Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حدیث رد الشمس

  مولانا ثناء اللہ شجاع آبادی

حدیث رد الشمس

اس حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت محمدﷺ حضرت علیؓ کی گود میں سر رکھ کر آرام فرما رہے تھے (یا وحی نازل ہو رہی تھی) کہ عصر کی نماز حضرت علیؓ نہ پڑھ سکے۔ آپﷺ  نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ تم نے نماز نہیں پڑھی؟ حضرت علیؓ نے کہا نہیں! سورج غروب ہو چکا تھا تو آنحضرتﷺ  نے پھر سے سورج کو مغرب کی طرف سے واپس لوٹا دیا۔

یہ روایت چند سلسلوں سے مروی ہے۔ ایک روایت کے آخری راوی حضرت حسینؓ بن علیؓ  ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ حضرت علیؓ کی گود میں سر رکھے آرام فرما رہے تھے اور آپﷺ  پر وحی نازل ہو رہی تھی۔ جب وحی ختم ہو گئی تو حضرت محمدﷺ  نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہا تم نے عصر کی نماز پڑھ لی؟ انہوں نے کہا نہیں۔ حضورﷺ نے اللہ سے دعا کی اور سورج لوٹ آیا۔ جب حضرت علیؓ نے نماز پڑھ لی تو  پھر  غروب ہو گئی۔

یہ حدیث مشکل الآثار جلد 2 صفحہ 8 و جلد 4 صفحہ 388 اور شفاء صفحہ 14 وغیرہ میں موجود ہے، امام طحاوی اور قاضی عیاض رحمۃ اللّٰہ اس حدیث کی تصحیح بھی کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ مندرجہ ذیل امور پر غور کریں گے تو آپ کو حقیقت حال سے آگاہی ہو جائے گی۔

1.فتح المغیث صفحہ 12 پر محدثین کرام کا یہ اصول نقل کیا ہے کہ جب حلال و حرام میں وہ کوئی حدیث نقل کرتے ہیں تو حدیث کی سند میں قطعاً نرمی نہیں کیا کرتے اور اگر فضائل (اور معجزات وغیرہ) میں حدیث نقل کرتے ہیں تو سہل نگاری سے کام لیتے ہیں، امام حاکم نے  مستدرک جلد1 صفحہ 49 میں امام فن عبدالرحمن بن مہدی سے بھی اس کے قریب مضمون نقل کیا ہے۔

2. شرح نحبۃ الفکر صفحہ 73 میں ہے کہ جب کوئی مبتدع ایسی حدیث پیش کرے جس سے اس کی بدعت میں تقویت ہوئی ہو تو اس کی وہ روایت قابل احتجاج نہیں ہو سکتی

3۔ شرح مواقف صفحہ 727 اور شرح عقائد صفحہ  101وغیرہ  عقائد کی کتابوں میں یہ  مسئلہ بتصریح تمام لکھا ہوا ہے کہ خبر واحد اگر چہ صحیح  ہو اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہو سکتا۔

مذکورہ اصول سے معلوم ہوا کہ اگر ایسی حدیث کو جو خبر واحد ہو اور اس میں کچھ ضعف بھی ہو، اگر محض فضائل وغیرہ میں پیش کیا جائے تو اس کو قبول کر لیا جائے گا۔ لیکن اگر ایسی حدیث سے عقیدہ  ثابت کیا جاتا ہو جیسا کہ فریق مخالف (شیعہ) کرتا ہے تو اس کا ایک ایک راوی ثقہ ہونا اور اس حدیث کا متواتر و قطعی ہونا ضروری ہے لیکن حدیث مذکور میں دونوں چیزیں مفقود ہیں کہ نہ تو یہ حدیث متواتر اور قطعی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی سند ہے، یہ روایت حضرت اسماء بنت عمیس سے مروی ہے جس کی پہلی سند کے روات یہ ہیں:۔

1۔ ابوامیہ 2. عبداللہ بن موسیٰ العبسی (جو شیعہ تھا) قانون الموضوعات (صفحہ 275و تقریب صفحہ 253 ) 3۔ فضیل بن مرزوق میزان جلد 2 صفحہ 335 اور تہذیب التہذیب جلد 8صفحہ 299 میں ہے کہ امام نسائی امام عثمان بن سعید اور امام حاکم کہتے تھے کہ یہ ضعیف ہے، اور ابن حبان کہتے تھے، منکر الحديث جدا ( کہ کثرت سے منکر حدیثیں پیش کرتا تھا اور ثقہ روات سے روایت کرنے میں خطا کرتا تھا اور عطیہ سے موضوع اور باطل روایات نقل کیا کرتا تھا، اور اس کے ساتھ كان معروفة بالتشيع من غير سبب یعنی بغیر سبب شیعہ مشہور تھا اور قانون الموضوعات صفحہ285 میں ہے کہ امام یحییٰ بھی اس کو ضعیف کہتے تھے، الخ۔ حضرت اسماء کی دوسری سند میں احمد بن صالح  واقع ہے قانون الموضوعات صفحہ 235 میں ہے کہ محدثین نے اس میں طعن کیا ہے اور اس سند کا ایک راوی محمد بن موسیٰ ہے جو شیعہ تھا( تقریب ص 239) اور میزان جلد 3 صفحه 239 اور میزان جلد3صفی 141 اور حضرت اسماء کی تیسری سند میں عمار بن مطر واقع ہے، امام ابوحاتم رازی کہتے ہیں کان یکذب جھوٹ کہا کرتا تھا اور ابن مہدی ؒ فرماتے تھے کہ اس کی تمام حدیثیں باطل ہیں، امام دار قطنی ؒ کہتے ہیں کہ وہ ضعیف تھا۔

حضرات! یہ ہے وہ حدیث جس کی ہر روایت میں کوئی نہ کوئی ضعیف راوی موجود ہے اور شیعہ کا غلو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ڈھکی چھپی بات نہیں، یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل فرماتے تھے لا اصل له، اس حدیث کی کوئی صحیح اصل موجودنہیں ، اور محدث ابن جوزی کہتے تھے کہ یہ حدیث موضوع اور باطل ہے۔ (موضوعات کبیر ملا علی القاری الحنفی صفحہ 48)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنتہ جلد 4 صفحہ 186, 187  میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس کو امام طحاوی اور قاضی عیاض نے  صحیح کہا ہے لیکن محققین جانتے ہیں کہ ان هذا الحديث کذب  موضوع، یہ حديث (خالص) جھوٹ اور موضوع و باطل ہے نیز فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا ایک راوی جو فن حدیث میں نہایت کمزور ہے عبدالرحمن بن شریک ہے اور ایک راوی ابن عقده رافضی ہے، جو صحابہ کرامؓ کی توہین کی احادیث بیان کیا کرتا تھا، حافظ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں ہمارے استاد حافظ مزی ؒ اور امام ذہبی ؒ نے اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے۔ (البدایه و النهایه : 382/6)

حافظ ابن کثیر ؒ نے اس حدیث پر البدایه میں تفصیلی بحث کی ہے اور یہ فرمایا ہے کہ علی بن المدینی، محمد بن عبید، یلعی بن عبیید، ابن زنجویہ، علامہ ابوالحجاج، علامہ ابوالعباس، محمد بن صالح الہاشمی، علامہ جوزجانی ، علامہ محمد بن ناصر البغدادی، اور علامہ ذہبی وغیرہ سب اس کو موضوع، باطل اور فرماتے ہیں، حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ باوجود کثرت وداعی کے صرف ایک عورت اس کونقل کرتی ہے۔ مجهولة لايعرف بها اوروہ بھی مجہول جس کا حال معلوم نہیں ہے تو اس کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے؟

فائدہ:۔ سورج لوٹنے کی حدیث بروایت ابو ہریرہ بھی مروی ہے لیکن اس میں یزید بن عبد الملک نوفلی واقع ہے،امام احمد، ام یحییٰ، امام احمد بن صالح، امام ابوزرعہ، امام ابن عدی، امام بخاری اور امام نسائی وغیرہ تمام اس کو ضعیف اور متروک الحدیث کہتے ہیں۔ (میزان الاعتدال: 382/6)

علاوہ ازیں روایت کرنے والوں میں داؤد بن فراہیج کو شعبہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (الموضوعات:355/1، اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی: 339/1۔ تذکرہ)

اس حدیث کا ایک اہم راوی یحییٰ ابن یزید ہے۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں بہت ہی ضعیف اور کمزور تھا۔ (الموضوعات محمد طاہر پٹنی صفحہ 96، المقاصد الحسنہ للسخاوی صفحہ 226)

محدثین کا ایک اصول یہ ہے کہ اگر کوئی راوی ایسا بیان کرے کہ اگر وہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو ہزاروں افراد اسے نقل کرتے لیکن پھر بھی اسے ایک دو افراد نقل کرتے ہوں خواہ وہ ثقہ ہوں تب بھی وہ روایت موضوع ہوگی۔

 سورج کا ڈوب کر دوبارہ لوٹنے کا حادثہ اگر واقعتاً  رونما ہوا ہوتا تو بلا مبالغہ لاکھوں افراد اسے دیکھتے اور دنیا بھر میں یہ خبر پھیل جاتی مگر حیرت ہے کہ یہ واقعہ صرف اسماء بنت عمیس اور  ابو ہریرہ نقل کررہے ہیں ، کوئی اور فرد نہیں کرتا۔ حضرت اسماءؓ والی روایت کی جتنی بھی  سندات ہیں ۔ سب میں کئی کئی راوی نامعتبر ہیں ۔ پھر ان راویوں میں خود اختلاف ہے کوئی تو کہتا ہے کہ اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت حضرت فاطمہ بنت حسینؓ نے نقل کی اور کوئی کہتا ہے کہ فاطمہ بنت علیؓ نے جبکہ ان دونوں نے اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کونہیں دیکھا اور  بعض راویوں نے اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کے بجائے اسے حضرت حسینؓ کی جانب منسوب کیا ہے۔ لیکن حضرت حسین رضی الله تعالی عنہ تو اس وقت دودھ پیتے بچے تھے  آخر یہ ہزار ہا صحابہؓ کہاں چلے گئے تھے، جو ان میں سے کوئی بھی روایت نہیں کرتا۔

رہی حدیث ابی ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ.. ابن جوزی، اور سیوطی وغیرہ نے دعوی کیا ہے کہ اس کی سند میں داود بن فراہیج کو شعب نے ضعیف قرار دیا ہے۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ موضوع نہیں ۔ لیکن داؤد سے اسے نقل کرنے والا یزید بن عبدالملک ہے اور اس سے اس کا یحییٰ نقل کرتا ہے۔ امام ذہبی یزید بن عبدالملک کے حال میں لکھتے ہیں۔ اسے امام احمد وغیرہ نے ضعیف قرار دیا۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ  کچھ نہیں ہے۔ احمد بن صالح کہتے ہیں اس کی حدیث کچھ نہیں ہوتی ۔ ابوزرعہ کہتے ہیں ضعیف ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں اس کی عام روایات درست نہیں ہوتیں۔ امام بخاری نے امام احمد کا قول نقل کیا ہے کہ اس کی روایات منکر ہوتی ہیں ۔ نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے۔ ذہبی نے اس روایت کو منکر قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا بیٹا یحییٰ بھی واہی ہے۔ گویا ابو ہریرہؓ کی روایت کے تین راوی نا قابل اعتبار ہیں۔ (میزان 433/4)

حضرت ملا علی القاری حنفی نے امام جزری کا قول نقل کیا ہے کہ علماء فرماتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے۔ سورج آج تک کسی کے لئے نہیں لوٹایا گیا۔ صرف یوشع بن نون کے لئے غروب ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ (موضوعاتِ کبیر: ص 152)

امام ابن الجوزی نے اس حدیث  پر تفصیلی بحث کی ہے۔ فرماتے ہیں یہ روایت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بنت عمیس سے مروی ہے اور بلاشک و شبہ موضوع ہے۔ اس کا ایک راوی احمد بن داؤد ہے۔ جو بے کار  محض ہے ۔ دار قطنی کہتے ہیں متروک ہے، کذاب ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں احادیث وضع کیا کرتا تھا۔ اس کا ایک اور راوی عمار بن مطر ہے۔ عقیلی کہتے ہیں یہ منکر روایتیں ثقہ راویوں کی جانب منسوب کرتا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں متروک الحدیث ہے۔ اس کی سند کا ایک اور راوی فضیل بن مرزوق الکوفی ہے۔ اسے یحییٰ نے ضعیف کہا ہے۔ ابن حبان کہتے یہ موضوعات روایت کرتا ۔ اور ثقہ راویوں کی جانب غلط باتیں منسوب کرتا ہے۔ اس کا ایک راوی عبدالرحمان بن شریک ہے۔ ابوحاتم رازی کہتے ہیں اس کی حدیث ردی ہوتی ہے۔

ہمارے نزدیک یہ عبدالرحمن اپنے باپ شریک سے روایت کرتا ہے اور وہ کوفہ کے شیعوں کا رئیس تھا، تمام محدثین نے بھی اسے بھی نا قابل اعتبار قرار دیا ہے۔ ابن جوزی کہتے ہیں اس کا ایک راوی ابن عقدہ ہے۔ وہ رافضی تھا اور صحابہ کی برائیوں میں روایات بیان کرتا تھا میرے نزدیک اس نے یہ روایت وضع کی ہے۔ حمزہ بن یوسف کا بیان ہے کہ ابن عقدہ صحابہ کی برائیاں بیان کرتا، خاص طور پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر رضی الله تعالی عنہ کی اسی لئے میں نے اس کی روایت ترک کر دی ۔ دارقطنی کہتے ہیں یہ بہت برا آدمی تھا۔ ابن عدی کہتے ہیں حدیث کے معاملہ میں دیندار نہ تھا۔ کوفہ کے علماء کو اس نے جھوٹ بولنا سکھایا۔ یہ خود روایات گھڑ گھڑ کر ان کے پاس لے جاتا ۔ اور ان سے کہتا یہ روایات لوگوں سے بیان کرو۔ (الموضوعات: 355/1)

چنانچہ حضرت ملا علی قاری حنفی  لکھتے ہیں کہ امام احمد فرماتے ہیں۔ اس کی کوئی اصل نہیں۔ اور علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں یہ من گھڑت ہے۔ (موضوعات کبیر ص 41) دوسرے مقام لکھتے ہیں یہ جھوٹ ہے کہ حضرت علی رضی الله تعالی عنہ کے لئے سورج لوٹایا گیا۔ (موضوعات کبیر: صفحہ 157)

ابن کثیر لکھتے ہیں کہ آئمہ حدیث مثل امام مالک ،مصنفین صحاح ستہ اور اصحاب مسانید سنن اور حسن احادیث کے جامعین کا اپنی کتابوں میں اسے درج نہ کرنا۔ اس بات کا بڑا ثبوت ہے کہ ان سب کے نزدیک یہ من گھڑت ہے۔ (البدایہ: ص 60)

ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اگرچہ امام طحاوی اور قاضی عیاض نے (شفا میں) اے درج کیا ہے لیکن محققین جانتے ہیں کہ یہ روایت خالص جھوٹ اور موضوع و باطل ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت علیؓ کی نماز قضا ہوئی تو نبیﷺ کی کیوں قضا نہیں ہوئی؟ جب کہ آپ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے زانو پر سر رکھ کر آرام فرما رہے تھے۔

آنحضرتﷺ نے نماز ادا کر کے آرام فرمایا تھا تو سیدنا علیؓ نے آپﷺ کے ہمراہ نماز کیوں ادا نہیں کی؟ .

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہ روایتیں جن کتابوں میں واقع اور مروی ہیں وہ یہ ہیں ۔ ابن منده، ابن شاہین ، طبرانی مردویہ اور امام طحاوی کی مشکل الآثار و غیرہ اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب حجتہ اللہ البالغہ جلد 1صفحہ 360میں اور شاہ عبدالعزیز عجالہ نافعہ صفحہ 7 میں لکھتے ہیں کہ طبرانی اور امام طحاوی کی جملہ تصانیف طبقه ثالث میں داخل ہیں، اور ان کے بارے میں موخر الذکر موصوف لکھتے ہیں کہ:

"واکثرآں احادیث معمول بہ نزد فقها نشده اند بلکہ اجماع برخلاف آنها منعقد گشتہ ،

اور ابن مردویہ اور ابن شاہین وغیرہ کی کتابیں طبقہ رابعہ میں داخل ہیں

    اور شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں کہ

ایں احادیث قابل اعتماد نیستند که در اثبات عقیده یا عملی بآنها تمسک کرده شود (عجالہ نافعہ صفحہ 7)

الغرض یہ روایت جس غرض کے لئے پیش کی جاتی ہے وہ عقیدہ سے متعلق ہے اور یہ روایت خبر واحد ہونے کے ساتھ ان کتابوں میں آتی ہے جن کا حال آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب سے سن لیا اور اس روایت کی کوئی سند شیعہ سے خالی نہیں ۔ نیز ایسی بھی کوئی سند نہیں جس میں سارے راوی ثقہ ہوں تو اس کو ایسے اہم مسئلہ پر پیش کرنا بالکل باطل اور بے بنیاد ہے۔