Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حدیث علم علیؓ

  مولانا ثناء اللہ شجاع آبادی

حدیث علم علیؓ

علامہ ابن عساکر نے درج ذیل سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے:

اخبرنا ابوالبركات الانماطى انا ابو طاهر وابو الفضل قالا أنا ابوالقاسم الواعظ (عبدالملک بن بشران) انا محمد بن احمد بن الحسن (ابو علی الصواف ثقه مامون) انا ابو جعفر محمد بن عثمان (بن ابی شیبه) انا علی بن حكيم انا ابو مالک الجنبي عن جويبر عن الضحاك عن ابن عباس.

قسم علم الناس خمسة اجزاء فكان لعلي منها اربعة اجزاء ولسائر الناس جزء وشاركهم علي في الجزء فكان اعلم به منهم(تاریخ ابنِ عساکر: 407/42)

ترجمہ:”لوگوں میں جو  علم تقسیم کیا گیا وہ پانچ اجزاء پر مشتمل تھا اس میں سے چار حصے  حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو دیا گیا اور باقی تمام لوگوں کو ایک حصہ دیا گیا۔ اور اس ایک حصہ میں بھی علیؓ کو بھی شامل رکھا گیا پس علیؓ ان سب سے زیادہ علم والے ہیں

1۔ اس سند میں ابومالک الجنبی ہے اور عمرو بن ہاشم الکوفی ہے حافظ ابن حجر نے اس کو لین قرار دیا ہے۔ ( التقریب رقم 5616)

2- جویبر، یہ ابن سعید ہے جو انتہائی ضعیف“ ہے جیسا کہ تقریب (رقم: 994) میں ہے۔

3- ضحاک ، یہ ابن مزاحم ہے اس نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے سماع نہیں کیا . جیسا کہ ابوزرعہ الرازی وغیرہ نے کہا ہے۔ (المراسیل لابن ابی حاتم ص94)

(اس روایت کے شاہد کے طور پر ابوسعید خدری رضی الله تعالی عنہ سے مرفوعاً ایک روایت پیش کی جاتی ہے)

محمد بن احمد بن علی بن حسین ابن شاذان نے اپنی کتاب "ماته منقبت" میں اس کو روایت کیا ہے۔

حدثنا ابو بکر محمد بن عبدالله بن حمدون قال حدثنی محمد بن احمد بن ابی الثلج قال حدثني جعفر بن محمدی شاكر الصائغ قال حدثنی منصور بن صغر عن مهدی بن میمون عن محمد بن سیرین عن اخيه معبد عن ابی سعید الخدریؓ مرفوعاً.

العلم خمسة أجزاء اعطی علی بن ابی طالب من ذلك اربعة اجزاء واعطى سائر الناس جزاء واحدا. والذي بعثني بالحق بشيرا ونذيرا العلی بجزء الناس اعلم

ترجمہ: علم پانچ اجزاء پرمشتمل ہے ان میں سے علی بن ابی طالب کو چار اجزاء عطا کئے گئے اور باقی سب لوگوں کو ایک جز دیا گیا۔ وہ ذات جس نے مجھے مبعوث کیا حق کے ساتھ بشیرونذیر بناکر کہ علی لوگوں کے جزسے زیادہ اعلم ہے۔

ابن شاذان دجال“ اور ” کذاب شخص ہے   حافظ ذہبی نے اس کو "وضع" سے "متہم" کیا ہے۔ یعنی یہ صاحب حدیثیں گھڑنے والے ہیں۔ اور انہوں نے بلاشبہ یہ حدیث اپنی ذہانت اور محنت سے گھڑی ہے۔ جس کا پورے ذخیرہ حدیث میں کہیں نام ونشان بھی نہیں!