاں اس طرف بھی اشارہ کرنا ہو کہ بشارات کے انکار و اخفاء کے لئے جو جھوٹی باتیں بناتے ہیں وہ کامیاب ہونے والی نہیں۔ ہزار کوشش کریں کہ فارقلیط آپ نہیں ہیں لیکن اللہ منوا کر چھوڑے گا کہ اس کا مصداق آپ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا ۔ ( تفسیر عثمانی ص 732 طبع سعودی عرب) اس کا حاصل یہی ہے کہ آپ کی تئیس سالہ کامیاب تبلیغ میں کسی شک کو کوئی راہ نہیں دی سکتی۔ مکہ سے نکلنے سے پہلے آپ کو اپنے پھر مکہ آنے کا اس قدر یقین تھا کہ اللّٰہ کے حضور دعا کرتے آپ کی زبان مبارک سے پھر سے مکہ آنے کے الفاظ پہلے نکلے اور نکلنے کے الفاظ بعد میں صادر ہوئے۔ اس یقین سے دعا کرنے کے الفاظ اللّٰہ رب العزت ہی نے آپ کے منہ میں ڈالے۔
وَقُلْ رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِن لَّدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا
(پارہ 25 بنی اسرائیل 80)
ترجمہ:
اور کہہ اے رب داخل کر مجھے کو سچا داخل کرنا ( کہ ساتھ صدق ہو) اور نکال مجھ کو سپا نکال ( کہ پھر ساتھ صدق ہو ) اور عطا کر دے مجھ کو اپنے پاس سے حکومت کا والی مدد۔
تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ جب آپ مکہ سے نکلے تو بھی صدیق ساتھ تھے اور جب فتح پا کر مکہ آئے تو بھی صدیق ساتھ تھے۔
قرآن کریم کا آخر کا بیان بھی اس بین الاقوامی غلبے کا ضامن رہا:
قرآن کریم کی کل 114 سورتیں ہیں آخری سورت 114 یہ ہے کہ لوگ فوج در فوج دائرہ اسلام میں آئیں تو آپ جان لیں کہ آپ کا سفر آخرت آپہنچا:
لإِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
ترجمہ:
جب پہنچ چکے مد اللّٰہ کی اور فتح اور تو دیکھے لوگوں کو فوج در فوج دین میں داخل ہوتے تو پاکی بول اپنے رب کی اور اس سے استغفار کر بیشک وہ معاف کرنے والا ہے۔
اس میں بھی آپ کو بتلایا گیا کہ آپ کا دین سب ادیان و نظریات پر غالب آنے والا ہے اور لوگ ہر طرف سے فوج در فوج اسلام میں آجائیں گے۔
سورۃ توبہ اور سورۃ الفتح کے بعد یہ اسلام کے بین الاقوامی غلبے کی تیسری بشارت ہے۔ علمی اور فکری غلبہ تو رسالت محمدی کو نزول قرآن کے ساتھ ہی مل گیا تھا اور حقیقی اور عملی غلبہ میں بھی اس دین کو اس وقت مل جائے گا۔ جب حضرت عیسیٰ بن مریم شریعت محمدی کی پیروی اور اس کی عالمی اشاعت کے لیے کھلے طور پر نزول فرمائیں گے۔ جہاد کریں گے اور دجال اکبر قتل ہوگا۔ اس پر اللّٰہ کی اپنی گواہی کافی ہے۔ وکفی بالله شهیداً (پارہ26، الفتح 28)
اس پر ہم حدیث عالمی غلبہ رسالت کا موضوع ختم کرتے ہیں اور اپنے قارئین کو بھی اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ حدیث ولایت کے گذشتہ موضوع میں ہم نے جو اس حدیث کی روایتی حیثیت پر کلام کیا ہے۔
اس پر ایک دفعہ پھر نظر کر لیں۔
ایک ضروری نوٹ:
اہل سنت اور شیعہ میں اب تک جو احادیث عام زیر بحث رہی ہیں۔ ان میں حدیث عالمی غلب رسالت آپ نے کہیں دیکھی نہ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پہلی زیر بحث احادیث میں تو شیعہ علماء کو کسی نہ کسی راہ سے بحث کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ گو انہیں اس کا جواب بھی پورا مل جاتا ہے لیکن عالمی غلبہ رسالت کی حدیث گو شیعہ علماء پر ایک نہایت سنگ گراں ہے گو وہ اس کے انکار پر سر عام آنے کی بھی کبھی ہمت اور جرات نہیں رکھتے۔ ہم اہل سنت حدیث عالمی غلبہ رسالت کو اپنے لیے وہ بقعہ نور سچ کا ظہور اور دل کا سرور سجھتے ہیں کہ اب تک اس کے سہارے پورے عالم اسلام خصوصاً حرمین شریفین میں ہم ہی اسلام کی سب سے بڑی قوت سمجھے جاتے ہیں یہاں تک کہ شیعہ علاء بھی جب کبھی اہل سنت کی بات کرتے ہیں تو انہیں اپنا بڑا بھائی کہہ کر ان کا ذکر کرتے ہیں۔
اس صورت حال میں راقم الحروف نے دوازدہ احادیث کی اس علمی دستاویز میں اس حدیث کو درمیان میں رکھا ہے۔ یہ حدیث اس پورے عہد میں ہار کے درمیانے موتی کی سی ہے جس کی جتنی بھی قدر اور
شہرت کی جائے کم ہے۔ اس عالمی غلبہ رسالت کی تائید میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ کو ایک خواب دکھایا اور ظاہر ہے کہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے اور نیند کی حالت میں ان کا دل جاگتا اور وہ اپنے قریب ہوئی باتوں کو سنتے ہیں ۔ حضورﷺ کا وہ خواب کیا تھا اسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کی روایت سے صحیح بخاری میں دیکھیں ۔ آپﷺ نے فرمایا:
بينما أنا قائم رأيتني أتيت بمفاتيح خزائن الارض فوضعت فى يدى( صحیح بخاری ج 2، ص1080)
ترجمہ
میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو نیند کی حالت میں دیکھا کہ مجھے پوری دنیا کے خزائن کی چابیاں دی گئی ہیں اور میں نے انہیں اپنے دونوں ہاتھوں میں محسوس پایا۔
اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ آپ مالی یکم نیند کی حالت میں بھی اپنے قریب ہونے والی باتوں کو سنتے ہیں اور یہ بات کتنی غلط ہوگی کہ آپ اپنے روضہ انور کے پاس عرض کئے گئے درود و سلام کو نہ سن سکیں۔ یہ حدیث صحیح بخاری کی ہے اور اس میں کوئی راوی مجروح نہیں۔ حضور علی ایام کو یہ عالمی غلیل کر رہے گا اور حضورﷺ کو بتلایا گیا کہ آپ لوگوں کو جوق در جوق اللّٰہ کے دین میں فوجی پیرائے میں (عالمی غلبہ میں ) داخل ہوتا پائیں گے:
وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا
جب آپ یہ صورت حال دیکھ پائیں تو سمجھ لیں کہ آپ کا آخری وقت آن لگا ہے اور اب تسبیح و تحمید میں لگ جائیں۔ اس سے زیادہ آپﷺ کے عالمی غلبہ رسالت کی بشارت اور کیا ہو سکتی ہے۔ اللّٰہ کا فیصلہ ہے کہ اس کے رسول غالب آکر رہتے ہیں:
كتب الله لا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ
ترجمہ:
اللّٰہ لکھ چکا کہ میں غالب ہوں گا اور میرے رسول، بے شک اللّٰہ زور آور ہے زبر دست - (پ 28، المجادله 21)
اس پر ہم عالمی غلبہ رسالت کی بحث ختم کرتے ہیں۔
یتقبل الله منا ومنكم