Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حدیثِ قرطاس تحقیق حدیث قلم دوات

  علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہ

حدیثِ قرطاس

تحقیق حدیث قلم دوات

یہ بات بہت مشہور کی گئی ہےکہ حضورﷺ نے مرضِ وفات میں کاغذ اور قلم دوات مانگے مگر حضرت عمرؓ نے پیش نہ کیے اور طرح طرح کی باتیں بنائیں۔

آئیـــے اس الـــزام کـی کــچـھ تحـــقیق کـــرتے ہیـــــں

سمع ابن عباس یقول یوم الخمیس وما یوم الخمیس ثمّ بکی حتٰی بلّ دمعہ الحصا قلت یا ابن عبّاس وما یوم الخمیس۔۔۔ قال اشتدّ برسول اللّہ صلى اللّہ عليه واله وسلم وجعہُ فقال ایتونی بکتف اکتب لکم کتاباََ لا تضلّو بعدہُ ابداََ فتنازعوا ولا ینبغی عند نبّیِِ تنازعٌ فقالوا ماله اھجر استفھموہ فقال ذرونی الذی انا فیه خیرٌ مما تدعونی الیہ

(صیح بخاری جلد اول صفحہ 449)

ترجمہ: سعید بن جبیرؓ نے عبداللہ بن عباسؓ سے سنا..فرماتے تھے یوم خمیس بڑا ہی مصیبت کا دن تھا۔پھر رونے لگے یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں سے سنگریزے تر ہو گئے تھے. میں نے عرض کی کہ عباسؓ کے بیٹے!یوم خمیس کا حال سنائیے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا خمیس کے دن آنحضورﷺ کی بیماری شدت پکڑ گئی پس فرمایا لے آؤ میرے پاس ایک کاغذ، لکھ دوں میں تمہارے لئے ایک کتاب ،جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے، پس حاضرین میں جھگڑا پیدا ہوگیا۔ اور پیغمبر کے یہاں جھگڑا کرنا مناسب نہیں ہے۔ پھر کہنے لگے آنحضورﷺ کیا کر رہے ہیں؟ کیا اس جہان کو چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں پوچھو تو سہی۔ پھر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھوڑو کہ میں جس خیال میں ہوں وہ اس سے بہت بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلاتے ہو۔

اس روایت میں تنازع کی تفصیل نہیں ہے ایک دوسری روایت میں اس تنازعہ کی تفسیر موجود ہے۔۔

قال عمر رضی اللہ تعالی عنه انّ النّبیّ صلی اللہ علیه وسلم غلبه الوجع وعندکم القراٰنُ فحسبنا کتاب اللّه واختلف اھل البیت واختصمو فمنھم من یّقُول قرّبوا یکتب لکم رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کتاباََ لّنْ تضلّو بعده ومنھم من یّقول ما قال عمر رضی اللہ تعالی عنہ فلمّا اکثروا اللغظ والاختلاف عند النبّیّ صلی اللہ علیہ وسلم قال قوموا عنّی

(بخاری 1095 جلد 1)

حضرت عمرؓ نے کہا کہ نبی کریمﷺ پر درد اور بیماری کا غلبہ ہے اور تمہارے لئے قرآن موجود ہے پس ہمیں خدا کی کتاب کافی ہے اور اہل بیت میں اختلاف پیدا ہوگیا اور آپس میں جھگڑا کرنے لگے، بس ان میں سے بعض کہتے تھے کہ قلم دوات پیش کرو ،لکھ دیں گے تمہارے لئے خدا کے رسول ایسی کتاب جس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے اور ان میں سے بعض وہی بات کہتے تھے جو کہ حضرت عمرﷺ نے کہی تھی پس جب خدا کے نبی کے پاس شور اور اختلاف زیادہ ہوا تو آپﷺ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو۔

اس روایت میں لفظ ھَجَر موجود ہے ہم نے اس کا ترجمہ چھوڑنے کا کیا ہے جو کہ کُتبِ لغت کے عین مطابق ہے۔ اس صورت میں اس لفظ کے قائل جو صاحب بھی قرار دیے جائیں،کسی قسم کے اعتراض کے محل نہیں بن سکتے۔ حالت مرض میں قلم دوات کا طلب کرنا اور کچھ وصیت لکھ دینے کے متعلق ارشاد فرمانا فراق اور جدائی کی اطلاع دیتے ہیں اس واسطے حاضرین نے کہا پوچھو تو کیا آنحضرتﷺ اس جہاں سے روانگی کی تیاری فرما رہے ہیں

جو لوگ ھَجَر کے معنٰی بے ہوشی کے کلام سے کرتے ہیں وہ اگرچہ لغت کے اعتبار سے غلطی نہیں کرتے ( کیوں کہ ارباب  لغت میں یہ معنی بھی تحریر کیے ہیں) مگر خوب ظاہر ہے کہ اس موقع پر وہ معنی مناسب معلوم نہیں ہوتے۔۔ اور جب آنحضورﷺ کے اس ارشاد سے حاضرین میں روانگی کا تصور پیدا ہو گیا تو بعض نے کہا قلم دوات لاؤ  تاکہ آخری وقت میں آنحضورﷺ جو کچھ لکھوانا چاہتے ہیں وہ لکھ لیا جائے اور حضرت عمرؓ نے آنحضورﷺ شدت مرض کا احساس کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تکلیف دہ وقت میں آپ کو تکلیف دینا مناسب نہیں ہے ہمیں خدا کا فیصلہ کافی ہے تو اہل بیت میں سے کچھ لوگ حضرت عمرؓ کی بات کو پسند کرکے کہنے لگے کہ واقعی آنحضورﷺ کو تکلیف نہ دینا چاہیے  اب جو لوگ قلم دوات لانے اور وصیت نامہ لکھوانے کے حق میں تھے وہ کثرت حرص کی وجہ سے اور زیادہ اشتیاق کے سبب سے آنحضرتﷺ  سے بار بار عرض کرنے لگے کہ ارشاد ہو تو ہم قلم دوات لے آئیں اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھوڑدو  کہ میں اب جس خیال میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو ۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ چاہتے تھے کے آنحضورﷺ  ہمیں حکم دیں کہ ہم قلم دوات اور کاغذ لے آئیں اور آنحضورﷺ کا ارادہ تبدیل ہو چکا تھا تھا آپﷺ کو تو حضرت عمرؓ کی رائے پسند آچکی تھی ، اس لیے آپ بار بار فرماتے ہیں کہ مجھے چھوڑ دو میں جس حال میں ہوں وہ اس سے بہت بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو۔۔

ناظرین کرام کو معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے مواقع آنحضورﷺ کی زندگی میں ایسے آئے ہیں جہاں آپ نے حضرت عمرؓ کی رائے کو پسند فرمایا ہے ان واقعات کو (موافقات عمرؓ) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے واقعۂ قرطاس بھی موافقات عمرؓ میں سے ہے مگر افسوس زمانہ حال کے بعض فرقہ پرست محض اس لیے کہ اکابر صحابہؓ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ جانے پائے حضرت عمر فاروقؓ کی اس عظیم منقبت کو ایک مذمت قرار دے رہے ہیں مگر یہ امر پیش نظر رہے کہ اس کا منشا تحقیق نہیں محض فرقہ بندی کے جراثیم کی پرورش ہے علامہ اقبال ؒ مرحوم کیا ہی خوب فرما گئے۔۔

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد۔۔

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔۔

لفظ ھَجَرَ کس نے کہا؟

شارحین حدیث نے اس میں دونوں احتمال ذکر کیے ہیں۔ بعض نے تو ھَجَر کو ہجرت سے تسلیم کر کے وطن چھوڑنے کے معنی مراد لیے ہیں اور بعض علماء ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ھَجَرَ کو ھجر مریض سے مشتق مان کر غیر ارادی کلام کے معنی کیے ہیں۔ مریض شدت مرض میں جب دماغی توازن سے الگ ہو جاتا ہے تو وہ بے محل،  بے موقع اور بے ربط کلام کرنے لگ جاتا ہے۔اس بے ربط کلام اور بے محل کلام کو مریض کی ھَجَرَ کہتے ہیں۔

ان علماء کرام نے ساتھ ساتھ یہ بھی تحریر کیا ہے کہ لفظ ھجر کے اوپر جو ہمزۂ استفہام ہے وہ انکار کے لیے ہے اور اس لفظ ھجر کے بولنے والے وہ بزرگ ہیں جنہوں نے قلم دوات کاغذ لے آنے کو ترجیح دی تھی۔اور ان بزرگوں کے انکار کی وجہ ان لوگوں کی جانب ہے جو آنحضورﷺ کو اس حالت میں تکلیف دینے کے حق میں نہیں تھے جن میں حضرت عمرؓ بن الخطاب کا نامِ نامی سرفہرست ہے۔۔

تشریح اس کی یوں ہوگی  کہ: اے قلم دوات کے لانے سے روکنے والو۔۔ تم قلم دوات کاغذ کیوں نہیں لانے دیتے؟ کیا حضورﷺ مریضوں کی سی بات فرما رہے ہیں ہرگز نہیں اگر آنحضورﷺ کے کلام کو مریض کا وہ کلام قرار دیا جائے جو کہ شدت مرض کی حالت میں سرزد ہو جاتا ہے تو بے شک قابل تعمیل نہ ہو سکے گا مگر واقعہ یوں نہیں ہے آپﷺ کی مبارک زبان تو حقیقت کی ترجمان ہے آپ کی زبان تو وحی الٰہی کی ترجمان ہے اس لیے آپ کا کلام بے محل  بے موقع ہرگز نہیں ہو سکتا پس یہی مناسب ہے کہ قلم دوات پیش کرو تاکہ آنحضورﷺ جو کچھ لکھوانا چاہتے ہیں لکھوا دیں۔۔اب معلوم ہو گیا ہوگا کہ ھجر کہنے والے وہ بزرگ ہیں جو قلم دوات لانے کے حق میں تھے اور قلم دوات نہ لانے والوں کو الزام دے رہے ہیں  کہ جب تم مانتے ہو کے آنحضورﷺ سے ھجر ناممکن ہے تو پھر قلم دوات لانے میں پس و پیش کیوں کرتے ہو۔۔؟

نہایت افسوس کا مقام ہے کہ شیعہ حضرات اس لفظ ھجر کو بلا کسی دلیل کے حضرت عمرؓ کی طرف منسوب کر رہے ہیں، حاشا و کلّا ھجر کی نسبت آنحضورﷺ کی طرف کسی نے  بھی  صحابہؓ میں سے  نہیں کی تھی صرف بات اتنی ہے کہ قلم دوات لانے کے حق میں جو صاحب تھے انہوں نے یہ لفظ بطور استفہام انکاری کہا تھا۔۔

_بر افگن پردہ تا معلوم گردد۔۔_

_کہ یاراں دیگرے رامے پرستند۔۔_

قاعدہ کلّیہ

حدیث کے فہم اور اسکی معانی کی تحقیق کے لیے یہ قاعدہ ہے کہ اس کی تمام روایات کو جمع کر لیا جائے اور مختلف الفاظ میں سے جو لفظ عقل و نقل اور موقع محل کے مطابق ہو اسے اصل قرار دیا جائے اور دوسرے الفاظ کو روایت بالمعنٰی قرار دے کر اس کی طرف پھیرا جائے۔۔

قرطاس کی روایت مذکورہ میں آنحضورﷺ نے اختلاف اصوات کے موقع پر دَعُونِی فرمایا تھا۔

یعنی مجھے چھوڑ دو اسی مضمون کو بعض راویوں نے ذَرُونِی کے فقرے سے ادا کیا اور اسی مضمون کو بعض راویوں نے قُومُو اَعنّی سے تعبیر کیا اسی لئے راقم الحروف نےقُومُو اَعنّی کا ترجمہ  مجھے چھوڑ دو کیا ہے باقی رہی یہ بات کہ قیام معنی میں" ترک" کے بھی آتا ہے؟

سو اس کے لیے شرح حدیث نے لکھا ہے کہ قَامَ عَنِ الاَمرِ اِذَا  تَرَکَه محاورات عرب میں موجود ہے ۔

فضائل قرآن میں ایک حدیث روایت کی گئی ہے  جسے تمام ائمہ حدیث نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے:-

اور نبیﷺ نے فرمایا اقرأ القرآن ما استلفت علیہ قلوبکم فاذا اختلفتم فقومو عنه

ترجمہ:- نبی کریمﷺ نے فرمایا قرآن پڑھا کرو جب تک کہ تمہارے دل اس پر اکٹھے رہیں پھر جبکہ تمہارے دل پراگندہ ہونے لگیں تو چھوڑ دو۔۔

مطلب حدیث مذکور کا یہ ہے کہ جب تمہارے دل قرآن پڑھنے میں خوشی اور اطمینان اور دلجمعی محسوس کریں تو پڑھتے رہو اور جب قرآن پڑھتے پڑھتے دل تنگ ہونے لگے اور خیالات متفرق ہونے لگیں تو ترک کر دو۔۔

اس حدیث میں وہی لفظ ہے جو حدیث قرطاس میں ہے پس کیوں نہ ترجمہ دونوں کا ایک طرح کیا جائے

صاحب صحیح حضرت امام محمد بن اسماعیل البخاری ؒ نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 1095 پر مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کو جمع کیا ہے  اول حدیثِ قرآن کو درج کیا ہے اور پھر ساتھ ہی حدیثِ قرطاس  کو درج فرما دیا ہے آپ کے اس طریقہ کار سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حدیثِ قرطاس کی تفسیر کر رہے ہیں اور آپ کے ادراک شریف میں قومُوعَنّیِ کے وہی معنی ہے جو قُومُو ا عنه کے ہیں

صاحب مجمع البحار نے اپنی کتاب مجمع جلد اول صفحہ 40 پر حدیث قرآن کی یوں تفسیر فرمائی ہے

یعنی اقرأوہ علیٰ نشاط منکم و خواطرکم مجموعۃ فاذا حصلت ملاله وتفرق القلوب فاترکوه فانّه اعظم من ان یقرأ من غیر حضور۔

ترجمہ: مراد حدیث کی یہ ہے کہ قرآن پڑھتے رہو دل کی خوشی سے در آنحالیکہ خیالات ایک جگہ پر جمع ہوں یہ جس وقت دل کی تنگی حاصل ہوجائے اور خیالات پریشان ہونے لگیں تو قرآن کو چھوڑ دو اس لیے وہ حضورِ قلب کے بغیر پڑھنے کے قابل نہیں ہے اور اس سے کہیں زیادہ بلند ہے اور اس کی شان بہت اونچی ہے۔۔

ناظرین کرام امید کرتا ہوں کہ مذکورہ تشریح کو اگر غور سے پڑھیں گے تو حدیث قرطاس کے معنی دریافت کرنے میں کسی قسم کی دقت سے دوچار نہ ہوں گے اور مخالفین عمرؓ کے دلوں میں چونکہ بغض اور کینہ بھرا ہوا ہے اس لئے وہ صحیح معنی بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔

عن ابن عباس رضي الله عنہ قال لمّا حُضر النّبیّ صلی الله عليه وسلم  قال وفی البیت رجال فیھم عمر بن الخطاب قال النّبی صلی اللہ علیہ وسلم ھلُمّ اکتب لکم کتاباََ لن تضلّو بعده قال عمر رضی اللہ تعالی عنہ ان النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم غَلَبَه الْوَجَعُ وَعِنْدَکُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا کِتَابُ اﷲِ فَاخْتَلَفَ أَهلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهمْ مَنْ يَقُولُ قَرِّبُوا يَکْتُبُ لَکُمْ رسول الله صلي الله عليه وسلم کِتَابًا لَن تَضِلُّوا بَعْدَه وَمِنْهمْ مَنْ يَقُولُ ما قال عمر فلمّا اکثرواللغظ والاختلاف عند النّبیّ الی اللہ علیہ وسلم قال قوموا عنی۔۔

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہا آنحضورﷺ کی وفات قریب ہوگی تو فرمایا لے آؤ قلم دوات، تمہارے لئے ایسی چیز لکھ دوں جس کے بعد گمراہ نہ ہو سکو گے، اس  وقت گھر میں بہت مرد تھے جن میں عمر بن خطابؓ بھی تھے حضرت عمرؓ نے کہا کہ حضورﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے پس ہمیں خدا کی کتاب کافی ہے اور اہل بیت نے اختلاف  کیا اور جھگڑنے لگے ان میں سے بعض وہ تھے جو حضرت عمرؓ کی تائید کرتے تھے پس جب کہ نبی کریمﷺ کے نزدیک آواز اور اختلاف زیادہ ہو گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو( صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 1095۔۔)

ناظرین کرام پہلے واضح کردیا گیا ہے کہ چونکہ دوسری روایت میں ایسے کلمات شریفہ درج ہیں جن کے معنی چھوڑنے کے ہیں اس لیے مذکورہ بالا روایت میں قُومُو عَنّی کے معنی بھیِ ان کے مطابق کرنا ضروری ہے اس واسطے اوپر کی  روایت  کے ترجمے میں راقم الحروف نے مجھے چھوڑ دو لکھا ہے اور حقیقت اس کی یہ ہے کہ  حاضرین مجلس نبوت میں دو راہیں ہو چکی تھی کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ قلم دوات پیش کر دینی چاہیے اور کچھ لوگ اس حالت میں آپ کو تکلیف دینا گوارا نہ کرتے تھے اس لئے کہا کہ خدا کی کتاب کافی ہے یہ رائے حضرت عمر بن خطابؓ کی تھی اور چونکہ آنحضورﷺ کو یہ رائے حضرت عمرؓ کی پسند آگئی تھی اس لیے دوبارہ قلم دوات آنے کے بارے میں ارشاد نہ فرمایا۔

کتب احادیث میں آیا ہے کہ آنحضرتﷺ کسی کو بلاتے تو عموما تین دفعہ بلایا کرتے تھے اور کسی کو سلام دیتے تھے تو تین دفعہ سلام دیا کرتے تھے اور وعظ ونصیحت اور خطبوں میں ایک ایک بات کو تین تین دفعہ دہرایا کرتے تھے تاکہ لوگ خوب سمجھ لیں پھر آخر اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے کہ آپ نے قلم دوات کے بارے میں دوسری دفعہ ارشاد نہ فرمایا ظاہر ہے حضرت عمر ابن خطابؓ کی رائے پسند خاطر شریف ہوگئی، اس پسندیدگی کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں ایک اجتہاد اور دوسرا وحی خداوندی۔

پہلا ارشاد قلم دوات لانے کے بارے میں اجتہاد پر مبنی تھا ناظرین مجلس کی دو رائے ملاحظہ فرمائیں تو اجتہاد میں تبدیلی واقع ہوگی اور عمر بن خطابؓ کی رائے کو پسند فرمالیا اور آنحضورﷺ آزاد تھے کسی کے ماتحت نہ تھے اگر آنحضورﷺ ان صحابہؓ کی رائے کو پسند فرما دیتے جو قلم دوات لے آنے پر اصرار کر رہے تھے تو بھی آپﷺ کو اختیار تھا مگر خدا کی قدرت آنحضورﷺ نے قلم دوات لے آنے والے پر اصرار کرنے والوں کی رائے  کو پسند نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو میں اب قلم دوات منگوانے والوں کے حق میں نہیں ہوں.

معلوم ہوگیا کہ قُومُوعنّی کا خطاب ان بزرگوں سے ہے  جو قلم دوات لے آنے کے حق میں تھے یہ خطاب ان لوگوں سے نہیں ہو سکتا جو اس حالت میں  آنحضرت کو تکلیف دینا گوارا نہ کرسکتے تھے۔ نفی کا تکرار تو عادت کے خلاف ہے تکرار تو اثبات میں واقع ہوتا ہے حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ عرض کر دیا کہ ہم اس حالت مرض میں آنحضورﷺ کو تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھتے اور اہل بیت میں سے بعض بزرگوں نے تائید بھی کردی اب یہ  چیز تو تکرار کے قابل ہی نہیں اب تو صرف یہ صورت ہو سکتی ہے کہ حاضرینِ مجلسِ نبوت میں سے کوئی صاحب قلم دوات لانے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں اور حضرت عمرؓ انہیں پکڑ لیتے ہیں، جانے نہیں دیتے کیا کوئی اہل علم ایسا ہے جو ہمیں یہ چیز کسی معتبر کتاب سے دکھلاوے کہ فلاں صاحب قلم دوات لینے کے لیے جا رہے  تھے اور حضرت عمرؓ نے انہیں پکڑلیا اور جانے نہ دیا جہاں تک راقم الحروف کے مطالعے کا تعلق ہے یہ چیز  نہیں ملتی ہاں قلم دوات کے خواہشمندوں کی بات قابل تکرار ضرور ہے کیونکہ آنحضورﷺ خاموش ہیں اور یہ صاحب چاہتے ہیں کہ آنحضورﷺ دوبارہ ارشاد فرمائیں تو ہم قلم دوات حاضر کریں اس واسطے بار بار عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہﷺ کیا ارشاد ہے؟ قلم دوات لائیں آخر آنحضورﷺ نے مہرخاموشی توڑ دی اور فرمایا اس بات کو چھوڑ دو  مجھے قلم دوات کی ضرورت نہیں رہی اس کی وجہ  تبدیلی رائے اور تبدیلی اجتہاد تھی چنانچہ ہمارے علمائے اہلسنت نے تبدیلی اجتہاد کو واضح طور پر اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری جلد 8 صفحہ 109)  (عمدۃالقاری جلد 2 صفحہ 171)